بیٹی کی رخصتی پر ایک ماں کی نصیحت

مصنف : منیر احمد خلیلی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اپریل 2008

            عورت کا اصل دائرہ عمل اور شوہر کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت کا سوال شیطان کے لیے بڑا اہم رہا ہے ۔شیطان اس معاملے میں صرف اسلامی معاشرے ہی کو اپنا ہدف نہیں بناتا بلکہ ہر معاشرے اور ہر قوم کے اندر میاں بیوی کا رشتہ اس کا ہدف رہا ہے۔وہ اس روئے ارضی پر جس اخلاقی بگاڑ اور بے حیائی کے منصوبے کی تکمیل چاہتا ہے ، نکاح کی صورت میں قائم ہونے والا رشتہ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔یہ رشتہ فحاشی ، عریانی اوربد کاری کے ایجنڈے کو پنپنے نہیں دیتا۔ شیطان اور اس کی ذریت اس رشتے کی روح کو فنا کرنے یا اس کے وجود کو کمزور کرنے کی تدبیروں میں لگے رہتے ہیں اوراس میدان میں وہ مسلم و کافر ، شرق و غرب، اورنیک و بد میں بھی کوئی فرق نہیں کرتے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے جن وانس کے شیطانوں کی جدوجہد کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی خود انسانی تاریخ۔اس جدوجہد کا نشانہ افراد بھی بنتے ہیں اور قومیں بھی تاہم دوسری طرف اس عظیم اورقدیم ترین تمدنی ادارے کو شیطانی واراور حربوں سے بچانے کی کوشش بھی ہر مذہب ، ہر قوم اور ہر قبیلے کی طرف سے ہوتی رہی ہے۔

            اسی کوشش کے ضمن میں یہاں ہم ایک ماں کی نصیحت نقل کر رہے ہیں جو اس نے بیٹی کو اپنے گھرسے رخصت کرتے ہوئے کی۔

            ‘‘جمھرہ خطب العرب ’’ کی جلد اول میں شامل یہ نصیحتیں عربی زبان و ادب کا شاہکار مانی جاتی ہیں اور ازدواجی اخلاقیات کا گراں قدر نمونہ بھی۔ماں کا نام امامہ بنت حارث ہے ۔ بیٹی کی رخصتی کے لمحات قریب تھے۔ ماں نے بیٹی کوالوداع کہنے سے قبل یوں مخاطب کیا۔

            اے میری بیٹی اگر وصیت (نصیحت) کو اس لیے ترک کردینا روا ہوتا کہ جس کو نصیحت کی جارہی ہے وہ خود عقل مند ہے تومیں تجھے ہرگز وصیت نہ کرتی لیکن یاد رکھ کہ وصیت غافل کے لیے یاد دہانی اور عاقل کے لیے ایک ضرورت ہے۔

            اے میری بیٹی ، اگر عورت اپنے ماں باپ کے جاہ و حشم اور دولت و ثروت اور ماں باپ کی بیٹی کے لیے محبت کی بنیاد پر اپنے شوہر سے بے نیاز ہو سکتی تو تو اس لحاظ سے دنیا کی عورتوں میں سب سے زیادہ بے نیاز قرار دی جا سکتی ہے ( کیونکہ تیرا باپ بہت مالدار آدمی ہے ) لیکن یا د رکھ کہ عورتیں مردوں کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور مرد عورتوں کے لیے۔

            اے میری بیٹی تو آج ایک ایسی فضا سے جدا ہو رہی ہے جس میں تو نے جنم پایا تھا، ایک ایسے آشیانے سے نکل رہی ہے جس میں تو نے وجود پایا اور جس کا تو حصہ رہی ہے ۔ تو ایک دوسرے آشیانے کی طرف پرواز کر رہی ہے جس سے تو پہلے سے واقف نہیں ہے ۔ ایک ایسے اجنبی رفیق اور ساتھی کی طرف جا رہی ہے جس سے تومانوس و مالوف نہیں ہے ۔ وہ تجھ پر نکاح کے ذریعے قبضہ و ملکیت پا کر تیرا نگہبان بن گیا ہے ۔ پس ایسی حالت میں تیرے لیے مناسب رویہ ہے کہ اس کی کنیز بن کر رہ ، تو نے اگر ایسا کیا تووہ تیرا غلام ثابت ہو گا۔

            میری لخت جگر ، اپنے اندر یہ خصلتیں پیدا کر لینا ، یہ تیرے لیے ایک بے بہا خزانہ اور نصیحت ہیں ۔

            ٭ اپنے شوہر کی رفاقت میں قناعت کو اپنا شعار بنائے رکھنا اور اس کی بات سننے اور ماننے میں کوتاہی نہ کرنا۔ قناعت دل کی راحت ہے اور شوہر کے سامنے سمع و طاعت کے رویے سے رب کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ قناعت سے رفاقت میں دوام آتا ہے اورشوہر کی بات سننے اور ماننے سے حسن معاشرت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

            ٭ اپنے شوہر کی مزاج شناس بن کر دیکھنا کہ اس کی ناک کے لیے کیا چیز ناگوار ہے اور اس کی آنکھوں کو کیا چیز بھلی نہیں لگتی ۔ یا د رکھ تیرے سراپا میں اسے کوئی قبیح پہلو دیکھنے کو نہ ملے اور تیرے وجود سے اسے خوشبو کے سوا کچھ نہ ملے حسن کو دوبالا کرنے کے لیے سب سے اچھی چیز سرمہ ہے اور پانی ناگوار بو کو رفع کرنے میں قیمتی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ چیز ہے۔

            ٭ اپنے شوہر کے کھانے کے اوقات کی سخت پابندی کرنا اور اس کی نیند کے اوقات میں سکون اور خاموشی کا اہتمام کرنا۔ بھوک کی حرارت شعلے میں بدل جاتی ہے اور نیند میں خلل غضب کی آگ بھڑکا دیتا ہے ۔

            ٭ اس کے ذاتی وقاراور اس کے عیال کا خیا ل رکھنا اور اس کے مال کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا۔مال کی حفاظت ہوش مندی اور حسن تقدیر ہے اور حشم و وقار اور عیال کی نگہبانی تدبیر اور انتظام کی خوبی ہے۔

            ٭ اپنے شوہر کے کسی راز کو کبھی فاش نہ کرنا اور اس کے ہر حکم کو بجا لانے پر ہمیشہ مستعد رہنا ۔ اگر تو نے اس کے راز کی حفاظت نہ کی تو اس کی بے اعتمادی سے بچ نہ سکو گی اور اگر اس کی حکم عدولی کی تو اس کے سینے کے اندر تیرے لیے غیظ و غضب کا کھولاؤ پیدا ہو جائے گا۔

            ٭ بیٹی یاد رکھنا کہ شوہر کی اداسی اور غمگینی کے لمحات میں تم خوشی کا اظہار کرنے سے بچنا اور اس کی خوشیوں کے لمحوں میں منہ بسورنے اورروٹھنے کی حرکت نہ کرنا۔ پہلی حرکت او رغلطی اور بے پروائی ہے اور دوسری حرکت دل کی ٹھیس کا موجب ہوتی ہے ۔

            ٭ بیٹی تو اپنے شوہر کی تعظیم میں کسر نہ چھوڑنا وہ تیری تکریم میں کمی نہیں کرے گا۔ یا د رکھ کہ تو جس شد ومد کے ساتھ اس کی رائے اورموقف کی تائید کرے گی اسی قدر اس کے ساتھ تیری رفاقت میں وسعت آئے گی۔

            ٭ بیٹی یہ کبھی نہ بھولنا کہ تو اپنے شوہر سے جو کچھ بھی چاہتی ہے و ہ تجھے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ تو اپنی مرضی پر اس کی مرضی کو فوقیت نہ دے تو کسی چیز کو پسند کرے یانا پسند ، اپنی خواہشات اور آرا کو اس کی خواہشات اور آرا کے تابع رکھنا۔ اللہ تیرے لیے بھلائی کا فیصلہ کرے گا۔

( جناب منیر احمد خلیلی کی کتاب ‘‘ خاندانی نظام ، اس نشیمن کو بچانے کی فکر کیجیے’’ سے انتخاب)