ندامت کے دو آنسو

مصنف : مولانا تنظیم عالم قاسمی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2006

            اللہ کا کوئی بندہ ایسا نہیں جس کا دل و دماغ دنیا کی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتاہو، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطان کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب سے ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہو کر گناہ اور قصور کر بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطا وار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہو جاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشادِ باری ہے ‘‘ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین’’ (بقرہ، آیت ۲۲۲) ‘‘بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔’’

            غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعد اپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کا اعتراف کر لیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیسا کہ وہ سوار جس کی سواری کھانے پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھو جائے اور وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے سو جائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے۔’’ (صحیح مسلم)

            ظاہر ہے کہ اگر کوئی سوار تنہا جنگل میں سفر کر رہا ہو اور راستہ بھر کے لیے کھانے ، پینے کا سامان بھی اس جانور پر لدا ہواور پھر وہ سفر کے دوران کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کی نیت سے سو گیا، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری کا جانور اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ غائب ہے تو اسے بہت سخت تکلیف ہو گی، اور پریشانی کی شدت سے دوچار ہو کر موت کی تمنا کرے گا لیکن جب کچھ دیر کے بعد اسے سوار ی اور اس کے ساتھ سامان بھی مل جائے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہے گی ۔ اسی طرح جب جرم و گناہ کے بعد کوئی بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا اور سچے دل سے توبہ کے ذریعہ اللہ کا قرب چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس مایوس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے خطاکار بندہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں گرا ہو۔ (مشکوٰۃ ، ص ۳۳۳)

            اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ندامت کا آنسو شہیدوں کے خون کی مانند اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے مولانا رومی فرماتے ہیں:

قطرۂ اشک ندامت در سجود

ہمسری خون شہادت می نمود

            (ندامت کے آنسو کے وہ قطرے جو سجدہ میں گہنگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر کرتی ہے)

            علامہ آلوسیؒ نے تفسیر روح المعانی میں سورہ ‘‘انا انزلنا’’کے ذیل میں ایک روایت نقل کی ہے، جس سے گنہگاروں کی ندامت اور شرمندگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گنہگاروں کا رونا، آہ کرنا، گڑگڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔

            دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، اللہ کے نزدیک بندوں کی ندامت اور آنسوؤں کے اس قدر اہم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کی بارگاہ عظمت و جلالت اور شان والی ہے وہاں آنسونہیں ہیں، اس لیے وہ ہمارے آنسوؤں کی بہت قدر کرتے ہیں کیوں کہ آنسو تو گنہگار بندوں کے نکلتے ہیں۔فرشتے رونا نہیں جانتے، کیوں کہ ان کے پاس ندامت نہیں ہے، ان کو قرب عبادت حاصل ہے، قرب ِندامت حاصل نہیں، قرب ندامت تو ہم گنہگاروں کو حاصل ہے۔ اس لیے مولانا شاہ محمداحمد فرماتے تھے:

کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے

ہے ملک کو جس کی نہیں خبر، وہ حضور میرا حضور ہے

            شاعری کی دنیا میں غالب کو ہمیشہ یاد رکھاجائے گا۔ مجرم اور گنہگاروں کے بارے میں ان کا ایک مشہور شعر ہے:

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

            مولانا شاہ محمد احمد فرماتے تھے کہ غالب نے امت کو مایوس کر دیا، کیوں کہ جو گنہگار بندے ہیں وہ بقول غالب اس لائق نہیں کہ کعبہ جائیں اور اللہ کے گھر کی زیارت کریں، ایسی مقدس جگہ جاتے ہوئے خطا کاروں اور عاصیوں کو شرم آنی چاہیے کہ ہم گناہوں میں ملوث ہیں کس منہ سے کعبہ جائیں، مولانا فرماتے تھے کہ یہ شعر قرآن و حدیث کے اعتبار سے اصلاح کے قابل ہے اور میں نے اس شعر کی اس طرح اصلاح کی ہے:

میں اسی منہ سے جاؤں گا

شرم کو خاک میں ملاؤں گا

ان کو رو رو کے میں مناؤں گا

اپنی بگڑی کو یوں بناؤں گا

            یعنی گناہ اور قصور تو انسان کی صفت ہے، کیا اس کی وجہ سے اللہ کا دربار چھوڑ دیا جائے اور اللہ کا دربار چھوڑ کر جائے پناہ ہے بھی کہاں ؟

            گناہ پر اصرار یعنی بے فکری اور بے خوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اور اس پر قائم و دائم رہنا بڑی بدبختی اوربہت برے انجام کی نشانی ہے اور ایسا عادی مجرم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں، اس لیے احادیث میں گناہ پر ندامت اور توبہ کی تاکیدکی گئی ہے۔ اگرچہ بظاہر گناہ کا کوئی عمل معلوم نہ ہو پھر بھی توبہ کی عادت بنا لینی چاہیے، اس لیے کہ توبہ عاصیوں اور گنہگاروں کے لیے مغفرت و رحمت کا ذریعہ اور مقربین و معصومین کے لیے درجات قرب و محبوبیت میں بے انتہا ترقی کا وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میں ستر مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق سو مرتبہ توبہ و استغفارفرماتے تھے۔ اس میں صالحین اور نیکوکاروں کے لیے بڑی نصیحت اور عبرت مضمر ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی گناہ ہو گیا ہو اور یاد نہ ہو تو توبہ کے ذریعہ وہ معاف ہوجائے گا اور اگر واقعتا کوئی گناہ نہیں ہوا تو ترقی کا ذریعہ ثابت ہو گا جس کا ہر شخص محتاج ہے۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر مرتبہ توبہ و استغفار کے عمل سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی گناہ پر ایک مرتبہ توبہ کرنے کے بعد پھر سے وہی گناہ ہوجائے تو پھر سے توبہ کر لی جائے، اس میں شرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک گناہ کا بارہا ارتکاب ہو رہا ہے بلکہ متعدد مرتبہ استغفار سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور اس توبہ و استغفار کے نتیجہ میں گناہ کو ترک کرنے کا داعیہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔

جو ناکام ہوتا رہے عمر بھر بھی

بہرحال کوشش تو عاشق نہ چھوڑے

یہ رشتہ محبت کا قائم ہی رکھے

جو سو بار ٹوٹے تو سو بار جوڑے

            یعنی کوشش رہے کہ ایک مرتبہ توبہ کے بعد توبہ نہ ٹوٹے، لیکن اگر بسیار کوشش کے باوجود توبہ ٹوٹ ہی گئی اور وہی گناہ دوبارہ سرزد ہو گیا تو مایوس نہ ہو، پھر توبہ کرکے خدا سے اپنا تعلق جوڑ لو اور ایک دن میں بار بار یہ واقعہ پیش آئے تو ہر بار اللہ کے حضور توبہ کرکے گناہوں سے نجات حاصل کر لو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور شانِ کریمی کی بات ہے کہ ایک گنہگار اور مجرم کے لیے پوری زندگی اللہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع فراہم کیا گیا کہ جب بھی اللہ کا خوف پیدا ہوتوبہ کرکے اللہ کے نزدیک بندوں میں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے گویا گنہگاروں سے توبہ کا یہ سلسلہ موت تک قابل قبول ہے ، لیکن کیا معلوم زندگی کا چراغ کب بجھ جائے، اس لیے گنہگاروں اور خطاکاروں کو توبہ کرنے میں دیر نہ کرنی چاہیے۔

            البتہ یہاں یہ واضح کر دینا مناسب ہے کہ وہ ندامت اور شرمندگی جس سے گناہ معاف ہوتا ہے، سچے دل سے ہونی چاہیے جس کو قرآن مجید میں ‘‘توبۂ نصوح’’سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام نوویؒ لکھتے ہیں کہ:

            اگر گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے، کسی آدمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے تو توبہ کی تین شرطیں ہیں: اول یہ کہ گناہ سے باز آئے، دوسرے یہ کہ سچے دل سے اپنے فعل پر نادم ہو، تیسرے یہ کہ عزم کرے کہ گناہ کی طرف کبھی نہ پلٹیں گے اور اگر گناہ آدمی سے متعلق ہے تو اس کی چار شرطیں ہیں: تین تو وہی جو اوپر بیان کی گئیں اور چوتھی یہ ہے کہ جس کا جرم کیا ہو اس سے معاف کروائے، اگر مال لیا ہو تو اس کو واپس کر دے، اگر تہمت وغیرہ کی کوئی سزا اس پر واجب ہوتی ہے تو اس کو موقع دے یا معاف کرائے، یا غیبت کی ہے تو اس سے معاملہ کرلے، اگر ان شرائط میں سے کوئی فوت ہو گئی ہو تو توبہ صحیح نہیں ہے۔