اشکوں کے موتی

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2006

            صبحدم ،میں ابھی اپنی کرسی پر بیٹھا ہی تھا،کہ کلینک کے سامنے والے بڑے دروازے سے ایک بڑھیا کو اندر آتے دیکھا۔ایک باریش نوجوان نے بوڑھی اماں کو سہارا دیا ہوا تھا۔وہ آ ہستہ آ ہستہ چلتے میرے قریب رکھے مریضوں والے سٹول پر آ کر بیٹھ گئی۔اس کا سانس پھولا ہوا تھااورجسم کمزوری کی آ خری حدوں کو چھو رہا تھا۔اُس کے کپڑوں سے میں نے اندازہ قائم کیا کہ بیچاری غربت کی ماری ہے۔اسکی عمر قریباً ۶۰ سال ہوگی۔ہاتھوں میں رعشہ اور چہرے پرجھریاں نمایاں تھیں۔ اُس کے ساتھ آ نے والا نوجوان،شاید بوڑھی اماں کا بیٹا ہوگاصحت مند،اچھا صاف ستھرا لباس پہنے، اپر مڈل کلاس کاایک فرد لگ رہا تھا۔یہ باتیں سوچتے ہوئے میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کی، ‘‘ جی اماں جی ! فرمائیے،کیا مسئلہ ہے آ پ کو؟’’ہر دیہاتی مریض کی طرح، اماں نے بھی اپنا بازو میری طرف بڑھاتے ہوئے،نحیف آواز میں کہا،بیٹا ،یہ لیجیے،آپ خود بوجھ لیں کہ مجھے کیا بیماری ہے؟’’شروع شروع میں تو مجھے مریضوں کے اس طرزِ عمل پر، کہ نبض سے ہماری بیماری بوجھیں،بڑا غصہ آ تا تھا بعض لوگ توباقاعدہ اصرار کرتے تھے ،کہ ڈاکٹر صاحب،نبض دیکھیں اور خود ہی بیماری بوجھیں۔جب کہ ہماری تعلیم و تربیت جس نہج پر ہوتی ہے اس میں یہ conceptہے ہی نہیں کہ مریض کی ہسٹری لیے بغیر،محض نبض سے تشخیص کی جائے۔بہر حال آ ہستہ آہستہ مریضوں کی تربیت کرنے سے یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے ۔لیکن پھر بھی کبھی کبھار اس طرح کے مریضوں سے واسطہ پڑ جاتا ہے۔لیکن اب نہ تو کوئی پریشانی ہوتی ہے اور نہ کوئی الجھن۔اب تو عادت سی ہو گئی ہے اور اس قسم کے مریضوں سے نبٹنا بھی آ گیا ہے۔

            اماں بختاور کا میرے کلینک پر یہ پہلا دن تھا۔بختاور بی بی کو اس وقت تیز بخار اور چھاتی میںinfection کی علامات تھیں۔جس کے باعث وہ سارے جسم میں عمو ماً اور سینے میں خصوصاًشدید درد کی شکایت کر رہی تھی۔کھانسی کے دورے پڑتے تھے اور سبز رنگ کا بلغم بھی خارج ہوتا تھا۔تھوڑی سی گفتگو،ضروری سوال و جواب اور ابتدائی طبی معائنے سے ،اس کی مرض کی تشخیص کر لی تھی۔بیماری کے علاوہ ،اس نشست میں جو دیگر معلومات حاصل کیں ،اُن کے مطابق،وہ شہر کے ایک قریبی دیہات سے تعلق رکھتی تھی۔ایک ہی اس کا بیٹا تھا،جو اس دن اس کے ساتھ تھا۔بیٹا شادی شدہ ہے اور خلیج کی کسی ریاست میں محنت مزدوری کرتا ہے اور آج کل چھٹی آ یا ہواتھا۔اُس کے بیٹے کے بارے میں ،اس مختصر وقت میں جو اندازہ میں نے قائم کیا،وہ یہ تھا کہ یہ نوجوان اپنی ماں کے لیے ادب و احترام کے جذبات سے عاری ہے۔بیمار بوڑھی ماں کو ،وہ جس لہجے میں وہ پکار رہا تھا ،اس میں کرختگی پائی جاتی تھی۔میں بڑے غور سے اس کو دیکھ رہا تھا ، جس طرح اس نے ماں کو معائنہ ٹیبل پر لٹایا ،جس طرح اسے وہاں سے اُ ٹھایا،اُس کی ہائے ہا ئے پر ،اس لڑکے نے جس طرح اماں کو جھڑکا،وغیرہ وغیرہ،یہ سب مجھے اجنبی اجنبی سا لگ رہا تھا۔میں سوچ رہا تھا کہ اس نوجوان کا اپنی ماں کے ساتھ یہ کیسا طرز عمل ہے!

            مائی بختاور اور اس کا بیٹا دوائی لے کر چلے گئے لیکن مجھے سوچوں میں چھوڑ گئے۔کافی دیر تک کئی سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہے۔

            ہفتہ دس دن کے مسلسل علاج سے مائی بختاور بالکل ٹھیک ہو گئی۔لیکن اُس نے میرے پاس آ نا ترک نہ کیا۔ہفتے عشرے میں ایک آ دھ بار وہ ضرور کلینک پر آ جاتی۔کبھی کسی ہمسائی کے ساتھ اور کبھی کسی دوسری رشتہ دار خاتون کے ساتھ۔کبھی اپنے لیے اور کبھی کسی اور کے لیے دوائی لینے کے لیے۔اس طرح اس کے حالات کی خبر ہوتی رہتی۔بعض اوقات تو وہ میرے میرے لیے دیہی سوغاتیں بھی لے آ تی ،جیسے ،دیسی گھی،دیسی انڈے،ساگ پات، کبھی چاول اور گنے وغیرہ۔غرض وہ میری خالہ بن گئی تھی۔

            خالہ بختاور کا تعلق اگرچہ ایک زمین دار گھرانے سے تھا،لیکن معاشی طور پر غربت اور تنگ حالی میں زندگی گزر رہی تھی۔پچھلے تین چار سالوں سے ان کا بیٹا کویت گیا ہوا تھا ،وہی جو پہلے دن ساتھ تھالیکن خالہ بختاور کے لیے کوئی خوشحالی نہ لا سکا۔کبھی نیا کپڑا اس کے تن پر میں نے نہیں دیکھا۔جوتے ہمیشہ تھرڈ کلاس ہوتے۔لیکن وہ عورت دل کی بڑی تونگر تھی۔ایک دن صبح صبح وہ آ ئی اور ایک پوٹلی سی مجھے پکڑائی،اور کہا ،‘‘ ڈاکٹر صاحب ! کل جب آ پ مجھے دوائی دے کر چلے گئے تو یہ پوٹلی مجھے آپ کے کلینک کی انتظار گاہ سے ملی تھی۔آپ چونکہ نہیں تھے ، اس لیے آ پ کے عملے کے سپرد نہ کی اور اب آ پ کو دینے آ ئی ہوں۔’’میں نے اُسے کھو لا ،تو اس میں کم و بیش ۱۰ تولے زیور تھا۔ظاہر ہے کو ئی اور مریضہ بھول گئی ہوگی۔ابھی ہم غور وفکر کر ہی رہے تھے کہ زیور کی مالکہ بھی ،اپنے گھر والوں کو ساتھ لیے آ پہنچی۔اُس کا رنگ اڑا ہوا اور چہرہ اترا ہوا تھا۔اور جب اس کی امانت ، صحیح سلامت اس کے حوالے کی تو اس کی جان میں جان آ ئی۔میں نے بتایا کہ تمھاری یہ امانت اس غریب سی بڑھیا نے واپس کی ہے تو پورا خاندان خالہ بختاور کے صدقے واری جانے لگا۔خاتون کے خاوند نے مائی کو انعام دینا چاہا، لیکن دل کی غنی ،خالہ بختاور نے ان کا انعام کمال بے نیازی سے ٹھکرا دیا۔

            خالہ کا اکلوتا بیٹا ،جس کا نام ماجد تھا،کویت واپس چلا گیا۔وہ میرے پاس آ تی رہی۔اکثر اوقات وہ غمگین اور پریشان پریشان سی ہوتی تھی اور اس کی یہ پریشانی مختلف علامات کی شکل میں ظاہر ہوتی۔میں اس کا معالج تھا،بڑی کرید کرتا لیکن وہ اپنے اندرونی کرب کو چھپانے میں کامیاب تھی۔مجھے یہ یقین تھا کہ خالہ اپنے بیٹے اور بہو کی طرف سے دکھی ہے ۔وہ میرے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کرتی ، نہ کرتی تو بہو بیٹے کی بات نہ کرتی ۔ اس پہلو سے ،اس نے ،جیسے لب ہی سی لیے ہوں لیکن اڑوس پڑوس کی باتوں سے مجھے کچھ نہ کچھ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ کن صبر آ زما اور مشکل حالات سے گزررہی ہے۔

            ایک دن ، ایسا ہوا کہ،دوسال کا ایک بچہ میرے کلینک پر لا یا گیا۔اس وقت خا لہ بختاور بھی کلینک میں آ ئی ہوئی تھی۔بچے کی حالت نازک تھی۔وہ نیم بے ہوش ساتھا۔اس کی آ نکھیں اندر دھنس گئی تھیں اور جلد خشک اور بے جان سی ہو گئی تھی۔دراصل ،مسلسل الٹیوں اور جلابوں سے ،بچے کے جسم کا پانی نچڑ چکا تھا۔ ہم نے اس بچے کا فوری علاج شروع کر دیا۔بچے کی ماں کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔اماں بختاور ،اس بیچاری کو تسلیاں دے رہی تھی۔اللہ کے فضل و کرم سے دو بوتلوں کے اندر جانے پر بچے نے آ نکھیں کھول دیں۔اُس کی ماں کے چہرے پر،اُس وقت جو اطمینان اور سکون پیدا ہو اوہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ادھر بچے کی ماں نے سکھ کا سانس لیا اور رونا بند کیا ،اُدھر مائی بختاور نے چلا نا شروع کر دیا۔یہ ایک عجیب صورتحال بن گئی تھی۔میرے لیے نیا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔بظاہر وہ بلا وجہ رو رہی تھی ۔ اسے چپ کرانامشکل ہو گیا۔وہ روتی جا رہی تھی اور بار باراپنے بیٹے‘ ماجو’ کا نام لیے جا رہی تھی۔بڑی مشکل سے میں نے اُسے خاموش کرایا اور اس سے یوں رونے کی وجہ پوچھی،تو اُس نے بتایا ،‘‘ڈاکٹر صاحب اس بیمار بچے کو دیکھ کر مجھے ۳۰ سال پہلے کی وہ رات یاد آ گئی تھی جب میرا ماجو بھی یوں ہی بیمار ہو گیا تھا۔اچانک آ دھی رات کے بعد اُسے قے اور دست شروع ہو گئے۔ اس زمانے میں ہمارے قریب کوئی ڈاکٹر ہی نہ تھا۔میں نے ساری رات جاگ کر گزاری۔صبح ہوتے ہوتے،میرا پھول سا بیٹا بالکل کملا گیا۔صبح سرکاری ہسپتال لے گئی اور وہاں جو کچھ بیتی ،وہ الگ سے ایک درد ناک کہانی ہے۔وہ ماجو جس کے لیے میں اتنی تکلیفیں اُٹھائیں،آج وہ بیٹا .............ا س کے بعد خالہ بختاور نے زبان بند کر لی۔اور یکدم ہی اُٹھ کے چل دی۔میں اسے بلاتا رہ گیا،لیکن وہ آگے کی بات سنانے سے پہلو بچا گئی۔

            ‘‘خالہ جی’’ایک دن میں نے اُسے کہا ،‘‘مجھے سمجھ نہیں آ تی،آپ اتنی نیک ،تہجد گزار اور صوم و صلوٰۃکی پابند ہیں۔ا للہ کے دُکھی بندوں کی خدمت بھی کرتی رہتی ہیں۔ پھر آپ تکلیفوں اورمصیبتوں میں کیوں گھری رہتی ہیں ؟وہ کہنے لگی ، ‘‘بیٹایہ سب میرے رب کی آ زمائش ہے۔بُرے دن اُس نے دیئے ہیں،کل اچھے دن بھی تو اسی نے دکھائے تھے۔اگر آج اُس نے مجھ سے نعمتیں چھین لی ہیں ، تو کل اُس نے بے بہا نعمتوں سے بھی تونوازا تھا۔’’یہ کہتے کہتے اُس کے آ نسو نکل آ ئے۔اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ، ‘‘ میرے پیارے رب نے صرف دُکھ ہی نہیں دیئے سکھ بھی تو دیا تھا۔میں تو اس کی کسی ایک نعمت کا بھی ......ہاں ..ہاں ...کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتی۔مجھے دس سا ل تک دنیا کی ہر نعمت میسر تھی،لیکن اولاد کی نعمت نہ تھی۔یہ مجھے معلوم ہے کہ کس طرح میں ۱۰ سال تک تڑپتی رہی تھی۔اس رات کی خوشی کی تو میں ، قیمت ادا ہی نہیں کر سکتی...بالکل نہیں کر سکتی.... جب مجھے ماجو کی پیدائش کی خوش خبری ملی تھی۔اور آ ج اگر وہی بیٹا ،میرے لیے آ زمائش بن گیا ہے تو بھی میرے مالک کی مرضی ، مالک ، مالک ہے اور بند ے بند ے ہیں۔اور ہمیں بند ے ہی بن کر رہنا ہے۔خا لہ جی کے یہ جملے مجھے بہت کچھ سکھا گئے تھے ۔اس دن کے بعد میں نے ان کے حالات کو تو بالکل نہ کریدا البتہ اسطرح کے جملوں اور اسباق کا ہمیشہ منتظر رہتااورواقعہ یہ ہے کہ میں کبھی مایوس بھی نہ ہوتا ۔