آپ وقت ضائع تو نہیں کر رہے!

مصنف : تقدیس ملک

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2007

وقت ایک فنا ہونے والی چیز ہے۔ انسان کو اس کی فراہمی نہایت سُست روی اور بہت تھوڑی مقدار میں ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال انتہائی زیادہ اور تیزرفتاری سے ہوتا ہے۔ بظاہر تو یہ مفت میں ملنے والی چیز ہے لیکن حقیقت میں اس کا کوئی مول نہیں۔ یہ شاید دنیا کی واحد چیز ہے جس کو اسٹور کرنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ اس کو محفوظ کرنے کا بھی ابھی تک کوئی تصور وجود میں نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا کوئی نعم البدل نہیں اور نہ ہی کوئی دوسری شے اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کام کرنے کے لیے ہمیں وقت ہی کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ وقت کو بہتر سے بہتر انداز میں کس طرح گزارا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ایک بار وقت کا درست استعمال کرنا جان جائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ زندگی میں بے شمار فوائد حاصل نہ کرسکیں’ مثلاً:

۱-         آپ اپنے لیے پہلے سے زیادہ وقت بچا سکیں گے۔

۲-        آپ وقت پر اپنے اہداف حاصل کرسکیں گے۔

۳-        آپ پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی بھی بڑھا لیں گے۔

۴-        آپ کو وقت کی تنگی اور کمی کا احساس بھی کم ہوگا۔

۵-        آپ ذہنی طور پر زیادہ پُرسکون رہیں گے۔

یہ تمام چیزیں آپ کو اپنی منزل کی نشاندہی کرنے میں معاونت کریں گی۔ آپ زیادہ محنت’ دلجمعی اور لگن سے اپنے اہداف کی طرف بڑھیں گے۔ آپ کے لیے کامیابیوں اور مسرتوں کا حصول زیادہ آسان ہوجائے گا۔

آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کا وقت کن سرگرمیوں کے تحت گزرتا ہے؟ ایک عام اندازے کے مطابق ایک شہری اپنی زندگی کے ۲۰سال صرف سو کر گزار دیتا ہے۔ ۱۰سال پیسہ کمانے میں صرف کرتا ہے۔ ۴ سال کھانا کھاتے گزارتا ہے اور ایک ماہ ٹریفک کے اشاروں کی تبدیلی کے انتظار کی نذر کردیتا ہے۔ ۸ دن اس کے جوتوں کے تسمے باندھتے اور کھولتے گزرتے ہیں۔ تیس دن ٹیلی فون ڈائل کرتے گزارتا ہے اور تقریباً ۳ ماہ دانتوں کو برش کرتے صرف ہوتے ہیں جب کہ ایک عام عورت اپنی زندگی کے ۵ سال میک اَپ کرنے اور اتارنے میں گزار دیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ وقت اس کا اپنی سہیلیوں سے گپ شپ کی نذر ہوجاتا ہے۔ ٹائم مینجمنٹ کے ماہرین کے خیال میں زندگی کے ۴ مختلف حلقے ہیں جن کے اندر ہم اپنا وقت گزارتے ہیں۔ پہلا حلقہ اپنی ذات کا ’ دوسرا معاشی تگ و دو کا’ تیسرا خاندان کا’ جب کہ چوتھا حلقہ سماج کا ہے۔

اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کون سا حلقہ ہمارا وقت ضائع کرنے کا باعث ہے۔ ماہرین نے انھیں مختلف اقسام میں بیان کیا ہے: پہلی قسم وقت ٹریپ کرنے والوں کی’ دوسری وقت ضائع کرنے والوں کی’ تیسری وقت چوری کرنے والوں کی’ چوتھی وقت پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی جب کہ پانچویں اور آخری قسم وقت کے دشمنوں کی ہے۔

وقت کو ٹریپ کرنے والے:

وقت کو ٹریپ کرنا ایک فن کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے خود کو کام میں مصروف رہنے کا تاثر دیا جاتا ہے۔ بظاہر تو ایسے افراد کام میں مگن دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام نہیں کر رہے بلکہ صرف وقت گزاری کر رہے ہیں۔

وقت ضائع کرنے والے:

اس قسم کے افراد وقت کو بغیر سوچے سمجھے گزارتے ہیں۔ ان میں اپنے کاموں کو ترتیب و توازن سے سرانجام دینے کا قطعی کوئی رجحان نہیں ہوتا اور نہ وقت کے درست استعمال کے بارے میں سوچتے ہیں۔ انھیں وقت کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کی کبھی فرصت نہیں ملتی یا وہ وقت پر غور کرنے کو درست ہی نہیں سمجھتے۔

وقت چوری کرنے والے:

اس قسم کے افراد اجازت لیے بغیر دوسروں کی مصروفیات میں مخل ہوتے ہیں۔ انھیں آپ کے اور اپنے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ غیرضروری فون کا لیں کرنا اور طویل گفتگو کرنا دوستی کی آڑ میں اپنا حق سمجھتے ہیں۔

وقت پر ڈاکہ ڈالنے والے:

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمرجنسی کی صورت میں دوسروں کا کوئی جواز تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ تعلقات میں بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ انھیں وقت کے ڈاکو کہا جاسکتا ہے۔ یہ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے اس قسم کے جملے ادا کرتے ہیں۔ ‘‘تمھیں میرے ساتھ ہر صورت جانا ہوگا! میں انکار نہ سنوں! تم مجھے نہیں انکار کرو گے؟ وغیرہ وغیرہ’’۔

ٹائم مینجمنٹ کے ایکسپرٹ کے مطابق ۱۲،ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو وقت کی قدرشناسی سے دُور رکھتی ہیں اور اسے وقت کی بہتر منصوبہ بندی نہیں کرنے دیتیں۔ جس فرد میں یہ چیزیں ہوں گی ’ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شخص وقت کا درست استعمال نہیں کر رہا اور اس کی زندگی عدم تواز ن کا شکار ہے۔ ایسے شخص کو یہ جان لینا چاہیے کہ اسے اپنے طرزِزندگی پر نظرثانی کی ضرورت ہے بلکہ اسے اپنے معمولات ہرصورت میں بدلنا ہوں گے۔

۱-         کسی ضروری کام کو نمٹانے کے لیے وقت نہ مل رہا ہو۔

۲-        کسی اہم کام کے بجائے فوری نوعیت کے کام پر زیادہ وقت صرف کرتا ہو۔

۳-        کوئی روزانہ دفتر دیر تک رُکنے کا عادی ہو۔

۴-        کسی کو اپنا پیپرورک کرنے کے لیے کبھی کبھار ہی وقت ملتا ہو۔

۵-        گھر کا کوئی نہ کوئی کام نامکمل رہنے کا احساس ہوتا رہے۔

۶-        کوئی اپنا زیادہ سے زیاہ وقت دوسروں کے کام کرنے میں گزار دیتا ہو۔

۷-        کسی کو ہر وقت یہ احساس ہو کہ فلاں کام اس کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔

۸-        کسی کو بہت ساری میٹنگوں میں شرکت کرنا ضروری ہو۔

۹-        دوسروں کو انکار کرنا جسے نہ آتا ہو۔

۱۰-       کسی سے اکثر پوچھتا ہے کہ وہ اپنا وقت کس طرح گزارتا ہے۔

۱۱-        ہر وقت دباؤ محسوس کر تا ہو’ پریشان رہتا ہو اور وقت کے انتہائی کم ہونے کا احساس رہتا ہو۔

۱۲-       کبھی کبھار ہی وہ اپنا کام وقت پر سرانجام دینے میں کامیاب ہوتا ہو۔

آپ اپنا جائزہ لیں اور اگر آپ کے ساتھ اس قسم کے معاملات ہیں تو یقینا آپ کو معمولاتِ زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ آپ دیکھیں کہ کون سی چیزیں ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیں۔ پہلے ان کی اپنے تئیں نشاندہی کریں’ اس کے لیے درج ذیل سوالنامہ پر غور کریں آپ کو اس سے مزید مدد ملے گی۔

  •          کیا آپ اپنا وقت ایسے میں ضائع تو نہیں کرتے جب آپ سوچتے ہیں کہ اس وقت کام کا موڈ نہیں ہو رہا’ اس کو کسی بہتر وقت پر انجام دوں گا؟
  •          کیا آپ ہمیشہ زیادہ پریشان رہتے ہیں؟
  •          غیرضروری کتابوں کا مطالعہ تو نہیں کرتے؟
  •          کہیں آپ کو بغیر محنت کیے تو بہت کچھ نہیں مل گیا؟
  •          کیا آپ بہت زیادہ سماجی کارکن ہیں؟
  •          کسی چیز سے آپ کی بہت زیادہ جذباتی وابستگی تو نہیں؟
  •          آپ من موجی قسم کے آدمی تو نہیں ہیں یعنی آپ کا شمار ایسے لوگوں میں تو نہیں ہوتا جو ترنگ میں آکر کام کرتے ہوں؟
  •          آپ یہ تو نہیں سوچتے کہ میں بھی اس وقت کام کروں گا جب دوسرے شروع کریں گے؟
  •          کبھی آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ وقت ضائع کر رہے ہیں؟
  •          اگر چند سوالوں کے جواب بھی ‘‘ہاں’’ میں ہیں تو آپ اپنے معمولات تبدیل کرنے کے لیے تیار ہوجایئے’ دوسری صورت میں ہمیشہ الجھن’ پریشانی کا شکار رہیں گے۔

وقت کی منصوبہ بندی کرنے والے ماہرین کے خیال میں وقت کی قدرشناسی اور اس کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ وقت کے ضیاع میں سب سے اہم کردار آپ کو اپنا ہوتا ہے۔ دوسرے اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ وقت پر ڈکیتی مارنے والوں کا بھی اتنا قصور نہیں ہوتا۔ اس کا موقع آپ انھیں خود دیتے ہیں۔ ماحول یا دوسروں کو اس کا موردِالزام ٹھہرانا بھی قطعی درست نہیں۔ آپ چاہیں تو ایسا نظام تشکیل دے سکتے ہیں اور ان عوامل کو دُور کرسکتے ہیں جو وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا خود احتساب کریں۔

  •          کیا میں جو کام کر رہا ہوں اسے دوسروں کی مدد کے بغیر زیادہ بہتر’ عمدہ اور سلیقہ سے کرسکتا ہوں؟
  •          میں اپنی ترجیحات اور سرگرمیوں کا بہتر طریقے سے تعین کرسکتا ہوں؟
  •          زیادہ وقت کہاں گزرتا ہے؟
  •          کون سے ایسے بڑے عوامل ہیں جو میرا وقت ضائع کرنے کا سبب بنتے ہیں اور میں کس طرح ان سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہوں؟
  •          کون سے ایسے طریقے ہیں جن کے اپنانے سے میری کارکردگی بڑھ سکتی ہے؟

اپنے جوابات کو نوٹ بک میں درج کرلیں نہ کہ سادہ کاغذ پر کیونکہ اس کے ضائع ہونے کا احتمال رہتا ہے۔ اس طرح آپ ان باتوں کو جان جائیں گے جو وقت ضائع کرنے کا باعث ہیں اور ان کے مطابق اپنے طرزِ زندگی میں تبدیلی لایئے۔ جو نتائج حاصل ہوتے ہیں انھیں بھی نوٹ کرتے جائیں۔

ممکن ہے کہ کوئی اسے بھی وقت کے ضیاع میں شمار کرنا شروع کردے لیکن اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اپنی کامیابیوں کی رفتار کا اندازہ ہوتا رہے گا۔ پھر جونہی آپ اپنے مطلوبہ معیار کے مطابق وقت کو ترتیب دے لیں’ آپ لکھنا بند کرسکتے ہیں۔

ماہرین زندگی کو بہتر نظم و ضبط کے دائرے میں گزارنے کے لیے مزید مشورے دیتے ہیں:

  •          زندگی کے بنیادی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے روزانہ کی سرگرمیوں کی فہرست تیار کریں۔ پھر ان میں سے جو کام ترجیحی نوعیت کے ہوں’ اُن کی نشاندہی کریں اور دن میں وقتاً فوقتاً فہرست پر نظر ڈالتے رہیں۔
  •          اگر آپ کسی ادارے کے سربراہ ہیں تو سب سے پہلے خود کو منظم کریں’ پھر اپنی ٹیم کو اپنے اصول و ضوابط کے مطابق ڈھالیں۔ کوشش کریں کہ اپنے ساتھیوں میں فرائض کی ادائیگی کے لیے ذمہ دارانہ سوچ پیدا کی جائے۔ سب کو الگ الگ ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کریں تاکہ کوئی یہ بہانہ نہ کرسکے کہ مذکورہ کام کسی اور کے ذمہ ہے۔ اپنے اہداف مقرر کریں جس میں دوسرے ساتھیوں کی اعانت کریں۔ جہاں تک ممکن ہوسکے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ اگر کوئی ساتھی اچھی کارکردگی دکھاتا ہے تو اسے کھلے دل سے سراہیں۔
  •          وقت ضائع کرنے والے عوامل کی شناخت کریں۔ اپنے ساتھیوں سے پوچھیں کہ فلاں کام میں مستقل تاخیر ہوتی ہے تو اسے کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے۔
  •          خود سے معلوم کریں کہ کون سے وقت میں آپ خود کو تروتازہ اور سرگرم محسوس کرتے ہیں۔ ایسے وقت میں آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ ان اہداف پر کام کریں جو ترجیحی اور لازمی نوعیت کے ہوں۔
  •          سفر اور انتظار کی زحمت صرف اسی وقت اٹھائیں جب آپ کو کوئی بڑا پیشہ ورانہ فائدہ حاصل ہونے کی امید ہو۔
  •          ٹیلی فون کا استعمال بھی صرف ضروری کاموں کے لیے کریں اور زیادہ طویل گفتگو سے گریز کریں بلکہ معاملات کا جلد از جلد حل نکالنے کی کوشش کریں۔
  •          آپ دفتر سے گھر جائیں تو دفتری کام اور دیگر سرگرمیاں وہیں پر ختم کردیں ’ گھر پر کام نہ اُٹھا کر لے جائیں۔ آپ کے خاندان کا بھی آپ پر حق ہے کہ آپ انھیں وقت دیں اور ان کی سرگرمیوں میں شریک ہوں۔ گھر میں آپ کی پوری توجہ صرف گھر کے لیے ہی ہونی چاہیے۔
  •          اگر آپ کو کسی میٹنگ میں شریک ہونا ہو تو معاملات کا ایجنڈا طے کرلیں اور صرف ایجنڈے پر بات کریں اور اس بات کا برملا اظہار کردیں کہ آپ کے پاس بہت کم وقت ہے اور آپ نے اور بھی کئی ضروری کام نمٹانے ہیں۔
  •          کھانے کے اوقات مقرر کریں اور کھانے کے دوران میں کسی بحث طلب مسئلے کو مت چھیڑیں۔
  •          اگر آپ کسی سے ملاقات کے لیے جانے والے ہیں تو بہترہے کہ فون کے ذریعہ پہلے سے اطلاع دیں اور اگر کبھی بغیر اطلاع کے چلے جائیں اور آپ کا مطلوبہ شخص آپ کو دستیاب نہ ہو تو آپ وہاں اپنا پیغام چھوڑ کر جائیں۔
  •          ہمیشہ وقت کی پابندی کریں۔ مثال کے طور پر آپ کا ڈیوٹی ٹائم ۹ سے ۵ بجے کا ہے تو آپ کو ہر صورت ۹بجے کام شروع کر دینا چاہیے اور ۵بجے تک ختم کردیں۔
  •          ہر وقت ہرکام انتہائی اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی جستجو میں نہ لگے رہیں۔ عام طور پر ہر کام ایک جیسا معیار اور کوالٹی نہیں رکھتا۔ اگر اچھا صاف ستھرا اور قابلِ قبول کام ہوگیا ہے تو یہی کافی ہے۔ Perfection کی تلاش آپ کا وقت ضائع کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
  •          وقت کی قدر کرنے والے اور وقت ضائع کرنے والے افراد میں صرف اتنا فرق ہے کہ وقت کے دوست اور قدر شناس کامیاب’ مطمئن اور خوش جب کہ وقت ضائع کرنے والے کٹھن اور مشکل زندگی سے دوچار رہتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سی زندگی کا انتخاب کرتے ہیں۔

(بشکریہ معارف فیچر سروس’ ۱۶ دسمبر ۲۰۰۶ء)