انتخابات کا سال

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : اپریل 2007

            حکومت وقت کے اعلانات کے مطابق 2007 کا سال وطن عزیز میں انتخابات کا سال ہے ۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ، ان کے وزیر اعظم جناب شوکت عزیز اور ان کے کاسہ لیس سیاستدان پچھلے کچھ عرصے سے مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اس سال موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور پھر سے نئے انتخابات کروا دیے جائیں گے ۔ ان لوگوں کے اس اعلان پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ، کیونکہ تازہ انتخابات ہم سے زیادہ جنرل صاحب کی مجبوری ہیں ۔تا کہ وہ وردی سمیت قبول کر لیے جائیں۔

            جمہوریت ، انتخابات ، اسمبلیاں ، آئین اور اس کے تقاضے ، سیاست اور سیاسی پارٹیاں وغیرہ وغیرہ ، ایسے الفاظ ہیں جن سے ہم پیار کرتے ہیں او رجن کی ‘‘اصل مفہوم’’ کے ساتھ موجودگی کو ہم ملک و ملت کے لیے نہایت سود مند گردانتے ہیں لیکن وہ ہماری بدقسمتی کہ موجودہ فوجی حکومت نے ان الفاظ کی اصل روح کو ختم کر دیا ہے اور ان کے تقدس کو مجروح کر دیا ہے ۔ اس لیے چند مفاد پرستوں اور وقتی فوائد سمیٹنے والے سیاستدانوں کے علاوہ کوئی بھی باشعور شہری فوجی حکومت کے ‘‘خالص جمہوریت’’ کے دعوؤں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ بے روح جمہوریت اور بے مغز پارلیمان کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو وطن عزیز میں ہونے والے 2002 کے الیکشن اور ان کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی کو دیکھ لے ۔ اب بھی یہی توقع کی جا رہی ہے کہ 2007 میں بھی اسی ناخوشگوار تجربے کو دہرایا جائے گا ، تو پھر ہم کس طرح حکومتی اعلانوں پر خوشیاں منائیں ؟ اور کیوں نہ کہیں کہ یہ انتخابات ہم سے زیادہ ان کی ضرورت اور مجبوری ہیں؟

            کوئی بھی باشعور آدمی ، انتخابی عمل کے خلاف بات نہیں کرسکتا ، لیکن ہمارے ہاں جس طرح جمہوری عمل کو فوجی حکومت کی بقا اور استحکام کے لیے استعمال کیا گیاہے ، اس نے جمہوریت پر اعتماد کو ختم کر دیا ہے ۔دنیا کی کوئی بھی پارلیمنٹ جو حقیقی معنی میں پارلیمنٹ ہو اور ایک خالص جمہوری عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہو ، کبھی سترہویں آئینی ترمیم ایسی کوئی ترمیم منظور نہیں کر سکتی ، نہ ہی کوئی جمہوری ادارہ ‘‘باوردی’’ صدر کی زیر ہدایت کام کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسمبلی شوکت عزیز صاحب ایسے آدمی کو اپنا قائد ایوان منتخب کر سکتی ہے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ، کسی یونین کونسل کے ممبر بھی منتخب نہیں ہو سکتے لیکن وطن عزیز میں یہ سب کچھ ہوا اور آگے ہوتا جا رہا ہے ۔ پھر بھی جمہوریت کا دعوی ،یا للعجب!

            انتخابات صرف رائے شماری کا نام نہیں ہوتا اور نہ ہی انگوٹھا چھاپ سفید پوشوں کے مجموعے کو اسمبلی کہتے ہیں ۔ یہ ایک پورا سیاسی فلسفہ ہے ، جو بنیادی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ کسی ملک میں حکومت کرنے کا حق کس کو حاصل ہے اور یہ کہ حکومتی انتظامیہ کے ارکان کون کون ہونگے اور کیسے آگے آئیں گے ؟ لیکن ہمارے ملک میں انتخابات اور جمہوری عمل سے بالاہی مخفی قوتیں یہ طے کر لیتی ہیں کہ اس قوم پر حکومت کرنے کا حق وردی کو حاصل ہے خواہ وہ بالواسطہ یہ حق استعمال کرے یا بلا واسطہ، ایسے میں کیا الیکشن یا اسمبلی خالص قرار دی جا سکتی ہے ؟

            جنرل مشرف صاحب اوران کے شریکان اقتدار سے ہم عرض کریں گے کہ مزید تجربات سے اجتناب کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدارانہ سیاسی عمل کو جتنا جلد بحال کر دیں اتنا ہی اچھا ہے ۔ ملکی مفاد کا حقیقی تقاضا یہی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کر کے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی سیاسی قیادت کو اقتدار سپرد کر کے علیحدہ ہو جائیں ۔ یہی راستہ ملک وملت کے حقیقی مفاد کا ہے اورتاریخ میں نام محفوظ کروانے کاہے۔

             کوئی بھی انسان ، کسی کام کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا۔ یہ اللہ کریم کی اس دنیا کے لیے طے کردہ سکیم کے خلاف ہے ۔ ہر کام کے لیے اس نے کئی آدمیوں کو پیدا کر رکھا ہوتا ہے ۔ کوئی فرد اگر یہ سمجھتا ہے کہ اگر ہم اقتدار میں نہ رہے تو وطن عزیز نجانے کن بحرانات کا شکار ہو جائے محض بھول ہے کئی آئے اور کئی گئے مگر تاریخ ان کا نام تک بھی بھول گئی ، زندہ وہی رہتا ہے جو ملک و قوم کی زندگی کے لیے جیتا رہا ہو ۔

            یہ بات طے شدہ ہے اور عقل و خرد کی کسوٹی پر ہزار بار پرکھی جا چکی ہے کہ سول حکومت ہی کسی ملک کی جائز حکومت ہوتی ہے اور منتخب سول حکومت ہی ملکوں کے مسائل کو پائیدار طریقے سے حل کرسکتی ہے ۔فوجی حکمرانوں کو ہمیشہ ہی آخر کار سول حکومت میں تبدیل ہونا پڑا ہے ۔ اگر یہ کام رضا و رغبت سے ہو جائے تو بہتر رہتا ہے ورنہ اس طرح کے حکمرانوں کو تاریخ کا جبر سہنا پڑتا ہے۔

            ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم پچھلے ساٹھ سالوں سے بالواسطہ یا بلا واسطہ فوجی سائے میں جی رہے ہیں اور ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ فوجی اپنا یہ اقتدار طالع آزما، خود پرست اور وقتی مفاد سمیٹنے والے سیاستدانوں کے سہارے ہی قائم رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیاستدان کم از کم ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوں کہ وطن عزیز میں خالص سول حکومت کو بحال کرنا ہے ۔ اس کے لیے ‘‘میثاق جمہوریت’’ نامی معاہدہ ایک اچھی بنیاد بن سکتا تھا ، لیکن افسوس ہے جیسے جیسے ‘‘میثاق جمہوریت’’ کو عملی شکل دینے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ، دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں میں اس میثاق سے لاپروائی بڑھتی جا رہی ہے جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔

            تاریخ نے ایک بار پھر سول حکومت کی بحالی کی ذمہ داری سیاستدانوں کے کندھوں پر ڈالی ہے ،لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک بار پھر بڑے بڑے سیاستدانوں نے ذاتی اقتدار کے لیے چور دروازے تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں قائد اعظمؒ کے سوا کوئی سیاستدان ایسا نہ پیدا ہو سکا جو جمہوری روایات سے مستحکم رشتہ رکھتا ہوتا ہواور اپنی بہتر کمٹمنٹ سے وطن عزیز میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کا باعث بن سکتاہو ۔ بلاشبہ ایک آدھ سیاستدان کا کردار مثالی رہا ہے ، لیکن اکثریت وقتی مفادات کو سمیٹنے والوں کی ہی ہے ۔ کیا موجودہ سیاسی بزرجمہروں سے اس کی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ جمہوری روایات سے اپنی مضبوط وابستگی کا مظاہرہ کر سکیں گے ؟ ہر ذی شعور اور مخلص سیاستدان کا فرض ہے کہ وہ سیاسی اور جمہوری عمل سے اپنے رشتے کو مستحکم بنائے اور وطن عزیز میں منتخب سول حکومت کے قیام کو ممکن بنائے ، چاہے وہ جس کی بھی حکومت ہو ۔ ہمیں عوامی شعور پر اعتماد کرنا ہو گا ۔ ہمارے ہاں ہمیشہ عوامی رائے کو مقتدر قوتوں نے اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کی ہے ۔ سیاسی عمل کی خرابیوں کو جس قدر جلد دورکردیا جائے گا عوامی شعور میں اتنی ہی بہتری پیدا ہو گی۔

            یہ بات خوش آئند ہے کہ صدر محترم بار بار غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں اور پچھلے چند ہفتوں سے تو انہوں نے باقاعدہ انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اور پورے تواتر سے ، کھلم کھلا عوام سے اپنے حلیف سیاستدانوں کے حق میں ووٹ مانگتے بھی نظر آرہے ہیں جس سے کم از کم یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کروانے میں سنجیدہ ہیں ، لیکن یہ الیکشن کس حد تک غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونگے اس کا بہت کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔

            صد ر محترم اگر انتخابات سے قبل وردی اتار دیں ، نگران انتظامیہ قائم کر دیں، پوری طرح آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن بنا دیں اور صاف ستھرے سیاستدانوں کو سیاسی تحریک چلانے کی مکمل اجازت دیں او رتمام سیاسی لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کو مکمل آزادی کے ساتھ حصہ لینے دیں تو پھر بھی کسی حد تک بلکہ کافی حد تک انتخابات کو قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔ اگر محترم جنرل صاحب یہ کام کر گزریں تو یقینا ان کا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

            انتخابات سے قبل ہی ایک بہت بڑی دھاندلی کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔ مختلف وزرا اور جعلی سیاستدان ، مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ مشرف صاحب کو وردی سمیت بار بار صدر منتخب کروایا جائے گا ، اب تو یہ مسلہ مرکزی کابینہ میں بھی باقاعدہ زیر بحث لایا جا چکا ہے او رمختلف آئینی ماہرین کی آرا کو زیر تجزیہ رکھا جا رہا ہے ۔ جس سے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ موجودہ حکومت انہی اسمبلیوں سے جنرل صاحب کا بطور صدر انتخاب کرانے کا عزم رکھتی ہے ۔ اس سے شفاف انتخابات کی ہلکی سی جھلک واضح ہو جاتی ہے۔

            اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں بظاہر میثاق جمہوریت میں بندھی اور اے آرڈی کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں لیکن اندر سے دونوں اپنے اپنے پارٹی مفاد کے لیے کا م کر رہی ہیں ۔ اور ایک دوسرے کے لیے شدید عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ نہ وہ دونوں ایک نشان اور ایک جھنڈے تلے الیکشن لڑنے پر تیار ہیں اور نہ ہی وہ متحد ہو کر فوجی اقتدار کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ دوسری طرف ایم ایم اے کے نام سے جو اپوزیشن اتحاد ہے ، اس کے حالات بھی مخدوش نظر آتے ہیں ۔ جہاں اس کے صدر محترم فوجی اقتدار کو چیلنج کرنے کی آخری حدوں کو چھو تے نظر آ رہے ہوتے ہیں وہیں ان کے سیکرٹری جنرل نہ تو اپنے صدر صاحب کی لے میں لے ملاتے ہیں اور نہ ہی ان کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر کھڑے ہونے کی صلاحیت ظاہر کر سکتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ تو فوجی اقتدار کے دوام کے لیے بڑا سہارا بنے ہوئے ہیں ۔ موقف کے اس بعد المشرقین کے باوجود، نہ جانے کس طرح یہ اتحاد قائم بھی ہے اور قائم رکھے جانے کا ادعا بھی رکھتا ہے ۔ یہ ایک سیاسی معجزہ ہی ہو گا کہ آنے والے انتخابات تک یہ اتحاد قائم رہے جس اقتدار کی مزاحم جماعتیں ، یوں آپس میں بعدالمشرقین پر کھڑی ہوں اس اقتدار کو دوام کی نوید ہو !!!