ویلنٹائن ڈے

مصنف : ریحان احمد یوسفی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2006

 آج ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں تو گویا ہم اس نقطہ نظر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مردو عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عصمت مطلوب نہیں ۔ اپنے نوجوانوں سے ہم پاک دامنی کا مطالبہ نہیں کریں گے ۔

            جنس (Sex) کا داعیہ ایک بنیادی انسانی جبلت (Instinct ) ہے ۔ انسانی زندگی میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جنسی جذبے کے بغیر نسل انسانی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ اس جذبے کے بغیر صرف ایک نسل بعد پوری انسانیت دم توڑ دے گی ۔ یہی جذبہ مرد و عورت کومجبور کرتا ہے کہ وہ باہم اکٹھے ہوں اور خاندان کا ادارہ تشکیل دیں ۔ خاندان نہ ہو تو معصوم بچے اور ناتواں بزرگ زمانے کی سختیوں کو جھیلنے کے لیے تنہا رہ جائیں گے ۔ مردو زن کے اس تعلق کی ایک اور بڑی اہمیت بھی ہے ۔ دوسری تمام نعمتوں کی طرح یہ بھی انسانوں کو خالق کائنات کی ان بے کراں عنایات کا ایک ادنی سا تعارف کراتا ہے جو اس نے جنت کی ابدی زندگی میں ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں

            مگر انسانوں میں جنس کا یہ داعیہ (Motivation ) اپنے ان مقاصد تک محدود نہیں رہتا شیطان انسان کی راہ میں بیٹھتا ہے اور خود اس جذبے کو ایک مقصود بنا دیتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ مغربی معاشروں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ وہاں حیا کا فطری جذبہ بہت محدود اور عفت و عصمت ایک قدر کے طور پر باقی نہیں رہے ۔ میاں بیوی کا محدود اور پاکیزہ تعلق مردو زن کے بے قید شہوانی تعلق میں بدل چکا ہے ۔ اس تعلق میں دو انسان ‘‘ رفع حاجت’’ کے لیے باہم ملاقات کرتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔

            ویلنٹائن ڈے اس آزاد تعلق کو منانے کا دن ہے ۔ اس کی ابتدا کے متعلق یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بت پرست رومی تہذیب سے شروع ہوا یا تثلیث کے فرزندوں کی پیداوار ہے ، مگر اس کا فروغ ایک ایسے معاشرے میں ہوا جہاں حیا کی موت نے ہر Love afair کو Lust afair میں بدل دیا ہے ۔ مغرب کا یہ تحفہ اب کرسمس کے بعد دنیا کاسب سے زیادہ مقبول تہوار بن چکا ہے ۔ ہر گزرتے سال ، میڈیا کے زیر اثر ، ہمارے ملک میں بھی اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے ۔

            ہم مغرب سے آنی والی ہر چیز کے مخالف نہیں ، مگر کسی دوسری قوم کے وہ تہوار ، جن کا تعلق کسی تہذیبی روایت سے ہو ، انہیں قبول کرتے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے ۔ یہ تہوار اس لیے منائے جاتے ہیں تاکہ کچھ عقائد و تصورات انسانی معاشروں کے اندر پیوست ہو جائیں ۔ مسلمان عید الاضحی کے تہوار پر حضرت ابراہیم کی خدا سے آخری درجہ کی وفاداری کی یاد مناتے ہیں ۔ آج ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں تو گویا ہم اس نقطہ نظر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مردو عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عصمت مطلوب نہیں ۔ اپنے نوجوانوں سے ہم پاک دامنی کا مطالبہ نہیں کریں گے ۔

            کوئی ہندو عید الاضحی کے موقع پر گائے ذبح کر کے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونے کا تصور نہیں کر سکتا ، لیکن ہندوؤں کی موجودہ نسل گائے کے تقدس سے بے نیاز ہو کر عید کی خوشیوں میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ ان کی اگلی نسلیں صبح سویرے مسلمانوں کے ساتھ گائے ذبح کرنے لگیں ۔ ٹھیک اسی طرح آج ہم ویلنٹائن ڈے پر خوشیاں منا رہے ہیں اور ہماری اگلی نسلیں حیا و عصمت کے ہر تصور کو ذبح کر کے ویلنٹائن ڈے منائیں گی ۔

            اسے دور کی کوڑی مت خیال کیجیے ۔ ہماری موجودہ نسلیں صبح و شام اپنے گھروں میں مغربی فلمیں دیکھتی ہیں ۔ عریاں اور فحش مناظر ان فلموں کی جان ہوتے ہیں ۔ ان میں ہیرو اور ہیروئن شادی کے بندھن میں بندھے بغیر ان تمام مراحل سے گزر جاتے ہیں جنہیں میاں بیوی کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر جو نسلیں جوان ہونگی وہ ویلنٹائن ڈے کو ایسے نہیں منائیں گی جیسا کہ آج اسے منایا جار ہا ہے ۔ جب وہ نسلیں اس دن کومنائیں گے تو خاندان کا ادارہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اپنے باپ کا نام نہ جاننے والے بچوں سے معاشرہ بھر جائے گا ۔ مائیں حیا کا درس دینے کے بجائے اپنی بچیوں کو مانع حمل طریقوں کی تربیت دیا کریں گی ۔ سنگل پیرنٹ (Single parent ) کی نامانوس اصطلاح کی مصداق خواتین ہر دوسرے گھر میں نظر آئیں گی ۔

            آج سے 14 سو برس قبل مدینہ کے تاج دار نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس کی بنیاد حیا پر رکھی گئی تھی ۔ جس میں زنا ہی نہیں ، اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا ۔ جس میں زنا ایک ایسی گالی تھی جو اگر کسی پاکدامن پر لگا دی جائے تو 80 کوڑے مارے جاتے تھے ۔ جس میں عفت کے بغیر مرد وعورت کا معاشرے میں جینا ممکن نہ تھا اس معاشرے کے بانی نے فیصلہ کر دیا تھا :

             ‘‘ جب تم حیا نہ کرو تو جو تمہارا جی چاہے کرو ’’

تاج دار مدینہ کے امتیوں نے کبھی حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ، مگر اب لگتا ہے امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ اب وہ حیا نہیں کریں گے ، بلکہ جو ان کا جی چاہے گا وہی کریں گے ۔

            ویلنٹائن ڈے کسی دوسرے تہوا رکا نام نہیں ۔ مسلمانوں کے لیے یہ وہ تہوار ہے جب امتی اپنے آقا کو بتاتے ہیں کہ ہم وہ کریں گے جو ہمارا دل چاہے گا ۔

 بشکریہ : ماہنامہ اشراق ، فروری 2005