محاسبہ نفس

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2007

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

            اچھی طرح جان لو کہ آدمی کا سب سے بڑا دشمن اس کا نفس ہے جو اس کے اندر گھسا بیٹھا ہے۔ یہی نفس اسے برائی اور گناہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اور یہی اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے ۔اسی نفس کے تزکیہ اور اسے راہِ راست پر رکھنے کا کام آدمی کے سپرد ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:فلاح پا گیا جس نے اِس (نفس) کو پاک کرلیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کیا’’۔ (الشمس ۹۱: ۹-۱۰)پس اگر تم اپنے نفس کی خبر نہ لو گے تو وہ سرکش اور قابو سے باہر ہوجائے گا اور پھر ہاتھ نہ آئے گا لیکن اگر تم اسے ملامت کرتے رہو گے تو وہ ‘نفسِ لوامہ’ بن جائے گا۔ بلکہ کیا عجب کہ رفتہ رفتہ ‘نفس مطمئنہ ہو جائے کہ اللہ اس سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

            دیکھو’ کسی وقت بھی اس کو نصیحت اور ملامت کرنے سے غافل نہ رہنا۔ بلکہ دوسروں کو نصیحت تب کرنا جب پہلے اپنے نفس کو کرلو۔ تم ہمیشہ اس سے یوں کہتے رہا کرو: ‘‘اے نفس! ذرا انصاف کر!…… تو سمجھتا ہے کہ میں بڑا عقل مند ہوں’ مگر تیرے برابر بے وقوف کوئی نہ ہوگا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ جنت اور دوزخ تیرے سامنے ہیں اور تو بہت جلد کسی ایک میں جانے والا ہے۔ پھر تجھے کیا ہوا ہے کہ ہر وقت ہنستا’ کھیلتا اور دنیا میں مگن رہتا ہے؟!!’’کیا تو نہیں جانتا کہ تیرے اوپر موت کا کٹھن وقت آنے والا ہے’ آج ہو یا کل؟…… جس موت کو تو دُور سمجھتا ہے’ اللہ کے نزدیک وہ بہت قریب ہے…… جس چیز کو آنا ہی ہو وہ قریب ہی ہوا کرتی ہے…… کیا تجھے یہ نہیں معلوم کہ موت اچانک ہی آتی ہے…… نہ کوئی خبر کرنے والا آتا ہے’ نہ کوئی پیغام…… یہ نہیں کہ دن کو آئے رات کو نہ آئے یا رات کو آئے اور دن کو نہ آئے…… یا بچپن میں آئے جوانی میں نہ آئے…… جوانی میں آئے بچپن میں نہ آئے…… موت تو کسی بھی سانس آجائے گی!!پس تجھے کیا ہوا ہے کہ موت اتنی نزدیک ہے مگر تو اُس کی تیاری نہیں کرتا؟ حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں کہ کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں’ دل ان کے (دوسری ہی فکروں میں) منہمک ہیں’’۔ (الانبیاء ۲۱: ۱-۳)

            ذرا سوچ! تجھے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کیوں کر ہوتی ہے؟ اگر تیرا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تجھے نہیں دیکھتا’ تو پھر تو یقینا کافر ہے۔ یا اگر یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر اس کی نافرمانی کرتا ہے تو پھر سخت بے حیا ہے۔ اگر تیرا بھائی یا نوکر کوئی ایسی بات کرے جو تجھے بری لگے تو تو کتنا غصہ کرتا ہے۔ پھر تجھے یہ جرأت کیوں کر ہوتی ہے کہ اپنے رب کا غصہ مول لے اور اس کے عذاب سے نہ ڈرے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ اللہ کے عذاب کو برداشت کرسکے گا؟ ہرگز نہیں’ یہ بات دل سے نکال دے۔ ذرا ایک گھڑی تیز دھوپ میں کھڑا رہ یا اپنی اُنگلی آگ سے قریب کر’ تجھے کچھ اپنی طاقت اور حوصلہ معلوم ہوجائے گا۔

            کیا تو اس مغالطہ میں پڑ گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا کریم اور غفور رحیم ہے’ اسے کسی کی اطاعت کی حاجت نہیں’ وہ مجھے بخش دے گا۔ لیکن اپنے دنیا کے کاموں کے لیے کیوں کوشش کرتا ہے’ اور اس کے کرم پر کیوں نہیں چھوڑ دیتا؟!…… جب کوئی دشمن تیرے درپے ہوتا ہے تو کیوں اُس سے بچنے کی تدبیر کرتا ہے؟ تب کیوں نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے مجھے بچا لے گا؟

            جب کوئی دنیاوی کام روپے پیسے کے بغیر نہیں ہوتا’ تو اس وقت تیرا دم کیوں نکلتا ہے’ اور کیوں اسے حاصل کرنے کے لیے ہزار بھاگ دوڑ کرتا ہے؟…… اُس وقت کرمِ الٰہی پر تیرا اعتماد کہاں چلا جاتا ہے؟…… کیوں نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ کوئی خزانہ دے دے گا یا کسی بندہ کو بھیج دے گا اور تیرا کام ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر ہوجائے گا؟یا کیا اللہ تعالیٰ صرف آخرت میں کریم ہے’ دنیا میں نہیں؟اے نفس! تیرا نفاق اور جھوٹے دعوے بڑے عجیب ہیں!…… ذرا دیکھ تیرا آقا دنیا کے بارے میں فرماتا ہے: ‘‘زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمنہ نہ ہو’’۔ (ہود ۱۱:۶)اور آخرت کے بارے میں فرماتا ہے: ‘‘اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی’’۔ (النجم ۵۳: ۳۹)گویا تیرے دنیا کے رزق کی ذمہ داری تو اُس نے اپنے اُوپر لے لی ہے’ اس کا مدار تیری کوشش پر نہیں۔ ہاں! آخرت کو تیری کمائی پر منحصر کیا ہے۔ مگر تو اپنے فعل سے اللہ کو جھوٹا کرتا ہے۔ جس چیز کی ذمہ داری اُس نے لے لی ہے’ اس پر تو تو پاگلوں کی طرح گرتا ہے’ اور جس آخرت کو اس نے تیری کوشش پر منحصر کیا ہے’ تو اُس کی بالکل پرواہ نہیں کرتا اور اُس کے لیے کوشش کو حقیر سمجھتا ہے۔ یہ تو نشانی ٔ ایمان نہیں!…… اگر زبانی ایمان معتبر ہوتا تو منافق دوزخ کے سب سے نیچے درجے میں کیوں ہوتا؟

            کیا تو روزِ حساب پر ایمان نہیں رکھتا؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد تجھے بلاحساب لیے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ یا تو بچ کر کہیں بھاگ سکے گا؟ ہرگز نہیں! اگر تو ایسا ہی سمجھتا ہے تو تیرے برابر کوئی جاہل نہیں اور تو پکا کافر ہے۔ پھر کیا تو اس بات کو جھوٹ سمجھتا ہے کہ اللہ مرنے کے بعد تجھے اُٹھا کھڑا کرے گا۔ اگر نہیں’ تو پھر اس کی نافرمانی سے کیوں نہیں بچتا؟

            اے نفس! ذرا انصاف کر! اگر ایک بے دین ڈاکٹر تجھ سے کہہ دیتا ہے کہ فلاں کھانا تیرے لیے مضر ہے تو تو جی کڑا کر کے اسے چھوڑ دیتا ہے اور صبر کرتا ہے’ اگرچہ وہ بڑا لذیذ کھانا ہو۔ کیا انبیاء کا کہنا’ جن کو معجزات کی تائید حاصل ہوتی ہے اور کتابِ الٰہی میں اللہ کا فرمان تیرے لیے اتنا بھی وزن نہیں رکھتا جتنا ایک بے دین ڈاکٹر کا قول۔ عقل اور علم کی کمی کے باوجود اس کی بات کا اثر تو ہوتا ہے’ مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کا نہیں ہوتا۔اس سے عجیب تر بات یہ ہے کہ ایک بچہ کہتا ہے کہ تیرے کپڑوں میں بچھو ہے تو تو بغیر دلیل طلب کیے اور بغیر سوچے سمجھے اپنے کپڑے اُتار پھینکتا ہے۔ کیا انبیاء کی متفقہ بات تیرے نزدیک اس نادان بچہ کی بات سے بھی کم وقعت رکھتی ہے؟ یا جہنم کی آگ’ اس کی بیڑیاں’ اس کے گرز’ اس کا عذاب’ اس کے زقوم’ اور اس کے آنکڑے’ اس کے سانپ’ بچھو اور زہریلی چیزیں تیرے لیے ایک بچھو سے بھی کم تکلیف دہ ہیں؟ حالانکہ اس کی تکلیف زیادہ سے زیادہ ایک دن یا اس سے کم رہتی ہے۔ یہ عقل مندوں کا شیوہ نہیں۔ اگر کہیں جانوروں کو تیری حالت کا علم ہوجائے تووہ تجھ پر ہنسیں اور تیری دانائی کا مذاق اڑائیں۔پس اے نفس! اگر تجھ کو یہ سب چیزیں معلوم ہیں اور ان پر تیرا ایمان ہے تو کیا بات ہے کہ تو عمل میں سستی اور ٹال مٹول سے کام لیتا ہے حالانکہ موت کمین گاہ میں منتظر ہے کہ وہ بغیر مہلت کے تجھے اُچک لے جائے؟ تو کس وجہ سے نڈر ہے کہ وہ جلد نہ آئے گی؟ اگر تجھے سو برس کی مہلت مل بھی مل گئی ہے’ تو کیا تیرا خیال ہے کہ وہ مسافر جس کو ایک گھاٹی طے کرنی ہے اور وہ اس گھاٹی کے نشیب میں اطمینان سے اپنے جانور کو کھلا رہا ہے’ وہ کبھی بھی اس گھاٹی کو طے کرسکے گا؟ تو نہیں جانتا کہ راستہ سفر کیے بغیر طے نہیں ہوتا اور کام کیے بغیر انجام نہیں پاتا۔ ایسے شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے جو علم حاصل کرنے کی غرض سے پردیس کا سفر کرے’ اور وہاں کئی سال بیکار اور نکما بیٹھا رہے’ اور نفس سے وعدے کرتا رہے کہ جس سال وطن واپس ہوگا سب علم حاصل کرلے گا؟ تو اس کی عقل پر ہنسے گا کہ یہ بھی عجیب شخص ہے! سمجھتا ہے کہ ایک سال میں سارا علم حاصل ہوجائے گا’ یا بغیر علم حاصل کیے توکل کی برکت سے وہ بہترین عالم بن جائے گا۔پھر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آخر عمر کی کوشش مفید ہوسکتی ہے اور بلند درجات تک لے جا سکتی ہے تو یہ کیسے معلوم کہ ابھی زندگی باقی ہے’ ہوسکتا ہے کہ یہی آج کا دن تیری عمر کا آخری دن ہو۔ تو آج کے دن سے اپنے کام میں کیوں مشغول نہیں ہوتا’ اور آج کل’ آج کل کرنے کی کیا وجہ ہے؟کیا یہ وجہ ہے کہ تجھے اپنی خواہشاتِ نفس کی مخالفت مشکل معلوم ہوتی ہے’ کیونکہ اس میں محنت و مشقت ہے؟ کیا تو اس دن کا منتظر ہے جب خواہشات کی مخالفت تیرے لیے آسان ہوجائے گی؟ ایسا دن تو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی نہیں کیا اور نہ پیدا کرے گا۔ جنت جب ملے گی’ ہمیشہ ناگوار کام کرنے ہی سے ملے گی اور ناگوار کام کبھی نفس کے لیے آسان نہیں ہو سکتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘جہنم کو لذتوں اور نفس کی خواہشات سے گھیر دیا گیا ہے اور جنت کو سختیوں اور مشقتوں سے گھیر دیا گیا ہے’’۔ (متفق علیہ)یعنی جب تک کوئی آدمی اپنے نفس کو شکست دے کر اسے ہر مشقت و ناگواری اللہ کی خاطر گوارا کرنے پر مجبور نہیں کرتا وہ آرام و راحت کی جنت میں کیسے پہنچے گا؟سوچ تو سہی’ کب سے تو روز وعدہ کرتا ہے کہ کل سے یہ کام کروں گا اور کل’ کل کرتے’ ہرکل آج ہوتی گئی۔ جب آج ہی نہیں تو کیا’ تو کل کیسے کرے گا؟ تجھے معلوم نہیں کہ جو کل آچکی ہے وہ گذشتہ دن کے حکم میں ہے۔ جو کام تو آج نہیں کرسکا’ کل اس کا کرنا تیرے لیے اور بھی مشکل ہے’ تو اگر آج عاجز ہے تو کل بھی عاجز ہوگا۔اس لیے کہ خواہش کی مثال ایک تناور درخت کی سی ہے’ جس کو اکھاڑے بغیر چارہ نہیں۔ اگر سستی کے باعث اسے آج نہ اکھاڑا اور کل پر رکھا تو اس کی مثال اس جوان کی سی ہے جس سے ایک درخت نہیں اکھاڑا گیا’ تو اس نے اِس کام کو دوسرے سال کے لیے ملتوی کردیا حالانکہ جتنا زمانہ گزرے گا’ درخت کی جڑیں مضبوط ہوتی جائیں گی اور اکھاڑنے والے کی کمزوری اور ضعف میں اضافہ ہوگا۔ جس کو جوان ہوکر نہیں اُکھاڑ سکا’ اس کو بڑھاپے میں کیا اُکھاڑے گا؟ سرسبز شاخ جھکائی جاسکتی ہے’ جب سوکھ جائے تو اس کو موڑنا ناممکن ہوجائے گا۔پس اے نفس! اگر تو ان صاف صاف باتوں کو نہیں سمجھتا’ اور سستی کرتا ہے’ تو تجھے کیا ہوگیا ہے کہ اپنے آپ کو عقل مند سمجھتا ہے۔ اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے۔غالباً تو یہ کہے گا کہ میں استقامت سے عمل اس لیے نہیں کر سکتا کہ لذت اور خواہشات کا حریص ہوں اور تکلیف و مشقت برداشت نہیں کرسکتا۔ اگر یہی بات ہے تو تو پرلے درجے کا احمق ہے اور تیرا عذر لنگ ہے’ اگر لذت کا حریص ہے تو ایسی لذت کیوں نہیں تلاش کرتا جو تمام آلائشوں سے پاک ہو اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو۔ یہ نعمت تو جنت ہی میں حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر تجھے لذت اور خواہش ہی عزیز ہیں تو اِن کی خاطر بھی تجھے نفس کی وقتی خواہشات کی مخالفت کرنی چاہیے’ اس لیے کہ بسااوقات ایک لقمہ کئی لقموں سے محروم کر دیتا ہے۔تیرا کیا خیال ہے اُس مریض کے بارے میں جسے طبیب کہے کہ صرف تین دن ٹھنڈا پانی مت پینا تاکہ تندرست ہوجاؤ اور پھر زندگی بھر ٹھنڈے پانی کا لطف اُٹھاؤ۔ اگر تم نے ان تین دنوں میں پیا تو زندگی بھر اُس ٹھنڈے پانی سے ہاتھ دھو لینا پڑے گا۔ اس وقت سچ سچ بتلا’ عقل کا تقاضا کیا ہے؟ کیا وہ تین دن صبر کرے تاکہ زندگی آرام سے گزرے یا اپنی خواہش پوری کرے کہ مجھ سے تین دن صبر نہیں ہوسکتا’ پھر تین سو دن’ یا تین ہزار دن’ برابر نعمت سے محروم رہے؟ تین دن کی جو حقیقت پوری عمر کے مقابلہ میں ہے’ وہ اس سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی جو تیری پوری عمر کی ہمیشہ کی زندگی کے مقابلہ میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنی ایک اُنگلی دریا میں ڈال کر نکال لے اور پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اُس میں لگ کر آئی ہے’’۔ (مسلم)کیا تو کہہ سکتا ہے کہ خواہشاتِ نفسانی کے ضبط کرنے کی تکلیف طبقات جہنم میں عذابِ نار سے زیادہ سخت اور طویل ہے؟ جو شخص دنیا میں ایک معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کرسکتا’ وہ آخرت میں عذابِ الٰہی کو کیسے برداشت کرے گا!

            میں دیکھتا ہوں کہ تو دو وجہ سے اپنے نفس کو ڈھیل دیتا ہے: ایک ‘کفر خفی’ اور ایک ‘صریح حماقت’۔ کفر خفی یہ ہے کہ یومِ حساب پر تیرا ایمان کمزور ہے اور ثواب و عتاب سے تو ناواقف ہے اور صریح حماقت اللہ تعالیٰ کے عفو و کرم پر غلط اعتماد ہے اور اِس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ مہلت عذاب دینے کے لیے دیتا ہے حالانکہ تو روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جتنی تدابیر اور کوششیں ضروری ہوں وہ سب کرتا ہے۔اسی جہالت کی وجہ سے احمق کا لقب تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ فرمایا:‘‘ہوشیار وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد (یعنی آخرت کی نجات و کامیابی) کے لیے عمل کرے۔ اور احمق وہ ہے جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے اور بغیر عمل کے اللہ سے اُمیدیں باندھے’’۔ (ترمذی)اے نفس! دنیا کی زندگی میں نہ کھوجا! اللہ تعالیٰ سے غلط اُمیدیں نہ باندھ! پنی فکر آپ کر’ اپنا وقت ضائع مت کر کہ گنتی کے چند سانس تیرے پاس ہیں۔ ایک سانس جاتا ہے’ اُتنا ہی وقت کا خزانہ کم ہوجاتا ہے۔جتنی مدت آخرت میں رہنا ہے’ اِسی قدر دنیا میں اس کی تیاری کر۔ جتنی مدت جاڑے کی ہوتی ہے’ اِسی حساب سے تو دنیا میں کھانا’ کپڑے اور لکڑیاں جمع کرتا ہے۔ ان میں سے کسی چیز میں تو اللہ کے کرم پر تکیہ نہیں کرتا کہ وہ محض اپنے فضل سے کپڑوں اور آگ کے بغیر ‘تجھے سردی سے بچا لے گا’ حالانکہ وہ اس پر قادر ہے پھر کیا تیرا خیال ہے کہ دنیا کی سردی کے مقابلے میں جہنم کی سردی کم ہوگی؟…… یا تھوڑے دن رہے گی…… یا کچھ کیے بغیر اس سے بچ جائے گا؟…… نہیں جہنم کی سردی توحید اور اطاعت کے بغیر نہیں جانے کی…… اللہ کا یہ کرم کیا تھوڑا ہے کہ تجھ کو جہنم سے بچنے کا طریقہ بتا دیا اور اس کے لیے سارا سامان مہیا کردیا…… جس طرح اُون اور آگ کو پیدا کیا…… تاکہ تو خود سردی سے اپنا بچاؤ کرسکے۔تیری خرابی ہو اے نفس! جس طرح دنیا کے لیے تیاری کرتا ہے’ اُس سے کہیں بڑھ کر آخرت کے لیے تیاری کر!

            اے نفس! میں دیکھتا ہوں کہ تجھے دنیا سے محبت ہے اور اس کی جدائی تجھ پر شاق ہے تو اللہ کے عذاب و ثواب اور قیامت کے ہول سے غافل ہے۔ حالانکہ تو دنیا میں مسافر ہے’ اور یہاں کی چیزیں سفر کرنے والوں کے ساتھ نہیں جاتیں۔ کیا تو گزرے ہوئے لوگوں کا حال نہیں دیکھتا؟…… جن مکانوں میں رہنا ہی نہیں’ وہ کیسے عالی شان بنائے’ پھر چھوڑ کر چلے گئے۔ رہنے کی جگہ زمین کے اندر قبر ہے’ اس کی فکر ہی نہ کی۔ شاید لوگوں کے درمیان عزت و مرتبہ کی محبت سے تیری آنکھوں پر چربی چھا گئی ہے؟ زمین پر سارے لوگ اگر تیری عزت کریں’ تیری تعریف کے گن گائیں اور تیرا کہا مانیں’ پھر کیا تو نہیں جانتا کہ چند برس کے بعد نہ تو رہے گا’ نہ یہ سارے لوگ۔ پھر ایک زمانہ آئے گا جس میں نہ تیرا ذکر کر رہے گا’ نہ ان شخصوں کا جو تیرا ذکر کرتے تھے۔

            اے نفس! موت نزدیک آگئی ہے’ جو کرنا ہے اب کرلے۔ تیرے بعد نہ کوئی تیری طرف سے نماز پڑھے گا’ نہ روزہ رکھے گا’ نہ تیری طرف سے اللہ کو راضی کرے گا۔ زندگی کے یہ چند روز ہی تیرا سرمایہ ہے’ اس سے تجارت کرلے’ اکثر سرمایہ تو ضائع کرچکا ہے’ اگر تمام عمر اس بربادی پر روئے تب بھی کم ہے۔ مُردوں کا لشکر گھر کے باہر تیرا منتظر ہے۔ انھوں نے پکی قسم کھا رکھی ہے کہ تجھے ساتھ لیے بغیر نہیں ہلیں گے۔ یہ سب یہی تمنا کرتے ہیں کہ کاش ہمیں ایک روز مل جائے کہ دنیا میں جاکر اپنے گناہوں کا تدارک کردیں۔ تیرے پاس آج یہ ایک روز ہے جو اگر تو بیچے تو یہ مُردے تمام دنیا کے عوض بھی خرید لیں’اگر ان کو قدرت ہو۔

            اے نفس! تجھ کو ذرا شرم نہیں۔ اپنے ظاہر کو تو خلق کے لیے سنوارتا ہے’ اور باطن میں بڑے بڑے گناہ کر کے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔ اے نفس’ کیا یہ عقل مندی ہے کہ تو ہر روز اپنے مال کے زیادہ ہونے سے تو خوش ہو’ مگر عمر کے کم ہونے کا کچھ غم نہ ہو۔ اے نفس’ یاد رکھ کہ دین اور ایمان کا بدل کوئی چیز نہیں’ اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں۔

            اے نفس! اب میری نصیحت مان کہ جو نصیحت سے منہ پھیرتا ہے وہ آگ پر راضی ہوتا ہے اگر دل کی پستی نصیحت کو قبول کرنے میں مانع ہو۔ تو اس سختی کو تہجد گزاری اور آہِ نیم شبی سے دُور کر’ اور اقرباء سے حسنِ سلوک اور یتیموں پر مہربانی و شفقت کر۔ یہ بھی کارگر نہ ہو تو جان لے کہ شاید اللہ نے دل پر مہر لگا دی تو اپنے سے ناامید ہوجا۔ لیکن ناامیدی کفر ہے’ اس لیے تو نااُمید ہو نہیں سکتا’ اور اُمید کی بھی کوئی صورت نہیں۔تو اب یہ دیکھ کہ جس مصیبت میں مبتلا ہے اس پر تجھے غم ہوتا ہے کہ نہیں’ کوئی آنسو آنکھ سے گرتا ہے کہ نہیں۔ اگر گرتا ہے تو آنسو منبع رحمت ہے اور ابھی امید کی جگہ باقی ہے بس تو ارحم الراحمین کے سامنے فریاد کر اور اَکرم الاکرمین کے سامنے شکوہ کر۔ اس لیے کہ تیری مصیبت بہت بڑھ گئی اب کوئی راستہ اور ٹھکانہ اور بھاگنے کی جگہ اور فریاد کا سننے والا’ اس عالی سرکار کے سوا کوئی نہیں اور کہیں نہیں۔ اس کے سامنے گریہ و زاری کر’ اور دھاڑیں مار۔ وہ گڑگڑانے والوں اور رونے والوں پر رحم فرماتا ہے’ اور بے قرار کی دعا قبول فرماتا ہے۔ اب جب سب راستے بند ہوگئے تو جس سے طلب کرتا ہے وہ کریم اور سخی ہے’ اور جس سے فریاد کرتا ہے وہ رؤف اور رحیم ہے۔ اس کی رحمت وسیع اور اس کا کرم عام’ اور اُس کے عفو میں ہرخطا شامل ہے۔