حواس و حالات كا ادب پر اثر

مصنف : حنظلہ الخلیق

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : فروری 2024

شعر و ادب

حواس و حالات كا ادب پر اثر

حنظلہ خليق

حواس کا تنوع ادب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ایک انسان جو پانی کی موجوں پر کشتی میں بیٹھا لطف اندوز ہو رہا ہے اور دوسرا جو اسی پانی میں غرق ہونے کو ہے ، دونوں کا اظہار حال کبھی ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔تاریخ عالم کا ادب حقیقت میں انہیں گوناگوں اختلافات اور حسیات کے تنوع سے ہی وجود میں آیا ہے اور یہی چیز ادب کو ایک پراسرار اور دلچسپ و رنگین شے بناتی ہے۔ مگر ایک نکتہ ضرور یاد رہے کہ پانی پر کشتی رانی کے مزے لینے والا شخص اور ڈوبنے والا دونوں یہ ملکہ رکھتے ہیں کہ لازوال ادب تخلیق کر سکیں۔ عیش کا سرور اگر ادب کو رنگ دے کر ابھروا سکتا ہے تو غم حیات بھی جذبات کو پگھلا کر دلوں میں امر ہو سکتا ہے۔

ابو العلاء المعری عربی کا عظیم شاعر تھا۔چار سال کی عمر میں نابینا ہو گیا۔کہا کرتا کہ میں دو زندانوں کا قیدی ہوں ، ایک دنیا اور دوسرا بینائی کا اندھیرا۔تقریباً سو برس کی زندگی میں اس نے حکمت و عبرت سے بھرپور کلام چھوڑا جس نے ایک عہد پر اثر کیا۔اپنی قبر پر اس نے لکھوایا تھا کہ یہ میرا پیدا ہونا وہ ظلم تھا جو میرے باپ نے مجھ پر کیا مگر میں نے یہ جرم کسی پر نہیں کیا۔

امام ابن حزم (رحمہ اللہ) اندلس کے رنگین اور سنہری دور میں پیدا ہوئے ۔اسلامی علوم اور ادب کے ماہر اور حافظ تھے۔اپنی دانش اور علمی قابلیت کے حوالے سے ایک عظیم منفرد نام۔دوستوں اور آشناؤں کے قدر دان اور محبت کے پیامبر۔اپنی 18 برس کی محبت کو بھی تاعمر فراموش نہ کرنے والے ابن حزم جنہوں نے فلسفہ محبت پر دنیا کی پہلی اور آخری کتاب "طوق الحمامہ" لکھی۔اخلاق اور حق پر جان دینے والے ، کہتے تھے کہ ہر شخص میرا محبوب بن سکتا ہے مگر جو جھوٹ بولتا ہے وہ میرا محبوب نہیں ہو سکتا۔

زیر نظر کلام انہیں دو عبقری شعراء کا ہے۔موت اور قبر کے حوالے سے ان دونوں کا کلام پڑھیے اور دیکھیے کہ ان کی طبائع اور حسیات کا اختلاف ادب پر کیا اثر کرتا ہے:

ابن حزم

مجھے ایک بعید مسافت کی بستی سے اپنے کسی پیارے دوست کی موت کی خبر پہنچی تو میں شدت جذبات سے قبرستان چلا آیا اور قبروں کے درمیان چلتے ہوئے یوں کہنے لگا:

" میں چاہتا ہوں کہ زمین کا ظاہر اس کا اندرو ن بن جائے ، اور زمین کا باطن آنکھوں کے سامنے آجائے تا کہ میں اپنے محبوب دوستوں کو دیکھ سکوں۔ اگر مجھے موت آنی ہے تو اس خبر کے آنے سے پہلے آتی جو کلیجوں میں جلتا شرارہ بن کر ٹھہر گئی ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ میں ان جدا ہونے والے دوستوں کو اپنے خون میں غسل دیتا اور اپنے سینے کی پسلیوں کے درمیان اپنے دل میں دفن کر کے ان کی قبر بنا دیتا۔"

ولقد نُعي إليَّ بعضُ مَن كنتُ أحبُّ من بلدة نازحة، فقمتُ فارًّا بنفسي نحو المقابر وجعلتُ أمشي بينها وأقول:وَدِدْتُ بِأَنَّ ظَهْرَ الأَرْضِ بَطْنٌ--وَأَنَّ البَطْنَ مِنْهَا صَارَ ظَهْرَا--وَأَنِّي مِتُّ قَبْلَ وُرُودِ خَطْبٍ--أَتَى فَأَثَارَ فِي الأَكْبَادِ جَمْرا--وَأَنَّ دَمِي لِمَنْ قَدْ بَانَ غُسْلٌ--وَأَنَّ ضُلُوعَ صَدْرِي كُنَّ قبرا--  (طوق الحمامہ : باب البین)

أبو العلاء المعري

اے دوست!یہ تو ہماری قبریں ہیں-جنہوں نے زمین کو بھر دیا ہے-تو پہلے گزرے ہوئے زمانوں ( کے لوگوں) کی -قبریں کہاں گئیں؟(زمین پر) آہستہ آہستہ قدم رکھو-کہ میرے گمان کے مطابق زمین-انہی قدیم انسانوں کے-جسموں سے بنا ایک بڑا مقبرہ ہی ہے-اگرچہ بہت زمانہ بیت چکا ہے-مگر ہمارے لیے یہ امر قبیح ہے-کہ اپنے ان آباء و اجداد کی توہین کریں-اگر تم سے ہو سکے-تو خلا میں ٹھہر ٹھہر کر چلا کرو-نہ کہ (فوت شدہ) لوگوں کی شکستہ ہڈیوں پر-تکبر سے قدم رکھتے ہوئے-بہت سی قبریں-بار بار مردوں کو سمیٹ کر-اس بات پر ہنستی ہیں-کہ ان میں مختلف طبع کی -میتوں کا ہجوم جمع ہو چکا ہے -زندگی ساری ایک گھٹیا ، -خستہ حال شے بن کر رہ گئی ہے-اور مجھے اس شخص پر حیرت ہے-جو اپنا دل اس دنیا کے کھنڈر میں لگائے بیٹھا ہے-موت کی گھڑی کا غم حقیقت میں -اسی مسرت کا بقیہ ہے جو پیدائش کے وقت پر ہوتی ہے.

صاح هذي قُبورُنا تملأ الرُّحبَ-فأين القُبوُرُ مِنْ عهدِ عادِ-خفّف الوطء ماأظُنّ أديم-الأرضِ إلاّ مِنْ هذه الأجسادِ-وقبيحُ بنا وإن قدم العهدُ-هوَانُ الأباءِ والأجدادِ-سر إنِ استطعت في الهواء روُيداً-لا أختيالاً على رُفات العبادِ-رُبّ لحدٍ قد صار لحداً-مراراً ضاحكٍ مِنْ تزاحمُ الأضدادِ-تعبُ كُلها الحياة فما-أعجبُ إلا مَنْ راغبٍ في أزديادِ-إن حُزناً في ساعة الموت-أضعاف سرورٍ في ساعة الميلادِ

 :(ديوان المعري)