برائی کو متوازن احتجاج سے روکیں

مصنف : ڈاکٹر خالد ظہیر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2006

            مجھے ایک دفعہ لاہور سے اسلام آباد تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ یہ سفراگرچہ ایک نہایت ہی آرام دہ بس کے ذریعے تھامگر اس میں مجھے اس وقت ایک مسلسل تکلیف کا سامناکرنا پڑا جب بس میں فحش قسم کے گانے اوربے ہودہ قسم کے مکالمے گونجنے لگے ۔ گانوں اور فلموں کا یہ تفریحی اہتمام مسافروں کی تفریح طبع اور تواضع کے لیے کیا گیا تھا ۔

            میزبان خاتون سے میں نے شائستہ انداز میں احتجاج بھی کیا ، مگراس نے بھی میرا یہ احتجاج خاموشی کی نذر کر دیا اگرچہ وہ مسافروں کی شکایات دور کرنے ہی پر مامور تھی۔اس کا ایک جاں گداز نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اگلے 5 گھنٹوں کے لیے اس اذیت میں مبتلا رہنا پڑا ۔ اس شور اور بے ہودہ آوازوں سے بچنے کے لیے میں نے کچھ دوسری کوششیں بھی کیں مگر سب رائیگاں گئیں ۔ چنانچہ جب میں اس کوچ سے اترا تو میں نے دو فیصلے کیے : ایک یہ کہ میں آئندہ اس بس سروس سے کبھی سفر نہیں کروں گا اور دوسرا یہ کہ اپنی اس شکایت کا اظہار اس بس سروس کے افسران بالا کے سامنے ضرور کروں گا ۔

            مجھے اپنے دوسرے فیصلے پر عمل کرنے کا موقع منزل پر پہنچتے ہی مل گیا ۔ اس بس سروس کے مسافر خانے میں ایک شکایات بکس نصب تھا ۔ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا اور نہایت سخت الفاظ میں اپنا احتجاج نوٹ کروایا۔ میں نے ان لوگوں کو آگاہ کیا کہ اگر یونہی ہوتا رہا تو آپ کی بس مجھ جیسے کئی مسافروں سے محرو م ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ وہ دوبارہ اس میں بیٹھنا پسند نہیں کریں گے ۔ یہ سب لکھتے ہوئے مجھے اس بات کا پورا احساس تھا کہ سوائے اس قلبی اطمینان کے جو اس مذہبی ذمہ داری کو ادا کر کے مجھے ہو رہا ہے ، مجھے اس احتجاجی پیغام سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ، اور یہ کہ اس کے ذریعے سے کوئی تبدیلی آنے بھی محال ہے۔

             مجھے ایسا ہی سفر جب دوبارہ درپیش ہوا تو میں اپنے اس فیصلے کو بھول چکا تھا کہ میں آئندہ کبھی اس بس میں نہیں بیٹھوں گا ۔ چنانچہ میں پھر اس میں سوار ہو گیا ۔ سفر شروع ہوا تو مجھے اس خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا کہ بس میں وہ تفریحی سہولت تو موجود ہے مگر اس طرح سے کہ دلچسپی نہ لینے والے مسافروں کو تکلیف نہ ہو ۔ ہر مسافر کو ہیڈ فون مہیا کر دیے گئے تھے تاکہ آواز صرف انہی لوگوں تک پہنچے جو اس کو سننا چاہتے ہیں ۔

            میں یقین سے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ تبدیلی میری تحریری شکایت سے آئی لیکن مجھے یہ اعتماد حاصل ہوا کہ ایک متوازن اور جچا تلا احتجاج مفید ہو سکتا ہے ۔

            تمام کاروبار ی ادارے صرف اسی صورت میں نفع حاصل کر سکتے ہیں جب وہ اپنے صارفین کے اطمینان کو یقینی بنائیں ۔ چنانچہ اگر سنجیدہ مسلمان ، ان اداروں کے منتظمین کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ خلاف اسلام چیزوں کو جاری رکھنے سے وہ بہت سے گاہکوں سے محروم ہو جائیں گے تو وہ ضرور اپنی پالیسی پر از سر نو غور کریں گے خواہ ایسا صرف کاروباری مقاصد کے لیے ہو ۔ لیکن اپنے احتجاج کو موثر بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس احتجاج کا مضمون بہت واضح ہو ۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صرف انہی لوگوں کے لیے ہو ، جو ا س کام کو کرنے اور سنبھالنے کے ذمہ دار ہوں ۔

            ٹھیک ایسے ہی احتجاج کی ضرورت ان کتب فروشوں کے لئے بھی ہے جو فحش تصاویر والے رسائل اور جرائد کی اس بے باکی سے نمائش کرتے ہیں کہ گویا اس بات میں مقابلہ کر رہے ہوں کہ کون فحاشی کو زیادہ پھیلانے میں سب سے آگے ہے ۔ ان جرائد سے حاصل ہونے والی آمدنی ان کی کل آمدنی کا نہایت ہی قلیل حصہ ہوتی ہے جبکہ فحاشی کے بڑھنے کی رفتار میں دیگر عوامل کے علاوہ ان پرچون فروشوں کا بھی بڑا حصہ شامل ہوجاتا ہے ۔ ان دکانوں پر آنے والے مسلمانوں میں، ان لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے ، جو ان چیزوں سے بچنے والے ہوتے ہیں ۔ لیکن وہ بھی اس تحدی آمیز خطرہ سے بے نیاز اور نچنت دکھائی دیتے ہیں ۔ برائی کوبڑھنے سے روکنا (نہی عن المنکر) مسلمانوں کے دینی فرائض میں شامل ہے ۔ اس لیے آئیے ہم سب مل کر برائی کو روکنے کی سنجیدہ کوشش کریں اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ہماری یہ کوششیں رنگ لائیں ۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو کم از کم یہ تو ہو گا کہ کل خدا کے حضور ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ۔ اور یہ کہ یہ سعی ہماری طرف سے خدا کے حضور میں ہمارا عذر بن سکے ۔ قرآن ہمیں متقی لوگوں کے ایک گروہ کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ گناہ نہ کریں۔ جب ان کی کوششوں کو بظاہر ناکام سمجھنے والے ان کی حوصلہ شکنی کرتے تو وہ اپنے اس عمل کا اس طرح سے دفاع کرتے :

            ہم ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ کے سامنے ہماری طرف سے عذر بن سکے اور کیا خبر شاید ہماری کوشش رنگ لائے اور یہ لوگ عذاب سے بھی بچ سکیں۔(164:7)