انتخابی مہم

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : جنوری 2007

            نہ "وہ"اتنا غلط تھا۔ جتنا اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا اور نہ "یہ"ہی اتنا مقدس ہے کہ اس میں غلطیاں ممکن نہ ہوں۔ حدود آرڈیننس 79ء ہو، یا حالیہ پاس ہونے والا حقوق نسواں بل، دونوں، اپنے اپنے حالات میں انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ اس لئے ، ہر وقت اور ہر لمحے لائق غور بھی ہیں اور لائق ترمیم بھی۔ یہ ایسی بات ہے جس پر وطن عزیز کے تمام طبقات کا اتفاق تھا۔ دین کا علم و فہم رکھنے والے کسی بھی مخلص انسان نے کبھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ حدود اﷲ اور حدود آرڈیننس 79ء کو ہمیشہ جُدا جُدا چیز سمجھا گیا۔ لیکن بُرا ہو سیاسی مفاد اور گروہی حیثیت کا ، سیاستدانوں نے اس مذہبی حقیقت کو بھی میدان جنگ کا Issueبنا دیا۔

            ۷۹ء میں، وطن عزیز کے اقتدار پر ،اگرچہ ایک صالح جرنیل قابض تھالیکن بہر حال وہ بھی اپنے اس قبضے کے لئے کوئی اخلاقی قانونی اور اسلامی جواز نہ رکھتا تھا۔ اپنے اقتدار کو طول بخشنے کی اندرونی خواہش نے اسے وطن عزیز میںIslamizationکا ڈول ڈالنے پر مجبور کیا۔ حدود آرڈیننس 79ء بھی جنرل محمد ضیاء الحق کی اسی نمائشی اور سطحی اسلامائزیشن پالیسی کا مظہر تھا۔

            حدود، خدائی قانون ہیں۔ لیکن ان کو عملی شکل دینے کا عمل جب ہمارے اداروں اور ماہرین کے ہاتھوں میں آیا۔ تو وہ بلاشبہ کئی معصوم اور بے گناہ شہریوں کے لئے وبال بن گیا۔

            اب جب ، اس آرڈیننس میں ترمیم کرنے کا ڈول ڈالا گیا ہے ۔ تو وطن عزیز پر ایک بار پھر ایک جرنل صاحب بر سر اقتدار ہیں اور ان کی ان ترامیم کے پس منظر میں بھی اپنی روشن خیال حکمرانی کوطول دینے کی خواہش جھلکتی نظر آرہی ہے ۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں "اسلام"کے نام پر اقتدار قائم رکھا گیاتھا اور اب ترقی اور روشن خیالی کے نام پر یہی کوشش ہو رہی ہے۔

            ہمیں تسلیم ہے کہ حدود آرڈیننس 79ء بعض پہلوؤں سے خواتین کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا لیکن کیاوطن عزیز میں عورت کی مظلومیت ، کمتری و کمزوری اور اس پر ہونے والے جبرو تشدد کی واحد وجہ یہی قانون تھا؟ اور کیا اب اس میں ترمیم ہو جانے کے بعد عورتوں کے سب دکھوں کا مداوا ہو جائے گا؟جبکہ ہمارے خیال میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے اس سے نہ صرف یہ کہ عورتوں کے دکھوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ وہ کئی اور پہلوؤں سے مزید دکھوں اورظلم کا شکار ہونے والی ہیں۔وہ قانون اگر ایک انتہا پر تھا تو یہ قانون دوسری انتہا پرہے ۔ پہلے اگر معصوم اور بے گناہ مر د و خواتین کے خلاف حدود قوانین کے تحت پولیس کی بددیانتی کے باعث غلط مقدمات درج ہو جاتے تھے تو اب اس نئے قانون کے پیچیدہ اور مشکل طریقہ کار کے باعث مظلوم خواتین کا شکایت کاازالہ نہیں ہو سکے گا۔ حدود آرڈیننس 79ء کے خلاف طوفانی پروپیگنڈہ سے ہم نے یوں سمجھا تھا کہ اس میں زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی تفریق نہ ہونے کے باعث زنا بالجبر کے ظالم مجرم بچ رہے تھے اور ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ترامیم ضروری تھیں۔ اب جب اس میں ترامیم کا بل منظور ہوا، تو معلوم ہوا کہ زنا بالجبر کے مجرم تو رہے ایک طرف زنا بالرضا کے اقراری مجرم بھی تکنیکی وجوہات کی بنا پر سزا سے صاف بچ جایا کریں گے اور شاید یہی مطلوب بھی تھا۔

            حدود قوانین کے نفاذ کے وقت فیض و برکات کے جس ابربہاراں کی نوید سنائی گئی تھی وہ کبھی برس نہ سکا اسی طرح ہمیں اس کی بھی قوی امید ہے کہ اس بل کے نفاذ پر بھی دودھ کی نہروں کے بہنے کی جو خوش خبریاں سنائی جارہی ہیں وہ بھی کبھی پوری نہ ہو سکیں گی ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس ملک کی مشینری ، انتظامیہ، پولیس ، عدالتی اہل کار اور حکمران طبقہ ، کرپٹ ، بددیانت اور لاقانونیت پسند ہو، وہاں آپ کوئی بھی اچھے سے اچھا قانون بنا دیں اس سے مطلوبہ نتائج کبھی بھی برآمد نہ ہو سکیں گے۔ حدود آرڈیننس 79ء نے الٹے نتائج دیئے ہیں، تو اس کی وجہ اس قانون کی کجی نہیں بلکہ انتظامی اور تفتیشی مشینری کی بددیانتی، نااہلی اور بے تدبیری ہے ۔ ان بنیادی وجوہات کا علاج کیا نہیں گیاالبتہ قانون میں ترامیم کر دی گئی ہیں ، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو اس قانون کے مطلوبہ نتائج مل جائیں۔ پولیس اور انتظامیہ آج بھی وہی ہے جو اس وقت تھی تو وہ بل اگر کل کامیاب نہیں ہو سکا تھا تو یہ بل آج کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

            اسلامی قوانین ، اپنے ثمرات لانے کے لئے ایک خاص قسم کے معاشرے اور مخصوص ماحول کے متقاضی ہیں۔ جس معاشرے میں خوف خدا نہ ہو، جہاں تقویٰ ایسی اندرونی قوت بہم نہ پہنچائی گئی ہو اور جس ملک میں اسلامی اصولوں پر تزکیہ نفوس کا وجود عمل میں نہ لایا گیا ہو وہاں اسلامی قوانین کے محض نفاذ سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے اور وطن عزیز میں ضیائی Islamizationکے پراسیس نے ہماری اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر رکھی ہے۔

            ہمار ے فہم دین کے مطابق، حدود آرڈیننس میں بے پناہ کمزوریاں تھیں اور موجودہ بل میں اور بھی زیادہ۔ تمام مکاتب فکر نے متفقہ طور پر اسے قرآن وسنت کے منافی قرار دیا ہے۔چنانچہ اس پر سنجید ہ تحریک کی ضرورت ہے نہ کہ سیاسی کھیل کی۔ ایم ایم اے کے دوستوں سے ہمارا یہی شکوہ ہے، کہ وہ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اس بل کو پرکھ رہے ہیں جبکہ انہیں دینی مسئلہ سمجھ کر اس سے نبٹنا چاہییے تھا۔

            ایم ایم اے کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی اور ٹھوس حکمت عملی اور علمی دلائل سے نہ صرف مقتدر طبقات کو قائل کرنے کی بھر پور سعی کریں بلکہ میڈیا اور عوام کی تائید حاصل کر نے کی بھی سرتوڑ کوشش کریں۔

            جس قوم پر اس کی مرضی کے بغیر کوئی جرنیل جب چاہے تسلط حاصل کر لے۔ جس کے طاقتور لوگوں نے لوگوں کو باندیاں اور غلام بنا رکھا ہو۔ جس قو م کے اداروں کے سربراہ اور کارکنان کرپشن و بددیانتی میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے ہوں جس قوم کا ذرہ ذرہ عالمی استعمار کی غلامی تلے سسک رہا ہواس کی خواتین کو ایک چھوٹے سے قانون کے ذریعے "آزادی"کی نوید سنانا ایک مذاق ہے۔

            الحمد اﷲ ، ہمارا معاشرہ ، زانیوں، بدکاروں اور نائٹ کلبوں کے آباد کاروں کا معاشرہ نہیں ہے۔ زنا اور اس کے متعلقات پر پابندی یا سختی کا قانون محض چند گنے چنے لوگوں پر نافذ ہونے والا ہے۔ 90فیصد آبادی کے مسائل سے اس قانون کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس آبادی کے مسائل کو ن حل کرے گا اس کی طرف نہ ایم ایم اے کا دھیا ن ہے نہ کسی اور جماعت کا۔

            مسلم معاشرہ ، ہمیشہ سے باحیا اور باعزت معاشرہ رہا ہے۔ ہماری پہچان مضبوط خاندانی نظام اور سنت نکاح کا وجو دہے ۔ یہ شناخت اور امتیاز کسی ضیائی آرڈیننس کا مرہون منت نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے اس فخر و اعزاز کوتازہ قانون چھین سکتا ہے۔ عورتوں کو جو حقوق اور عزت و تکریم ، اسلام نے عطا کی ہے۔ وہ پہلے سے قائم ہے۔ نہ ضیائی قانون ان حقوق میں کوئی کمی کر سکا نہ ہی مشرفی قانون اس میں کسی اضافہ کا باعث ہو سکتا ہے۔ ہمارے سلگتے ہوئے مسائل کچھ اور ہیں ، یہ نہیں، وہ کچھ اور عوامل ہیں جو ہمیں دنیائے عالم میں رسوا کر رہے ہیں۔ کچھ اور ایشوز ہیں جن پر سنجیدہ کام کی ضرورت ہے کاش ہماری قیادت اور سیاسی جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں۔

            جس ملک میں بھوک لوگوں کو خود کشی پر مجبور کر تی ہو جہاں انسان بھیڑ بکروں کی طرح Treatکئے جاتے ہوں۔ جہاں کی ملوں ، کارخانوں اور فیکٹریوں کا ایندھن ، کوئلہ اور پٹرول نہیں انسان بنتے ہوں۔ جس ملک کی دو تہائی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتی ہو، جس ملک میں غریب کے بچے پر پرائمری سکول تک کے دروازے بند ہوں، جہاں کا ورکر انسانی سمگلروں کے ہاتھوں سمندروں میں غرق ہو رہا ہو۔ وہاں پر حدود آرڈیننس 79ء تو کیا ، پورے کے پورے دین میں ترمیم کر نے سے بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ۔

            حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں عورت کی جو تذلیل اور زبوں حالی ہو رہی ہے وہ نام نہاد مغربی تہذیب کے پیروکاروں کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ یا پھر ان جاگیرداروں ، وڈیروں اور نوابوں کے ہاں ہو رہی ہے جو ایوان ہائے اقتدار کے چاروں طرف پائے جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس ملک کے مسائل کی جڑ ہیں ۔ جاگیردار معاشرہ ہی ہے وہ معاشرہ ہے جہاں عورت ایک انسان نہیں بلکہ ملکیت میں رکھی جانے والی ایک چیز متصور ہوتی ہے جہاں لوگ گائے بھینس اورزمین کی ملکیت گنواتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے ملکیت میں اتنی عورتیں بھی ہیں۔ یہی وہ معاشرہ ہے جہاں بڑی بڑی حویلیوں کی دیواروں تلے عورت کو قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق دبا رکھے ہیں۔ عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور بہیمانہ برتاؤ ان ظالم طبقات کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ان طبقات کو چیلنج کرنے کا حوصلہ نہ ایم ایم اے کے پاس ہے نہ حکمران طبقے کے پاس تو دونوں کس منہ سے عورتوں کے حقوق کے پاسبانی کا دعوی کر تے ہیں۔ موجودہ حالات میں محض چند قوانین کی الٹ پھیر سے عورتوں کے حقوق لوٹانے کے وعدے محض الیکشن سٹنٹ ہیں اور کچھ نہیں ۔

            حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ا س بل کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ بھی اپنی "انتخابی مہم"چلا رہے ہیں اور جو طبقات اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی اکثریت بھی اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے ۔فرق صرف یہ ہے وہ حقوق نسواں کا نعرہ لگا رہے ہیں اور یہ تحفظ اسلام کا!!