پاکستان زندہ باد

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2006

            اٹھتے بیٹھتے وہ پاکستان کو گالیاں دیتا اور اہلِ یورپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا۔کبھی شدید غصے میں ہوتا تو اپنے محبوب انگریز کو بھی گالی دے ڈالتا کہ وہ بر صغیر سے گیا کیوں؟اس کے بقول یہ آزادی انگریزوں کا عطیہ تھا اگر وہ یہاں سے نہ جانا چاہتے تو ان کو کوئی نہیں نکال سکتا تھا۔مگر اس بار یوم آزادی پر جب اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے بہت بدلا ہوا پایا۔کیوں؟ یہ آپ کو کہانی کے آخر پر خود ہی معلو م ہوجائے گا۔

             نام تواس کا اکرم تھا مگر ہم سب اسے اکو کہتے تھے۔کسی طرح اس نے میٹرک تو کر لی تھی،لیکن میرٹ پر نہ آنے کے باعث،کسی بھی کالج میں اس کا داخلہ نہ ہو سکاتھا۔اس پر بھی قصور کالج والوں کا اور غلطی پاکستان کی تھی۔چند سال گلی بازار میں آوارہ گردی کے بعد،یورپ جانے کا پروگرام بنا لیا۔آوارہ گردی کے زمانے میں اس کا تکیہ کلام پاکستان اور قائدین پاکستان کو کوسنے دیناہی تھا۔زبان پر یہی گلہ،کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا،یہ کبھی نہ سوچا کہ میں نے اسے کیا دیا؟بہرحال یورپ جانے کیلئے،لگا تار منصوبے بناتا رہا۔ ایک دن ماں کے زیوربیچے ، اور باپ کی پنشن کا حصہ نکلوا کر۳ لاکھ روپے ایک ایجنٹ کو دے آیا کہ مجھے یورپ پہنچا دو۔اور دوستوں یاروں میں یورپ کے سہانے خواب سنانے لگا۔ہر دوسرے تیسرے دن،نہا دھو کر،پینٹ شرٹ پہن کر ایجنٹ کے دفتر کے چکرکاٹنے شروع کئے۔

            ایک لمبے انتظار کے بعد،خدا خدا کر کے ایجنٹ نے اسے کہا کہ تم تیار ہو کر آ جاؤ،کل تمہا ری روانگی ہے۔اس کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔تمام رشتہ داروں اوردوست احباب سے ملا قاتیں کیں اور دوسرے دن ان جانی راہوں پر روانہ ہو گیا۔ایجنٹ کے ڈیرے پر،آس پاس کے گاؤں کے ۳ اور نوجوان بھی، موجود تھے۔ایجنٹ نے ان کو اچھی طرح بریف کیا اور اپنا ایک نمائندہ ان کے ساتھ روانہ کر دیا۔اس قافلے کی پہلی منزل کوئٹہ تھی۔ایران کے ویزے لگے ہوئے تھے۔لہٰذا بڑی آسانی کے ساتھ یہ لوگ ایران پہنچ گئے۔پاکستانی فضا سے باہر جاتے ہی اکو کے چہرے پر ایسی ہی خوشی تھی جیسی عمر قید کی سزا پانے والے قیدی کی قبل از وقت رہائی سے ہوتی ہے۔ایجنٹ کا نمائندہ ان کے ساتھ تھا۔ایران کے مختلف شہروں کی سیر کرتے ہوئے وہ ایران اور ترکی کے بارڈر پر پہنچ گئے۔کسی سرحدی گاؤں کے چھوٹے سے کوارٹر میں ان کا قیام تھا۔ جب ایجنٹ کا نمائندہ باہر جاتے وقت کوارٹر کو تالا لگا گیا تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ان ۱۵ دنوں میں پہلی بار پریشانی پیدا ہوئی تھی۔اب تک تو ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ایجنٹ کس طریقے سے ان کو یونان پہنچائے گا۔اس نے جو سبز باغ دکھائے تھے اس میں تو یہی تھا کہ ویزے لگ گئے ہیں،ایران اور ترکی کی سیر کرتے کراتے،یونان پہنچ جائیں گے۔اس سارے سلسلے میں ایران کے اس دور افتادہ گاؤں میں یہ تاریک کوٹھڑی تو کہیں نہ تھی۔اکو نے تو بہرحال اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ سنبھالا دیا ہوا تھا،دوسرے ساتھی تو گھر کو یاد کر کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے تھے۔

            خدا خدا کر کے تیسرے دن وہ نمائندہ واپس آیا۔اس کے ساتھ دو تین خوفناک قسم کے پہلوان نما ایرانی آدمی تھے ۔وہ ایک پرانا سا ٹرک ساتھ لائے تھے۔آتے ہی اس نے ان کو ٹرک پر پیچھے سوار ہونے کا حکم دیا۔لڑکے کچھ لیت و لعل کرنے لگے تو ایک ایرانی نے بندوق کے بٹ سے ایک لڑکے کو ٹھوکا دیا۔باقی بھی سمجھ گئے کہ اس پرسوار ہوئے بنا کوئی چارہ نہیں۔اب تک تو یہ تھا کہ ہم یورپ جا رہے ہیں۔اب جب اس ازمنہ وسطیٰ کے ٹرک پر سوار کرا دیا گیا،تو کوئی علم نہ تھا کہ یہ قافلہ کہاں جائے گا۔یہ ٹرک کیا تھا ایک متحرک کال کوٹھڑی تھی،شاید جانوروں کو ِادھراُدھر لے جانے کیلئے استعمال ہوتاتھا کیونکہ نہ اس میں سے روشنی کا کوئی گزر تھا اور نہ ہی ہوا کا مناسب بندوبست۔بدبو کے بھبھوکے بھی تھے اورسیٹیں نہ ہونے کے باعث دھکے بھی بہت پڑتے تھے۔راستہ نا ہموار اور پہاڑی تھاجس کے باعث مسلسل اچھل کود ہوتی رہی۔کہاں یورپ کی عیاشی کے لارے تھے اور کہاں اب زندگی کے لالے تھے۔یہ بھی کیا سفر تھا نہ دن کا پتا اور نہ رات کی کوئی خبر۔

            اکرم کہتا ہے کہ اب ذرا ذرا وطن کی یاد ستانے لگی۔جوں جوں ٹرک آگے بڑھ رہا تھا، اکرم پاکستان کی یادوں سے دل بہلا رہا تھا۔اپنے وطن کی رونقیں یاد تو آ رہی تھیں،لیکن یورپ کا خوب صورت سہانا مستقبل اب بھی ان یادوں پرحاوی تھا۔تین دن کے کھڑکھڑا دینے والے اور جسم کے پور پور کو ہلا دینے والے سفر کے بعد،ایک گاؤں کی اس طرح کی اندھیری کوٹھڑی میں بند کر دیئے گئے۔جس طرح قبل ازیں ایران میں ہو چکا تھا۔پوچھنے پر اتنا بتایا گیا کہ تم ترکی میں ہو، تمہارے ویزے پاکستان سے لگ کر آگئے ہیں،میں وہ لینے جا رہا ہوں۔ویزے کا نام سنتے ہی اکرم ایک بار پھر یورپ یورپ کرتا،دل دل ہی میں پاکستاں کو کوسنے لگا۔

            ترکی میں اس اجنبی گھر میں رہتے ۱۰ دن ہوگئے۔ہر دن ایک نئی مایوسی لے کر طلوع ہوتا اور ہر رات ستم کی رات ثابت ہوتی۔گیارہویں دن پھر نامانوس چہروں کے جلو میں،رات کی تاریکی میں پیدل سفر شروع ہوا۔پوری رات کے اس سفر کے بعد،ساحل سمندر میں کھڑے ایک جہاز کے تہ خانے میں دھکیل دیئے گئے۔جہاز کے اس تاریک کمرے میں اور بھی بہت سے نوجوان ٹھسے ہوئے تھے۔یہ جہاز ابھی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہوا ہی چاہتا تھاکہ پولیس نے گھیر لیا اور تمام لوگوں کو گاڑیوں میں لاد کر جیل میں لے گئے۔جیل کے اندر کا ایک ایک لمحہ جس اذیت اور کرب میں گزرا،اس کی کہانی طویل اور درد ناک ہے۔ترکی میں ۶ ماہ کی اس جیل نے اکرم کے سارے کس بل نکال دیئے اور اب اس کا ایک ایک لمحہ وطن کی سر زمین کو ایک بار جیتے جی دیکھ لینے کی آرزو میں گزرنے لگا۔پاکستان کی خوبصورت فضاؤں اور مادر وطن کی مٹی کی خوشبوؤں کے تصور نے اکرم کو وہ حوصلہ دیا اور آس امید کے وہ دیئے روشن کئے کہ جیل کی ہر اذیت کو وہ برداشت کر گیا۔آخر وہ لمحہ بھی آیا جب ترکی نے ان کو جہاز پر سوار کرا کے پاکستان روانہ کر دیا۔

            وہ دن اور آج کا دن اکرم وطن عزیز کے گیت گاتا ہے اور اس کے اندر رہتے ہوئے محنت اور عزم و ہمت سے کام لے کر اپنی روزی کمانے کے درس دیتا ہے۔