ڈاکٹروں کی بدعملیاں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2007

اس موضوع کے تحت ان بہت سی بدعملیوں (malpractices) اور پیشہ ورانہ بددیانتیوں کی نشاندہی کرنا مقصود ہے جو بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں میڈیکل پروفیشن میں داخل ہوگئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ غالب آبادی کی اسلامی اخلاقی اقدار سے روگردانی’ مال کی حرص’ مادہ پرستی اور خوفِ خدا کا فقدان ہے۔ ان میں کئی خرابیاں ایسی ہیں جو ایک مادی معاشرے میں بھی معیوب ہی سمجھی جاتی ہیں۔ ہیلتھ سروس کو ایک تجارت بھی سمجھ لیا جائے تب بھی بہت سے معمولات جو عام تجارت میں جائز اور مباح ہیں صحت کے شعبہ میں ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں۔ معمول کی عام خرابیاں درج ذیل ہیں:

۱- مریضوں کو نجی کلینک پر آنے کے لیے مجبور کرنا: اس خرابی کا تعلق سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں سے ہے۔ اکثر ان ڈاکٹروں کو سرکاری اوقات کر کے بعد اپنے نجی کلینک چلانے کی اجازت ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کو اپنی ذاتی پریکٹس کے لیے مریض مہیا کرنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ دیانت داری کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر اپنے سرکاری اوقات کار میں آؤٹ ڈور میں پورا وقت دیں اور مشورہ کے لیے مریضوں کو دستیاب رہیں۔ لیکن آج کل بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں۔ جب ہسپتال میں یہ ڈاکٹر ہاتھ نہیں آتے تو مریض مجبوراً ان کے نجی کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے کسی کلرک کو اس کام کے لیے متعین کیا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ ڈاکٹر صاحب یہاں ہسپتال میں تو بہت مصروف ہوتے ہیں اور ان کے لیے ہر مریض دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اگر آپ ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں تو شام کو ان کے پرائیویٹ کلینک پر چلے جائیں اور اس کا ایڈریس یہ ہے۔ کچھ ڈاکٹروں نے ہسپتال کے دوسرے شعبوں میں یا دوسرے سرکاری ہسپتالوں میں وہاں کے سٹاف ہی کے لوگوں میں سے اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوتے ہیں جو مریضوں کو ورغلا کر ان کے کلینک پر بھیجتے ہیں اور ہر مریض کے بدلے کمیشن حاصل کرتے ہیں۔

بعض اوقات یہ اسپیشلسٹ حضرات ایک بار تو سرکاری ہسپتال میں مریض دیکھ لیتے ہیں لیکن خود ہی اسے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یہاں سرکاری ہسپتال میں داخل ہونے سے بہتر ہے کہ وہ ان کے کسی پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہوں اور آپریشن یا باقی علاج وہاں کرائیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ آپریشن تو مریض کا سرکاری ہسپتال میں ہی کرتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتال کی مقرر کردہ فیس کے علاوہ بالابالا اس سے مزید بھاری فیس الگ وصول کرلیتے ہیں۔ یہ سب صورتیں ایسی ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے وقار اور اس کے مقام سے گری ہوئی ہیں اور کسی ادنیٰ سے ادنیٰ اخلاقی معیار سے بھی پست ہیں۔

۲- مریض بھیجنے (Referal) پر کمیشن کا حصول: اس بدعملی میں عام طور پر پرائیویٹ کلینک’ ہسپتال’ لیبارٹریاں اور تشخیصی مراکز ملوث ہیں۔ ایسے ادارے چلانے والے حضرات میں جن کا مقصد صرف روپیہ کمانا ہوتا ہے دوسرے ڈاکٹروں کو یہ پیش کش کرتے ہیں کہ انھیں مختلف خدمات کے لیے مریض بھیجیں اور ہر مریض کے عوض اتنا کمیشن حاصل کریں۔ یسا عام طور پر لیبارٹری ٹیسٹوں’ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ایسی معیوب بات ہے کہ بدعنوانی (corruption) اور (kick back) کے زمرے میں آتی ہے اور اس سے دو مزید خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں جن کا نقصان براہِ راست مریض کو پہنچتا ہے۔ پہلی کرابی تو یہ ہے کہ مریض پر مالی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر سو روپے کے ٹیسٹ پر بیس روپے کمیشن دیا جائے تو اصل میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ٹیسٹ ایک لیبارٹری ۸۰روپے میں کر رہی ہے اس کے لیے مریض کو ۱۰۰روپے ادا کرنے پڑرہے ہیں اور سی ٹی’ ایم آر آئی وغیرہ پر یہ رقم ہزاروں روپے بن جاتی ہے۔ ایک مریض جو اپنی بیماری اور علاج کے اخراجات کے بوجھ تلے پہلے ہی دبا ہوا ہے اس پر اس کمیشن کا مزید بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ایک غیرانسانی رویہ ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ مریض بھیجنے والے ڈاکٹر کو کمیشن دینے کے بجائے مریض کا بوجھ کم کیا جائے۔

اس بدعملی کی دوسری خرابی غیرضروری referal ہے۔ مریض بھیجنے والے ڈاکٹر کمیشن کے لالچ میں ایسے ٹیسٹ یا مشورے بھی تجویز کردیتے ہیں جن کی ان کو ضرورت نہیں ہوتی اور ان کے مرض سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے ناصرف مریض پر مزید ناروا مالی بوجھ پڑتا ہے بلکہ اس کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ مریض اور اس کے لواحقین پہلے ہی ناگہانی اخراجات اور ہسپتالوں اور لیبارٹری کے چکروں میں پریشان ہوتے ہیں۔ اس مصیبت میں ان کو مزید الجھا دیا اجتا ہے۔ یہ ایک انتہائی غیرانسانی اور غیراخلاقی حرکت ہی نہیں بلکہ پرلے درجے کی حرصِ زر’ شقاوت قلبی اور ظلم کی انتہا ہے جس کے لیے ایسا کرنے والوں کو آخرت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کرنا پڑے گی۔

۳- پرائیویٹ ہسپتالوں میں غیرضروری اخراجات: غیرضروری ٹیسٹوں اور مشوروں کے ذریعے مریض پر ناجائز بوجھ ڈالنے کا ایک اور طریقہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی رائج ہے۔ وہاں پر آؤٹ ڈور میں آنے والے یا وارڈ میں داخل مریضوں کو وہ تمام ٹیسٹ لکھ دیے جاتے ہیں جو اس ہسپتال کی لیبارٹری میں یا ایکسرے ڈیپارٹمنٹ میں کیے جاسکتے ہیں۔ چاہے ان کا اس مریض کے مرض سے کوئی تعلق ہو یا نہ ہو۔ اس طرح ان ہسپتالوں میں اس بدعملی کی ایک صورت یہ ہے کہ داخل شدہ مریضوں کے معائنہ کے لیے ہر وہ consultant آموجود ہوتا ہے جس کا اس ہسپتال سے کوئی تعلق ہو اور وہ روزانہ اپنی visit کی فیس مریض کی فائل میں درج کرجاتا ہے۔ ان میں سے اکثر حضرات کا مریض کے مرض سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا اور جب مریض کا بل بن کر آتا ہے تو یہ سب فیسیں اس میں شامل ہوتی ہیں۔ بعض اوقات مریض کے بل میں ایسی خدمات کی فیس بھی درج کردی جاتی ہے جو مریض کو مہیا ہی نہیں کی گئیں یا مریض کو ان کی ضرورت ہی نہ تھی۔ یہ سب بدعملیاں بھی ہوس زر کا نتیجہ ہیں۔

بعض اوقات مریض سے بار بار مشورہ فیس وصول کرنے کے لیے’ اسے اس وقت سے پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے’ جب کہ اسے واقعی آنے کی ضرورت ہو۔ یہ بھی malpratice کی ایک قابلِ نفرت صورت ہے۔

اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی مریض کو صاحبِ ثروت دیکھ کر اس سے مہیا کی گئی خدمات کے مقررہ معاوضہ سے زیادہ رقم وصول کرلی جاتی ہے۔ یہ بھی ناجائز منافع خوری ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک نادار مریض کے لیے اس کے طبی اخراجات میں رعایت دینا ایک بے حد قابلِ تعریف اقدام ہے۔ لیکن کسی کو مال دار دیکھ کر اس پر ناجائز بوجھ ڈالنا کوئی پسندیدہ بات نہیں۔ البتہ ان کو اس بات کی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ ہسپتال میں قائم شدہ غریب مریضوں کے فنڈ میں عطیات دیں۔

۴- دواساز کمپنیوں سے متعلق بدعملیاں: ماضی میں دواساز کمپنیوں اور ڈاکٹروں کا تعلق صرف اس حد تک ہی ہوتا تھا کہ کمپنیوں کے نمائندے گھوم پھر کر ڈاکٹروں سے ملاقات کر کے اپنی ادویات ان کو متعارف کرواتے تھے اور کبھی کبھار کوئی چھوٹا موٹا گفٹ بھی دے جاتے تھے جس پر کسی دوا کا یا کمپنی کا نام لکھا ہوتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ بعد میں بھی ڈاکٹر کو اس دوا کی یاد دہانی ہوتی رہے۔ ایسی چیزوں کا ڈاکٹر پر کوئی احسان نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ڈاکٹر کی مہربانی سمجھی جاتی تھی کہ وہ کسی تجارتی کمپنی کے نام کا کلام اپنے کلینک میں آویزاں کرلیتا تھا۔ دواساز کمپنیوں کے علاوہ مختلف آلات اور ہسپتالوں سے متعلقہ سامان بنانے والی کمپنیاں بھی اکثر ڈاکٹروں سے رابطہ رکھتی تھیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے ان کمپنیوں کی طرف سے بہت سی ایسی ترغیبات دی جانے لگی ہیں جو ڈاکٹروں کو malpractice کی طرف مائل ضرور کرتی ہیں۔ اب ڈاکٹروں کو زیادہ قیمتی تحفے دیے جاتے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت کے لیے اسپانسر کیا جاتا ہے اور اکثر میڈیکل کانفرنسیں تو یہ کمپنیاں ہی اسپانسر کرتی ہیں۔ اسی طرح پیشہ ورانہ ورکشاپس کا خرچہ بھی یہ کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔ اپنی دواؤں پر ریسرچ کا انتظام کرتی ہیں اور اس کے سارے اخراجات بھی برداشت کرتی ہیں جن میں بہت مہنگے ہوٹلوں میں ریسرچ میں حصہ لینے والے ڈاکٹروں کے اجلاس کا خرچہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں ڈاکٹروں کو ہر طرح سے oblige کرکے ایک طرح سے زیربار کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ وہ ان کی مصنوعات کی فروخت میں معاون ثابت ہوں۔ اکثر کمپنیوں نے اپنے بجٹ میں ان کاموں کے لیے اچھی خاصی رقوم مختص کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر خالص علمی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ان سب سہولتوں سے فائدہ اٹھانا کوئی برائی نہیں ہے کیوں کہ طبی تعلیم و تحقیق کے فروغ سے بالآخر عوام الناس کو ہی فائدہ پہنچتا ہے اور یہ کمپنیاں بھی فائدے سے محروم نہیں رہتیں۔ خرابی تب شروع ہوتی ہے اگر ڈاکٹر ان مراعات سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے آپ کو زیربار (under obligation) محسوس کرے اور ان نوازشات کے بدلے میں ان کمپنیوں کو کوئی ناجائز فائدہ پہنچانے پر مجبور ہوجائے۔

خرابی کی ایک صورت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر کسی نجی یا سرکاری ادارے میں کسی ایسے منصب پر فائز ہو جہاں اسے بڑی مقدار میں ادویہ یا دوسرا طبی سامان خریدنے کا اختیار حاصل ہو یا وہ اس کے لیے فیصلہ کن انداز میں سفارش کرسکتا ہو تو یہ کمپنیاں اسے زیربار کرکے مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس کا نقصان اس ادارے کو اور بالآخر مریضوں کو پہنچتا ہے۔ دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ ادارے کے لیے وہ چیز خریدی جائے جو مطلوبہ معیار کے مطابق ہو اور کم سے کم قیمت پر دستیاب ہو ۔ ایسے موقعہ پر اس ذمہ دارانہ عہدے پر فائز ڈاکٹر کو یہ بھول جانا چاہیے کہ کس کمپنی نے اس پر یا ہسپتال پر کیا کیا نوازشات کر رکھی ہیں اور وہ اس سے کیا توقع لگائے ہوئے ہیں۔

کچھ ادویات جو خصوصاً کینسر اور دل کے امراض میں استعمال ہوتی ہیں بے حد مہنگی ہیں اور ان کی ایک خوراک کی قیمت ۶۰’ ۷۰ ہزار روپے تک ہوسکتی ہے۔ ایسی دوائیں بنانے والی بعض کمپنیوں نے بدعملی کا یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر ایسی دوا تجویز کرے تو اسے ہر نسخے پر کمیشن دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک گھناؤنی حرکت ہے اور اس سے وہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جن کا ذکر تشخیصی مراکز کو مریض بھیجنے اوراس پر کمیشن حاصل کرنے میں ہوچکا ہے یعنی مریض پر غیرضروری اضافی مالی بوجھ اور اس بات کا امکان کہ وہ دوا ان مریضوں کو بھی لکھ کر دی جائے گی جن کو اس کی ضرورت نہیں ہے یا بہت کم فائدے کی اُمید ہے جیساکہ کینسر کے اکثر مریضوں میں terminal stage میں ہوتا ہے۔ اس بدعملی کی ایک کم تر صورت یہ ہے کہ تمام نسخے کسی خاص میڈیکل سٹور کو بھیجے جاتے ہیں اور اس سے کمیشن طے کرلیا جاتا ہے۔

۵- مہنگی ادویات تجویز کرنا: مریض کے لیے نسخہ لکھتے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ اس کو مؤثر اور سستی ادویات تجویز کی جائیں۔ بہت سی مقامی دوا ساز کمپنیاں ایسی ہیں جو معیاری دوائیں بناتی ہیں اور ان کی قیمت بیرونی کمپنیوں سے بہت کم ہوتی ہے۔ ایک اچھے ڈاکٹر کو ان دواؤں کی قیمت کا بھی اندازہ ہونا چاہیے جو وہ لکھ کر دے رہا ہے اور مریض پر کم سے کم مالی بوجھ ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح نسخے میں ادویہ کی تعداد کم سے کم ہونی چاہیے۔ غیرضروری وٹامن اور tonics نسخے میں شامل کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۶- اشتہاربازی (Publicity): بعض ڈاکٹر حضرات زیادہ سے زیادہ مریضوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اشتہار بازی کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لیے پبلک میڈیا کے مختلف ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے اور اکثر غلط دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور مریض کو جھوٹی اُمیدیں دلائی جاتی ہیں۔ مریضوں کے سامنے اپنی قابلیت’ مہارت اور کامیابیوں کے مبالغہ آمیز قصے بیان کرنا’ بڑے بڑے سائن بورڈ آویزاں کرنا’ اپنے پیڈ پر لمبی چوڑی اسناد اور مختلف سوسائٹیوں کی ممبرشپ کا تذکرہ کرنا۔ ایسے ایسے تخصصات کا ذکر کرنا جن کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ یہ سب باتیں اسلامی اخلاقیات کی رو سے بے حد معیوب اور ایک ڈاکٹر کے مرتبے سے فروتر ہیں۔ اس بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ اگر ایک طبی ادارہ خالصتاً انسانی بنیادوں پر غیرتجارتی (non- commerical) مقصد کے لیے کام کر رہا ہے تو زیادہ سے زیادہ عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے لیے وہ پبلک میں اپنے تعارف کے لیے پبلسٹی کے ذرائع استعمال کرسکتا ہے۔ یہ ایک بے لوث کام ہوگا اور کوئی ذاتی غرض (vested interest ) اس کے پیچھے نہیں ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک رفاہی ادارہ یہ اعلان کرے کہ اس نے کچھ امراض کی روک تھام کے لیے مفت یا انتہائی کم قیمت پر vaccination کا انتظام کیا ہے اور غرباء اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ لیکن تجارتی بنیادوں پر قائم کیے گئے نجی مطب اور ہسپتال اگر اشتہار بازی کریں تو یہ ایک انتہائی معیوب اور ناپسندیدہ بات ہوگی۔ عام ضرورت کی چیزیں بیچنے والے تجارتی اداروں کے لیے تو یہ بات بالکل جائز ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے اشتہاربازی اور مارکیٹنگ کے ذرائع استعمال کریں لیکن مریضوں اور امراض کو تجارتی مال بنا لینا ایک غیرانسانی حرکت ہے۔ اس شعبے میں انسانی اقدار’ خدمت’ بے لوثی اور ہمدردی جیسے اصول ہی نمایاں رہنے ضروری ہیں۔

۷- غیرطبی اداروں اور افراد سے کمیشن وصول کرنا: جس طرح کسی ہسپتال’ نرسنگ ہوم’ تشخیصی مرکز’ لیبارٹری’ ایکسرے سنٹر’ دوا ساز کمپنی اور میڈیکل سٹور وغیرہ سے کمیشن وصول کرنا ایک غیراخلاقی حرکت ہے اسی طرح غیرطبی اداروں مثلاً ہوٹل’ سرائے’ ریسٹورنٹ’ ٹیکسی ڈرائیور’ پارکنگ ایریا اور اس طرح دوسری سہولیات مہیا کرنے والے افراد سے بھی کمیشن لینا میڈیکل پروفیشن کے وقار سے گری ہوئی حرکت ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بدقسمتی سے بہت سی ایسی بدعملیاں جو عام تجارتی معاملات میں ہمارے معاشرے میں جگہ پاچکی ہیں وہ آہستہ آہستہ میڈیکل پروفیشن میں سرایت کرتی جارہی ہیں اور مباح (permissible) خیال کی جاتی ہیں لیکن اس معاملے میں ایک مسلمان ڈاکٹر کو انتہائی احتیاط اور vigilence سے کام لینا چاہیے اور تمام ایسی practices سے اجتناب کرنا چاہیے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں معیوب سمجھی جاتی ہیں۔ اسے ہر دم اپنے ضمیر کی آواز کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اس آواز کو روپے کے لالچ میں دبا نہیں دینا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط اور صحیح کے بارے میں ایک نہایت قیمتی اصول بیان فرمایاہے جو کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے:

‘‘حضرت وابصہؓ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ میں رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے فرمایا : کیا نیکی اور گناہ کی تعرف پوچھنے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: تم اپنے دل سے فتویٰ لے لیا کرو۔ جس بات پر دل مطمئن ہوجائے اسے نیکی کی بات سمجھو اور جو تیرے دل میں کھٹک اور تردد پیدا کرے وہ گناہ کی بات ہے چاہے (اس کے جائز ہونے کا) لوگ فتویٰ ہی دیتے ہوں’’۔ (مسنداحمد’ دارمی)

‘‘حضرت نواسؓ بن سمعان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ کی بات وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکتی رہے اور تجھے پسند نہ ہو کہ لوگوں کو اس کی خبر ہو’’۔ (مسلم)

احتیاط کا تقاضا ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک پیدا ہوجائے اسے بھی چھوڑ دیا جائے یہی ہدایت درج ذیل حدیث میں دی گئی ہے:

‘‘حضرت حسنؓ بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سن کر یاد رکھی کہ جو چیز تجھے شک میں ڈال دے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جس میں شک محسوس نہ ہو کیوں کہ سچائی (میں دل کا) اطمینان اور تسلی ہے اور جھوٹ (سے دل میں) شک و اضطراب (رہتا ہے)’’۔ (ترمذی)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عائد کی ہوئی پابندیوں کا احترام کرو اور ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔

‘‘یہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں۔ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اسی طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے وضاحت سے بیان کرتا ہے۔ توقع ہے وہ غلط روی سے بچیں گے’’۔ (البقرہ ۲:۱۸۷)

‘‘یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں’’۔ (البقرہ: ۲۲۵)

اسی ضمن میں ایک اہم بات ایک مسلمان ڈاکٹر کو اپنے ذہن میں یہ رکھنی چاہیے کہ عوام الناس اور خصوصاً مریض اور اس کے لواحقین کا ایک ڈاکٹر کی شخصیت کے بارے میں تصورعام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ ڈاکٹر کو ایک باوقار’ ہمدرد’ بے غرض’ عالی ظرف’ دیانت دار اور ایثار پسند انسان تصور کرتے ہیں اور ڈاکٹر کی کوئی معمولی سی غلط حرکت بھی ان کے اس تصور کو بری طرح مجروح کردیتی ہے۔

( بحوالہ کتاب ،اسلامی طبی اخلاقیات)