تاج پوشی

مصنف : ابوالحسام قاسمی

سلسلہ : سیرت صحابہؓ

شمارہ : اکتوبر 2008

خلافتِ رسولؐ ایک بہت بڑا اعزاز اور بہت بڑی تاج پوشی کے ساتھ عظیم ذمہ داری بھی تھی۔ خیرالقرون کے زمانہ کے لوگوں کے سروں پر جب خلافت رسولؐ کا تاج رکھا گیا تو اس ذمہ داری کو انھوں نے کس طرح نبھایا، اس کی ایک جھلک

خلافت رسولؐ جو یقینا ایک بہت بڑی تاج پوشی اور ایک زبردست اعزاز تھی ان لوگوں کے لیے کیا چیز تھی جو اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ ہمارا خدا ایک ہے اور ہمیں ہر اعزاز کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے اسی زبردست خدا کے آگے پیش ہونا ہے۔ اس کا کچھ اندازہ اس تاریخی تقریر سے ہوتا ہے جو حضرت ابوبکرصدیقؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ایک خاص کرب و درد کے عالم میں اُمت اسلامیہ کے روبرو کی تھی۔ جب لوگ ان کے سر پر خلافت کا تاج رکھ رہے تھے تو انہوں نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا، بلکہ کیسی پُرسوز پکار ان کے منہ سے نکلی تھی!

‘‘اے لوگو! میری خواہش تو یہ تھی کہ کوئی اور شخص اس بوجھ کو اٹھاتا۔ بات یہ ہے کہ اگر تم مجھ سے اپنے پیغمبرؐ کی سنت کا اتباع چاہو گے تو یہ ایک اتنا بھاری مطالبہ ہے کہ جس کی برداشت کی سکت مجھ میں نہیں۔ کیونکہ تم لوگ جانتے ہو کہ مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے۔ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور ان پر آسمان سے وحی اترا کرتی تھی……’’

اور یہ خلافت سے بچنے کی خواہش انہیں کس قدر سنجیدگی کے ساتھ تھی اس کا عملی ثبوت بھی انہوں نے پیش کردیا۔ اسلامی قلمرو کی باگ ڈور سلطنت کے سیاہ و سفید کی طاقت اور عظیم خزانوں کی کنجیاں جن ہاتھوں میں آپہنچی تھیں وہی ہاتھ محلے کی غریب چھوکریوں کے کہنے پر ان کی بکریوں کے تھن نچوڑتے ہوئے دیکھے گئے۔ خلافت کا اعزاز ملے ہوئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ مفلوک الحال بچیوں نے ان کا دامن پکڑ کر بڑے ناز نخرے کے ساتھ احتجاج کیا۔‘‘اب آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے۔‘‘باپ!’’ اب کون ان کا دودھ دوہا کرے گا؟’’خلافت کی معرکہ خیز ذمہ داریوں میں سر سے پاؤں تک لدے پھندے ہوئے ابوبکرصدیقؓ نے سادہ لوح بچیوں کی یہ شکایت سنی اور شفقت بھری نظروں اور محبت بھرے ہاتھوں سے ان بچیوں کو چمکارتے اور تھپکی دیتے ہوئے فرمایا۔ ‘‘میں دوہا کروں گا تمہاری بکریاں…… میں!۔ اسی طرح جس طرح اب تک دوہتا آیا ہوں’’۔

دوسرے خلیفہ رسولؐ حضرت عمر بن خطاب ‘‘خدا کے گھر’’ کا طواف کر کے سوئے مدینہ تشریف لے جا رہے تھے ، راستے میں ایک جگہ سستانے کو ٹھہرے تودھول سے اَٹے ہوئے سنگریزے اکٹھے کیے اور اس بسترخاک پر چادر بچھا کر سیدھے لیٹ گئے۔ جن کے پیروں میں قیصروکسریٰ کے تاج و تخت لوٹ رہے تھے۔ یوں فرش خاک پر عاجزانہ لیٹ کر انہوں نے آسمان کی طرف نمناک آنکھوں سے دیکھا تو بے ساختہ لیٹے لیٹے دعا کے لیے ایک بھکاری کی طرح ہاتھ پھیلاتے ہوئے پکار اُٹھے:‘‘خداوند! دیکھ تو میں اب کتنا بوڑھا ہوگیا ہوں۔ میرے قویٰ ضعیف ہوگئے مولا! اور میری رعایا ہر جگہ پھیل گئی۔ پس…… اے مالک! مجھے اس حالت میں اُٹھا لے کہ میرے اعمال اکارت نہ جائیں اور میں حداعتدال سے آگے نہ بڑھوں’’۔اور سچ یہ ہے کہ وہ بہت ہی بڑا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے۔

نالۂ نیم شبی سے ہوش آتا تو فوراً یہ فکر ستاتی کہ کہیں تجد گزار تھک ہار کر سوتے نہ رہ جائیں۔ وہ اُٹھتے اور نمازیوں کو نمازِ فجر کے لیے جگاتے پھرتے ۔ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو اتنا اندیشہ کہ ہاتھ کا نوالا ہاتھ میں منہ کا نوالا منہ ہی میں روک دیتے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس وقت بھوکا نہ پڑا رہ گیا ہو! اسی لیے نماز عشا کے بعد یہ بھی ان کا معمول تھا کہ مسجد میں پھر پھر کر نمازیوں کے چہرے دیکھتے اور پھر ذرا سا شبہ ہوتا تو گھبرا کر پوچھتے: ‘‘تم نے روٹی کھا لی کہ نہیں؟’’…… سونے کے لیے بستر ان کی طرف بازو پھیلاتا تو پاؤں رکھتے ہی یہ فکر تڑپا کر اُٹھا دیتی کہ لوگوں کی جان و مال پر کوئی آنچ نہ آجائے! پس پھر نیند کہاں! وہ اٹھتے اور سونے والوں کے گھروں کا پہرہ دیتے…… فوجیں جنگ پر جاتیں تو دل ہمہ وقت ان میں ہی اٹکا رہتا۔ قادسیہ کی جنگ چھڑی تو رہ رہ کر گھر سے نکلتے…… شہر سے باہر پہنچ جاتے۔ صبح سے دوپہر تک وہیں چکر کاٹتے اور جو کوئی شترسوار ادھر سے آرہا ہوتا دوڑ دوڑ کر اس کے پاس جاتے اور جنگ کا حال معلوم کرنا چاہتے۔ ایسے ہی موقعہ پر ایک بار محاذ جنگ کی خبریں لیے ہوئے ایک سوارخلیفۂ رسولؐ کی خدمت میں جلد پہنچنے کے لیے سواری کو تیز دوڑاتا جا رہا تھا اور خلیفہ رسولؐ بہ نفس نفیس خاک اور دھول میں لت پت اس سوار کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے اور جلدی جلدی جنگ کی خبریں معلوم کر رہے تھے۔ اس عالم میں انہیں اتنی بھی فرصت نہ ملی کہ پیٹھ پھیرے ہوئے دوڑتے ہوئے سوار کو یہ بتانے کی ضرورت سمجھتے کہ جس شخص کی طرف تو دوڑا جا رہا ہے وہی اس وقت تیرے پیچھے دوڑا آرہا ہے!

اس کے باوجود وہ مطمئن نہ تھے کہ خدا کو اپنی ذمہ داریوں کا حساب آسانی سے دے سکیں گے۔ کبھی کبھی یہ تشویش اتنی بڑھتی کہ دل کی تڑپ زبان پر آجاتی۔ ایک بار نجانے کس کیفیت میں تھے کہ بے اختیار منہ سے نکلا: ‘‘اگر کوئی دوسرا شخص اس بار کو اٹھانے کی سکت رکھتا تو میرے لیے یہ کہیں زیادہ آسان ہوتا کہ آگے بڑھ جاؤں اور میری گردن اڑا دی جائے’’۔

قاتلانہ گھاؤ لگ چکا ہے…… شمع زندگی کی لو تھرتھرا رہی ہے۔ آخری سانس گنے جارہے ہیں مگر حضرت عمرؓ ہیں کہ اس وقت بھی ٹھیک ان ہی دو باتوں کی درد بھری وصیت لکھے دے رہے ہیں جن کا ذکر رسولؐ کی پاک جان کو لاحق تھا۔ وہی نماز اور خدا کے کمزور بندوں کے حقوق کی فکر…… خون بہتے بہتے نبضیں چھوٹی جارہی ہیں اور ہوش و حواس رہ رہ کر غشی میں ڈوب جانا چاہتے ہیں مگر نماز کی فکر ان کو مرتے مرتے بھی چونکا دیتی ہے اور خلافت کے زیرسایہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق کی یاد اس وقت بھی جھنجھوڑ ڈالتی ہے اور وہ اپنی زندگی کی آخری قوت سمیٹ کر حق اور انسانیت کی حفاظت کا حق ادا کر رہے ہیں۔

موت کے خطرے کو ان کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا پاکر جب کسی نے ان سے یہ درخواست کی کہ ‘‘حضرت اپنے بعد کسی شخص کا انتخاب کرتے جایئے’’ تو یہ سن کر ان کو جیسے خوف کے مارے پسینہ آگیا اور بڑی ہی دردبھری قابلِ رحم کیفیت سے لوگوں کو تکتے ہوئے انھوں نے ٹوٹے پھوٹے مضمحل الفاظ میں کہا: تو…… کیا…… یہ بوجھ…… میں موت اور…… زندگی…… دونوں…… حالتوں میں اٹھاؤں…… ارے میری ……تو صرف یہ آرزو ہے کہ عذاب و ثواب برابر سرابر…… ہوجائے…… اے ……کاش!’’

خدا کا ڈر ان لوگوں کو اس طرح گھیرے ہوئے تھا کہ لذت ان کے حصے میں آنا محال ہوچکا تھا۔ کسی دن کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ خلافت کے نازک ترین امور کی گتھیاں سلجھانے میں ہمہ تن منہمک تھے کہ اچانک ایک شخص اندر گھس آیا اور آتے ہی حضرت عمرؓ کی محویت کو درہم برہم کرتے ہوئے پکار اُٹھا!‘‘اے امیرالمومنین…… اے امیر المومنین!! ‘‘مجھ پر فلاں شخض نے ستم ڈھا دیا’’۔دین و ملت کے بڑے اہم معاملوں میں حضرت عمرؓ اس وقت جس طرح مصروف تھے اس میں انہیں یہ ناوقت کی دہائی مداخلت فی الدین سے کم محسوس نہ ہوئی۔ سخت غصہ آیا اور آنے والے کے سر پر ایک کوڑا جما دیااور کہا‘‘جب میں مقدمات ہی فیصل کرنے کے لیے خاص طور سے بیٹھتا ہوں تو تم لوگ آتے نہیں ہواور جب مسلمانوں کے دوسرے کاموں میں مصروف ہوتا ہوں تو داد رسی کے لیے آموجود ہوتے ہو!’’

آنے والا خفگی کے ساتھ واپس مڑ گیا یہ منظر دیکھتے ہی حضرت عمرؓ کا چہرہ خوفِ خدا سے فق ہوگیا۔اس روحانی کرب کے دفعیہ کی اب محض ایک شکل باقی تھی کہ مسلمانوں کے امیر کے سر پر یہ عامی مسلمان کوڑے کے جواب میں کوڑا مارے…… اور یہی شکل حضرت عمرؓ کے لیے کس قدر آسان اور جاں نواز تھی۔ سہمی ہوئی آواز میں انہوں نے جانے والے کو پکارا اور اس کے سامنے وہی کوڑا بے تکلف ڈالتے ہوئے اپنے جسم کو اس سخت سزا کے لیے پیش کردیا۔ اس وقت لفظی معافی بھی ان کے دل کا بوجھ ہلکا نہ کرسکتی تھی…… ‘‘تم مجھ سے قصاص لو’’۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے پر ایک خاص انداز سے پورا زور ڈالتے ہوئے اس شخص کی ہمت بندھائی۔‘‘جی!؟’’ وہ شخص حیرت کی شدت سے ہکلانے لگا۔ ‘‘یہ…… آپ…… کیا فرما رہے ہیں؟…… اچھا…… اچھا…… میں نے آپ کو خدا کے لیے اور آپ کے لیے معاف کردیا……’’‘‘جی نہیں!’’حضرت عمرؓ نے ایسی معافی قبول کرنے سے انکار کردیا جس کے کچھ الفاظ سے یہ بو آرہی تھی کہ وہ ان کے عہدے کا لحاظ کر رہا ہے۔‘‘صاف کہو کیا کہتے ہو؟…… تم نے مجھے خدا کے لیے معاف کیا یا میرے لیے؟’’مخاطب بات کی تہہ تک پہنچ گیا اور خلیفہ رسولؐ کو مطمئن کردیا کہ میں نے خاص خدا کے لیے آپؐ کو دل سے معاف کردیا ہے۔

ایک بار مسجد سے گھر آرہے تھے کہ ایک صحابیہؓ نے ان کو سلام کے فوراً ہی بعد اس طرح آڑے ہاتھوں لیا۔‘‘اے عمرؓ! میں نے تمہارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب عکاظ کے بازار میں لوگ تمہیں ‘‘عمیر، عمیر’’ کہا کرتے تھے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد تم ‘‘عمر’’ ہوگئے اور اب تمہارا لقب امیرالمومنین ہے…… پس محکوموں کے معاملے میں خدا سے ڈرو!’’بوڑھی صحابیہؓ کی شفقت و نصیحت کا یہ انداز اس قدر تیزوتند تھا کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ چلنے والوں کو کھل گیا مگر خود حضرت عمرؓ کچھ نہ بولے۔‘‘بی بی’’ ایک شخص سے رہا نہ گیا اور کہہ اُٹھا: ‘‘تم نے تو امیرالمومنین کو بہت کچھ کہہ ڈالا’’۔‘‘اس بات کو جانے دو!’’ حضرت عمرؓ نے اپنے حمایتی کوفوراً روک دیا اور آہ سرد بھرتے ہوئے بولے: ‘‘کیا تم نہیں جانتے کہ یہ خولہ بنت حکیم ہیں اور عبادہؓ بن صامت کی اہلیہ ہیں۔ خدا نے سات آسمان کے اُوپر سے ان کی بات سن لی تھی (اور ان کے ہی مسئلے میں سورۂ مجادلہ اُتری تھی) تو پھر عمر کو تو اور بھی زیادہ سننا چاہیے’’۔

حضرت عثمان غنیؓ نے تو خلافت کی فوجی طاقت کو اپنے لیے اس وقت بھی استعمال نہیں کیا جب فسادیوں کی گستاخ ٹولی ان کے جسم اطہر پر خنجر آزمائی کے لیے ان کے مکان پر چڑھی آرہی تھی۔‘‘فسادیوں کی سرکوبی کے لیے آپ فوجوں کو حکم دے دیجیے نا’’۔ زبردست خطرے کے وقت دردمند دل پکار اُٹھے۔ ‘‘نہیں’’۔ حضرت عثمانؓ نے خدا کے خوف سے لرزتے ہوئے کہا۔ ‘‘اس طرح تو اُمت کا خون ہوجائے گا…… یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوگا’’۔اور آخر خلافت کی طاقت و شکوہ کا تاج پہنے ہوئے انہوں نے خونِ شہادت سے خود کو ترکرلیا۔

خلافت ملنے سے پہلے ان کی زندگی میں دولت و ثروت جھلک ملتی تھی مگر تخت خلافت کو چھوتے ہی وہ محض مشت خاک ہوکر رہ گئے تھے اور ان کے اندر کا فقر باہر کی طرف اُبل پڑا تھا۔ اب وہ صحن مسجد میں اس طرح زمین پر کروٹیں لیتے ہوئے دیکھے جاتے تھے کہ سر کے نیچے چادر تہہ کی ہوئی رکھی ہے اور نازونعم میں پلے ہوئے نازک جسم کی کھال پر سنگریزوں اور کنکروں نے جی بھر کے نقش و نگار بنا دیئے ہیں۔ اپنی جان کے لیے جس کی یہ کیفیت تھی وہ دوسروں کے حقوق کی حفاظت میں سراپا تشویش و احتیاط تھا۔ دیکھا گیا کہ مسجد میں نماز کے لیے صفیں درست ہورہی ہیں۔ مؤذن نے اقامت شروع کر دی ہے مگر حضرت عثمانؓ خدا کے سامنے اس وقت دست بستہ پیش ہونے سے پہلے بیتاب ہیں کہ بازاروں کے صحیح نرخ کے سلسلے میں اپنی بات جلدی جلدی پوری کرلیں۔

اپنے دورخلافت میں حضرت علیؓ بازار کی نگرانی اور معائنے پر پھر رہے تھے کہ ایک خورمہ فروش کی دکان پر ایک لونڈی روتی ہوئی دکھائی دی۔ جلدی سے اس کی طرف دوڑے۔ ‘‘کیا بات ہے’’ اس کے پاس جاکر اس کا حال پوچھا۔‘‘اس دکاندار نے’’ کنیز نے انھیں دیکھ کر سسکتے ہوئے کہا۔ ‘‘ایک درہم میں میرے ہاتھ کھجور فروخت کی۔ لیکن میرے آقا نے اس کو واپس کردیا تو یہ واپس لینے کے لیے تیار نہیں’’۔‘‘کیوں بھئی؟’’ نرم خفگی کے ساتھ دکاندار کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے حضرت علیؓ نے کہا: ‘‘واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہو’’۔ ‘‘کیسی واپسی؟’’دکاندار اس سفارش پر بکھر گیا اور تاؤ میں آکر حضرت علیؓ کو دھکا دے دیا۔ ‘‘ہائیں ہائیں!! دیکھنے والے چلائے پہچانتے نہیں ہو، یہ امیرالمومنین ہیں!’’یہ سننا تھا کہ دکاندار کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ ہڑبڑا کر دام لوٹائے اور اس گستاخی پر خوفِ سزا سے لرز اُٹھا۔‘‘مجھے معاف کردیجیے!…… اور مجھ سے راضی ہوجائیے’’ ۔ بہت ڈرتے ڈرتے اس نے عرض کیا۔‘‘اگر تم لوگوں کا حق پورا پورا دو گے’’۔ حضرت علیؓ نے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ فرمایا۔ ‘‘تو پھر مجھ سے زیادہ اور کون تم سے راضی ہوگا؟’’ یہ فرمایا اور پھر چپکے سے آگے بڑھ گئے۔

حضرت امیرمعاویہؓ کی خلعت فاخرہ کے اندر بھی کیسا قلب سادہ دھڑک رہا تھا۔ ایک بار انہوں نے چند سو درہم کسی انصاری کو بھجوائے۔ ان کو یہ رقم اس خاص موقعہ کے لحاظ سے بہت حقیر محسوس ہوئی۔ خفا ہوگئے اور اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ جاؤ اور ان کا تحفہ ان کے ہی منہ پر مار آؤ!’’ اطاعت شعار بیٹا روانہ ہونے لگا تو غیظ آلود کیفیت میں باپ نے پھر بیٹے کو پکارا: ‘‘قسم کھاؤ کہ یہ رقم سچ مچ ان کے منہ پر مار کر بھی آؤگے’’۔بیٹا قسم کھانے پر مجبور ہوگیا اور ایک سخت ذہنی کشمکش کے عالم میں دربارمعاویہ میں کشاں کشاں حاضر ہوا۔ اس کی عقل حیران و سرگرداں تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے! آخر یہی شکل ممکن نظر آئی کہ یہ سارا ماجرا صاف صاف حضرت معاویہ کے آگے بیان کر ڈالے۔‘‘میرے باپ سخت بدمزاج ہیں’’۔ لڑکے نے جاکر ڈرتے ڈرتے کہا: ‘‘اور انہوں نے مجھے قسم لے کر بھیجا ہے کہ آنجناب کا یہ تحفہ منہ پر مار کر آؤں۔ خدا کے لیے بتایئے میں باپ کے حکم اور آپ کے احترام کے تقاضے کو کس طرح پورا کروں؟’’یہ باتیں سننے کے بعد حضرت معاویہ بگڑنے کے بجائے زیرلب مسکرائے: ‘‘اس میں پریشانی کی تو کوئی خاص بات نظر نہیں آتی’’۔انہوں نے سر جھکائے ہوئے کہنا شروع کیا۔‘‘ایسا کیا جائے کہ میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے لیتا ہوں اور تم اطمینان سے اپنی قسم پوری کرڈالو!…… مگر دیکھنا بہت زور سے نہ مار بیٹھنا! تم دیکھ رہے ہو کہ میں کافی بوڑھا آدمی ہوں’’۔پھر اس کے بعد، جب وہ لڑکا واپس جانے لگا تو حضرت معاویہؓ نے دگنی رقم بھی ان انصاری کی خدمت میں روانہ کردی۔

خدا ہی جانے یہ لوگ کون سی مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ جو سونے چاندی کے جگمگاتے ہوئے خزانوں میں بیٹھ کر دنیا کو اس حقیقت کا درد بھرا سبق دے سکتے تھے کہ آدمی سچ مچ مٹی سے بنا ہے اور جلد یا بدیر مٹی ہی میں رَل مل جانے والا ہے۔ کتنی بڑی چیز تھا وہ عجز جو نخوت و تکبر کی مخصوص مسندوں پر جلوہ افروز ہوکر یہ حسین راز سمجھا رہا تھا کہ خدائے ذوالجلال کے قدموں میں جس آدمی کی روح کو جگہ مل گئی ہو ، اسے تخت شاہی پر بھی قرار نہیں آتا! یہ تھے وہ لوگ جن کا نام ‘‘مسلمان’’ تھا۔

لیکن آج ‘‘مسلمان’’ کسے کہتے ہیں؟آہ! میرے مولا! یہ ایک سوال نہیں روح کا ناسور ہے۔ جو ذرا سی چھیڑ سے رسنے لگتا ہے۔