فرانسیسی خواتین کا المیہ؟

مصنف : یاسمینہ صالحہ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئی 2006

ترجمہ ، حافظ محمد عبداللہ

فرانسیسی خواتین میں گھر بسانے اور گھروں کی طرف لوٹنے کا رحجان بڑھ رہا ہے

            ‘‘ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں !’’ فرانس کی خواتین میں یہ نعرہ دن بدن مقبول ہوتا جا رہا ہے ۔ بادی النظر میں فرانسیسی خواتین کا یہ نعرہ یورپ میں ایک نئے تنازعے کا آغاز محسوس ہوتا ہے ۔ اس لیے بھی کہ گزشتہ صدی کے نصف اول میں فرانس ہی تحریک نسواں کا سب سے بڑا علم بردار تھا اور اب یہ وہی فرانس ہے جہاں عورتوں کے سب سے بڑے مجلے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے : (نرید ان نکون امھات) ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں ۔

            فرانسیسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں وقوع پذیر اور ہر لمحہ بدلتے حوادث کا آپس میں گہرا اور مربوط تعلق دکھائی دیتا ہے ۔ آج کا فرانسیسی معاشرہ انتہائی تناقضات کا شکار ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ حکومت فرانس کی مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے لیے کھلی پالیسی (Open door policy) ہو ۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اس لیے ہے کہ قانونی اور غیر قانونی مہاجرین اچھی ملازمت اور محفوظ مستقبل کے لیے کثرت سے فرانس کا رخ کرتے اور اسے جائے قیام بناتے ہیں ۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق سرزمین فرانس پر تین برس گزار لینے والے ہر فرد کو شہریت دے دی جاتی ہے اور فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے تو اور بھی نرمی ہے ۔ یہاں تک کہ اگر اس کے والدین بے روزگار ہوں تو بچے کو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کا بیش تر رخ فرانس کی جانب ہے اور یوں فرانس رنگا رنگ ثقافتوں اور قومیتوں کا مجموعہ بن چکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فرانس کی اپنی اصل شناخت اور تشخص بالکل ہی معدوم ہو چکا ہے ۔

             فرانسیسی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی مشکلات کا اصل منبع رنگا رنگ ثقافتیں اور دیگر قومیتیں نہیں بلکہ سماجی مشکلات کا اصل سبب اقتصادیات ہے ۔ وہ ادارے اور کارپوریشنیں جن پر فرانس کبھی فخر کیا کرتا تھا ، نج کاری کا شکار ہیں ۔ اسی نج کاری کا شاخسانہ تھا کہ ان اداروں سے ملازمین کی بڑی تعدا د فارغ کی جا چکی ہے ۔ کئی کارپوریشنیں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر چکی ہیں ، جبکہ کئی دوسری ، کارکنوں کی قلت کا شکار ہیں ۔ یورپین کمپنیاں ایک کے دو بنانے کے چکر میں ہیں ۔ انہیں سماجی اثرات کی زیادہ فکر نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کارکنوں کو دگنا کام کرنا پڑ رہا ہے لیکن مادی ضروریات کا بوجھ ہے کہ گھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ یہ حالت خصوصاً اس وقت سے ہے جب سے فرانس نے اپنے سکے فرانکو کو چھوڑ کر یورو کو اپنایا ہے ۔

            فرانسیسی خاندان اپنی تاریخ میں پہلی بار حقیقی افلاس سے دوچار ہے ۔ ملازمت کے پیچھے بھاگتے ہوئے ، دوران ملازمت ، طویل عرصے تک گھروں سے باہر رہنے اور گھنٹوں اوور ٹائم کرنے کے بعد فرانسیسی اپنی نجی زندگی کو تو بھول ہی چکے ہیں ۔ بہت سی وہ چیزیں جو 20 برس قبل فرانسیسیوں کی عادث ثانیہ اور ان کا فخر ہوا کرتی تھیں ، اب طاق نسیاں کی نذر ہو چکی ہیں۔ یہی احساس ہے جو ڈھلتی عمر کی فرانسیسی خواتین میں روز افزوں ہے کہ ڈھلتی عمر اور طویل ملازمتوں نے انہیں اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ہے ۔ اور اب وہ گھریلو زندگی کے بنیادی تقاضے پورے کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔

            فرانس کیا پورے یورپ ہی میں وقت کی قلت کا علاج نہایت مشکل ہے ۔ انسان اگر کا میاب ملازم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی نجی زندگی کو قربان تو کرنا ہی پڑے گا ۔ خواتین کے مذکورہ مجلے کی مدیر ستیفانی تروکرین خواتین میں روز افزوں یاس اور ایک گھر کی مالکہ نہ ہونے کے احساس میں اضافے کے متعلق کہتی ہیں کہ میرے خیال میں فکری وسماجی تبدیلی نے اس تصادم کو جنم دیا ہے ۔ فرانس کی ستر فی صد سے زائد خواتین کی عمر اس وقت 35برس یا اس سے زیادہ ہے اسی لیے اب سوئٹرز لینڈ کی طرح فرانس کا شمار بھی بوڑھی مملکت میں ہونے لگا ہے ۔ واضح ہو کہ سوئٹرز لینڈ کی 66 فیصد سے زائد خواتین 40 برس سے زائد عمر کی ہیں ۔ فرانسیسی خواتین کی اصل مشکل تھکا دینے والی طویل دورانیے کی ملازمت نہیں بلکہ ان کا خاندان ہے ۔ 44 فیصد سے زیادہ کامیاب ملازم خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ کامیابی اولاد اور گھر کو ملازمت کی بھینٹ چڑھا کر حاصل ہوئی ہے ۔ جبکہ 32 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی ملازمت کے لیے اپنا اپنا آپ قربان کرنا پڑا ہے ۔ انہیں شادی کرنے اور گھر بنانے کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا ۔

            فرانسیسی میڈیا آج جسے فکری انقلاب سے تعبیر کر رہا ہے ، ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اسے گھر کی طرف مراجعت (Back to home) قرار دے رہی ہے ۔ دوسری طرف اہم تر بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ گھر کی کشش کا فقدان صرف ملازمت پیشہ خواتین ہی محسوس نہیں کر رہی ہیں بلکہ گھریلو خواتین میں بھی شدت کے ساتھ یہ احساس پایا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ ان کا شوہر اپنی ملازمت کے سلسلے میں دن کا اہم تر حصہ گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے ۔ فرانس کے اہم اخبار‘لیبراسیون’ کی طرف سے قارئین کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا کہ معاشرے کو خاندانی نظام اپنانے کے لیے کس طرح تیار کیا جائے ؟ اس کے جواب میں 31 فیصد خواتین کا کہنا تھا ہم مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتیں ، لہذا گھریلو اخراجات وضروریات کے لیے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ اسی سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے اور فرانس کے محفوظ مستقبل کے لیے ہی فرانس کی نیشنلسٹ پارٹی نے اسے باقاعدہ اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے ۔

            فرانس کی مشہور ماہر معاشیات فلولانس موریانتی سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کی بہ نسبت اب گھر کی طرف لوٹنے والی خواتین کا تناسب کیوں زیادہ ہے ؟ تو ان کا کہنا تھا : کبھی وقت تھا جب فرانس کے بارے میں عموماً کہا جاتا تھا کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔ لیکن افسوس کہ ماضی کی یہ حقیقت اب حقیقت نہیں رہی ۔ اب یہاں لوگ بھوک ، سردی ، غربت اور مناسب گھریلو زندگی نہ ہونے کے سبب مر رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ فرانس اب جنت نہیں رہا ۔ یہاں کا سماج تبدیل ہو چکا ، لہذا سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے ۔ فرانسیسی لوگ اب امریکا اورکینیڈا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس کا تو کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا لیکن اب یہ امر واقعی بن چکا ہے ۔ میرے نزدیک عورت کا زندگی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن آج عورت سوچ رہی ہے کہ وہ اپنی ممتا قربان کر کے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکی ۔ وقت گزرنے پر آج کی بہت سی عورتیں سوچ رہی ہیں کہ ڈھلتی عمر میں اب نہ ان کا کوئی گھر ہی ہے اور نہ بال بچے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جس ملازمت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا ۔ خود اس کا وجود خطرات کی زد میں ہے ۔ فرانس میں خواتین کے سب سے بڑے پرچے ‘وہ’ کی معروف لکھاری مارسلسیا جادون کہتی ہیں کہ اجتماعی سطح پر چھائی ہوئی مایوسی اب انفرادی سطح پر بھی لوگوں کے دل ودماغ میں گھر کر چکی ہے ۔ حالات بھی کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہیں اور ایسے میں تنہائی بھی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے ۔ کسی بھی چیز پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ اول تو بے روزگاری عام ہے اور پھر ملازمت سے برخواستگی کی تلوار ہر وقت سر پر لٹک رہی ہے اور پوری قوم ہی اخلاقی وروحانی اقدار سے عاری فضا میں زندگی گزار رہی ہے ۔ انہی مخدوش حالات نے فرانسیسی خاتون کے دل ودماغ پر اثرات مرتب کیے ہیں ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان میں یہ احساس جڑ پکڑتا جارہا ہے کہ ان کا نہ تو کوئی گھر ہے اور نہ ہی پرسان حال،یعنی اولاد ۔ مصروفیت نے انہیں اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ شادی ہی کر سکتیں ۔ امور خانہ داری کی طرف لوٹنے کی رغبت رکھنے والی خواتین کی عمر دیکھیں تو 35 سے 44 برس کے درمیان ہے ۔ اسی عمر میں خوابوں کا محل منہدم ہوتا ہے اور تنہائی اور عزلت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے ۔ انہی کے بارے میں فرانسیسی میں تنہائی گزیدہ ماؤں کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ انہوں نے زندگی کی کشمکش میں اپنا سب کچھ کھو دیا اور انجام کار اپنے لیے مزید سماجی مشکلات کھڑی کر لیں ۔ فرانس کے مشہور صحافی شارل موورا مذکورہ خواتین کے تجزیے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرانس حقیقی اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ایسے میں اگر امور خانہ داری کی طرف لوٹنے کو پسند کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے ۔ ہمیں فی الفور اور سنجیدہ بنیادوں پر اس نئے رحجان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر یہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل سوئٹرز لینڈ کے بارے میں بھی ایسی ہی تحریریں سامنے آچکی ہیں ، بلکہ یہ تو اب سارے یورپی معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ یورپین عورت عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہے ۔ اس کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی ، اور ملازم پیشہ عورت کا کردار ادا کرنا نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہر چیز میں اعلی معیار کی کارکردگی ہو یا پھر کچھ بھی نہ ہو ۔ خواتین کی نہایت ہی قلیل تعداد ایسی ہوگی جو گھریلو معاملات میں بھی پوری طرح کردار ادا کرے اور اپنی ملازمت کے تقاضوں کو بھی خوب نبھائے ۔

            فرانس میں طلاق کی اونچی شرح اور بن بیاہی ماؤں کی بڑی تعداد واضح کر رہی ہے کہ شاید ہم نے خواتین پر ان کی بساط سے بڑھ کر بوجھ لاد دیا ہے ۔ انجام کار عورت پر واضح ہوتا ہے کہ اس نے حقیقی معنی میں تو گھر بسایا ہی نہیں ، نہ اس کا کوئی شوہر ہے اور نہ کوئی اولاد ۔ میرے نزدیک تو اس ساری مشکل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے ، اور وہ یہ کہ یورپ کو روحانی اقدار کی طرف لوٹنا چاہیے ۔ بالفاظ دیگر ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بحال کرنا ہو گا ۔ میرا خیال ہے کہ بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا وقوت آچکا ہے ۔ (بشکریہ : المجتمع ، دسمبر 2005 )