قسمت کا رونا ترک کیجیے

مصنف : اخلاق احمد ندوی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2007

            آپ اپنے اِرد گرد ایسے لوگ بڑی تعداد میں دیکھتے ہوں گے کہ جب بھی آپ ان سے بات کرتے ہیں اور حال چال پوچھتے ہیں، تو وہ فوراً قسمت کو کوسنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار ہمیشہ قسمت ہی کو ٹھہراتے ہیں۔ بعض لوگ تو اپنی قسمت سے اس قدر دل شکستہ اور مایوس ہوتے ہیں کہ کوئی بھی نیاکام کرتے وقت وہ پہلے ہی سے یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اور ضرور انہیں اس بار بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قسمت سے مایوسی کا عنصر جب انسان کے مزاج میں حد سے زیادہ بڑھ جائے تو پھر زندگی سے نفرت کا احساس جنم لینے لگتا ہے، جس کا نتیجہ خدانخواستہ خودکشی بھی نکل سکتا ہے۔آخر آپ نے یہ کیسے طے کر لیا کہ آپ کبھی ایک کامیاب انسان نہیں بن سکتے۔ چلیے مان لیا کہ آپ کی ذہنی اور فکری صلاحیتیں غیر معمولی نہیں ہیں، لیکن دنیا میں سب کامیاب انسان غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہی تو نہیں ہوتے، پھر وہ کیوں کامیاب ہوجاتے ہیں؟؟

            ایک بات ذہن میں رکھیں کہ قسمت کا رونا رونے سے پہلے قسمت کو آزما کر تو دیکھیں۔ کم از کم آپ وہ تو کریں جو آپ کر سکتے ہیں ۔ منزل کا تصور کر کے ہی اپنے اوپر خوف طاری کرلینا، چلنے سے پہلے ہی دل شکستہ ہو کر بیٹھ جانا، ایک دوناکامیوں سے مایوس ہو کر اپنی تقدیر کی خرابی کا فیصلہ کر لینا قطعی دانش مندی اور حقیقت پسندی نہیں ہے۔بلکہ یہ چیزیں آپ کے نا پختہ اور کمزور ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خدا کی ذات سے بد گمان ہو رہے ہیں اور یہ چیز آپ کو آہستہ آہستہ کفر کی راہ پر بھی مائل کر سکتی ہے۔

            قسمت کسی شخص کے منہ میں اپنے ہاتھ سے نوالہ نہیں ڈالتی، ہر شخص کو اس کی جدوجہد کا پھل ملتا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ دنیا جدوجہد کی جگہ ہے۔انسان قدر کے سامنے بلاشبہ بے بس ہے، لیکن اسے اختیار بھی دیا گیا ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور بگاڑنے کا اختیار بھی انسان کو حاصل ہے۔ کوشش کے بغیر کامیابی مل جائے یہ ناممکن ہے۔ محض خواہشوں اور آرزوؤں کی دنیا میں رہنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ خود کو طفل تسلیاں دینے سے قسمت نہیں بدلے گی۔ قسمت آپ کی کوشش اور تدبیر سے بدلے گی۔ جو لوگ جدوجہد کار استہ اپنانے کے بجائے محض خوش فہمیوں سے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ کبھی اطمینان حاصل نہیں کرسکتے اور نہ اپنے اہداف پر پہنچ سکتے ہیں ۔ کامیابیوں کے لیے آپ کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے اور اس راستے کا نام مسلسل محنت، مسلسل لگن اور مسلسل جدوجہد ہے۔

            دیکھا جائے تو تاریخ میں ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو نہ غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے اور نہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے، لیکن اپنی محنت اور کوشش سے انہوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ تاریخ انسانی کے اوراق ان پر فخر کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں بہت سے ایسے بھی تھے جو معمولی طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ برصغیر پرحکمرانی کرنے والے خاندا ن غلاماں کی مثال سب کے سامنے ہے۔ تیمور لنگ کی ناکامیاں لیکن جہد مسلسل سے کامیابیوں تک پہنچنا کون فراموش کر سکتا ہے۔تاریخ میں ایسے لوگوں کا کوئی کارنامہ نہیں ملتا جو کاہل،کام چور،آرام طلب،سہل پسند، اور لا پرواہوں۔ یا وہ جو زندگی کے بامقصد ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہوں ، لیکن اس دعوے کا ان کی عملی زندگی میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ حالات سے ساز باز کرنے والے، دوسروں کے لگائے ہوئے درخت سے پھل کھانے کی امید میں جینے والے، دوسروں کے دسترخوان سے ریزے چننے والے کبھی قابلِ ذکر نہیں رہے۔ مقصدیت ہی در اصل زندگی گزارنے کا دوسرا نام ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان اور ایک حیوان کے درمیان تفریق پیدا کرتی ہے۔ اور اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم بلا جھجھک کہہ سکتے ہیں کہ جتنا اعلیٰ مقصداور جتنی مسلسل جدوجہد اتنا اعلیٰ انسان۔مسلسل عزم اور مسلسل جدوجہد کے بغیر آپ کچھ نہیں حاصل کر سکتے۔ جدوجہد کے تصور ہی سے کانپنے والے کبھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتے۔ خالی منصوبے بنانے سے بھی کچھ نہیں ملے گا۔ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو مقصد کے حصول کے لیے لگن، محنت اور تن دہی سے کام کرتے ہوں۔ تن آسانی ، سستی ، لاپروائی اور غیر مستقل مزاجی سے تو انسان زندگی کے چھوٹے موٹے اور عام کام بھی انجام نہیں دے سکتا، پھر کوئی بڑا کارنامہ کیا انجام دے گا۔ آپ کو وہی کچھ مل رہا ہے جس میں آپ کا فائدہ ہے، اور آپ کووہ کچھ نہیں مل رہا جس میں آپ کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کے بڑے بڑے پیغمبروں نے اللہ سے یہی دعا مانگی ہے کہ اے ہمارے رب ہمارے لیے وہی کچھ کر جس میں تیرے نزدیک ہماری بھلائی ہو۔یہ بالکل ممکن ہے کہ جن چیزوں کے نہ ملنے پر آپ دکھی اور افسردہ ہو رہے ہیں، وہ چیزیں اگر آپ کو مل جاتیں تو اس کے نتائج قطعی وہ نہ ہوتے جو آپ سوچ رہے تھے۔ہم سب کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بد گمانیوں سے بچیں اور امید کا دیا ہمیشہ روشن رکھیں۔ آگے بڑھنے کا جذبہ اور اس کے تقاضوں کو کبھی فراموش نہ کریں۔ دست و بازو کو آزمانے اور تعمیر نو کا شوق دل سے کبھی نہ نکالیں۔بلاشبہ مایوسی کفر ہے۔

جوانو! یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے

چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزمِ سفر پیدا