اپنی تربیت کیسے کریں؟

مصنف : مولانا خرم مراد

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : نومبر 2007

            یہ ہماری زندگی کا انتہائی اہم سوال ہے۔اتنا اہم کہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اسی سوال پر ہے۔ یہ سوال زندگی بھر درپیش رہتا ہے، کیونکہ تربیت کی جستجو آخردم تک کی جستجو ہے۔ یہ بڑا پر یشان کن سوال ہے۔ بار بار پریشان کرتا ہے ، اور نئے نئے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں، پرانی ناکامیوں سے کسی طرح پیچھا چھوٹنے نہیں پاتا، کہ نئی ناکامیاں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔ارادے کرتے ہیں، عزم کرتے ہیں،مگر پہلا قدم اٹھاتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ عزم و ارادے سے زیادہ کمزور کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ پختہ عہد و پیمان باندھتے ہیں، لیکن دو چار قدم چلتے ہی سب ٹوٹ جاتے ہیں۔ لمبے چوڑے منصوبے بناتے ہیں، سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خواہشات کے جھکڑ چلتے ہیں ، سب کچھ اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ جذبات کا طوفان اٹھتا ہے، سب کچھ غرق کر دیتا ہے۔ علم کی کمی نہیں ہوتی ، خوب معلوم ہوتا ہے کہ کیا چیز نیکی ہے اور کیا چیز بدی، لیکن فیصلے کاوقت آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ نیکی ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور برائی میں پڑجاتے ہیں۔توبہ استغفارکرتے ہیں، مگر پھر وہی گناہ دوبارہ کرتے ہیں اور بار بارکرتے ہیں۔

            ایسے میں مایوسی کے تاریک سائے ڈیرے ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ حوصلے پست ہونے لگتے ہیں۔ بہانوں اور عذرات کا سہارا ڈھونڈھنے لگتے ہیں۔ کوشش اور عمل کی باگ ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے۔پھر دل بے معنی چیزوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے۔‘‘کوئی نسخہ ایسا ہو کہ ارادے اور عزم میں کبھی کمزوری نہ آئے، دنیا کی محبت دل سے نکل جائے،ایک دفعہ توبہ کر لیں تو گناہ دوبارہ سرزد نہ ہو۔’’ حالانکہ ایسا نسخہ تو فرشتوں کی فطرت میں ودیعت ہے، پھرانسان کی کیا ضرورت تھی۔یا کوئی ایسا مرد کامل مل جائے جو ہاتھ پکڑے اور بیڑا پار کرادے۔ کسی کی توجہ،کسی کی نظر،کسی کی دعاایسی ہو کہ کوشش اور مجاہدے کے بغیر ہی تربیت ہو جائے۔ لیکن سوچنے والے یہ بات نہیں سوچتے کہ ایسے مرد کامل تو انبیا علیہم السلام بھی نہ تھے۔ پھر جب ان تمام چیزوں میں ناکامی ہوتی ہے(کیونکہ ایسی امیدیں باندھنے کا نتیجہ ناکامی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے)تو ہم اپنی حالت پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں،اس کے عفووکرم سے امید لگا لیتے ہیں ، تربیت کے سارے عزائم اور منصوبے……جو اکثر خواہشات سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتے……اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔پھر کسی اور طرف بھی نکل جاتے ہیں بلکہ الٹے پاؤں واپس بھی پھر جاتے ہیں۔

            ان مسائل اور کیفیات وواردات کی وجوہ مختلف ہوتی ہیں۔ کہیں تربیت اور تعمیر سیرت کے تصورات ومفہوم کے بارے میں غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔ کہیں ان کے بارے میں غلط توقعات اور ناقابل حصول معیارات ہوتے ہیں۔کہیں صحیح طریقوں کا علم نہیں ہوتا۔ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کہاں سے شروع کریں اور کیسے آگے بڑھیں۔کہیں کمزوریوں اور برائیوں کے سر چشموں سے غفلت ہوتی ہے۔ کہیں شدت اور زیادتی ہوتی ہے۔ کہیں گمراہ کن محرکات کا نل کھلا رہتا ہے، اور ہم فرش خشک کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

            اس طرح ہمیں بار بار ایسا لگنے لگتا ہے کہ تربیت سے زیادہ دشوار اور مشکل کوئی دوسرا کام ہے ہی نہیں،بلکہ شاید تربیت کرنا ہمارے بس میں ہی نہیں۔

            اپنی تربیت کیسے کریں؟میں نے اسی انتہائی اہم اور پریشان کن سوال کا جواب اس تحریر میں دینے کی کوشش کی ہے۔ میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ جو کام انتہائی دشوار اور ناممکن سا لگتا ہے ، اس کی یہ حقیقت کھل جائے کہ وہ بڑا آسان کام ہے اور اسے بڑا آسان ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور جو کام ہم محض خواہش اور تمنا سے کرنا چاہتے ہیں، اس کے بارے میں یہ یقین بھی حاصل ہو جائے کہ وہ کام ارادے اور عملی کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ ایسی عملی کوشش جو سادہ بھی ہے، آسان بھی اور بالکل آپ کے بس اور اختیار میں بھی۔

            تربیت، اپنی زندگی کی باگ ڈور اور چارج خود سنبھال کر، خود ہی کرنے سے ہوتی ہے۔ یہ محض کتابیں پڑھنے،درس اور وعظ سننے،کورس اورپروگرام میں شریک ہونے،اور بزرگوں کی صحبتوں میں بیٹھنے سے بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ فطرت کا اصول ہے کہ کوئی دوسرا وہ کام ہرگز نہیں کر سکتاجو آپ کے کرنے کا ہے۔تربیت، اللہ کی توفیق اور رہنمائی کے بغیر تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لیکن اللہ کی یہ توفیق اور دست گیری بھی اپنے کرنے ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ یھدی الیہ من اناب (الرعد۱۳:۲۷)وہ اپنی طرف اسی کو چلاتا ہے جو اس کی طرف رخ کرتا ہے۔ والذین اھتدوازادھم ھدی واتھم تقوھم(محمد۴۷:۱۷)وہ لوگ جو راہ پر آتے ہیں ، انھیں اللہ اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا کرتا ہے۔

            یہ مضمون بھی آپ کو آپ کی ذمہ داری سے فارغ نہیں کرے گا۔ جو کام خود آپ کے کرنے کا ہے ، وہ یہ مضمون نہیں کرے گا۔ اس میں کوئی ‘‘کھل جا سم سم’’ کا نسخہ نہیں ، جو پڑھتے ہی تزکیہ و تربیت کے خزانوں کے دروازے آپ کے لیے کھل جائیں گے۔ اس میں کوئی طلسماتی چھڑی بھی نہیں کہ اس کو ہلاتے ہی آپ کے دل کی دنیا بدل جائے گی،البتہ ہماری کوشش یہ ہو گی کہ تربیت و تزکیے کی اور تعمیر سیرت کی صاف، سیدھی اور آسان شاہراہ آ پ کے سامنے کھل جائے۔ وہ غلط فہمیاں دور ہو جائیں ، جو غلط راہوں پر لے جاتی ہیں ، یا مایوسی میں مبتلا کرتی ہیں۔

            کوئی تحریرزندگی بھر کی جستجو کے پہلو کا احاطہ نہیں کر سکتی، نہ ہر سوال کا جواب اور ہر مشکل کا حل فراہم کر سکتی ہے۔ لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ بنیادی امور پر مشتمل ایک مختصر سا دستورالعمل آپ کے سامنے آجائے ، اور وہ بنیادی خطوط اور کنجیاں بھی آ جائیں جن کی روشنی میں آپ خود، اللہ کی توفیق سے، اپنی راہ بناسکیں،بند دروازے کھول سکیں، سوالات کے جواب اپنے دل سے پوچھ سکیں اور اپنی مشکلات خود حل کر سکیں۔

            وبیداللہ التوفیق،وھوالمستعان۔

(۱)

تربیت کا مفہوم و مقصود

            تربیت،زندگی کے لیے انتہائی اہم اور ناگزیر چیز ہے۔تربیت ہر دل کی آرزو ہے، ہر دل کو محبوب ہے۔ایسا کیوں ہے؟

            زندگی کی ساری تگ ودو محبوب مقاصد کے حصول میں کامیابی کے لیے ہوتی ہے۔ زندگی میں سارا رنگ اور مزا انھی محبوب مقاصد کے حصول کے دم سے ہے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ مقاصد کیا ہیں۔وہ اعلیٰ بھی ہو سکتے ہیں اور ادنیٰ بھی، وسیع بھی ہو سکتے ہیں اور محدود بھی، مادی بھی ہو سکتے ہیں اور روحانی بھی،انفرادی بھی ہو سکتے ہیں اور اجتماعی بھی،اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور برے بھی۔جیسے مقاصد، ویسی تربیت۔

            اس سے بھی بحث نہیں کہ ایک انسان نے جن مقاصد کو محبوب بنایا ہے، اور جن کے لیے وہ کو شاں ہے، وہ اس لائق بھی ہیں یا نہیں کہ ان کو مقصود ومحبوب بنایا جائے۔ آپ کوانسانی فطرت کی یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ جو بھی مقاصد ہوں،جب وہ محبوب ہو جاتے ہیں تو ان کے حصول کی کوشش بھی محبوب ہو جاتی ہے۔ اگر کسی چیز کے مقصد اورمحبوب ہونے کا آپ کو دعوی ہے تواس کی کسوٹی نہ آپ کی زبان سے اعلان ہے، نہ آپ کے قلم سے،بلکہ اس کی کسوٹی تو صرف یہ ہے کہ آپ اس مقصد میں کامیابی کے لیے درکار ذرائع اور وسائل کیسے، کتنے اور کس تن دہی سے جمع کرتے ہیں اور کامیابی کے حصول کے لیے بھر پور جدو جہد، کوشش اور کاوش کرتے ہیں یا نہیں۔

            یہ بات بھی اچھی طرح جان لیں کہ جب مقصد واضح ہو اور واقعی محبوب ہو تو وہ خود ہی اپنے حصول کے لیے راہ نمااور استاد کا کام بھی کرتا ہے، وہ خود ہی منارہ نور اور قطب نما بھی بن جاتا ہے۔ یعنی مقصد ہی بتا دیتا ہے کہ اس کے حصول کے لیے کیا وسائل وذرائع درکار ہیں اور ان کو کس طرح نشوونما دینا ہے۔وہ نشانات راہ بھی متعین کرتا ہے ،راہیں بھی کھولتا ہے،طریقے بھی بتاتا ہے اور سمت بھی صحیح رکھتا ہے۔

            لیکن ایک چیز جس کی آپ کوہر مقصد کے حصول کے لیے ضرورت ہو گی، وہ آپ کی اپنی شخصیت ہے۔ ‘‘شخصیت’’ کا لفظ ہم وسیع معنوں میں استعمال کر رہے ہیں ، آپ کا جسم، عقل، معنوی صلاحتیں،دل،جذبات، کردار، اخلاق،غرض ہر چیز شخصیت میں شامل ہے۔

            اپنی شخصیت کو نشوونما دے کر اس بات کا اہل بنانا کہ وہ اپنا محبوب مقصدحاصل کر لے،اسی کا نام تربیت ہے۔

            مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے جو کچھ بننا ہمارے لیے ضروری ہے، یا جو کچھ ہم بننا چاہیں ،وہ تربیت کے بغیر نہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو محبوب مقصد ہم حاصل کرنا چاہیں وہ ہم اس وقت تک صحیح طور پر یا مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکتے، جب تک اس کے لیے ہم خاطر خواہ تربیت حاصل نہ کر لیں۔

            ایک تربیت وہ ہے جو ہمارے جسمانی وجود کی تربیت ہے، ہمارے جسم کی،جسم میں بخشی ہوئی قوتوں اور صلاحیتوں کی،خصوصاًسوچنے سمجھنے، دیکھنے،سننے(سمع، بصر اور فواد)اور عمل کرنے کی استعداد کی تربیت۔ اگرچہ اس کا بھی ایک حصہ اور ایک درجہ اپنے ارادے اور کوشش سے حاصل ہوتا ہے، مگر ہم خود کریں یا نہ کریں ،چاہیں یا نہ چاہیں، یہ تربیت بڑی حد تک بہ ظاہر خود بخود ہوتی رہتی ہے ، لیکن صرف بہ ظاہر۔کیونکہ در حقیقت یہ ہمارے رب اور مربی کا دست قدرت و رحمت ہے، جو ہماری یہ تربیت کرتا رہتاہے ۔ ہماری پیدائش کا عمل شروع ہوتے ہی یہ تربیت شروع ہو جاتی ہے ، اور عمر بھر جاری رہتی ہے۔یہ تربیت نہ ہو تو ہمارا وجود، و جودمیں ہی نہیں آسکتا ، اوراگر وجود میں آجائے تو ایک بامعنی وجود نہیں بن سکتا۔

            دوسری تربیت وہ ہے، جو ہمارے معنوی وجود کی تربیت ہے۔ ہمارے دل و دماغ کی، ہمارے علم و فکر کی، ہمارے جذبات واحساسات کی، ہمارے اعمال واخلاق کی اور ہمارے کردار اور سیرت کی تربیت ہے۔ اس تربیت کا ایک حصہ ہمیں پیدائشی طور پر ملتا ہے اور ایک حصہ اپنے ماحول سے ملتا ہے لیکن فی الجملہ یہ تربیت ہمارے ارادے اور کو شش سے، اور خود ہمارے کچھ کرنے سے ہوتی ہے۔ مگر غور کریں تو ہمارے ارادے اور کوشش کی حیثیت صرف شرط کی ہے، ورنہ درحقیقت یہاں بھی ہمارا مربی، ہمارا ربــــ ہی ہے جس کی توفیق اور دست گیری کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔آخر،اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں کوئی چیز بھی اس کی مشیت اور تدبیر کے بغیر، خود بخود یا کسی غیراللہ کے کرنے سے کیسے ہو سکتی ہے؟ اس تربیت سے زیادہ اہم اورضروری چیز ہمارے لیے اورکیا ہو سکتی ہے؟

            دنیا و آخرت کی فلاح کو تزکیہ و تربیت پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ فرمایا: قد افلح من تزکیٰ (الاعلی۸۷:۱۴)بے شک فلاح پا گیا جس نے بہ اہتمام تزکیہ کیا۔ قد افلح من زکھا(الشمس۹۱:۹)بے شک فلاح پا گیا جس نے مسلسل تدریج کے ساتھ اپنی شخصیت کا تزکیہ کیا۔ جنت کے سدا بہار باغ، نہریں اور بلند درجات اسی کے لیے ہیں‘‘جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔’’(طہٰ۲۰:۷۶)

تربیت کا مقصود ، جنت

            تربیت کا مقصود کیا ہو ، پہلے ہی قدم پر یہ فیصلہ کرنا اس لیے اہم اورضروری ہے کہ جیسا مقصد ہو گا ویسا ہی اپنی شخصیت کوبنانا ہوگا اور اسی کے مطابق طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔ اگر کسی کا مقصد حصول علم ہے ، تو کامیابی کے لیے وہ درس گاہوں میں جائے گا ، اہل علم سے علم حاصل کرے گااور کتاب و قلم سے رشتہ جوڑے گا۔ اگر کسی کا مقصد روحانی ترقی ہے، تو وہ کامیابی کے لیے خانقاہوں اور مشائخ کا رخ کرے گا، مجاہدہ و ریاضت کرے گا، ذکرو مراقبے سے شغل رکھے گا۔ اگر اسے جنگ لڑکر جیتنا ہے، تو وہ کتاب و قلم اور ذکر و نفس کشی چھوڑ کر اسلحہ کا استعمال سیکھے گا اور قوت فراہم کرے گا۔

            ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے محبوب مقصد، موت کے بعد ہمیشہ کی زندگی میں جنت اور اللہ کی رضا و خوشنودی کا ـحصول ہو نا چاہیے۔ جو یہ کہتے ہیں کہ ‘‘ ہمیں صرف اللہ کی رضا چاہیے، ہمیں جنت سے کوئی سروکار نہیں’’ وہ لوگ رضائے الٰہی کے مفہوم سے واقف نہیں۔ دیکھیں، ایک جگہ کہا گیا ہے کہ ‘‘ وہ لوگ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے نفس کو بیچ دیتے ہیں۔’’ (البقرہ ۲: ۲۰۷) ،اور دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ ‘‘ اللہ نے مومنین سے ان کے جان و مال خرید لیے ہیں ، اس عوض میں کہ ان کو جنت ملے گی۔’’(التوبہ۹:۱۱۱)جنت ہی اصل میں اللہ کی رضا کی جگہ اور مظہر ہے ۔

یک سوئی کا فیصلہ

            تربیت کی راہ میں پہلا قدم یہی ہے کہ آپ جنت کے بارے میں یکسو ہو جائیں ، اور فیصلہ کر لیں کہ یہی مقصود زندگی ہے اور اسی کے حصول میں کامیابی مطلوب ہے۔ ساری تربیت کا مقصود اسی کامیابی کوحاصل کرنے کے لائق بننا ہے۔

            یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بات بہت اہم ہے۔ یہ زندگی بھر کا فیصلہ ہے۔ اسے ایک دفعہ سوچ سمجھ کر کرنا ضروری ہے اور بعد میں بار بار دہرانا بھی ضروری ہے ۔ دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے سے آپ ہمیشہ ڈگمگاتے رہیں گے۔ ساحل ہاتھ نہ آئے گا۔ بد قسمتی سے آج ہمارے تربیت کے اکثر مسائل اس دو غلے پن کی وجہ سے ہیں ۔ ایک دفعہ جست لگا کر جنت کی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ ذہنی،قلبی اور نفسیاتی طور پر مکمل یکسوئی کے ساتھ، عملاًپہلا قدم راہ پر رکھ دیں، پھر دیکھیں کیا کیا نہیں ہو سکتا۔

            عادات و اعمال کی اصلاح و تعمیر زندگی بھر کا کام ہے، جو بتدریج ہوتا رہے گا۔ لیکن کسی چیز کے بارے میں یکسو ہوجانے کا فیصلہ ناگزیر ہے۔ اس لیے کہ اسی سے آپ کی تربیت کے نقوش و خطوط، طریقے اور تدابیر کا تعین ہو گا۔ یہی فیصلہ آپ کے لیے کسوٹی کا کام کرے گا۔ کیا بات کریں، کیا نہ کریں، کس طرح کریں، کیا کام کریں، کیا نہ کریں، کیا صفات پید ا کریں، کیا نکالنے کی کوشش کریں وغیرہ۔ یہ فیصلہ اس طرح کریں کہ وہ کیا کیا چیز یں ہیں جوجنت کے قریب لے جائیں گی اور وہ کیاکیا چیزیں ہیں جو اس سے دور کر دیں گی۔

             یہ بھی اچھی طرح جان لیں کہ تربیت بھی خود مقصد نہیں، نیک سیرت بھی خود مقصد نہیں، حسن اخلاق بھی خود مقصد نہیں، دعوت و جہاد بھی خود مقصد نہیں، غلبہ اسلام اور اقامت دین بھی خود مقصد نہیں۔ ہر چیز جنت کے حصول کا ذریعہ ہے،جس حد تک وہ صالح ہوگی، خالص ہوگی ، آخرت میں باقی رہ جائے گی ورنہ ان میں سے بھی ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔

            اگرجنت مقصد ہو گی تو پھر آپ کبھی مایوس نہ ہو ں گے ۔ کوئی آپ کی انا اور نفس کو ٹھیس پہنچائے، برسوں کام کر کے بھی دین کی راہ میں پیش رفت نصیب نہ ہو ، تو بھی آپ اسی عزم اور حوصلے کے ساتھ چلتے رہیں گے۔ اس لیے کہ آپ ان میں سے کسی کی طرف نہیں دوڑ رہے تھے، بلکہ جنت کی طرف دوڑ رہے تھے۔جنت مقصد ہو گا توآپ کو نہ خود اپنے اندر کمال کی طلب ہو گی، نہ دوسروں میں دیکھنے کی اور نہ دوسروں کے نقائص کی وجہ سے آپ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر اپنی جنت کی منزل کھوٹی کرنا چاہیں گے۔ اس لیے کہ مکمل کمال صرف اللہ کو حا صل ہے، اور آپ کا مطلوبہ کمال فرشتوں کو حا صل ہے، جو گناہ کر ہی نہیں سکتے۔ جہاں آپ کو اپنے کمال میں زوال یا نقص نظر آئے، وہیں اللہ کی پناہ پکڑیں، استغفار کریں اوردوبارہ سے مغفرت و جنت کی طرف چلنا شروع کر دیں۔

جامعیت

            جنت اتنا جامع مقصد ہے کہ ہر نوع کی تربیت خو د بخود اس میں شامل ہوجائے گی۔

            کیا دیانت داری جنت میں نہیں لے جائے گی؟ پھر کیا اپنے فرائض کو دیانت داری اور بہ حسن وکمال انجام دینا جنت میں نہیں لے جائے گا؟پھر کیا اس مقصد کے لیے حاصل کردہ تربیت بھی جنت میں داخل ہونے کے لیے تربیت میں شامل نہ ہو گی؟ کیا زراعت و تجارت کر کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنا جنت سے قریب نہیں کرے گا؟کیا ان کاموں کو دیانت اور حسن وخوبی سے انجام دینے پر جنت نہیں ملے گی؟ پھر ان کے لیے تربیت جنت کے لیے تربیت کے دائرہ سے باہر کیوں ہو۔کیا لا یعنی چیزوں کو ترک کر دینا اسلام کا حسن نہیں ؟ کیا وقت کے صحیح استعمال کی تربیت جنت میں جانے کے لیے ضروری نہیں؟کیا نماز کا وقت پر پڑھنا جنت میں لے جانے میں مدد نہیں کرے گا؟ پھر کیا وعدوں کی پابندی ان اعلیٰ نیکیوں میں شامل نہیں جن پر وضاحت سے جنت کا وعدہ ہے۔ غرض، جس پہلو سے غور کریں، ہر وہ تربیت،جو نا جائز مقاصد کے لیے نہ ہو اور جنت کی نیت سے ہو، جنت میں جانے ہی کی تربیت ہے۔ یہ مقصد انتہائی جامع مقصد ہے۔

پہلا قدم

            تربیت کی راہ پر پہلا قدم یہی ہے کہ آپ جنت اور صرف جنت کو، اپنی زندگی کا محبوب ومطلوب بنا لیں۔ چلیں تو اس کی طرف چلیں اوردوڑیں تو اسی کی طرف دوڑیں۔آپ کا دل اس فیصلے پر اچھی طرح مطمئن ہو۔آپ کی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ یہ فیصلہ رہے ، آپ اسے بار بار یاد بھی کرتے رہیں، اور آپ کی زبان پر بھی اس کا چرچارہے۔

٭٭٭

(۲)

تربیت آسان ہے،اور آپ کے بس میں ہے

            جنت کی خواہش کرنا تو آسان لگتا ہے، مگر اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی تربیت کرنا انتہائی دشوار کام لگتا ہے، بلکہ بعض اوقات ناممکن سا بھی لگتا ہے۔حالانکہ یہ بالکل آسا ن ہے ۔

            جب آپ تربیت کے راستے پر پہلا قدم اٹھالیں، اور سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کر لیں کہ اللہ کی رضا اور جنت کا حصول ہی زندگی میں سب سے بڑھ کر محبوب ومقصود ہونا چاہیے……تو سب سے پہلے یہی بات جاننا، اور اسی پر یقین رکھنا ضروری ہے کہ تربیت کا راستہ آسان ہے، اور جنت کا حاصل کرنا بالکل ہر انسان کے بس میں ہے۔آسان ہونے اور بس میں ہونے سے ہماری مراد یہ نہیں کہ اپنی تربیت کے لیے محنت اور ریاضت نہیں کرنا ہو گی یا یہ کہ اس راہ میں تکلیفیں پیش نہیں آئیں گی، ناگوار چیزیں برداشت نہیں کرنا پڑیں گی، مشکل اور دشوار مراحل سے نہیں گزرنا ہو گا۔ نہیں، ان میں سے ہر چیز پیش آسکتی ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ ہر ناگوار اور تکلیف دہ چیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمت و قوت، اور ہر مشکل سے نکلنے کے لیے راستہ بھی موجود ہے، اور دست گیری کا سامان بھی۔مالک نے ہروہ کام جس کے کرنے کا مطالبہ کیا ہے، وہ انسان کے اختیار اور بس میں بھی کیا ہے۔

آسان کیوں ہونا چاہیے: امتحان کا تقاضا

            ہم نے صرف یہ نہیں کہا کہ تربیت کرنا آسان ہے، بلکہ یہ بھی کہا کہ اسے آسان ہی ہونا چاہیے۔ اس بظاہر تعجب خیز بات کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ آسان ہونا اس مقصد کا ناگزیر تقاضا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت و رحمت اور عدل کا بھی ناگزیر تقاضا ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر کس مقصد کے لیے یہ زندگی بخشی ہے؟ اس امتحان کے لیے کہ ہم حسن عمل کی روش اختیار کرتے ہیں، یا بد عملی کی۔شکر کی راہ چلتے ہیں یا ناشکری کی۔ اطاعت کرتے ہیں یا سر کشی و طغیانی۔ صرف اللہ کی بندگی کرتے ہیں یا اس کے علاوہ دوسرے خدا بنا لیتے ہیں۔ بات کسی اسلوب سے بھی کہہ لیں، مطلب ایک ہے، کہ اللہ کو ہمارا امتحان مقصود ہے:

            جب امتحان ہے، تو پھراختیار اور آزادی عمل بھی ہونی چاہیے۔ یہ اختیار دینا ضروری تھا۔ مجبور و مقہور کا امتحان ایک بے معنی کام ہوتااور اللہ تعالیٰ کی رحمت اورعدل سے بعید تھا کہ وہ ایسا کرتے۔ عمل کے امتحان میں بھی ڈالتے، عذاب وثواب کو بھی اس امتحان کے نتیجے پر منحصر کرتے، لیکن عمل کرنے کا اختیار اور آزادی نہ بخشتے ۔ چاند، سورج، ستارے اور فرشتے، بال برابراللہ تعالیٰ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے……کر ہی نہیں سکتے اس لیے نہ ان کا حساب ہے، نہ ان کے لیے جنت میں داخل ہونے کے انعام کا امکان۔

            کیونکہ جنت کا حصول تربیت پر موقوف ہے، اور جنت ہی مقصود زندگی ہے، اس لیے اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا ہوا کہ جنت کی راہ، تربیت کا راستہ، آسان ہو اور ہر شخص کو دستیاب ہو۔ اس کی ربوبیت ورحمت کے اس قانون کا جلوہ تم زندگی میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہو۔

            جسم کی بقا اور تربیت کے لیے ہوا ناگزیر ہے، ہم چند لمحے بھی ہوا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہوا اس طرح عام ہے کہ ہر جگہ موجود ہے، ہر شخص کو دستیاب ہے، اور بلا کسی کوشش کے دستیاب ہے۔پانی بھی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، لیکن ایک درجہ کم۔ وہ بھی ہر جگہ پہنچایا جاتا ہے،بہ آسانی دستیاب ہوتا ہے ، لیکن ہوا کی طرح عام نہیں ۔ تو جس تربیت پر عارضی نہیں ابدی زندگی میں بقا و فلاح کا انحصار ہو، کیا وہ ہوا اور پانی کے مثل، اپنی نوعیت کے لحاظ سے، آسانی سے اور عام طور پر دستیاب نہ ہو گی؟

            امتحان ہر شخص کا مقصود ہے، جنت کی منزل ہر شخص کے سامنے رکھی گئی ہے۔ پھر کیا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عدل کے مطابق ہوتا کہ امتحان میں بھی ڈالتا، دوڑ میں شریک بھی کرتا، سامنے جنت جیسا انعام اور ہدف بھی رکھ دیتا، مگر پھر جنت کی راہ پر دوڑنا اتنا دشوار اور مشکل بنا دیتا کہ ہر شخص کے لیے دوڑنا ممکن نہ ہوتا۔ لوگ ہمت ہار دیتے اور سمجھ لیتے کہ یہ دشوار بلکہ ناممکن کام ہے، اس پر کیسے یقین کیا جاسکتا ہے!

             جنت کے راستے کو اللہ نے الیسری کا نام دیا ہے:

            فاما من اعطی واتقی۔ وصدق بالحسنی۔ فسنیسرہ للیسری(اللیل۹۲:۵۔۷)

            جس نے (اللہ کی راہ میں)مال دیا، اور(اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا، اور بھلائی کو سچ مانا،اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔اور یہ بھی فرمایاہے:

            یرید اللہ بکم الیسرولا یرید بکم العسر۔(البقرہ۲:۱۸۵)

            اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔اور یہ بھی کہ

            یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا۔(النساء۴:۲۸)

            اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

            اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف اعلان فرمایا کہ الدین یسر، دین کا راستہ ، جنت اور تربیت کا راستہ، آسان راستہ ہے۔ بڑی شدت اور اہتمام سے ، اپنے ساتھیوں کو جنھیں دنیا بھر کو جنت اور مغفرت کے راستے پر چلنے کی دعوت دینا تھی، آنحضور ﷺ نے تاکید فرمائی ہے، اور بار بار فرمائی ہے کہ

            یسروا ولا تعسروا،بشروا ولا تنفروا۔

            دین کو آسان اور سہل بناؤ ، تنگ اور مشکل نہیں اور لوگوں کو بشارت دے کر خوش کرو، تنگی پیدا کر کے متنفر نہ کرو۔

            چنانچہ، ہمیں یقین رکھنا چاہیے اور یہ بشارت قبول کرنی چاہیے، کہ ہم جس امتحان میں ڈالے گئے ہیں، اس کا نا گزیر تقاضا یہی ہے کہ تربیت اور پھر اس کے نتیجے میں جنت میں پہنچنے کی راہ آسان ہو۔

رحمت وعدل الٰہی کا تقاضا

            اللہ تعالی کی رحمت و عدل سے جہاں یہ بات بعید تھی، کہ وہ ہم کو جنت کی دعوت دیتا……واللہ یدعوا الی الجنۃ والمغفرۃباذنہ(البقرہ۲:۲۲۱)اور ہم سے جنت کی طرف دوڑ لگانے کا مطالبہ بھی کرتا……

            وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ( آل عمران۳:۱۳۳)دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے۔اور پھر اس راہ کو اتنا دشوار گزار بنا دیتا کہ ہم چل ہی نہ سکتے، وہاں یہ بات اور بعید تر تھی کہ وہ ہمیں امتحان میں ڈالتا ، اور اس لیے اور اس طرح ڈالتا کہ ہم ناکام ہو جائیں۔تربیت کا کام شروع کریں تو اسی یقین کامل اور بھر پور اعتماد کے ساتھ شروع کریں، کہ راستہ آسان ہے،اللہ نے ہمیں ناکام ہونے کے لیے اس امتحان میں ہرگز نہیں ڈالا ہے، نہ وہ ہم کو ناکام ہوتے دیکھنا چاہتا ہے، نہ ہمیں عذاب دے کر اسے کچھ ملے گا۔

آسانی کے پہلو: فطرت انسانی سے مطابقت

            آسانی کے پہلو بے شمار ہیں۔ ہم تین پہلوؤں کی طرف توجہ دلائیں گے جن کو یاد رکھنا ضروری ہے۔

            ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری فطرت ایسی بنائی ہے، کہ ہم کو نیکی محبوب اور مطلوب ہے،وہ ہمارے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے، اورہمارے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ انسان کتنا ہی برا اور بدکار ہو، وہ پھر بھی سچائی، ہمدردی، حسن اخلاق،عدل،دیانت،امانت اور وفائے عہد جیسی چیزوں کی تعریف کرے گا۔ ہر انسان بے گناہ قتل ، ظلم وزیادتی،بد زبانی، حسد جیسی چیزوں کو ناپسند کرے گا۔

            جب ہم نیکی کرتے ہیں تو ہمارا دل خوش ہوتا ہے اور ہمیں اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ جب ہم برائی کرتے ہیں توہمارے دل میں خلش ہوتی ہے، اس کو زنگ لگ جاتا ہے۔

            چنانچہ نیکی اور حسن عمل کی راہ تو سیدھی اور آسان ہے، مگروہ اس لیے مشکل بن جاتی ہے کہ ہم خود اپنے کو ٹیڑھا میڑھا بنا لیتے ہیں۔ ایک گول سوراخ میں اگر ٹیڑھی چیز اندر نہیں جا سکتی تو قصور سوراخ کا نہیں۔ اگر چٹان پر فصل نہیں لہلہاتی تو قصور بارش کا نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے قلب و فطرت کو سلیم بنا لیں تو الیسری پر چلنا ہمارے لیے آسان ہو گا۔ اسی لیے قرآن مجید نے بڑے بلیغ اور معنی خیز انداز میں یہ فرمایا فسنیسرہ للیسری(اللیل۹۲:۷)، ہم انسان کو آسان کر دیتے ہیں، الیسری پر چلنے کے لیے ، (لفظی ترجمہ یہی ہے)، یہ نہیں کہ ہم الیسری کو آسان کر دیتے ہیں ، انسان کے لیے’’۔ قلب کو سلیم بنانے کا نسخہ بھی بڑا آسان ہے، جو ہم اپنے مقام پر بتائیں گے۔

دوسری آسانی: ساری زندگی تربیت گاہ ہے

            آسانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ساری زندگی اور ساری کائنات کو تربیت گاہ بنا دیا ہے۔ چند تربیتی امور لازم ضرور کیے گئے ہیں، مثلاً نماز،زکوٰۃ، روزہ اور حج ……لیکن دراصل زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ ، ہر حادثہ، دل پر گزرنے والی ہر واردات، ہر کیفیت، ہر نعمت،ہر مصیبت، ہر نیکی ، ہر بدی،آسمان و زمین اور ان کے اندر ہر مخلوق جس سے انسان کو سابقہ پیش آئے، اس کے لیے مربی بنا دی گئی ہے، بشرطیکہ وہ اس مربی کو پہچانتا ہو اور اس سے تربیت حاصل کرنے کے لیے آمادہ اور مستعد ہو۔جو کتاب وحی، کتاب فطرت اور کتاب زندگی پڑھتا ہو، اور ان سے تربیت حاصل کرتا ہو، وہ فی الواقع پھر کسی تربیتی کورس کا محتاج نہیں رہتا۔         

            نیکی کا دائرہ وسیع تر ہے: روزی کمانا بھی نیکی ہے، اپنے اوپر خرچ کرنا بھی نیکی ہے،اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا بھی نیکی ہے ، اپنے کاروبار کے فروغ پر خرچ کرنا بھی نیکی ہے، پودا لگانا بھی نیکی ہے، اس کا پھل آپ خود کھائیں ، پرندے اور جانور کھائیں، چوری ہو جائے، وہ بھی آپ کے حساب میں نیکی ہے، میاں بیوی کا تعلق بھی نیکی ہے۔ ہر نیکی مربی بن سکتی ہے۔

            گناہ سب سے بڑھ کر مایوسی کا سبب بنتا ہے، لیکن ہر گناہ بڑا موثر مربی بھی بن سکتا ہے۔ آپ یہ احساس پیدا کریں کہ گناہ ہوا، آنکھوں کو بہنے دیں، دل کو ندامت اور شرمندگی سے بھر لیں، یقین رکھیں کہ اب اللہ کے سوا کوئی اس گناہ کے نتائج بد سے نہیں بچا سکتا، اللہ کے آگے ہاتھ پھیلا دیں، سر جھکا دیں، آنسو بہائیں…… آپ دیکھیں گے کہ کتنی تربیت کا سامان اس گناہ میں ہے۔

            میں گناہ کی ترغیب نہیں دے رہا، گناہ سے نفرت اور اجتناب کی ہر ممکن کوشش ضروری ہے، لیکن یہ بھی حکمت تخـلیق ہے کہ انسان کو گناہ سے مفر نہیں ۔ دل میں گناہ کی خواہش اٹھے اور آپ خدا کے خوف سے رک جائیں، یہ بہت بڑی نیکی ہے: واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی۔ فان الجنۃ ھی الماوی(النازعت۷۹:۴۰۔۱)

            اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔

            یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔ہر نعمت، تربیت کا ذریعہ ہے۔ وہ نعمتیں بھی جو عام ہیں۔ مثلاً ہر سانس ، کھانے کا ہر لقمہ ، پانی کا ہر گھونٹ، اور وہ بھی جو آپ کے لیے خاص ہیں۔ یہ نعمتیں عطا کرنے والے کو یاد کریں، اس کے شکر سے دل کو بھر لیں ، اس کو اپنے علم اور ہاتھ کا کرشمہ نہ سمجھیں، نہ کسی مخلوق کا عطیہ جانیں۔ دل وجان سے الحمد اللہ کہیں، پھر دیکھیں کہ کتنے اخلاقی و روحانی امراض کا علاج چٹکی بجانے میں ہو جاتا ہے‘‘شکر کریں گے تو اللہ اور دے گا……اور دے گا۔’’ اگر یہ شکر نیکی کی توفیق کی نعمت پر ہو، تو خود ہی سوچیں کہ کتنی نیکیاں اور ملیں گی اور تربیت کتنی آسان اور تیزہو گی۔

            یہی معاملہ مصیبت کا ہے۔ہر مصیبت تربیت کا ذریعہ ہے۔ پھر یاد کریں کہ یہ کس کی طرف سے ہے۔ اس کی طرف سے جس کے اذن کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وہ جورحمن اوررحیم ہے، ہمارابد خواہ نہیں، خیر خواہ ہے۔ پھر صبرکریں۔ صبر تو ساری تربیت کی شاہ کلید ہے۔ یہ مصیبتیں نہ پڑیں، تو یہ عظیم نعمت عظمیٰ کیوں کر حاصل ہو۔

تیسری آسانی: اختیار اور بس میں ہے

            آسانی کے تیسرے پہلو کو یوں دیکھو، کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عدل سے ، یہ بات بعید ہے کہ وہ ہمیں ایسا حکم دیں جس کو بجا لانے کی ہم میں سکت نہ ہو، یا ہمیں ایسے امتحان و آزمائش میں ڈالیں جس میں پورا اترنے کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ یہ امتحان کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ اس سبق کا امتحان کیسے ہو سکتا ہے جو پڑھایا ہی نہ گیا ہو، اس ناکامی پر مواخذہ یاسزا کیسے ہو سکتی ہے جو ایسے کام میں ہو، جو اختیار اور بس سے باہر ہو۔

            لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا، لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت۔ (البقرہ ۲:۲۸۶)

            اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔

            یہ اصول متعدد مقامات پر واضح کیاگیا ہے۔ بھول چوک کے گناہ معاف ہیں، کہ وہ اختیار سے باہر ہیں۔ دل میں آنے والے تمام وساوس اور گناہ کی تمام خواہشات معاف ہیں،کہ ان پر اختیار نہیں۔ بلکہ اگر گناہ کی خواہش پیدا ہوئی ، اور پھر آدمی اسے کرنے سے رک گیا، تو نیکی کے اجر کی بشارت ہے۔ دل کی کیفیات اور ان کے اتار چڑھاؤ پر بھی کوئی مواخذہ نہیں، کہ وہ بھی بس میں نہیں ۔ قیام لیل کی فرضیت دائرہ اسلام وسیع ہوتے ہی اس لیے ختم کر دی گئی کہ ‘‘ اللہ نے جانا کہ تم اس کو پورا نہ کر سکو گے، سو تم پر معافی بھیج دی۔ اب پڑھو جتنا قرآن آسانی سے ہو سکے۔’’

            چنانچہ جن فرائض کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے ، یا جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے، ان کو بجا لانا یا ان سے رک جانا بالکل ہمارے بس میں ہے ، یہ اختیار سے باہر نہیں ہو سکتا۔ عبادات اور جہاد ہوں،کھانے پینے کی اشیا ہوں ، اموال ہوں، یا اخلاق و معاملات کے دائرے میں افعال ہوں، مثلاً ایفائے عہد، عدل، احسان، صلہ رحمی وغیرہ یا حسد، تجسس، بد ظنی، غیبت وغیرہ۔ اگر آپ اطاعت نہیں کر پاتے ، یا آپ کے نفس نے مجاہدہ، ریاضت اور محنت سے بچنے کی خاطر کوئی عذر لنگ تراش رکھا ہے، یا آپ واقعی مجبور ہیں۔ ان تمام معاملات میں نہ کسی مفتی کا فتویٰ کام آئے گا، نہ کسی انسان کو مطمئن کر دینے سے دامن چھوٹ جائے گا۔

            سوچنا یہی چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو، جو عالم الغیب والشہادۃ ہے، ہم اپنے عذر سے مطمئن کر سکیں گے۔ اگر مجبوری حقیقی ہو گی، تو وہ اللہ کے ہاں قبول ہو گی۔ نہ مواخذہ ہو گا، نہ تربیت میں نقص آئے گا۔ اللہ کے نزدیک مقبول نہ ہو توکوئی فتویٰ اور کوئی انسان آپ کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔   چنانچہ تربیت کی راہ پر اس یقین کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کہ کوئی ایسی چیز جنت کی راہ کھوٹی نہیں کر سکتی، اور نہ ہی اس کو کرنا چاہیے ، یا کوئی ایسی چیز جنت حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی اسے ہونا چاہیے ، جو ہماری استطاعت اور اختیار سے باہر ہو۔ یہ یقین تربیت کی راہ کی ان بے شمار دشواریوں کو آسان کر دے گا، جن کا شکوہ اس راہ کے راہی اور سالک کثرت کے ساتھ کرتے رہتے ہیں۔

اختیاری اور غیر اختیاری

            اس معاملے میں اصل اصول یہ ہے کہ معاملہ اختیاری ہے یا غیر اختیاری۔

            ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہم فلاں چیز پر قابو نہیں پا سکتے، فلاں حکم نہیں بجا لا سکتے،فلاں ناجائز چیز کو ترک نہیں کر سکتے۔ ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسا کرنا ہمارے اختیار میں ہے یا نہیں ۔ اگر یہ اللہ کا حکم ہے، تو یقینا ہمارے اختیار اور بس میں ہے۔اس لیے کہ ،جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں ، اللہ نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو ہماری استطاعت میں نہ ہو۔ احکام الٰہی کے علاوہ، جو معاملہ اختیار سے باہر ہو ، اس کی بے جا فکر نہ کریں ، اس کی وجہ سے کسی فتنے میں نہ پڑیں، اس کی وجہ سے جو کچھ نیکی کر رہے ہیں، اسے بھی نہ چھوڑ بیٹھیں،اور نہ اپنی راہ کھوٹی کریں۔

راہزن فتنہ اور مغالطے

            تربیت کے راستے کا سب سے بڑا فتنہ ،مایوسی اور ترک سعی و عمل کا فتنہ ہے۔

            دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ اور رسولؐ کے بارے میں بھی ہوتے ہیں، ان کی تعلیمات کے بارے میں بھی۔ گناہوں کی خواہشات بھی جوش مارتی ہیں۔ حالات سے اور انسانوں سے مایوسی کا وسوسہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ مگر دل میں کیا کیا خیالات آتے ہیں، یہ ہمارے اختیار میں نہیں۔ ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔ ان سے جنت کا نقصان نہیں ہوتا۔ پھر ہم کیوں پریشان ہوں اور کیوں ہمت ہارنے لگیں۔ بر ے خیالات آنے کے راستے بند کرنا اور اچھے خیالات کو دل میں لانے کی کوشش کرنا، بس اتنا ہی ہمارا اختیار ہے اور اتنا ہی کرنا کافی ہے۔

            ہم بار بار عزم کرتے ہیں اور وہ عزم بار بار ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسا عزم جو کبھی نہ ٹوٹے، ایسا ارادہ جو کبھی شکستہ نہ ہو، یہ بھی ہمارے اختیار میں نہیں دیا گیا۔ بلکہ عزم وارادے کی نا پختگی، امتحان کی خاطر ، حکمت الٰہی نے طبیعت میں ودیعت کی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی نہ مواخذہ ہے ، نہ جنت کا نقصان۔

            سب سے مشکل معاملہ گناہوں کا ہے،جن کا تعلق عزم کی پختگی سے ہے۔ گناہ ہوتے ہیں اور بار بار ہوتے ہیں۔ بار بار توبہ کرنے کے بعد بھی بار بار ہوتے ہیں۔ جانتے بوجھتے بھی ہوتے ہیں۔ اللہ کا حکم معلوم ہوتا ہے، اور پھر بھی خواہش نفس کے آگے سر جھکا لیتے ہیں گناہوں سے بھی حوصلہ ہارنے اور مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بھی انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ گناہ بالکل نہ کرے، یا بار بار نہ کرے، یا توبہ نہ ٹوٹے۔ یہ تو فرشتوں اور انبیا علیہم السلام کا مقام ہے۔

            گناہ کا اختیار اس آزادی کا ناگزیر تقاضا ہے جو اللہ نے جنت حاصل کرنے کے لیے دی ہے۔ اگر ہم گناہوں کے اس سلسلے کو بند کر سکتے تو اللہ دوسری مخلوق پیدا کرتا،جو گناہ کرتی اور اس سے مغفرت کی طلب گار ہوتی۔ اسی لیے ہر جگہ جنت کی دعوت کے ساتھ اس سے پہلے مغفرت کی دعوت دی گئی ہے۔

            دل میں غلط کیفیات بھی مایوس کرتی ہیں۔مطلوب کیفیات حاصل نہ ہو سکیں تو بھی مایوسی ہونے لگتی ہے۔ کیفیات میں اتار چڑھاؤ بھی پریشان کرتا ہے۔ لیکن دل کی کیفیات پر بھی ہمیں اختیار نہیں بخشا گیا ہے، صرف عمل پر بخشا گیا ہے۔ محبت ، خوف، خشوع وغیرہ محبوب ہونے چاہئیں، ان کے حصول کے لیے وہ تدابیر بھی اختیار کرنی چاہئیں جن کو اختیار کرنا بس میں ہے۔ لیکن یہ کیفیات کس قدر پیدا ہوتی ہیں ، اور کتنی پائیدار ہوتی ہیں، اس پر کوئی حساب نہ ہو گا، نہ اس کی وجہ سے جنت کا نقصان۔ پھر مایوسی و پریشانی کیوں؟

            کمال کی طلب ہوتی ہے، لیکن کمال بھی اختیار میں نہیں، بلکہ یہ مقام انسانی کے منافی ہو گا کہ کمال حاصل ہوجائے۔ اس بے سود تلاش کو بھی ترک کر دیں۔ دوسروں میں نقائص دیکھ کر بھی ہم مایوس ہونے لگتے ہیں،اور خود اپنی تربیت سے دست بردار ہو جاتے ہیں، اس سے بڑھ کر نادانی کیا ہو گی۔دوسروں کو نیک بنانے کااختیار بھی ہمیں نہیں دیا گیا ہے نہ کسی دوسرے کا بوجھ ہم اٹھائیں گے۔ ہم اپنے کام سے کام رکھیں، صراط مستقیم پر چلتے رہیں۔اپنی اور دوسروں کر اصلاح کی کوشش کرتے رہیں۔

اچھی طرح یاد رکھیں

            کہ جنت کو مقصود بنا کر اپنی تربیت کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد ، پہلی اہم بات یہی ہے کہ تربیت کا راستہ، دین اور ہدایت کا راستہ، جنت کا راستہ آسان ہے اور بالکل ہمارے اختیار اور بس میں ہے۔ یہ مشکل اس لیے بن جاتا ہے کہ ہم خود اسے مشکل بنا لیتے ہیں، خود اس کے لیے مشکل بن جاتے ہیں۔ اس بات کو یاد رکھیں گے توحوصلے بلند رہیں گے، اعتماد سے کام کریں گے، امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹے گا، اللہ کی مدد ہمیشہ ہمارے شامل حال ہو گی۔

٭٭٭

(۳)

اپنا ارادہ اور عمل شرط ہے

             یہ بات بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ تربیت صرف اپنے کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔ جو کچھ کرنا ضروری ہے، ہم اس کا ارادہ کریں، اسے کرنے کی کوشش کریں، عمل کریں……اس کے بغیر تربیت کسی طرح ممکن نہیں۔

            ارادہ اور عمل ……اپنے بس میں عمل کی پوری کوشش……یہی تربیت کے لیے پہلی شرط ہے۔صرف یہی چیز اللہ تعالی کو مطلوب ہے، صرف اسی پر انھوں نے اپنے سارے انعام واکرام کا وعدہ کیا ہے۔

            ہم ارادہ نہ کریں،تربیت کے لیے جو کچھ کرنا ہماری ذمہ داری ہے ،اس کے مطابق عمل نہ کریں، تو اس کا کوئی بدل نہیں،اس کی تلافی کسی طرح نہیں ہو سکتی۔ کوئی چیز ہمارے ارادے اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتی ۔ کوئی وہ کام نہیں کر سکتا جس کو کرنے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی ہے۔ کچھ سیکھ کر ہم اس پر عمل نہ کریں، یا سیکھنا ہی نہ چاہیں، تو کوئی تعلیم و تربیت ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔

            کوئی بھی ہماری جگہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتا جو ہمیں پڑھنا ہے۔ وہ روزہ نہیں رکھ سکتا، وہ وعدہ پورا نہیں کر سکتا، مخلوق کی وہ خدمت نہیں کر سکتا ، وہ جہاد نہیں کرسکتا ،جو کرنا ہمارا کام ہے۔ اور اگر کوئی دوسرا وہ عمل کرے جو ہمیں کرنا ہے، اس طرح کہ اس میں ہمارا سرے سے کوئی دخل ہی نہ ہو تو…… اس پر عذاب ثواب کے مستحق ہم کیسے ہو سکتے ہیں۔ کوئی ہمیں مجبور کر کے گناہ کرائے ، اور اس میں ہماری خواہش و ارادے کو دخل نہ ہو ، تو اس کا وبال ہم پر نہیں۔من اکرہ قلبہ مطمئن بالایمان،(اس پر کوئی غضب نہیں)جس پر زبردستی کی گئی ہو ( کہ وہ کفر کرے)جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔ اسی طرح کوئی ہم سے اس طرح نیکی کرالے کہ ہم کرنا نہ چاہتے ہوں،تو اس کا اجر ہمیں کیوں ملنا چاہیے۔واللہ اعلم بالصواب۔پھر کوئی دوسرا ہماری جگہ تربیت کی وہ کوشش کیسے کر سکتا ہے، جس کا کرنا ہمارے ہی لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اگر ہم خود اپنی تربیت کے لیے سعی نہ کریں، تو کسی کی بھی تعلیم و تربیت سے ہمیں کیوں کر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔خارج سے تربیت کی ہر کوشش ایک با رش کی مانند ہے۔ چٹان پر سے وہ بارش بہہ جاتی ہے، ہر تالاب ، ندی، نالہ، دریا اپنے ظرف کے مطابق اس کو حاصل کرتا ہے، ہر زمین اپنی استعداد کے مطابق فصل اگاتی ہے ۔یہ اہم ترین بنیادی اصول اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کردیا ہے:

            لھاما کسبت وعلیھا ما اکتسبت،(البقرہ۲:۲۸۶)

            ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے۔

             صرف خواہش و تمنا سے، کسی کی نظر اور توجہ کی برکت سے، کسی تقریر و درس کی تاثیر سے ، کسی کامل کی صحبت سے، جنت نہیں مل سکتی ، اپنی وہ تربیت بھی نہیں ہو سکتی جس کا انعام جنت ہے……جب تک اپنا ارادہ نہ ہو، اپنی کوشش نہ ہو۔

کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی

            ہم سمجھتے ہیں کہ نہ ہم ارادہ کریں،نہ کوشش کریں، نہ انگلی ہلائیں، اس کے باوجود ہماری تربیت ہو جائے۔ یاد رکھیں، نہیں ہو گی۔ صرف کتابوں کا مطالعہ کر کے،اسٹڈی سرکل میں شرکت کر کے، تربیت ہو جائے گی، نہیں ہو گی ۔ ایک دل گداز درس سن لیں گے، ایک جذبات انگیز تقریر کانوں میں پڑ جائے گی، ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کر لیں گے اور تربیت ہو جائے گی، نہیں ہو گی۔ کسی مرد کامل کی صحبت ، نظر ، توجہ میسر ہو جائے گی، وہ انگلی پکڑ لے گا اور بیڑا پار ہو جائے گا،یہ بھی نہیں ہو گا۔ جب تک ہم خود نہ چاہیں گے، ارادہ نہ کریں گے اور عمل کے راستے پر قدم نہ بڑھائیں گے،کچھ نہیں ملے گا۔ اگر اپنے کیے بغیر یہ سب کچھ ہو سکتا ، تو امتحان اور جزا و سزاکا نظام بے معنی ہوجاتا ۔

            اگر کوئی خود نیک بننے کا ارادہ اور کوشش نہ کرے، تو نبیؐ کی تعلیم،توجہ اور صحبت بھی اسے نیک نہیں بنا سکتی۔ انبیا علیہم السلام کو بھی کوئی اختیار ایسا نہیں دیا گیا جو کسی کے ذاتی اختیار سے بالاتر ہو اور اس پر حاوی ہو سکے:

            انک لا تھدی من احببت۔(القصص۲۸:۵۶)

            اے نبیؐ’تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے۔

            آپؐ کو یہ اختیار نہیں بخشا گیا تھا، نہ ہی یہ ذمہ داری دی گئی تھی، کہ کسی کو ، اس کی مرضی کے خلاف ، زبر دستی ہدایت کے راستے پر چلا دیں۔ لوگ نفاق و کفر لے کر صحبت نبویؐ میں جاکر بیٹھتے تھے، اور اپنی انھی گندگیوں کے ساتھ اسی طرح اٹھ کر چلے آتے تھے۔ وقد دخلوا بالکفر وھم قد خرجوابہ(المائدہ۵:۶۱)حالانکہ کفر لیے ہوئے آئے تھے اور کفر ہی لیے ہوئے واپس گئے۔

شیطان کا زور

            اگر کوئی خود بد نہ بنے، تو شیطان کی صحبت بھی اسے بد نہیں بنا سکتی، اگر چہ شیطان کی صحبت میں ہم ہر وقت رہتے ہیں۔ وہ ہمارے خون کے ساتھ گردش کر تا ہے، ایسی جگہوں سے ہماری تاک میں رہتا ہے جن کا ہم کو پتا ہی نہیں،وہ دائیں بائیں آگے پیچھے سے مسلسل نقب لگاتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ارادے کے خلاف زبردستی ہم سے کوئی عمل بد نہیں کرا سکتا۔ اسے کوئی ایسا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ وہ روز قیامت تو وہ کھڑے ہو کر صاف کہہ دے گا:

            وما کان لی علیکم من سلطن الا ان دعوتکم فاستجبتم لی فلا تلو مونی ولوموا انفسکم۔(ابراھیم،۱۴:۲۲)

            میرا تم پر کوئی زور اور اختیار تو تھا نہیں،میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تم کو دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبیک کہا۔ اب مجھے ملامت نہ کرو،اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔

صرف ارادہ اور سعی ہی مطلوب ہے

            جہاں اس غلط فہمی کی جڑ کاٹ دینا چاہیے کہ ہمارے ارادے اور عمل کے بغیر بھی ہماری تربیت کا کوئی راستہ ہو سکتا ہے، وہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، کہ اللہ تعالیٰ کو نہ عمل میں کمال مطلوب ہے، نہ عمل کی تکمیل مطلوب ہے، نہ عمل میں کامیابی مطلوب ہے……اس لیے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔بلکہ صرف عمل کے لیے اپنی مقدور بھر کوشش اور سعی مطلوب ہے، جو ہمارے اختیار میں ہے۔ ساری کامیابی ، قدر دانی اور اجر و انعام صرف اسی سعی پر عطا کرنے کا وعدہ ہے:

            ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مؤمن فاولئِک کان سعیھم مشکورا۔ (بنی اسرائیل۱۷:۱۹)

            جو آخرت کا خواہش مند ہو، اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شـخص کی کوشش کو پوری قدر دانی سے نوازا جائے گا۔

            یہ آیت، جو قرآن و سنت کی بے شمار تعلیمات پر مشتمل ہے، تربیت کے لیے عمل اور کوشش کے راستے کے بہت سارے فتنوں کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔کبھی یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ میرا عمل معیار مطلوب سے بہت نیچے ہے، اس میں بہت نقائص اور کمزوریاں ہیں ، یہ بھلا کیسے قبول ہو گا،کبھی یہ فکر ہوتی ہے کہ عمل تو ہے لیکن کیفیات نہیں، نماز میں خشوع نہیں،دل میں رقت نہیں، آنکھوں میں نمی نہیں۔ کبھی تشویش ہوتی ہے کہ عمل تو ہے لیکن مطلوب نتائج نظر نہیں آتے، نماز پڑھتے ہیں،لیکن فحشاو منکر نہیں چھوٹتے ،روزہ رکھتے ہیں،مگر تقویٰ حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی یہ مایوسی لگ جاتی ہے کہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی، دعوت دیتے ہیں،کوشش کر رہے ہیں، قربانیاں دے رہے ہیں۔مگر لوگ مانتے نہیں ، دین غالب نہیں ہوتا ، اسلامی ریاست قائم نہیں ہوتی۔ پھر ارادوں کا ضعف ، تربیت کی ساری کو ششوں کے باوجود بے قابو نفس!بار بار مایوسی ہوتی ہے۔

             یہ یاد رہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی…… جن کی فکر پریشان و مایوس کرتی ہے، اور بالآخر عمل ہی ترک کر دینے کے مقام پر پہنچا دیتی ہے……تربیت میں کامیابی کے لیے،جنت میں جانے کے لیے شرط نہیں۔

ارادہ

ارادہ کیا ہے؟

            ارادہ محض خواہش کا نام نہیں۔ یہ غلط فہمی بہت عام ہے ۔ کہا جاتا ہے:‘‘میں تو بہت چاہتا ہوں کہ فجر کے وقت آنکھ کھل جائے اور نمازوقت پر پڑھ لوں۔ مگر آنکھ ہی نہیں کھلتی۔’’ یہ ‘‘چاہنا’’وقت پر اٹھ کر نماز پڑھنے کے ‘‘ارادے’’ کے مترادف نہیں۔ذرا سوچیں:اگر صبح صبح متعین وقت پر ہوائی جہاز پکڑنا ہو، یا کسی بہت با اثر آدمی سے ملا قات کرنا ہو جس سے اہم حاجت اٹکی ہوئی ہو یا نفع عظیم کی امید ہو، پھر بھی کیا آنکھ نہ کھلے گی،یا اس بات کا کامیاب اہتمام نہ کرو گے کہ آنکھ ضرور کھلے۔ یہ ایک کم درجے کے کام کی عام مثال ہے۔ اسی سے دین کے اور تربیت کے لیے دوسرے ضروری کاموں اور مجاہدوں کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

            ارادے میں، مراد کی قدرو قیمت اور ضرورت کا یقین شامل ہوتا ہے، اسے کرنے کی یا حاصل کرنے کی چاہت اور محبت شامل ہوتی ہے، شعوری فیصلہ ہوتا ہے، اور ان سب سے مل کر عزم پیدا ہوتاہے۔ جب قرآن یریدون وجھہ یا من کان یرید حرث الاخرۃ۔ (الشوری۴۲:۲۰)(وہ اللہ کی خوشنودی کا ارادہ کرتے ہیں، چاہتے ہیں یا جو آخرت کی فصل کا ارادہ کرتے ہیں، چاہتے ہیں)کہتا ہے تو وہ ارادے کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کرتا ہے۔

            یہ ارادہ موجود نہ ہو تو تعلیم وتربیت کی بڑی سے بڑی بارش بھی رائیگاں جائے گی۔ یہ موجود ہو، تو تعلیم و تربیت کی معمولی سی پھوار سے بھی لہلہاتی فصل کھڑی ہو جائے گی۔ بلکہ تعلیم و تربیت، وعظ و تلقین اور مطالعہ و درس نہ بھی میسر ہو تو یہ ارادہ خود ہی سب سے زیادہ موثر و کارگر معلم اور مربی ثابت ہو گا۔ یہ صحیح راہیں بھی دکھائے گا، ان راہوں پر قائم رکھے گا، اور غلط راہوں پر جانے سے بھی روکے گا۔

            ارادہ اسی طرح مضبوط اوریک سو ہو سکتا ہے کہ ان چیزوں کی انتہائی قدر و قیمت اور اپنے لیے شدید ضرورت پرکامل یقین ہو جو ارادے کا مقصود ہیں۔ یعنی اللہ اور جنت اور ان کے حصول کے لیے اپنی تربیت ۔ ارادہ اتنا ہی مضبوط اور یک سو ہو گا جتنا یہ یقین مضبوط اور یک سو ہو گا۔ یہ یقین اتنا ہی مضبوط ہو گا جتنا اللہ اور جنت کی محبت اور طلب کا جذبہ مضبوط ہو گا،اور پھر اتنا ہی عزم مضبوط ہو گا۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ اللہ سے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرو۔ اسی لیے قرآن میں جنت کا ذکر تفصیل سے اور بار بار ہوا ہے۔ اور اس طرح ہوا ہے کہ وہ ایک زندہ متحرک حقیقت بن کر آنکھوں کے سامنے موجود رہتی ہو۔

سعی

            ارادہ ہو تو نا گزیر ہے کہ اس کا ظہور عمل میں آئے۔ جس چیز کا ارادہ ہو اس کی طرف قدم خو د بخود اٹھیں گے ۔ اور یہ قدم اٹھانا ہی سعی ہے۔ سعی سے بڑی بڑی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔ ایک شخص سے خواب میں ایک بزرگ نے کہا کہ صبح سب سے پہلے جس چیز پر نگاہ پڑے ، اسے اٹھا کر منہ میں رکھ لینا۔ وہ صبح گھر سے باہر نکلا تو ا س کی نگاہ ایک پہاڑی پر پڑی۔ اس نے ہمت ہار دی۔ پہاڑی کیسے منہ میں رکھی جا سکتی ہے!بزرگ پھر نمو دار ہوئے : چلنا تو شروع کرو۔ اس نے چلنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، پہاڑی چھوٹی ہوتی گئی۔ جب پہاڑی تک پہنچ گیا تو دیکھا کہ وہاں گڑ کی ایک ڈلی تھی۔ اس نے اسے اٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ دین کے ، تربیت کے،جن کاموں کو تم مشکل ، دشوار اور ناممکن سمجھتے ہو، ان سب کا معاملہ ایسی ہی پہاڑیوں کا ہے۔

            یہی سبق اس شخص کے واقعہ سے ملتا ہے ، جو رسول اللہ ؐنے بیان فرمایا، جس نے ۹۹ قتل کیے تھے۔ وہ عابد کے پاس گیا کہ کیا اب توبہ کی کوئی صورت ہے۔ عابد نے انکار کر دیا۔ اس شخص نے عابد کو بھی قتل کردیا۔ پھر ایک عالم کے پاس گیا۔ اس نے کہا ،ہاں تو بہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ توبہ کرو۔لیکن یہ بستی چھوڑ دو،فلاں بستی میں چلے جاؤ جو نیک بستی ہے۔ اس شخص نے توبہ کر کے ، نیک بستی کی طرف چلنا شروع کیا۔ راستے میں اسے موت آگئی۔ اس نے مرتے مرتے اپنا سینہ ہی مطلوب بستی کی طرف آگے بڑھا دیا۔ اب رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا کہ روح کون لے جائے۔ ایک فرشتے نے آ کر فیصلہ دیا کہ فاصلہ ناپ لو، اگر لاش نیک بستی سے قریب ہو تو رحمت کے فرشتے لے جائیں، ورنہ عذاب کے فرشتے۔ اللہ تعالیٰ نے ادھر کی زمین کو حکم دیا کہ پھیل جائے، ادھر کی زمین کو حکم دیا کہ سکڑ جائے۔ اس کے بعد نیک بستی کا فاصلہ ایک بالشت کم نکلا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتے اس کی روح لے گئے۔

         اس کہانی کے اسباق و اسرار پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکن مقصود واضح ہے: نیت صادق ہو، ارادہ مضبوط ہو، اور عمل کے لیے پوری سعی ہو تو دیکھو اللہ کی رحمت کس طرح دست گیری کرتی ہے اور منزل مراد تک پہنچا دیتی ہے۔

حرف آخر

            بس یاد رکھیں، کہ تربیت ہمارے اپنے ارادے اور کوشش سے ہو گی۔ اپنا ارادہ اور کوشش ہو گی تو ہر تربیت مفید ہو گی اور اللہ کی بے پایاں رحمت بھی شامل حال ہو گی۔ ہم خود اپنی تربیت نہ کریں گے تو کوئی بھی مدد نہیں کر سکے گا۔

            چلتے، اور چلتے رہنے کے لیے کمر باندھ لیجیے۔ یہی پہلا قدم ہے، یہی آخری قدم ہے۔          

٭٭٭