وفا کے رستے

مصنف : شہزاد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2006

ترجمہ، محمد صدیق بخاری

            ہمارے معاشر ے میں ہر چیز کو سراہا جاتا ہے سوائے علم و تحقیق کے ۔بے قیمت خیالا ت پر تحسین کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں ’ مبہم ومجہول نظریا ت پر داد دی جاتی ہے اور بے معنی باتوں پر تعریف کے پل باندھ دیے جاتے ہیں۔جبکہ حقیقی علم و تحقیق کو مذموم و مسموم ٹھیرا یا جاتا ہے۔ یہاں جہالت کی دستار بند ی کی جاتی ہے جبکہ علمی تحقیق کونہ صرف مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے بلکہ اسے سانپ سے زیادہ خطرناک قرا ر دے کر اس سے نفرت کا درس بھی دیا جاتا ہے ۔

            یہ رویہ کوئی اجنبی چیز نہیں بلکہ تقلید اور جمود کا منطقی نتیجہ ہے اورتقلید کا عالم یہ ہے کہ جو بھی رائے ایک دفعہ اختیار کر لی جاتی ہے اس پر نظر ثانی کا تصور بھی محال سمجھاجاتا ہے ۔ ہر فقہی نظریے اور مسلک کو تقدس کا ایسا جامہ پہنا دیا جاتا ہے کہ اس سے انحراف گویا اسلام سے انحراف کے مترادف قرار پا تا ہے اوراجماع کا حقیقی مفہوم اور اس کی اقسام سمجھے بغیر اسے وحی الہی کے برابرسمجھا جاتا ہے ۔

            تقلید ، آبائی نظریات اور رسوم سے جذباتی وابستگی کو جنم دیتی ہے چاہے وہ نظریات و رسوم، عقل و دانش کی دنیا میں کتنے ہی بے حقیقت کیوں نہ ہوں اور چاہے ان سے سچائی کا چہرہ ہی کیوں نہ مسخ ہو رہا ہو۔پھر نتیجتا یہ جذباتی وابستگی تعصب اور عدم برداشت کو جنم دیتی ہے ۔تعصب اور عدم برداشت انسانوں کو اس پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجید ہ اور مخلصانہ تنقیدسے بھی کان بند کر لیں بھلے وہ قرآن وسنت کے عین مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ناقد کا نہ صرف حقہ پانی بند کر نے کی سعی کی جاتی ہے بلکہ اسے نا پسندیدہ فرد قرار دے کراس کی زبان و قلم پر پہرے ، ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنانے کے جتن بھی کیے جاتے ہیں۔

            لیکن اس سب کے باوجود،جس نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہو اس کے لیے ایسے رویے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسے تو بہر حال حق اور سچائی کا ساتھ دینا اور اس کے لیے مشکلات کو خند ہ پیشانی سے بر داشت کر ناہوتا ہے ۔ جبر میں اضافہ اس کے صبر میں اضافہ کر دیتاہے اور یہ مردِ حرحیاتِ مستعار کے آخر ی سانس اور آخر ی قطر ہ خوں تک حق کے راستے پر گامزن رہتا ہے ۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگا ہ ہوتا ہے کہ وہ اگر منزل تک نہ بھی پہنچ سکا تو کوئی بات نہیں ۔ اور کچھ نہیں، تو کم از کم، وہ اس راستے کے کچھ کانٹے ہی کم کر جائے گا۔ راہ حق کے مسافروں کی راہیں آساں ہو گئیں تو تب بھی وہ ناکام نہیں اور اگر راستے روشن ہو گئے تو تب بھی وہ کامیاب ہے ۔یہی وہ فردِ فرید ہوتا ہے جس کے عمل سے لوگ صبر و استقامت کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور عزم وہمت کے نئے در کھلتے ہیں۔

            آسمانوں پر فرشتے اس کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوتے ہیں اور زمین پر کامیابی اس کی راہوں میں پلکیں بچھانے میں لگ جاتی ہے۔

            لیکن بہر حال یہ اتنا آساں بھی نہیں، سفر کے روزِ اول ہی سے روایت پسند اس کے پیچھے پڑ جائیں گے اور وہ ان کا محبوب شکار ہو گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی اس کی علمی ترقی اور تحقیق کو روک سکیں گے ۔ اور یہ کوئی نئی رِیت نہ ہو گی ان لوگوں نے تاریخ کے ہر دورمیں ایسا ہی کیا ہے اور جواب میں ہر دور نے عزم و ہمت کی ایک نئی داستان رقم کی ہے ۔ اس داستانِ حریت اور علم وتحقیق کو اپنے خون جگر سے لکھنے کے لیے سقراط، ابن تیمیہ، مالک ، ابن حنبل ، گلیلیو ، کوپرنیکس ، فراہی ہمیشہ موجود رہے ہیں اور ان کے وارث اور جانشین بھی ہمیشہ موجود رہیں گے ۔اگر چہ کتنے ہیں جو اس تگ و دو میں جاں بھی ہار گئے اور کتنے ہیں جو یہ کہتے ہوئے جاں ہارنے کو تیار بیٹھے ہیں کہ

یہ جان توآنی جانی ہے اس جاں کی کوئی بات نہیں۔