امکان

مصنف : عنایت علی خان

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : اگست 2007

 

یوم آزادی کے حوالے سے شاعر کی آرزو 
 
وہ کہتے ہیں تجھے یہ جشن آزادی مبارک ہو 
میں کہتا ہوں کہ آزادی تو اک فصل بہاراں ہے 
وہ گلشن پہ چھاتی ہے 
تو گلشن اک حسیں انگڑائی لے کر جاگ اٹھتا ہے 
عنادل کے ترانوں سے فضا معمور ہوتی ہے 
ہوا میں نغمگی ہوتی ہے غنچے کھلکھلاتے ہیں 
نہالان چمن اک نشہ نشوونما سے جھوم اٹھتے ہیں 
گلوں کی سرخ روئی پر شفق کو رشک آتا ہے 
سنہری تتلیاں بھی والہانہ رقص کرتی ہیں 
زمین فرش زمرد کا نمونہ پیش کرتی ہے 
 تو بے شک ! 
اک بہار جان فزا ہوتی ہے آزادی 
مگر میں دیکھتا ہوں 
میرے گلشن پر 
خزاں موسم کا ڈیرہ ہے 
عجب دلدوز منظر ہے
کہاں کے غنچہ و گل، ہر شجر کی 
بے ثمر بے برگ شاخوں پر 
فقط زاغ و زغن قبضہ جمائے ہیں 
جو دن کو ان کی بے ہنگم صدا دہشت بڑھاتی ہے 
تو شب کو بوم کی وحشت خزا آواز آتی ہے 
 ٭٭٭
 جو مجھ سے کہہ رہے ہیں جشن آزادی مبارک ہو 
میں ان سے پوچھتا ہوں 
کیا یہ آزادی کا منظر ہے ؟ 
کہ آزادی تو اک فصل بہاراں بن کے آتی ہے 
مگر اپنا گلستاں تو خزاں آشنا ہے یکسر 
یہ فصل گل نہیں ہر گز 
یہ آزادی نہیں ہر گز 
کبھی سوچا بھلا 
اس تیرہ بخشی کا سبب کیا ہے ؟ 
سبب کیا ہے ؟ 
سنو! وہ میں بتاتا ہوں 
سنو! ہم نے یہ خطہ اس کے مالک 
یعنی اپنے مہرباں آقا سے 
اس وعدے پہ مانگا تھا 
کہ ہم اس خطہ ارضی پہ اک گلشن سجائیں گے 
جہاں اس کی رحمت سے 
بہاروں کا سماں ہو گا 
جہاں والوں کو اس خطے پہ 
جنت کا گماں ہو گا 
مگر ہم آج اس وعدے کو یکسر بھول بیٹھے 
بلکہ یہ تک بھول بیٹھے ہیں 
کہ مالک نے یہ آزادی 
ہمیں اس شب عطا کی تھی 
کہ جس شب 
مالک ارض وسما کے اپنے لفظوں میں 
ہزاروں سال سے بڑھ کر مبارک ہے 
یہ وہ شب ہے جو بے شک ساعتِ اتمام نعمت ہے 
تو لوگو! 
کیوں نہ ایسا ہو ؟ 
کہ آئندہ 
اسی شب کو منائیں جشن آزادی 
کہ شاید اسی طرح وہ عہد و پیمایاد آجائے 
کہ ہم اس خطہ ارض پہ اک گلشن سجائیں گے 
اسے قرآن کے احکام کا معمل بنائیں گے 
جو ایسا ہو 
تو ممکن ہے 
کہ یہ تجدید پیما کام آ جائے 
جو ہم اپنی روش بدلیں 
تو ہم پر 
خالق ارض و سماکورحم آ جائے 
خزاں موسم بدل جائے 
بہار بے خزاں آئے 
 ٭٭٭