غزل

مصنف : شکیب جلالی

سلسلہ : غزل

شمارہ : مارچ 2007

 

آکے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے ،پس دیوار گرے
 
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہ دیوار پہ دیوار گرے
 
کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھر تی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
 
دیکھ کر اپنے دروبام، لرز اٹھتا ہوں
مرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دوار گرے
 
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے 
 کس گھڑ ی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
 
ہم سے ٹکر ا گئی خود بڑ ھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ، ناچار گرے
 
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
 
دیکھتے کیوں ہو شکیب اتنی بلندی کیطرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے