آؤ مسکرائیں

مصنف : محمد عثمان بخاری

سلسلہ : لطائف و ظرائف

شمارہ : مئی 2007

مطالبہ

ایک صاحب کو ڈاک کے ذریعے ایک خط موصول ہواجس میں تحریر تھا‘‘ اگر تم نے تین دن کے اندر اندر پچیس ہزار روپے فلاں جگہ پر نہ پہنچائے تو ہم تمہاری بیوی کو اغوا کرلیں گے۔’’ اس شخص نے فوراً جواب بھیجامجھے افسوس ہے کہ میں تمہارا مطالبہ پورا نہ کر سکوں گالیکن مجھے یقین ہے کہ تم اپنا وعدہ ضرور پورا کرو گے۔

بندوق کیوں سنبھال رکھی ہے

ایک بڑے میاں بندوق لیے اپنے خربوزوں کے کھیت پر پہر ہ دے رہے تھے۔ ایک راہ گیر نے کہاکیسے ہیں یہاں کے لوگ؟بڑے میاں بولے بڑے ایماندار ہیں،کیا مجال جو میرے خربوزوں کو ہاتھ لگائیں۔راہ گیر نے کہا تو آپ نے بندوق کیوں سنبھال رکھی ہے۔بڑے میاں بولے ان کو ایماندار رکھنے کے لیے ۔

وصیت

ایک کنجوس جب مرنے لگاتو اس نے وصیت نامہ لکھوایاکہ پانچ ہزار روپے میرے ان ملازمین کودے دیے جائیں جو عرصہ پانچ سال سے میری خدمت پر مامور ہیں۔ وکیل نے اس فیاضی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے بڑا نیک کام کیا ہے۔کنجوس نے جواب دیا میرا تو کوئی ایک ملازم بھی ایسا نہیں ہے جوایک سال سے زیادہ عرصہ میری ملازمت میں رہا ہو۔البتہ جب یہ بات اخباروں میں چھپے گی تو اچھی لگے گی۔

گدھا

ایک سیاسی رہنما تقریر فرما رہے تھے کہ اچانک ایک بند لفافہ ان کے سامنے آ گراانہوں نے اسے کھولا تو اس میں بڑے الفاظ میں لکھا ہوا تھا‘‘گدھا’’یہ دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے جن صاحب نے یہ لفافہ بھیجا ہے انہوں نے اپنا نام تو لکھ دیا مگر کوئی سوال نہیں لکھا۔

نکما کون

 ایک گودام کے مالک نے ایک نوجوان کو گودام میں کام کرنے کے بجائے ٹہلتے ہوئے دیکھ کر پوچھا ، تمہیں دن بھرکام کرنے کے کتنے ڈالرملتے ہیں۔ تیس ڈالر ، جنا ب ، نوجوان نے کہا۔یہ لو تیس ڈالراور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔دوبارہ نہ آنا۔ گودام کے مالک نے سپروائزر سے پوچھاتم ایسے نکمے لوگوں کو ملازمت کیوں دیتے ہو۔ مگر جناب وہ لڑکا تو ہمیں پارسل دینے آیا تھا۔ وہ ہمارا ملازم نہیں تھا سپروائزر نے کہا۔