چوری یہ بھی ہے!

مصنف : مفتی محمد تقی عثمانی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2007

            ہم چوری اور غصب بس یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کے گھر میں چھپ کر داخل ہو اور اس کا سامان چرائے یا طاقت کا باقاعدہ استعمال کر کے اس کا مال چھینے’ حالانکہ کسی کی مرضی کے خلاف اس کی ملکیت کا استعمال کسی بھی صورت میں ہو’ وہ چوری یا غصب کے گناہ میں داخل ہے۔ اس قسم کی چوری اور غصب کی جو مختلف صورتیں ہمارے معاشرے میں عام ہوگئی ہیں اور اچھے خاصے لکھے پڑھے اور بظاہر مہذب افراد بھی ان میں مبتلا ہیں’ ان کا شمار مشکل ہے۔ تاہم مثال کے طور پر:

            ۱- آج یہ بات بڑے فخْر سے بیان کی جاتی ہے کہ ہم اپنا سامان ریل یا جہاز میں کرایہ دیئے بغیر نکال لائے۔ حالانکہ اگر یہ کام متعلقہ افسروں کی آنکھ بچا کر کیا گیا تو اس میں اور چوری میں کوئی فرق نہیں اور اگر ان کی رضامندی سے کیا گیا’ جب کہ وہ اجازت دینے کے مجاز نہ تھے تو ان کا بھی اس گناہ میں شریک ہونا لازم آیا۔ ہاں اگر کسی افسر کو ریلوے یا ایئرلائنز کی طرف سے یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ زیادہ سامان بغیر کرائے کے چھوڑ دے تو بات دوسری ہے۔

            ۲- ٹیلی فون ایکسچینج کے کسی ملازم سے دوستی گانٹھ کر دوسرے شہروں میں فون پر مفت بات چیت نہ صرف یہ کہ کوئی عیب نہیں سمجھی جاتی’ بلکہ اسے اپنے وسیع تعلقات کا ثبوت قرار دے کر فخریہ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک گٹھیا درجے کی چوری ہے اور اس کے گناہ عظیم ہونے میں کوئی شک نہیں۔

            ۳- بجلی کے سرکاری کھمبے سے کنکشن لے کر مفت بجلی کا استعمال چوری کی ایک اور قسم ہے’ جس کا رواج بھی عام ہوتا جا رہا ہے اور یہ گناہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے۔

            ۴- اگر ہم کسی شخص سے اس کی کوئی چیز مانگتے ہیں جب کہ ہمیں غالب گمان یہ ہے کہ وہ زبان سے تو انکار نہیں کرسکے گا’ لیکن دینے پر دل سے راضی بھی نہ ہوگا اور دے گا تو محض شرما شرمی اور بادل نخواستہ دے گا تو یہ بھی غصب میں داخل ہے اور ایسی چیز کا استعمال حلال نہیں’ کیوں کہ دینے والے نے خوش دلی کے بجائے وہ چیز دباؤ میں آکر دی ہے۔

            ۵- اگر کسی شخص سے کوئی چیز استعمال کے لیے مستعار لی گئی اور اس سے وعدہ کرلیا گیا کہ فلاں وقت لوٹا دی جائے گی لیکن وقت پر لوٹانے کے بجائے اسے کسی عذر کے بغیر اپنے استعمال میں باقی رکھا تو اس میں وعدہ خلافی کا گناہ ہے اور اگر وہ مقررہ وقت کے بعد اس کے استعمال پر دل سے راضی نہ ہو تو غصب کا گناہ بھی ہے۔ یہی حال قرض کا ہے کہ واپسی کی مقررہ تاریخ کے بعد قرض واپس نہ کرنا (جب کہ کوئی شدید عذر نہ ہو) وعدہ خلافی اور غصب دونوں گناہوں کا مجموعہ ہے۔

            ۶- اگر کسی شخص سے کوئی مکان’ زمین یا دکان ایک خاص وقت کے لیے کرائے پر لی گئی تو وقت گزر جانے کے بعد مالک کی اجازت کے بغیر اسے اپنے استعمال میں رکھنا بھی اسی وعدہ خلافی اور غصب میں داخل ہے۔

            ۷- اگر مستعار لی ہوئی چیز ایسی بے دردی سے استعمال کی جائے جس پر مالک راضی نہ ہو’ تو یہ غصب کی مذکورہ تعریف میں داخل ہے۔ مثلاً کسی بھلے مانس نے اگر اپنی گاڑی دوسرے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے’ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کے ساتھ ‘‘مال مفت دل بے رحم’’ کا معاملہ کرے اور اسے خراب راستوں پر اس طرح دوڑائے پھرے کہ اس کے کل پرزے پناہ مانگنے لگیں۔ اگر کسی نے اپنا فون استعمال کرنے کی اجازت دی ہے تو اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پر طویل فاصلے کی کالیں دیر دیر تک کرتے رہنا یقینا غصب میں داخل اور حرام ہے۔

            ۸- بک اسٹالوں پر کتابیں’ رسالے اور اخبارات اس لیے رکھے جاتے ہیں کہ ان میں سے جو پسند ہوں لوگ انھیں خرید سکیں’ پسند کے تعین کے لیے ان کی معمولی ورق گردانی کی بھی عام طور سے اجازت ہوتی ہے’ لیکن اگر بک اسٹال پر کھڑے ہو کر کتابوں اور اخبارات یا رسالوں کا باقاعدہ مطالعہ شروع کردیا جائے’ جب کہ خریدنے کی نیت نہ ہو تو یہ بھی ان کا غاصبانہ استعمال ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

            یہ چند سرسری مثالیں ہیں جو بے ساختہ قلم پر آگئیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہم سب مل کر سوچیں کہ ہم کہاں کہاں چوری اور غصب کے گھٹیا جرم کے مرتکب ہورہے ہیں؟