اپنی تربیت کیسے کریں؟

مصنف : مولانا خرم مراد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2006

اپنی شخصیت کو نشوونما دے کر اس بات کا اہل بنانا کہ وہ اپنا محبوب مقصدحاصل کر لے،اسی کا نام تربیت ہے

تربیت، اللہ کی توفیق اور رہنمائی کے بغیر تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لیکن اللہ کی یہ توفیق اور یہ دست گیری اپنے کرنے ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ یھدی الیہ من اناب (الرعد۱۳:۲۷)وہ اپنی طرف اسی کو چلاتا ہے جو اس کی طرف رخ کرتا ہے۔ والذین اھتدو ازادھم ھدی واتھم تقوھم(محمد۴۷:۱۷)

            اپنی تربیت کیسے کریں؟ یہ ہماری زندگی کا انتہائی اہم سوال ہے۔اتنا اہم کہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اسی سوال پر ہے۔ یہ سوال زندگی بھر درپیش رہتا ہے، کیونکہ تربیت کی جستجو آخردم تک کی جستجو ہے۔ پرانی ناکامیوں سے کسی طرح پیچھا چھوٹنے نہیں پاتا، کہ نئی ناکامیاں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔ارادے کرتے ہیں، عزم کرتے ہیں،مگر پہلا قدم اٹھاتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ عزم و ارادے سے زیادہ کمزور کوئی چیز ہی نہیں۔ پختہ عہد و پیمان باندھتے ہیں، لیکن دو چار قدم چلتے ہی سب ٹوٹ جاتے ہیں۔ لمبے چوڑے منصوبے بناتے ہیں، سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ علم کی کمی نہیں ہوتی ، خوب معلوم ہوتا ہے کہ کیا چیز نیکی ہے اور کیا چیز بدی، لیکن فیصلہ کن وقت آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے، نیکی ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور برائی میں پڑجاتے ہیں۔توبہ استغفارکرتے ہیں، پھر وہی گناہ دوبارہ کرتے ہیں اور بار بارکرتے ہیں۔

            ایسے میں مایوسی کے تاریک سائے ڈیرے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ کوشش اور عمل کی باگ ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے اورپھر دل بے معنی چیزوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔

            دل چاہتا ہے کہ کوئی نسخہ ایسا ہو کہ ارادے اور عزم میں کبھی کمزوری نہ آئے، دنیا کی محبت دل سے نکل جائے،ایک دفعہ توبہ کر لیں تو گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو۔ حالانکہ ایسا نسخہ تو فرشتوں کی فطرت میں ودیعت ہے، پھرانسان کی کیا ضرورت تھی۔یا کوئی ایسا مرد کامل مل جائے جو ہاتھ پکڑے اور بیڑا پار کرادے۔ کسی کی توجہ،کسی کی نظر،کسی کی دعاایسی ہو کہ کوشش اور مجاہدے کے بغیر ہی تربیت ہو جائے۔ لیکن سوچنے والے یہ بات نہیں سوچتے کہ ایسے مرد کامل تو انبیا علیہم السلام بھی نہ تھے۔ پھر جب ان تمام چیزوں میں ناکامی ہوتی ہے(کیونکہ ایسی امیدیں باندھنے کا نتیجہ ناکامی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے)تو ہم اپنی حالت پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں،اس کے عفووکرم سے امید لگا لیتے ہیں ، تربیت کے سارے عزائم اور منصوبے……جو اکثر خواہشات سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتے……اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔پھر کسی اور طرف بھی نکل جاتے ہیں بلکہ الٹے پاؤں واپس بھی پھر جاتے ہیں۔

            ان مسائل اور کیفیات وواردات کی وجوہ مختلف ہوتی ہیں۔ کہیں تربیت اور تعمیر سیرت کے تصورات ومفہوم کے بارے میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ کہیں ان کے بارے میں غلط توقعات اور ناقابل حصول معیارات ہوتے ہیں۔کہیں صحیح طریقوں کا علم نہیں ہوتا۔ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں سے شروع کریں اور کیسے آگے بڑھیں۔کہیں کمزوریوں اور برائیوں کے سر چشموں سے غفلت ہوتی ہے۔ کہیں شدت اور زیادتی ہوتی ہے۔ کہیں گمراہ کن محرکات کا نل کھلا رہتا ہے، اور ہم فرش خشک کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

            اس طرح ہمیں بار بار ایسا لگنے لگتا ہے کہ تربیت سے زیادہ دشوار اور مشکل کوئی دوسرا کام ہے ہی نہیں،بلکہ شاید تربیت کرنا ہمارے بس میں ہی نہیں۔

            اپنی تربیت کیسے کریں؟میں نے اسی انتہائی اہم اور پریشان کن سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ جو کام انتہائی دشوار اور ناممکن سا لگتا ہے ، اس کی یہ حقیقت کھل جائے کہ وہ بڑا آسان کام ہے اور اسے بڑا آسان ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور جو کام ہم محض خواہش اور تمنا سے کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں یہ یقین بھی حاصل ہو جائے کہ وہ کام عملی کوشش کے بغیر ہو نہیں سکتا ۔ ایسی عملی کوشش جو سادا بھی ہے، آسان بھی اور بالکل آپ کے بس اور اختیار میں بھی۔

            تربیت، اپنی زندگی کی باگ ڈور سنبھال کر، خود ہی کرنے سے ہوتی ہے۔ یہ محض کتابیں پڑھنے،درس اور وعظ سننے،کورس اور پروگرام میں شریک ہونے،اور بزرگوں کی صحبتوں میں بیٹھنے سے بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ فطرت کا اصول ہے کہ کوئی دوسرا وہ کام ہرگز نہیں کر سکتاجو آپ کے کرنے کا ہے۔تربیت، اللہ کی توفیق اور رہنمائی کے بغیر تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لیکن اللہ کی یہ توفیق اور یہ دست گیری اپنے کرنے ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ یھدی الیہ من اناب (الرعد۱۳:۲۷)وہ اپنی طرف اسی کو چلاتا ہے جو اس کی طرف رخ کرتا ہے۔ والذین اھتدو ازادھم ھدی واتھم تقوھم(محمد۴۷:۱۷)وہ لوگ جو راہ پر آتے ہیں ، انھیں اللہ اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا کرتا ہے۔

            یہ مضمون بھی آپ کو اپنے کرنے کی ذمہ داری سے فارغ نہیں کرے گا۔ جو کام خود آپ کے کرنے کا ہے ، وہ کوئی مضمون نہیں کر سکتا۔ اس میں کوئی ‘‘کھل جا سم سم’’ کا نسخہ نہیں ، جو پڑھتے ہی تزکیہ و تربیت کے خزانوں کے دروازے آپ کے لیے کھول دے گا۔ اس میں کوئی طلسماتی چھڑی بھی نہیں کہ اس کو ہلاتے ہی آپ کی خود بخود ماہیت قلب ہو جائے گی۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہو گی کہ تربیت و تزکیے کی اور تعمیر سیرت کی صاف، سیدھی اور آسان شاہراہ آ پ کے سامنے کھل جائے۔ وہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں ، جو غلط راہوں پر لے جاتی ہیں ، یا مایوسی میں مبتلا کرتی ہیں۔

(۱)

تربیت کا مفہوم و مقصود

            زندگی کی ساری تگ ودو محبوب مقاصد کے حصول میں کامیابی کے لیے ہوتی ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ مقاصد کیا ہیں۔وہ اعلیٰ بھی ہو سکتے ہیں اور ادنیٰ بھی، مادی بھی ہو سکتے ہیں اور روحانی بھی،انفرادی بھی ہو سکتے ہیں اور اجتماعی بھی،اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔جیسے مقاصد، ویسی تربیت۔

            کامیابی کے لیے ہی قرآن مجید نے مختلف مقامات پر فوز اور فلاح کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

             یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگر کسی چیز کے مقصد ہونے کادعوی ہو تو اس کی کسوٹی نہ زبان سے اعلان ہوتاہے اور نہ قلم سے لکھنا،بلکہ اس کی کسوٹی صرف یہ ہوتی ہے کہ اس مقصد میں کامیابی کے لیے درکار ذرائع اور وسائل جمع کیے گئے ہیں یا نہیں ، اور کامیابی کے حصول کے لیے بھر پور جدو جہد، کوشش اور کاوش کی گئی ہے کہ نہیں۔

            دوسری بات یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ جب مقصد واضح ہو اور واقعی محبوب ہو تو وہ خود ہی اپنے حصول کے لیے راہ نمااور استاد کا کام بھی کرتا ہے،منشاناتِ راہ بھی متعین کرتا ہے ،راہیں بھی کھولتا ہے،طریقے بھی بتاتا ہے اور سمت بھی صحیح رکھتا ہے۔

            وسائل و ذرائع کیا درکار ہیں،اور ان کو نشوونما دے کر کیا بنا نا ہے کہ وہ مفید مطلب بن جائیں،اس کا سارا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقصد کیا ہے ۔ اگر آپ کو سپاہی بننا ہے تو کتاب قلم نہیں،ہتھیار درکار ہوں گے۔ اگر عالم بننا ہے تو کتاب قلم کی ضرورت ہو گی۔

            لیکن ایک چیز جس کی ہر مقصد کے حصول کے لیے ضرورت ہو گی، وہ اپنی شخصیت ہے۔ ‘‘شخصیت’’ کا لفظ ہم وسیع معنوں میں استعمال کر رہے ہیں آپ کا جسم، عقل، معنوی صلاحتیں، دل، جذبات، کردار، اخلاق،غرض ہر چیز شخصیت میں شامل ہے۔ اپنی شخصیت کو نشوونما دے کر اس بات کا اہل بنانا کہ وہ اپنا محبوب مقصدحاصل کر لے،اسی کا نام تربیت ہے۔

            مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے جو کچھ بننا ہمارے لیے ضروری ہے، یا جو کچھ ہم بننا چاہیں ،وہ تربیت کے بغیر نہیں بن سکتے۔یہ تربیت ہم منظم و مرتب کو شش سے بھی کرتے ہیں ، اور بغیر منظم کوشش کے بھی۔ اسی طرح شعوری طور پر بھی اور غیر شعوری طور پر بھی تربیت حاصل ہوتی ہے۔

            ایک تربیت وہ ہے جو ہمارے جسمانی وجود کی تربیت ہے،یعنی ہمارے جسم میں بخشی ہوئی قوتوں اورصلاحیتوں،خصوصاًسوچنے سمجھنے،دیکھنے،سننے اور عمل کرنے کی استعداد کی تربیت۔ اگرچہ اس کا بھی ایک حصہ اور ایک درجہ اپنے ارادے اور کو شش سے حاصل ہوتا ہے، مگر ہم خود کریں یا نہ کریں ،چاہیں یا نہ چاہیں، یہ تربیت بڑی حد تک بہ ظاہر خود بخود ہوتی رہتی ہے ، لیکن صرف بہ ظاہر،کیونکہ در حقیقت یہ ہمارے رب اور مربی کا دست ِقدرت و رحمت ہے، جو ہماری یہ تربیت کرتا ہے ۔ ہماری پیدائش کا عمل شروع ہوتے ہی یہ تربیت شروع ہو جاتی ہے ، اور عمر بھر جاری رہتی ہے۔یہ تربیت نہ ہو تو ہمارا وجود، و جودمیں ہی نہیں آسکتا ، اور آجائے تو ایک بامعنی وجود نہیں بن سکتا۔

            دوسری تربیت وہ ہے، جو ہمارے معنوی وجود کی تربیت ہے۔ ہمارے دل و دماغ کی، ہمارے علم و فکر کی، ہمارے جذبات واحساسات کی، ہمارے اعمال واخلاق کی اور ہمارے کردار اور سیرت کی تربیت ہے۔ اس تربیت کا ایک حصہ ہمیں پیدائشی طور پر ملتا ہے ، ایک حصہ اپنے ماحول سے بھی ملتا ہے، لیکن فی الجملہ یہ تربیت ہمارے ارادے اور کو شش سے، اور خود ہمارے کچھ کرنے سے ہوتی ہے۔ مگر غور کریں تو ہمارے ارادے اور کوشش کی حیثیت صرف شرائط کی ہے ورنہ درحقیقت یہاں بھی ہمارا مربی، ہمارا رب ــــ ہی ہے،جس کی توفیق اور دست گیری کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔

            اس تربیت کے نتیجے میں ہمیں عقلی، علمی، معنوی مہارتیں حاصل ہوتی ہیں،جن سے ہم دنیا کے بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں۔ اسی سے ہمیں نیک سیرت، بلند و پختہ کردار اور پاکیزہ اخلاق کی بیش بہا نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ دنیا میں حقیقی محبوبیت بھی عموما ًانھی کے ذریعے ملتی ہے۔ مگر آخرت میں تو اپنے رب اور مربی کے نزدیک مقبولیت اور محبوبیت اور اس کی قربت اور جنت، صرف اسی تربیت کے ذریعے نصیب ہو سکتی ہے۔ تو پھر یہ تربیت ہمیں محبوب کیوں نہ ہو؟

             دنیا و آخرت کی فلاح کو تزکیہ و تربیت پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ فرمایا: قد افلح من تزکیٰ (الاعلی۸۷:۱۴)بے شک فلاح پا گیا جس نے بہ اہتمام تزکیہ کیا۔ قد افلح من زکھا(الشمس۹۱:۹)بے شک فلاح پا گیا جس نے مسلسل تدریج کے ساتھ اپنی شخصیت کا تزکیہ کیا۔ جنت کے سدا بہار باغ، نہریں اور بلند درجات اسی کے لیے ہیں‘‘جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔’’(طہٰ۲۰:۷۶)

تربیت کا مقصود ، جنت

            پہلے ہی قدم پر یہ فیصلہ کرنا اہم اورضروری ہوتا ہے کہ تربیت کا مقصد کیاہوگا؟ کیونکہ مقصد کے مطابق ہی اسباب و سائل کا تعین ہوتا ہے ۔اگر کسی کا مقصد حصول علم ہے ، تو کامیابی کے لیے وہ درس گاہوں میں جائے گا ، اہل علم سے علم حاصل کرے گا، کتاب و قلم سے رشتہ جوڑے گا۔ اگرکسی کا مقصد جنگ جیتنا ہے، تو وہ کتاب و قلم اور ذکر و نفس کشی چھوڑ کر اسلحہ کا استعمال سیکھے گا اور قوت فراہم کرے گا۔

            ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے محبوب مقصد، موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں جنت اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا ـحاصل کرناہوتا ہے۔رضائے الٰہی جنت سے زیادہ بڑی چیز ہے، ورضوان من اللہ اکبر(توبہ۹:۷۲)لیکن دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ جنت کی آرزو، رضائے الٰہی کی طلب ہی کا تقاضا ہے۔ اللہ راضی ہو گا تو وہ آگ سے بچائے گا اور جنت میں داخل کرکے اپنی رضا پر سرفراز کرے گا۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ‘‘ ہمیں صرف اللہ کی رضا چاہیے، ہمیں جنت سے کوئی سروکار نہیں’’ وہ لوگ رضائے الٰہی کے مفہوم سے واقف نہیں۔ دیکھو ، ایک جگہ کہا گیا ہے کہ ‘‘ وہ لوگ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں۔’’ (البقرہ ۲: ۲۰۷) ،اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ ‘‘ اللہ نے مومنین سے ان کے جان و مال خرید لیے ہیں ، اس عوض میں کہ ان کو جنت ملے گی۔’’(التوبہ۹:۱۱۱)

            اللہ تعالیٰ نے یہ بات کھول کر ، تاکید کے ساتھ بار بار ہمارے سامنے رکھ دی ہے کہ زندگی کا مقصد اخروی کامیابی یعنی جنت کا حصول ہونا چاہیے۔ہمیں یہاں کی یا وہاں کی زندگیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا ہے:

             دنیا کی یہ تمام چمکتی دمکتی چیزیں، چاند سورج کی طرح ڈوبنے والی ہیں۔ ان کو زندگی کا محبوب بنایا تو ان کے ساتھ ساری زندگی کی دوڑ دھوپ اور ساری شخصیت بھی ڈوب جائے گی۔ اس لیے فرمایا:سابقوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا کعرض السماء والارض۔ (الحدید ۵۷:۲۱) دوڑو، اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔

            ایک دوسری جگہ فرمایا : سارعوا(آل عمران ۳:۱۳۳)دوڑ کر چلو جنت کی راہ پر، تم کو زندگی بھر جنت کی طرف ہی دوڑ لگانا ہے……نہ ادھر دیکھنا، نہ ادھر دیکھنا، نہ ٹھیرنا ہے، نہ سستانا…… مطلب یہ ساری تربیت اس دوڑکو جیتنے کے لیے ہی ہونا چاہیے۔ سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ تم جنت میں پہنچ جاؤ:

وانما توفون اجورکم یوم القیمۃ فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز(آل عمران۳:۱۸۵)اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔

            اللہ کریم نے جنت کی نعمتوں کو بیان کیا ہے۔ بعض جگہ تو ایک ایک چیز کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کا لالچ دیا ہے۔ انھی کو حاصل کرنے میں کامیابی کو زندگی بھر کا مقصود و مطلوب بنانے کی ترغیب دی ہے ۔ کہا ہے کہ لمثل ھذا فلیعمل العملون(الصافات۳۷:۶۱)،یقینا یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے کام کرنے والوں کو کام کرنے چاہیے۔اور فرمایا ہے:وفی ذالک فلیتنافس المتنافسون(المطففین۸۳:۲۶)جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں، وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔

یک سوئی کا فیصلہ

            تربیت کی راہ میں پہلا قدم یہی ہے کہ انسان جنت کے بارے میں یکسو ہو جائے، اور فیصلہ کر لے کہ یہی مقصودِ زندگی ہے، اسی کے حصول میں کامیابی مطلوب ہے۔ ساری تربیت کا مقصود یہی کامیابی حاصل کرنے کے لائق بننا ہے۔

            یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بات بہت اہم ہے۔ یہ زندگی بھر کا فیصلہ ہے۔ اسے ایک دفعہ سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ بعد میں بار بار دہرانا بھی ضروری ہے ۔ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ کر کہیں بھی نہیں پہنچا جا سکتا۔انسان ہمیشہ ڈگمگاتااور لڑکھڑاتا رہے گااور ساحل ہاتھ نہ آئے گا۔ بد قسمتی سے آج ہماری تربیت کے اکثر مسائل اس دو غلے پن کی وجہ سے ہیں ۔ انسان ایک دفعہ جست لگا کر جنت کی کشتی میں سوار ہو جائے، ذہنی،قلبی اور نفسیاتی طور پر مکمل یکسوئی کے ساتھ، عملاًپہلا قدم راہ پر رکھ دے، پھر دیکھے کیا کیا نہیں ہو سکتا۔

            تربیت کے آغاز میں اپنی بساط بھر جنت کے لیے پوری پوری کوشش کرنے کی نیت کریں۔ پھر اللہ سے رو کر، گڑ گڑا کر ، دعا کریں۔ اس کے بعد بھی بار بارمانگتے رہیں۔

            یہ فیصلہ ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ اس سے ہی تربیت کے نقوش و خطوط، طریقے اور تدابیر کا تعین ہو گا۔یہ فیصلہ ہی آپ کے لیے کسوٹی کا کام کرے گا۔ کیا بات کریں، کیا نہ کریں، کس طرح کریں، کیا کام کریں، کیا نہ کریں، کیا صفت پید ا کریں، کیا نکالنے کی کوشش کریں وغیرہ۔ یہ فیصلہ اس طرح کرنا چاہیے کہ کیا چیز جنت کے قریب لے جائے گی اور کیا چیز اس سے دور اور جہنم سے قریب۔ کیا چیز اللہ کو خوش کرے گی، اور کیا چیز اسے ناراض۔ یہ فیصلہ آپ کا سب سے بڑا رہنما اور معلم بن جائے گا۔یہ فیصلہ ہی وہ ساری قوت اور جذبہ اور تحریک فراہم کرے گا، جو تربیت کی راہ میں درکار ہو گی۔ سچی بات ہے کہ اگر دل کو لگ جائے کہ کسی منزل پر پہنچنا ہے، کچھ بننا ہے، کچھ حاصل کرنا ہے، تو پھر یہ فیصلہ بھی تربیت کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ یہ آگے بھی بڑ ھائے گا اور سمت بھی درست کرے گا، بغیر اس کے کہ کوئی خارجی ذریعہ یہ کام کرے

            فیصلہ کرنے کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ جنت کے علاوہ ہر چیز جو بہ ظاہر مقصود و مطلوب ہے، اور جس کے حصول میں کامیابی محبوب ہے، وہ فی الواقع مقصود حقیقی نہیں۔ تربیت بھی خود مقصد نہیں، نیک سیرت بھی خود مقصد نہیں، حسنِ اخلاق بھی خود مقصد نہیں، دعوت و جہاد بھی خود مقصد نہیں، غلبہ اسلام اور اقامت دین بھی خود مقصد نہیں۔ ہر چیز جنت یعنی اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے،جس حد تک وہ صالح ہو، خالص ہو، اور آخرت میں باقی رہ جائے۔ ورنہ ان میں سے بھی ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔

جامعیت

             جنت کو مقصد بنانا اتنا جامع مقصد ہے کہ ہر نوع کی تربیت اس میں شامل ہوجائے گی۔

            کیا دیانت داری جنت میں نہیں لے جائے گی؟ کیا اپنے فرائض کو دیانت داری اور بہ حسن وکمال انجام دینا جنت میں نہیں لے جائے گا؟کیا اس مقصد کے لیے حاصل کردہ تربیت بھی جنت میں داخل ہونے کے لیے تربیت میں شامل نہ ہو گی؟ کیا زراعت و تجارت کر کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنا جنت سے قریب نہیں کرے گا؟کیا ان کاموں کو دیانت اور حسن وخوبی سے انجام دینے پر جنت نہیں ملے گی؟ پھر ان کے لیے تربیت جنت کے لیے تربیت کے دائرہ سے باہر کیوں ہوگی۔کیا لا یعنی چیزوں کو ترک کر دینا اسلام کا حسن نہیں ؟ کیا وقت کے صحیح استعمال کی تربیت جنت میں جانے کے لیے ضروری نہ ہو گی؟کیا نماز کا وقت پر پڑھنا جنت میں لے جانے میں مدد نہیں کرے گا؟غرض، جس پہلو سے غور کریں، ہر تربیت،جو نا جائز مقاصد کے لیے نہ ہو اور جنت کی نیت سے ہو، جنت کی تربیت ہے۔ یہ مقصد انتہائی جامع مقصد ہے۔

پہلا قدم

            تربیت کی راہ پر پہلا قدم یہی ہے کہ جنت اور صرف جنت کو، اپنی زندگی کا محبوب ومطلوب بنایا جائے۔۔ چلیں تو اس کی طرف،دوڑیں تو اس کی طرف اور یہ سوچا سمجھا فیصلہ ہونا چاہیے، اس پر دل پوری طرح مطمئن ہو۔ اسے بار بار یاد کرتے رہیں اور زبان پر بھی اس کا چرچارہے۔

(۲)

تربیت آسان ہے ، بالکل بس میں ہے

            جنت کی خواہش کرنا تو آسان لگتا ہے، جنت کی طلب بھی دل میں محسوس ہوتی ہے، مگر اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی تربیت کرنا اورزندگی اس طرح بسر کرنا کہ جنت میں داخل ہو سکیں انتہائی دشوار کام لگتا ہے، بلکہ بعض اوقات ناممکن سا لگتا ہے۔

            لیکن جب انسان تربیت کے راستے پر پہلا قدم اٹھالے، اور سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کر لے کہ اللہ کی رضا اور جنت کا حصول ہی زندگی میں سب سے بڑھ کر محبوب ومقصود ہونا چاہیے……تو سب سے پہلی یہی بات جاننا، اور اسی پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ تربیت کا راستہ آسان ہے، اور جنت کا حاصل کرنا بالکل اپنے بس میں ہے۔اور اسے آسان اور بس میں ہی ہونا چاہیے۔

            آسان ہونے اور بس میں ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اپنی تربیت کے لیے محنت نہیں کرنا ہو گی، یا یہ کہ اس راہ میں تکلیفیں پیش نہیں آئیں گی۔ نہیں، ان میں سے ہر چیز پیش آسکتی ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہر ناگوار اور تکلیف دہ چیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمت و قوت، اور ہر مشکل سے نکلنے کے لیے راستہ بھی موجود ہو گا، اور دست گیری کا سامان بھی۔ ہر کام جس کے کرنے کا مطالبہ ہے، وہ انسان کے اختیار اور بس میں ہوتا ہے۔

آسان کیوں ہونا چاہیے: امتحان کا تقاضا

            ہم نے صرف یہ نہیں کہا کہ تربیت کرنا آسان ہے، بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اسے آسان ہی ہونا چاہیے۔ اس بظاہر تعجب خیز بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ آسان ہونا اس مقصد کا ناگزیر تقاضا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمت اور عدل کا بھی ناگزیر تقاضا ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر کس مقصد کے لیے یہ زندگی بخشی ہے؟ اس امتحان کے لیے کہ انسان حسن عمل کی روش اختیار کرتا ہے یا بد عملی کی۔ اطاعت کرتاہے یا سر کشی و طغیانی۔ :الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا(الملک۶۷:۲)جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا، تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے، تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

            جب امتحان ہے، تو پھر اختیار اور آزادی عمل بھی حاصل ہے۔ یہ اختیار دینا ضروری تھا۔ مجبور و مقہور کا امتحان ایک بے معنی کا م ہوتا۔ چاند، سورج، ستارے اور فرشتے، بال برابر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے……کر نہیں سکتے۔ ان کا نہ حساب ہے، نہ ان کے لیے جنت میں داخل ہونے کے انعام کا امکان۔

            کیونکہ جنت کا حصول تربیت پر موقوف ہے، اور جنت ہی مقصود زندگی ہے، اس لیے اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا ہوا کہ جنت کی راہ، تربیت کا راستہ، آسان ہو اور ہر شخص کو دستیاب ہو۔ اس کی ربوبیت ورحمت کے اس قانون کا جلوہ زندگی میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے ۔جسم کی بقا اور تربیت کے لیے ہوا ناگزیر ہے، ہم چند لمحے بھی ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہوا اس طرح عام ہے کہ ہر جگہ موجود اور ہر شخص کو دست یاب ہے، ۔پانی بھی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، لیکن ایک درجہ کم۔ وہ بھی ہر جگہ پہنچایا جاتا ہے،بہ آسانی دستیاب ہوتا ہے ، لیکن ہوا کی طرح عام نہیں ۔ تو جس تربیت پر عارضی نہیں ابدی زندگی کی فلاح کا انحصار ہو، کیا وہ ہوا اور پانی کے مثل، اپنی نوعیت کے لحاظ سے، آسانی سے اور عام طور پر دستیاب نہ ہو گی؟

            امتحان ہر شخص کا مقصود ہے، جنت کی منزل ہر شخص کے سامنے رکھی گئی ہے۔ پھر کیا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عدل کے مطابق ہوتا کہ امتحان میں بھی ڈالتا، دوڑ میں شریک بھی کرتا، سامنے جنت جیسا انعام اور ہدف بھی رکھ دیتا، مگر پھر جنت کی راہ پر دوڑنا اتنا دشوار اور مشکل بنا دیتا کہ ہر شخص کے لیے دوڑنا ممکن نہ ہوتا۔ لوگ ہمت ہار دیتے اور سمجھ لیتے کہ یہ دشوار بلکہ ناممکن کام ہے، اس پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے!

            اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت اور اس کے لیے تربیت کے راستے پر چلانے کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے:ان علینا للھدی وان لنا للاخرۃ والاولی۔(اللیل۹۲:۱۲:۱۳)بے شک راستہ بتانا ہمارے ذمے ہے، اور درحقیقت آخرت اور دنیا، دونوں کے ہم ہی مالک ہیں۔   

رحمت وعدلِ الٰہی کا تقاضا

             اللہ کی رحمت سے یہ بعید تھاکہ وہ ہمیں امتحان میں ڈالتا ، اور اس طرح ڈالتا کہ ہم ناکام ہو جائیں۔ ‘‘کیا ایک ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے’’ ایک عورت نے حضورؐ سے پوچھا۔ آنحضورؐ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا:‘‘نہیں، مگر لوگ اس کے سوا دوسرے خدا بنا لیتے ہیں!’’ خود اللہ تعالی فرماتا ہے کہ:

            مایفعل اللہ بعذابکم ان شکر تم وامنتم وکان اللہ شاکرا علیما۔( النساء۴:۱۴۷)

            آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ سزا دے، اگر انسان شکر گزار بندہ بنا رہے اور ایمان کی روش پر چلتا رہے تو اللہ تو بڑا قدر دان ہے ، اور سب کے حال سے واقف ہے۔

            تربیت کا کام شروع کریں تو اسی یقین کامل اور بھر پور اعتماد کے ساتھ شروع کریں کہ راستہ آسان ہے اوراللہ نے ناکام ہونے کے لیے اس امتحان میں ہرگز نہیں ڈالا ہے، نہ وہ بندوں کو ناکام ہوتا دیکھنا چاہتا ہے، اور نہ ہی عذاب دے کر اسے کچھ ملے گا۔ یہ یقین بھی کہ انسان سے جو مطالبہ ہے ،اس کو پورا کرنے کے سارے اسباب بھی دیے گئے ہیں۔

آسانی کے پہلو: فطرت انسانی سے مطابقت

            آسانی کے پہلو بے شمار ہیں۔ ہم تین پہلوؤں کی طرف توجہ دلائیں گے جن کو یاد رکھنا ضروری ہے۔

            ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے، کہ اس کو نیکی محبوب اور مطلوب ہے۔ انسان کتنا ہی برا اور بدکار ہو، وہ پھر بھی سچائی، ہمدردی، حسنِ اخلاق،عدل،دیانت،امانت اور وفائے عہد جیسی چیزوں کی تعریف کرے گا۔ ہر انسان قتل ، ظلم وزیادتی،بد زبانی، حسد جیسی چیزوں کو ناپسند کرے گا۔

            جب انسان نیکی کرتا ہے تو اس کا دل خوش ہوتا ہے۔ جب برائی کرتا ہے تو دل میں خلش ہوتی ہے ۔اسی فطرت پراللہ نے سارے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔

            چنانچہ نیکی اور حسن عمل کی راہ تو سیدھی اور آسان ہے، مگروہ اس لیے مشکل ہو جاتی ہے کہ ہم خود اپنے کو ٹیڑھا بنا لیتے ہیں۔ ایک گول سوراخ میں اگر ٹیڑھی چیز اندر نہیں جا سکتی تو قصور سوراخ کا نہیں ٹیڑھ پن کا ہے۔ اگر چٹان پر فصل نہیں لہلہاتی تو قصور بارش کا نہیں ہے چٹان کا ہے۔ اگر ہم اپنے قلب و فطرت کو سلیم بنا لیں تو الیسریپر چلنا ہمارے لیے آسان ہو گا۔ اسی لیے قرآن مجید نے بڑے بلیغ اور معنی خیز انداز میں یہ فرمایا فسنیسرہ للیسری(اللیل۹۲:۷)، ہم انسان کو آسان کر دیتے ہیں، الیسری پر چلنے کے لیے ، (لفظی ترجمہ یہی ہے)، یہ نہیں کہ ہم الیسری کو آسان کر دیتے ہیں ، انسان کے لیے’’۔

دوسری آسانی: ساری زندگی تربیت گاہ ہے

            آسانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ساری زندگی اور ساری کائنات کو تربیت گاہ بنا دیا ہے۔ چند تربیتی امور لازم ضرور کیے گئے ہیں، مثلاً نماز،زکوٰۃ، روزہ اور حج ……لیکن دراصل زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ ، ہر حادثہ، دل پر گزرنے والی ہر واردات، ہر کیفیت، ہر نعمت،ہر مصیبت، ہر نیکی ، ہر بدی،آسمان و زمین اور ان کے اندر ہر مخلوق جس سے انسان کو سابقہ پیش آئے، اس کے لیے مربی بنا دی گئی ہے، بشرطیکہ وہ اس مربی کو پہچانتا ہو اور اس سے تربیت حاصل کرنے کے لیے آمادہ اور مستعد ہو۔

            جو لوگ ان ہمہ وقت اور ہمہ جگہ مربیوں سے درس لیتے رہتے ہیں، انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا علی جنوبھم(آل عمران ۳:۱۹۱)یہ کھڑے ، بیٹھے، لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ سنریھم ایتنا فی الافاق وفی انفسھم( حم السجدہ۴۱:۵۳)،عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے۔

            جو کتابِ وحی، کتاب ِفطرت اور کتابِ زندگی پڑھتا ہو، اور ان سے تربیت حاصل کرتا ہو، وہ فی الواقع پھر کسی تربیتی کورس کا محتاج نہیں رہتا، اگرچہ واجب اور نفل تربیتی کورس مدد گار و معاون ہوتے ہیں، لیکن یہ صحیح معنوں میں اسی وقت موثر ہوتے ہیں، جب وہ انسان کی ساری زندگی کو تربیت گاہ بنا نے کے مقام پر پہنچانے میں مدد کریں۔

            گناہ سب سے بڑھ کر مایوسی کا سبب بنتا ہے، لیکن ہر گناہ ایک موثر مربی بھی بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ احساسِ گناہ بیدارہو،ا اور پھر آنکھوں کو بہنے دیں، دل کو ندامت اور شرمندگی سے بھر لیں، یقین ہو کہ اب اللہ کے سوا کوئی اس گناہ کے نتائج بد سے نہیں بچا سکتا، اللہ کے آگے ہاتھ پھیل جائیں، سر جھک جائے اور ، آنسو بہنے لگیں…… تو آپ دیکھیں گے کہ کتنی تربیت کا سامان اس گناہ میں مہیا ہو جائے گا۔

            یہ گناہ کی ترغیب نہیں، بلکہ گناہ سے نفرت اور اجتناب کی ہر ممکن کوشش ضروری ہے، لیکن یہ بھی حکمتِ تخلیق ہے کہ انسان کو گناہ سے مفر نہیں ۔ دل میں گناہ کی خواہش اٹھے اورانسان خدا کے خوف سے رک جائے، یہ بہت بڑی نیکی ہے: واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ھی الماوی(النازعات۷۹:۴۰۔۱)اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔

            یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔ہر نعمت، تربیت کا ذریعہ ہے۔ وہ نعمتیں بھی جو عام ہیں۔ مثلاً ہر سانس ، کھانے کا ہر لقمہ ، پانی کا ہر گھونٹ، اور وہ بھی جوخاص ہیں۔ نعمتیں عطا کرنے والے کو یاد کریں، اس کے شکر سے دل کو بھر لیں ، اس کو اپنے علم اور ہاتھ کا کرشمہ نہ سمجھیں، نہ کسی مخلوق کا عطیہ جانیں۔ دل وجان سے الحمد اللہ کہیں، پھر دیکھیں کہ کتنے اخلاقی و روحانی امراض کا علاج چٹکی بجانے میں ہو جاتا ہے‘‘شکر کریں گے تو اللہ اور دے گا……اور دے گا۔’’ اگر یہ شکر نیکی کی توفیق کی نعمت پر ہو، تو خود ہی سوچیں کہ کتنی نیکیاں اور ملیں گی اور تربیت کتنی آسان اور تیزہو گی۔

            یہی معاملہ مصیبت کا ہے۔ہر مصیبت تربیت کا ذریعہ ہے۔ یاد کریں کہ یہ کس کی طرف سے ہے۔ اس کی طرف سے جس کے اذن کے بغیر پتا نہیں ہل سکتا۔ وہ جورحمن اوررحیم ہے، تمھارا بد خواہ نہیں، خیر خواہ ہے۔ پھر صبرکریں اور صبر تو ساری تربیت کی شاہ کلید ہے۔

تیسری آسانی: اختیار اور بس میں ہے

            آسانی کے تیسرے پہلو کو یوں دیکھیں، کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عدل سے ، یہ بات بعید ہے کہ وہ ایسا حکم دیں جس کو بجا لانے کی انسان میں سکت نہ ہو، یا ایسے امتحان و آزمائش میں ڈالیں جس میں پورا اترنے کی طاقت نہ ہو۔ یہ امتحان کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس سبق کا امتحان کیسے ہو سکتا ہے جو پڑھایا ہی نہ گیا ہو، اس ناکامی پر مواخذہ یاسزا کیسے نصیب ہو سکتی ہے جو اختیار اور بس سے باہر ہو۔لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا، لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت۔(البقرہ ۲:۲۸۶)اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔

             دل کی کیفیات اور ان کے اتار چڑھاؤ پر کوئی مواخذہ نہیں، کہ وہ بس میں نہیں ۔ قیام لیل کی فرضیت دائرہ اسلام وسیع ہوتے ہی اس لیے ختم کر دی گئی کہ ‘‘ اللہ نے جانا کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے، سو تم پر معافی بھیج دی۔ اب پڑھو جتنا قرآن آسانی سے ہو سکے۔’اللہ تعالیٰ نے ہدایت نازل فرمائی کہ‘‘اتقو اللہ حق تقاتہ۔’’(آل عمران۳:۱۰۲) اللہ سے تقویٰ کرو جیسا کہ اس سے تقویٰ کرنے کا حق ہے۔’’ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کانپ اٹھے۔کس کے بس میں ہے کہ اللہ سے تقویٰ کا حق ادا کر سکے !چنانچہ تشریح فرمائی گئی کہ فاتقوا اللہ مااستطعتم،(اللہ سے تقویٰ کرو ،جتنا بس میں ہے)تقویٰ کرنا سیکھنا ہی تو ایک لحاظ سے تربیت کا حاصل ہے۔ چنانچہ ہم بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ ‘‘اپنا تزکیہ کرو، اپنی تربیت کرو، جتنی تمھاری استطاعت ہو ،جتنی کر سکو۔’’ اس سے زیادہ تربیت کا مطالبہ نہیں۔ نبی کریمؐ جب اطاعت و جہاد کی بیعت لیا کرتے تھے، تو خاص طو ر پر ‘‘ بہ حد استطاعت’’ کے الفاظ کا اضافہ ضرور فرمایا کرتے تھے۔

            چنانچہ جن فرائض کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے ، یا جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے، ان کو بجا لانا یا ان سے رک جانا بالکل ہر ایک کے بس میں ہے ، یہ اختیار سے باہر نہیں ہو سکتا۔ وہ عبادات اور جہاد ہوں،کھانے پینے کی اشیا ہوں ، اموال ہوں، یا اخلاق و معاملات۔

            سوچنا یہی چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو، جو عالم الغیب والشہادۃ ہے، ہم اپنے عذر سے مطمئن کر سکیں گے۔ اگر مجبوری حقیقی ہو گی، تو وہ اللہ کے ہاں قبول ہو گی۔ نہ مواخذہ ہو گا، نہ تربیت میں نقص آئے گا۔

            چنانچہ تربیت کی راہ پر اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ کوئی ایسی چیز جنت کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتی، اور اس کو نہیں کرنا چاہیے ، یا کوئی ایسی چیز جنت حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہو سکتی، اور اسے نہیں ہونا چاہیے ، جو استطاعت اور اختیار سے باہر ہو۔ یہ یقین تربیت کی راہ کی ان بے شمار دشواریوں کو آسان کر دے گا، اور ان گو نا گوں فتنوں کا ازالہ کر دے گا، جن کا شکوہ اس راہ کے راہی اور سالک کثرت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔

اختیاری اور غیر اختیاری

            اس معاملے میں اصل اصول یہ ہے کہ معاملہ اختیاری ہے یا غیر اختیاری۔

            لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہم فلاں چیز پر قابو نہیں پا سکتے، فلاں حکم نہیں بجا لا سکتے ،فلاں ناجائز چیز کو ترک نہیں کر سکتے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایسا کرنا آپ کے اختیار میں ہے یا نہیں ۔ اگر یہ اللہ کا حکم ہے، تو یقینا اختیار اور بس میں ہے۔اس لیے کہ ،جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں ، اللہ نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو استطاعت میں نہ ہو۔ احکام الٰہی کے علاوہ، جو معاملہ اختیار سے باہر ہو ، اس کی بے جا فکر نہ کرنی چاہیے ، اس کی وجہ سے کسی فتنے میں نہ پڑیں،نہ اس کی وجہ سے جو کچھ نیکی کر رہے ہیں، اس کو چھوڑ بیٹھیں ، نہ اپنی راہ کھوٹی کریں۔

راہزن فتنہ اور مغالطے

            تربیت کے راستے کا سب سے بڑا فتنہ ،مایوسی اور ترک ِسعی و عمل کا فتنہ ہے۔

            دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ اور رسولؐ کے بارے میں بھی ہوتے ہیں، ان کی تعلیمات کے بارے میں بھی۔ گناہوں کی خواہشات بھی جوش مارتی ہیں۔ حالات سے اور انسانوں سے مایوسی کا وسوسہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ مگر دل میں کیا کیا خیالات آتے ہیں، یہ انسان کے اختیار میں نہیں۔ ان پرکوئی مواخذہ بھی نہیں۔ ان سے جنت کا نقصان نہیں ہوتا۔ پھر انسان کیوں پریشان ہو اور کیوں ہمت ہارنے لگے۔ بر ے خیالات آنے کے راستے بند کرنے کی کوشش اور اچھے خیالات کو دل میں لانے کی کوشش ، بس اتنا ہی اختیارمیں ہے۔ اتنے کرنے کو کافی سمجھیں۔

            انسان بار بار عزم کرتا ہے اور وہ عزم بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسا عزم جو کبھی نہ ٹوٹے، ایسا ارادہ جو کبھی شکستہ نہ ہو، یہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں ۔ بلکہ عزم وارادے کی نا پختگی، امتحان کی خاطر ، حکمت الٰہی نے انسانی طبیعت میں و دیعت کی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی نہ مواخذہ ہے ، نہ جنت کا نقصان۔

            سب سے مشکل معاملہ گناہوں کا ہے،جن کا تعلق عزم کی پختگی سے بھی ہے۔ گناہ ہوتے ہیں اور بار بار ہوتے ہیں۔ بار بار توبہ کرنے کے بعد بھی بار بار ہوتے ہیں۔ جانتے بوجھتے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کا حکم معلوم ہوتا ہے، اور پھر بھی خواہش نفس کے آگے سر جھکا لیتے ہیں ۔ گناہوں سے بھی حوصلہ ہارنے اور مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ گناہ بالکل نہ کرے، یا بار بار نہ کرے، یا توبہ نہ ٹوٹے۔ یہ تو فرشتوں اور انبیا علیہم السلام کا مقام ہے۔

            گناہ کا اختیار اس آزادی کا ناگزیر تقاضا ہے جو اللہ نے انسان کو جنت حاصل کرنے کے لیے دی ہے۔ اگرانسان گناہوں کے اس سلسلے کو بند کر سکتا تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا،جو گناہ کرتی اور اس سے مغفرت کی طلب گار ہوتی۔ اسی لیے ہر جگہ جنت کی دعوت کے ساتھ اس سے پہلے مغفرت کی دعوت دی گئی ہے۔

            دل میں غلط کیفیات بھی مایوس کرتی ہیں۔مطلوب کیفیات حاصل نہ ہو سکیں تو بھی مایوسی ہونے لگتی ہے۔ کیفیات میں اتار چڑھاؤ بھی پریشان کرتا ہے۔ لیکن دل کی کیفیات پر بھی انسان کواختیار نہیں بخشا گیا ہے، صرف عمل پر بخشا گیا ہے۔ محبت ، خوف، خشوع کی کیفیات محبوب ہونی چاہئیں، ان کے حصول کے لیے وہ تدابیر بھی اختیار کرنا چاہئیں جن کو اختیار کرنا بس میں ہو۔ لیکن یہ کیفیات کس قدر پیدا ہوتی ہیں ، اور کتنی پائیدار ہوتی ہیں، اس پر کوئی حساب نہ ہو گا، نہ اس کی وجہ سے جنت کا نقصان۔ پھر مایوسی و پریشانی کیوں؟

            کمال کی طلب ہوتی ہے، لیکن کمال بھی اختیار میں نہیں، بلکہ یہ مقام انسانی کے منافی ہو گا کہ کمال حاصل ہوجائے۔ اس بے سود تلاش کو بھی ترک کر دیں۔ دوسروں میں نقائص دیکھ کر بھی آپ خود بھی مایوس ہونے لگیں اور خود اپنی تربیت سے دست بردار ہو جائیں، اس سے بڑھ کر نادانی کیا ہو گی۔دوسروں کو نیک بنانے کااختیار بھی آپ کو نہیں دیا گیا ہے۔ نہ کسی دوسرے کا بو جھ انسان اٹھائے گا۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں، صراط مستقیم پر چلتے رہیں۔اپنی اور دوسروں کر اصلاح کا کام کرتے رہیں ، یہی کافی ہے۔

اچھی طرح یاد رکھیں

            جنت کو مقصود بنا کر اپنی تربیت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد ، اہم ترین بات یہی ہے کہ تربیت کا راستہ، دین اور ہدایت کا راستہ، جنت کا راستہ آسان ہے اور بالکل انسان کے اختیار اور بس میں ہے۔ یہ مشکل اس لیے بن جاتا ہے کہ ہم خود اسے مشکل بنا لیتے ہو، خود اس کے لیے مشکل بن جاتے ہو۔ اس بات کو یاد رکھیں گے توحوصلے بلند رہیں گے، امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے گا، اللہ کی مدد ہمیشہ شامل حال ہو گی۔

۳

اپنا ارادہ اور عمل شرط ہے

            دنیا میں کامیابیاں ہوں، یا آخرت کی کامرانیاں، دونوں کے لیے اپنی تربیت ناگزیر ہے۔ جنت اپنی تربیت اور تزکیے کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اپنی تربیت کرنے اور جنت میں جانے کا یہ راستہ آسان ہے، اور یہ بالکل اختیار میں ہے کہ اپنی تربیت کر سکیں۔

            لیکن یہ بات بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ تربیت صرف اپنے کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔ جو کچھ کرنا ضروری ہے، اس کا ارادہ کریں، اسے کرنے کی کوشش کریں، عمل کریں……اس کے بغیر تربیت کسی طرح ممکن نہیں۔

            تربیت کے لیے جو کچھ کرنا ذمہ داری ہے،اس کے مطابق عمل نہ کریں تو اس کا کوئی بدل نہیں،اس کی تلافی کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ کوئی چیز ارادے اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتی ۔ آپ کی جگہ کوئی وہ کام نہیں کر سکتا جس کو کرنے کے لیے ذمے داری آپ کی اپنی ہے۔ آپ کچھ سیکھ کر اس پر عمل نہ کریں، یا سیکھنا ہی نہ چاہیں، تو کوئی تعلیم و تربیت نفع نہیں پہنچا سکتی۔ اپنے ایمان اور عمل کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت و رحمت کا مستحق بنا سکے،اورجنت میں لے جا سکے۔

            یہی تربیت کا اصل اصول ہے۔ اتنا صاف اور واضح ہونے کے باوجود،بد قسمتی سے یہی اصول سب سے زیادہ نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔یہ اصول بے شمار تمناؤں اور تاویلات کے پردوں میں چھپ جاتا ہے۔ اس کو بھول کر ہم دسیوں سہاروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں،مگر کوئی بھی سہارا سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

تخلیق و امتحان کا تقاضا: عمل کے بدلے کا قانون

            حقیقت یہ ہے کہ اپنے عمل کے علاوہ ہمیں کسی چیز پر بھی کوئی حقیقی اختیار نہیں دیا گیا ۔اختیار عمل ہی کا تقاضا ہے کہ تربیت کا عمل آسان ہے، اس لیے کہ عمل ہمارے اختیار میں ہے۔ لیکن اسی اختیار اور حسن عمل کے امتحان کا لازمی تقاضا یہ بھی ہوا کہ ہمیں جو کچھ ملے وہ صرف ہمارے ارادہ کرنے اور عمل کرنے کے بدلے میں ملے۔ اللہ کی رحمت ملے تو اسی کے بدلے میں، مغفرت ملے تو اسی کے بدلے میں ، مغفرت ورحمت کی بدولت جنت ملے تو وہ بھی اسی کے بدلے میں۔

             اگر ہمارے لیے یہ امکان اور راستہ بھی کھلا ہوتا، کہ نہ ہم چاہیں، نہ ارادہ کریں اور نہ عمل کریں……پھر بھی کسی اور کے وہ عمل کرنے سے جو ہمارے کرنے کا ہے،کسی کی تعلیم وتربیت سے، کسی کے حکم واختیار سے ہمارے لیے تربیت اور جنت کی راہ ہموار ہو جاتی تو وہ امتحان ہی بے معنی ہو جاتا جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔

            کوئی بھی ہماری جگہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتا جو ہمیں پڑھنا ہے۔ وہ روزہ نہیں رکھ سکتا، وہ وعدہ پورا نہیں کر سکتا، مخلوق کی وہ خدمت نہیں کر سکتا ، وہ جہاد نہیں کرسکتا ،جو کرنا ہمارا کام ہے۔ اور اگر کوئی دوسرا وہ عمل کرے جو ہمیں کرنا ہے، اس طرح کہ اس میں ہمارا سرے سے کوئی دخل ہی نہ ہو تو…… اس پر عذاب ثواب کے مستحق ہم کیسے ہو سکتے ہیں۔ کوئی ہمیں مجبور کر کے گناہ کرائے ، اور اس میں ہماری خواہش و ارادے کو دخل نہ ہو ، تو اس کا وبال ہم پر نہیں۔من اکرہ قلبہ مطمئن بالایمان،(اس پر کوئی غضب نہیں) جس پرز بردستی کی گئی ہو ( کہ وہ کفر کرے) جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اسی طرح کوئی ہم سے اس طرح نیکی کرالے کہ ہم کرنا نہ چاہتے ہوں،تو اس کا اجر ہمیں کیوں ملنا چاہیے۔واللہ اعلم بالصواب۔پھر کوئی دوسرا ہماری جگہ تربیت کی وہ کوشش کیسے کر سکتا ہے، جس کا کرنا ہمارے ہی لیے مقرر کیا گیا ہے۔یا اگر ہم خود اپنی تربیت کے لیے سعی نہ کریں، تو کسی کی بھی تعلیم و تربیت سے ہمیں کیوں کر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔خارج سے تربیت کی ہر کوشش ایک با رش کی مانند ہے۔ چٹان پر سے وہ بارش بہہ جاتی ہے، ہر تالاب ، ندی، نالہ، دریا اپنے ظرف کے مطابق اس کو حاصل کرتا ہے، ہر زمین اپنی استعداد کے مطابق فصل اگاتی ہے:

            یہ اہم ترین بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کردیا ہے:لھاما کسبت وعلیھا ما اکتسبت،(البقرہ۲:۲۸۶)ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔

            پھراسی اصل اصول کو بڑے اہتمام سے یوں بیان کیا گیا ہے، اور اس تاکید کے ساتھ کہ یہ تو وہ اصول ہے جو ازل سے آسمانی صحیفوں میں لکھا چلا آرہا ہے:

            ام لم ینبا بما فی صحف موسٰی۔ وابراھیم الذی وفی۔الاتزر وازرۃ وزر اخری۔ وان لیس للانسان الاماسعی۔ وان سعیہ سوف یری۔ ثم یجزۂ الجزا ء الاوفی۔ (النجم۵۳:۳۶۔۴۱)

            کیا (انسان) کو وہ بات بتا نہیں دی گئی ہے جو موسیٰؑ کے صحیفوں اور اس ابراہیم ؑ کے صحیفوں میں بیان ہوئی ہے، جس نے وفا کا حق ادا کر دیا؟ یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گا، اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے ، مگر وہ عمل جس کی اس نے سعی کی، اور یہ کہ اس کا عمل اسے عنقریب ضرور دکھایا جائے گا، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

            پھر جنت کا حصول……جو حسنِ عمل کی آزمائش میں کامیابی کا انعام اتنی وضاحت اور اتنی کثرت کے ساتھ عمل، کوشش،محنت اور سعی کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے، کہ کسی غلط فہمی کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ جنت کے راستے پر چلنے کے لیے تربیت، عمل کے علاوہ بھی کسی اور طرح ممکن ہے۔

            ثابت ہوا کہ صرف خواہش و تمنا سے، کسی کی نظر اور توجہ کی برکت سے، کسی تقریر و درس کی تاثیر سے ، کسی کامل کی صحبت سے، جنت نہیں مل سکتی ، اپنی وہ تربیت بھی نہیں ہو سکتی جس کا انعام جنت ہے……جب تک اپنا ارادہ نہ ہو، اپنی کوشش نہ ہو۔

کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی

             اگر کوئی یہ سمجھے کہ نہ ارادہ کرے اور نہ کوشش اس کے باوجود تربیت ہو جائے تو ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ صرف کتابوں کا مطالعہ کر کے،اسٹڈی سرکل میں شرکت کر کے تربیت ہو جائے گی؟ نہیں ہو گی ۔ ایک دل گداز درس سن کے، ایک جذبات انگیز تقریر سے،یا ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کر کے تربیت ہو جائے گی؟ نہیں ہو گی۔ کسی مرد کامل کی صحبت ، نظر ، توجہ میسر ہو جائے گی، وہ انگلی پکڑ لے گا اور بیڑا پار ہو جائے گا،یہ بھی نہیں ہو گا۔ جب تک کوئی خود نہ چاہے، ارادہ نہ کرے اور عمل کے راستے پر قدم نہ بڑھائے،کچھ نہیں ملے گا۔ اگر بغیر عمل یہ سب کچھ ہو سکتا ، تو امتحان اور جزا و سزاکا نظام بے معنی ہوجاتا ۔

شیطان کا زور

            اگر کوئی خود بد نہ بنے، تو شیطان کی صحبت بھی اسے بد نہیں بنا سکتی۔ شیطان کی صحبت میں تو انسان ہر وقت رہتا ہے۔ وہ جان کے ساتھ لگا ہوا ہے، خون کے ساتھ گردش کر رہا ہے، ایسی جگہوں سے تاک میں رہتا ہے جن کاانسان کو پتا ہی نہیں۔وہ دائیں بائیں آگے پیچھے سے مسلسل نقب لگاتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان کے ارادے کے خلاف زبردستی کوئی عمل بد نہیں کرا سکتاکیونکہ اسے کوئی ایسا اختیار دیاہی نہیں گیا ہے۔ وہ اپنے عمل پر تمھارے اپنے اختیار کو باطل نہیں کر سکتا ۔ بلکہ روز قیامت تو وہ کھڑے ہو کر صاف کہہ دے گا:وما کان لی علیکم من سلطن الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلو مونی ولوموا انفسکم۔(ابراھیم،۱۴:۲۲)

            میرا تم پر کوئی زور اور اختیار تو تھا نہیں،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو،اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔

توفیق الٰہی کی دست گیری

            توفیق الٰہی کے بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن یاد رکھیے کہ توفیق الٰہی بھی اسی وقت شامل حال ہوتی ہے جب انسان خود ارادہ کر تااور جنت کے راستے پر قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں رہنے دیا گیا ہے:یھدی الیہ من ینیب۔(الشوری۴۲:۱۳)اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے،جو اس کی طرف رجوع کرے۔

            ومن تاب وعمل صالحا فانہ یتوب الی اللہ متابا۔(الفرقان۲۵:۷۱)جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے،وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔فاذکرونی اذکرکم(البقرہ۲:۱۵۲)تم مجھے یاد رکھو ، میں تمھیں یاد رکھوں گا ۔اوفوا بعھدی اوف بعھد کم(البقرہ۲:۴۰)میرے ساتھ تمھارا جو عہد تھا، اسے تم پورا کرو تو میرا جو عہد تمھارے ساتھ تھا،اسے میں پورا کروں۔

            گویا ارادہ اور عمل کے ساتھ ساری بشارتیں اور وعدے مشروط ہیں۔

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بندہ فرائض ادا کرتا ہے اوریہ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب ہے۔ پھر وہ دوڑ دوڑ کر وہ کام بھی کرتا ہے جو اللہ نے فرض نہیں کیے مگر اسے محبوب ہیں۔ جب بندہ یہ روش اختیار کرتا ہے تو اس کی نگاہ، سماعت، ہاتھ پاؤں سب اللہ کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں ۔لیکن فرائض و نوافل کی ادائیگی تو بہر حال بندے کا کام ہے۔ وہ یہ نہ کرے تو یہ بشارت کیسے نصیب ہو گی؟

             ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں ، کہ جو اللہ کی طرف ایک بالشت آگے بڑھتا ہے، اللہ اس کی طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتے ہیں،یہاں تک کہ جو چلتا ہوا آتا ہے اللہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے آتے ہیں۔ تربیت اور جنت کی طرف راہنمائی کے لیے یہ بے پایاں رحمت ، سبحان اللہ۔ لیکن یہ رحمت بھی اسی کے لیے ہے جو اپنے ارادے اور کوشش سے ایک بالشت تو بڑھے، ایک قدم تو اٹھائے۔ جو کھڑا ہی رہے،لاپروا اور بے نیاز رہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھے……وہ اس بے پایا ں رحمت سے کیا پائے گا۔ شرط تو بندہ کی طرف سے ارادہ اور کوشش کی ہے، باقی تو انتہائی فیاضی کے ساتھ میزبانی اور دست گیری کا ہر سامان موجود ہے۔

صرف ارادہ اور سعی ہی مطلوب ہے

            جہاں یہ غلط فہمی ختم ہونا ضروری ہے کہ ارادے اور عمل کے بغیر بھی تربیت کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے، وہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کہ اللہ تعالیٰ کو نہ عمل میں کمال مطلوب ہے، نہ عمل کی تکمیل مطلوب ہے، نہ عمل میں کامیابی مطلوب ہے……اس لیے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔بلکہ صرف عمل کے لیے، خلوص کے ساتھ اپنی مقدور بھر کوشش اور سعی مطلوب ہے، جو کہ انسان کے اختیار میں ہے۔ ساری کامیابی ، قدر دانی اور اجر و انعام صرف اسی سعی پر عطا کرنے کا وعدہ ہے:ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مؤمن فاولئِک کان سعیھم مشکورا۔(بنی اسرائیل۱۷:۱۹)

            جو آخرت کا خواہش مند ہو، اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شـخص کی کوشش کو پوری قدر دانی سے نوازا جائے گا۔

            یہ آیت، جو قرآن و سنت کی بے شمار تعلیمات پر مشتمل ہے، تربیت کے لیے عمل اور کوشش کے راستے کے بہت سارے فتنوں کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔کبھی یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ میرا عمل مطلوب معیارسے بہت نیچے ہے، اس میں بہت نقائص اور کمزوریاں ہیں ، یہ بھلا کیسے قبول ہو گا۔کبھی یہ فکر ہوتی ہے کہ عمل تو ہے لیکن کیفیات نہیں۔ نماز میں خشوع نہیں،دل میں رقت نہیں، آنکھوں میں نمی نہیں۔ کبھی تشویش ہوتی ہے کہ عمل تو ہے لیکن مطلوب نتائج نظر نہیں آتے۔ نماز پڑھتے ہیں،لیکن فحش و منکر نہیں چھوٹتے۔روزہ رکھتے ہیں،مگر تقویٰ حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی یہ مایوسی لگ جاتی ہے کہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ پھر ارادوں کا ضعف ، تربیت کی ساری کو ششوں کے باوجود بے قابو نفس!بار بار مایوسی ہوتی ہے۔

            لیکن اگر یہ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی…… جن کی فکر پریشان و مایوس کرتی ہے، اور بالآخر عمل ہی ترک کر دینے کے مقام پر پہنچا دیتی ہے……تربیت میں کامیابی کے لیے،جنت میں جانے کے لیے شرط نہیں،مطلوب نہیں،تونہ صرف پریشانی اور مایوسی قابو میں آجائے گی،بلکہ کبھی انسان تباہی کے اس کنارے پر نہیں پہنچنے پائے گا کہ کوشش اور عمل ہی ترک کر دے۔

ارادہ

            ارادے کا ذکر ہم نے بار بار کیا ہے ، قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے۔ یہ تربیت کے لیے شرط ہے۔

ارادہ کیا ہے؟

            ارادہ محض خواہش کا نام نہیں۔ یہ غلط فہمی بہت عام ہے ۔ کہا جاتا ہے:‘‘میں تو بہت چاہتا ہوں کہ فجر کے وقت آنکھ کھل جائے اور نمازوقت پر پڑھ لوں۔ مگر آنکھ ہی نہیں کھلتی۔’’ یہ ‘‘چاہنا’’وقت پر اٹھ کر نماز پڑھنے کے ‘‘ارادے’’ کے مترادف نہیں۔ذرا سوچیں:اگر صبح صبح متعین وقت پر ہوائی جہاز پکڑنا ہو، یا کسی بہت با اثر آدمی سے ملا قات کرنا ہو جس سے اہم حاجت اٹکی ہوئی ہو یا نفع عظیم کی امید ہو، پھر بھی کیا آنکھ نہ کھلے گی،یا اس بات کا کامیاب اہتمام نہ کرو گے کہ آنکھ ضرور کھلے۔ یہ ایک کم درجے کے کام کی عام مثال ہے۔ اسی سے دین کے اور تربیت کے لیے دوسرے ضروری کاموں اور مجاہدوں کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

            ارادے میں، مراد کی قدرو قیمت اور ضرورت کا یقین شامل ہوتا ہے، اسے کرنے کی یا حاصل کرنے کی چاہت اور محبت شامل ہوتی ہے، شعوری فیصلہ ہوتا ہے، اور ان سب سے مل کر عزم پیدا ہوتاہے۔ جب قرآن یریدون وجھہ یا من کان یرید حرث الاخرۃ۔ (الشوری۴۲:۲۰)(وہ اللہ کی خوشنودی کا ارادہ کرتے ہیں، چاہتے ہیں یا جو آخرت کی فصل کا ارادہ کرتے ہیں، چاہتے ہیں)کہتا ہے تو وہ ارادے کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کرتا ہے۔

            یہ ارادہ کمزور پڑ سکتا ہے، ٹوٹ سکتا ہے، اس کے خلاف آدمی کام کر سکتا ہے، وہ اسے بھول سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر،پہلے قدم پر اور ہمیشہ ، رضائے الٰہی، آخرت، جنت اور اپنی تربیت کے لیے یہی ارادہ درکار ہے۔اور ہر اس کام کے لیے بھی درکار ہے،جو دین کی راہ پر چلنے اور اپنی تربیت کرنے کے لیے ضروری ہو۔ندامت اور شعوری طورپر رجوع کرنے سے ایک لمحے میں دوبارہ استوار ہو سکتا ہے۔

            یہ ارادہ موجود نہ ہو تو تعلیم وتربیت کی بڑی سے بڑی بارش بھی رائیگاں جائے گی۔ یہ موجود ہو، تو تعلیم و تربیت کی معمولی سی پھوار سے بھی لہلہاتی فصل کھڑی ہو جائے گی۔ یہ ارادہ صحیح راہیں بھی دکھائے گا، ان راہوں پر قائم رکھے گا، اور غلط راہوں پر جانے سے بھی روکے گا۔

            یہ ارادہ یک سوئی بھی چاہتا ہے اور بالا تری بھی۔ بیک وقت اللہ اور غیر اللہ دونوں مقصود نہیں بن سکتے، آخرت اور دنیا دونوں ہدف نہیں بن سکتے۔جو دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہے گا،وہ کبھی ساحل مراد تک نہ پہنچے گااور ہمیشہ ضعف ارادہ اور عزم کی شکست و ریخت کا شکار اور ڈانواں ڈول رہے گا۔

            ارادہ اسی طرح مضبوط اوریک سو ہو سکتا ہے کہ انسان ان چیزوں کی انتہائی قدر و قیمت اور اپنے لیے شدید ضرورت پر یقین رکھے جو ارادے کا مقصود ہیں۔ یعنی اللہ اور جنت اور ان کے حصول کے لیے اپنی تربیت ۔

            ہم یہ پہلے بھی بتا چکے ہیں……اور پھر بتانا چاہتے ہیں……کہ عمل و کردار کی اصلاح و تعمیر ایک تدریجی اور وقت طلب کام ہے۔ارادے کا بننا پلک جھپکتے میں ہو سکتا ہے ، اور ہوتا ہے۔ یہ پلک جھپکتے میں ٹوٹ بھی سکتا ہے، لیکن مایوسی کی کوئی بات نہیں: پلک جھپکتے میں واپس بھی آ جاتا ہے۔

سعی

            ارادہ ہو تو نا گزیر ہے کہ اس کا ظہور عمل میں ہو۔ جس چیز کا ارادہ ہو اس کی طرف قدم نہ اٹھ سکیں تو بھی پیش قدمی کے لیے آمادگی، آرزو اور جستجو لازمی ہو۔چل نہ سکیں تو دل چلنے کے لیے بے تاب رہے،آنکھیں منزل پر جمی رہیں، دل منزل کی طرف لپکتا رہے،اور جب ممکن ہو قدم بھی اٹھ اٹھ کر چلیں۔

            قرآن مجید نے سعی کی ان ساری صورتوں کی تصویر کھینچی ہے:انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والاض حنیفا(الانعام۶:۷۹)میں نے یک سو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا ، جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔

            ان صلاتی و نسکی ومحیای و مماتی للہ رب العالمین(الانعام۶:۱۶۲)کہو ، میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

            فاسعوا الی ذکر اللہ و ذرو البیع۔(سورۃ الجمعہ۶۲:۹)اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔

            یاد رکھو کہ سعی سے بڑی بڑی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔ ایک شخص سے ایک بزرگ نے کہا کہ صبح سب سے پہلے جس چیز پر نگاہ پڑے ، اسے اٹھا کر منہ میں رکھ لینا۔ وہ صبح گھر سے باہر نکلا تو ا س کی نگاہ ایک پہاڑی پر پڑی۔ اس نے ہمت ہار دی۔ پہاڑی کیسے منہ میں رکھی جا سکتی ہے!بزرگ نے کہا : چلنا تو شروع کرو۔ اس نے چلنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، پہاڑی چھوٹی ہوتی گئی۔ جب پہاڑی تک پہنچ گیا تو دیکھا کہ وہاں گڑ کی ایک ڈلی تھی۔ اس نے اسے اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ دین کے ، تربیت کے،جن کاموں کو مشکل ، دشوار اور ناممکن سمجھا جاتا ہے، ان سب کا معاملہ ایسی ہی پہاڑیوں کا ہے۔

            یہی سبق اس شخص کے واقعہ سے ملتا ہے ، جو رسول اللہ ؐنے بیان فرمایا، جس نے ۹۹ قتل کیے تھے۔ وہ عابد کے پاس گیا کہ کیا اب توبہ کی کوئی صورت ہے۔ عابد نے انکار کر دیا۔ اس شخص نے عابد کو بھی قتل کردیا۔ پھر ایک عالم کے پاس گیا۔ اس نے کہا ،ہاں تو بہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ توبہ کرو۔لیکن یہ بستی چھوڑ دو،فلاں بستی میں چلے جاؤ جو نیک بستی ہے۔ اس شخص نے توبہ کر کے ، نیک بستی کی طرف چلنا شروع کیا۔ راستے میں اسے موت آگئی۔ اس نے مرتے مرتے اپنا سینہ ہی مطلوب بستی کی طرف آگے بڑھا دیا۔ اب رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا کہ روح کون لے جائے۔ ایک فرشتے نے آ کر فیصلہ دیا کہ فاصلہ ناپ لو، اگر لاش نیک بستی سے قریب ہو تو رحمت کے فرشتے لے جائیں، ورنہ عذاب کے فرشتے۔ اللہ تعالیٰ نے ادھر کی زمین کو حکم دیا کہ پھیل جائے، ادھر کی زمین کو حکم دیا کہ سکڑ جائے۔ اس کے بعد نیک بستی کا فاصلہ ایک بالشت کم نکلا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتے اس کی روح لے گئے۔

            اس کہانی کے اسباق و اسرار پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن مقصود واضح ہے: نیت صادق ہو، ارادہ مضبوط ہو، اور عمل کے لیے کوشش ہو تو اللہ کی رحمت کس طرح دست گیری کرتی ہے اور کس طرح منزل مراد تک پہنچا دیتی ہے۔

حرف آخر

            یاد رکھیے، کہ تربیت ہمیشہ اپنے ارادے اور کوشش سے ہو گی اور اللہ کی بے پایاں رحمت بھی اسی صورت میں شامل حال ہو گی۔ کوئی خود اپنی تربیت نہ کرنا چاہے تو کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔

            چلتے، اوربس چلتے رہنے کے لیے کمر باندھ لیجیے یہی پہلا اور یہی آخری قدم ہے۔