فريد جاويد كی شاعری

مصنف : فريد جاويد

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جنوری 2024

شعر و ادب

فريد جاويد كی شاعری

اسلم ملك

گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے---ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا

اس ضرب المثل شعر کے خالق فرید جاوید کو رخصت ہوئے 46 برس بیت گئے ۔وہ 8 اپریل 1927 کو سہارن پور میں پیدا ہوئے. فرید الدین نام اور جاوید تخلص تھا. جامعہ کراچی سے ایم. اے اردو کیا اور سندھ کے مختلف کالجوں میں لیکچرر رہے. 27 دسمبر 1977 کو کراچی میں وفات پائی۔شمیم احمد نے کہا تھا ’’مجھے اُس شاعر کا پتہ اگر آپ دے سکیں تو میں کم از کم 25 سال اور انتظار کر سکتا ہوں جس کا کل سرمایۂ شاعری 27 غزلیں ہوں اور اس میں اتنے شعر اس سطح کے نکل آئیں‘‘نظیر صدیقی نے لکھا تھا ’’ فرید جاوید اپنے اس شعر کی بدولت زنده رھیں گے اور ان کے باقی اشعار ان کی بدولت زنده رھیں گے ‘‘

فرید جاوید کا کچھ اور کلام

تم ہو شاعر مری جان جیتے رہو---شعر کہتے رہو زہر پیتے رہو

چوم لے میکدے کی رات مجھے---سخت تھا دن کا بوجھ اتار آیا

سکوتِ نیم شبی ہے کہ ڈھل رہی ہے شراب---یہ چاندنی ہے کہ تیرے خیال کا سایہ

میکدے کے سوا ملی ہے کہاں---اور دنیا میں روشنی ہے کہاں

زندگی سے گریز کیا کرتے---زندگی میکدے میں لائی ہے

گمرہی بھی تو ایک منزل ہے---راستے یوں بھی ہو رہے ہیں طے

حسرت و محبت سے دیکھتے رہو جاوید---ہاتھہ آنہیں سکتا حسن ماہ و انجم کا

گھر سے نکلے تھے کہ وہ دیوار و در کافی نہ تھے---اُف یہ ویرانہ کہ اک شوریدہ سر کافی نہیں

وہ ہاتھ کسی اور کی قسمت میں ہیں شاید---آ برگِ حِنا تجھ کو ہی آنکھوں سے لگا لیں

میرے ہی دل کی دھڑکنیں ہوں گی---تم مرے پاس سے کہاں گزرے

زندگی کو بہت عزیز ہوں میں---ڈھونڈ لیتے ہیں حادثات مجھے

تم ہو شاعر مری جان جیتے رہو---شعر کہتے رہو زہر پیتے رہو

غزل کے حسن کا احساس اس کو کیا جاوید---خلوص نرمیٔ گفتار کو جو پا نہ سکے

زندگی برستی ہے دورِ جام چلنے تک---زندگی کے متوالو دورِ جام چلنے دو

رات جاگی ہوئی ہے ہوا مہرباں---پھر یہ لمحے کہاں آج پیتے رہو

مرے رفیق مرے آنسوؤں پر غور نہ کر---چھلک گیا ہے کہ لبریز ہو گیا تھا جام

جام وسبوکا کھیل تھا کیسے سنبھالتا شباب---کوششِ احتیاط سے اور چھلک گئی شراب

نکہتیں، رنگ و نور، نغمہ و جام---اک کہانی ہے اور کتنے نام

جام صہبا کسے نصیب ہوا---ہم ہیں اور تشنگی کا عالم ہے

میں مسکرا تو دیا اُن کی بے نیازی پر---یہ کیا کہ دل پہ لگی چوٹ مسکرانے سے

چھیڑ دیا پھر دل نے راگ---ہم سمجھے تھے بجھ گئی آگ

کیا خبر تھی یہ دن بھی آئیں گے---جی کڑا کر کے مسکرائیں گے

کیا کیا نازک دور الم کے---بیت گئے اور یاد نہ آئے

مجھے خیال اُن دل گرفتہ کلیوں کا---جنھیں نسیمِ سحر چھیڑ دے کھلا نہ سکے

کس کی سمجھ میں آئےگی اہل جنوں کی داستاں--سارے جہاں سے انکو پیار سارے جہاں سے سرگراں

تلخ گزرے کہ شادماں گزرے---زندگی ہو تو کیوں گراں گزرے

تھا جہاں مدتوں سے سناٹا---ہم وہاں سے بھی نغمہ خواں گزرے

مرحلے سخت تھے مگر ہم لوگ---صورتِ موجۂ رواں گزرے

کیوں نہ ڈھل جائے میرے نغموں میں---کیوں ترا حسن رائیگاں گزرے

چاہے پھول بن جائیں چاہے آگ برسائیں---بس یہی کہ اپنا لو حسن کے شراروں کو

سحر انگیز چاند کی کرنیں---کہہ رہی ہے کہ تم یہاں ہوتے

نگہت و رنگ کا شعر و آہنگ کا---منتشر ہو گیا کارواں دوستو

ہر منظرِ چمن ہے سزا وار شوقِ دید---جشن بہار و رقص خزاں دیکھتے چلو

صبح کا نور ہے ان آنکھوں میں---کیسے ہم اُن سے بدگماں ہوتے

اپنی تنہائی سے گھبرا کے کہاں جاؤ گے---اپنی تنہائی کو سینے سے لگا لو یارو

ذہن میں آہٹیں ہیں نغموں کی---آ رہا ہے لبوں پہ کس کا نام

ساز دل کے تاروں کو چھیڑ تو دیا تو نے---ساز دل کے تاروں کی بات بھی سنی ہوتی

جلوہ فشاں ہے آفتاب آپ کا انتظار ہے---آپ کا انتظار ہے ڈوب رہا ہے آفتاب

کیوں نہ ترے خیال میں زمزمہ خواں گزر چلیں---یوں بھی ہماری راہ میں گردش روز گار ہے

دھیما دھیما سہی الجھے ہوئے انفاس کا راگ---ایک آواز تو ہے دل کے بہلنے کے لیے

گھر کی یاد ظالم ہے لَو دیئے ہی جائے گی---گھر تو ہم بنا لیں گے اجنبی دیاروں میں

ہم جو شعلۂ جاں کی لَو نہ تیز کر دیتے---آج غم کی راہوں میں کتنی تیرگی ہوتی

کتنی ظالم ہے زندگی جاوید---میں نے دیکھا ہے حسن کو مغموم

اے خیال کی کلیو اور مسکرا لیتیں---کچھ ابھی تو آیا تھا رنگ سا تبسم کا

کہہ کے جانِ غزل تجھے ہم نے---اپنی کم مائیگی چھپائی ہے

غبار دل پہ بہت آ گیا ہے دھولیں آج---کھلی فضا میں کہیں دور جا کے رو لیں آج

کسے خبر ہے کہ کل زندگی کہاں لے جائے---نگاہ یار تیرے ساتھ ہی نہ ہو لیں آج

دیار غیر میں اب دور تک ہے تنہائی---یہ اجنبی در و دیوار کچھ تو بولیں آج

تمام عمر کی بیداریاں بھی سہہ لیں گے---ملی ہے چھاؤں تو بس ایک نیند سو لیں آج

ہمارے سامنے بیگانہ وار آؤ نہیں---نیازِ اہل محبت کو آزماؤ نہیں

ہمیں بھی اپنی تباہی پہ رنج ہوتا ہے---ہمارے حالِ پریشاں پر مسکراؤ نہیں

جو تار ٹوٹ گئے ہیں وہ چِھڑ نہیں سکتے---کرم کی آس نہ دو بات کو بڑھاؤ نہیں

دیئے خلوص و محبت کے بجھتے جاتے ہیں---گراں نہ ہو تو ہمیں اس قدر ستاؤ نہیں

دل و نگاہ کو کب تک کوئی بچھاتے رہے---یہ دیکھ کر کہ اُدھر سے کوئی جھکاؤ نہیں

یہ اور بات کہ کانٹوں میں جی بہل جائے---نہیں کہ لالہ و گل سے ہمیں لگاؤ نہ