رجوع الی القرآن

مصنف : سید متین احمد شاہ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی2016

اصلاح و دعوت
رجوع الی القرآن کی ضرورت، اہمیت اور تقاضے
سید متین احمد شاہ

 

امتِ مسلمہ کے زوال کا نوحہ آج ہر سوچنے والے انسان کی تحریر وتقریر کا جز ہے۔ میڈیا اس پر پروگرام پیش کرتا ہے، مفکرین اس مسئلے پر کتابیں تحریر کرتے ہیں، دانش ور سر کھپاتے ہیں، لیکن کشتیِ امت ہے کہ حالات کے بے رحم دریا کی شوریدہ سر لہروں کے رحم وکرم پر ہلکورے کھا رہی ہے۔ اس زوال کی کیفیت پر ایک طویل عرصہ بیت چکا ہے، لیکن رجعتِ قَہقَریٰ کا یہ سفر ہے کہ پیہم جاری ہے اور مولانا الطاف حسین حالیؒ کی یہ دردناک صدا ’’فریاد ہے اے کشتیِ امت کے نگہباں...بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے‘‘ہر دردمند دل کی صدا بن چکی ہے۔امت کو اس صورتِ حال سے نکالنے کے لیے مسلم دنیا میں ان آخری صدیوں میں مختلف کوششیں ہوئیں اور ان خطوط پر سوچنے والی ہر بڑی شخصیت نے کوئی نہ کوئی لائحہء عمل تجویز کیا۔اس سلسلے میں دیگر دنیا میں محمد بن عبدالوہاب نجدی، مدحت پاشا، سیدجمال الدین افغانی،محمد عبدہ، خیرالدین پاشا تیونسی، علی پاشا مبارک، عبداللہ ندیم، عبدالرحمان کواکبی ، حسن البناوغیرہم جب کہ برصغیر پاک وہند میں امام شاہ ولی اللہ دھلوی، ان کے اخلاف، سرسید احمد خان، امیر علی،علامہ محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناابوالاعلیٰ مودودی، مولانا محمد الیاس، مولانا اشرف علی تھانوی وغیرہم جیسی شخصیات ہمیں میدانِ عمل میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ ان سب رجال کی مساعی کا نقطہء ماسکہ یہ بات ہے کہ امت کو اپنے مرکز سے جوڑا جائے اور قومِ آوارہ پھر سے سوئے حجاز عناں تاب ہو جائے۔ ان شخصیات میں سے اکثر کے ہاں ہمیں امت کے موجودہ زوال سے نکلنے کی واحد صورت نوعِ انسانی کے لیے پیامِ آخریں کی طرف رجوع کی دعوت ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول معروف ہے کہ لن یصلح آخر ہذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولہ. (اس امت کے آخری حصے کی اصلاح صرف اور صرف اسی طریق پر ہوگی جس سے اس کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی۔) یہ بات ہرشخص جانتا ہے کہ دورِ اولین میں مسلمانوں کے پاس سب سے بڑا نسخہء کیمیا اسی قرآن کی شکل میں موجود تھا۔اسی نسخہء کیمیا کی تاثیر تھی جس نے صنادیدِ قریش کے دل پلٹ کر رکھ دیے تھے۔ ابنِ ہشام نے ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ قریش نے عتبہ بن ربیعہ کو رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک ایجنڈا دے کر بھیجا۔آپ ؐ نے اس کے سامنے سورہء فصلت کی کچھ آیات تلاوت کیں۔ عتبہ کا دل اس پیام آتشیں کی تابانیوں کے سامنے زیر ہوچکا تھا، اپنے حلقے میں آتا ہے تو صنادیدِ قریش تعجب سے ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ اس آدمی کا چہرہ تو وہ نہیں جو یہاں سے لے کر گیا تھا۔قرآن کے آگے یہ حال ان لوگوں کا تھا جو عدنا ن کے فُصَحا اور قَحطان کے بُلَغا تھے، لیکن اس کتاب نے ان کی زبانوں کو گنگ کر کے رکھ دیا۔علامہ قرطبیؒ نے سورہء نحل کی آیت ان اللہ یامر بالعدل والاحسان کے تحت ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے شروع میں صرف رسول اللہ ﷺ سے حیا کرتے ہوئے ایمان لایا تھا، لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی ان اللہ یامر بالعدل والاحسان (بے شک اللہ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے۔)تو میں آپ ؐ کے پاس تھا تو پھر ایمان میرے دل میں راسخ ہوگیا۔ میں نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کے سامنے پڑھی تو اس نے کہا کہ بھتیجے! ذرا پھرپڑھنا؛میں نے آیت دہرائی تو بولا:واللہ ان لہ لحلاوۃ، وان علیہ لطلاوۃ، وان اصلہ لمورق، واعلاہ لمثمر، وما ہو بقول بشر.(بخدا! اس کلام میں تو شیرینی اور تازگی ہے،اس کا تنا برگ آور اور چوٹی ثمر بار ہے۔ یہ تو کسی انسان کا کلام نہیں ہے۔)حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے قرآنِ کریم سے عشق ومحبت کے قصے ان کی پاکیزہ اور مشک بار سیرتوں میں معروف ہیں۔ یہ کتاب رحمان کا دسترخوان، عارفین کی پہچان اور اللہ کے صالح بندوں کا شعار ہے جن کی زندگیاں اس کی تعلیمات سے عطربیز نظر آتی ہیں۔تاہم رجوع الی القرآن سے مراد محض ایک ’’کتاب‘‘ کی طرف رجوع نہیں، کیوں کہ محض الفاظ دانی کی حد تک تو مغربی جامعات میں غیر مسلم پروفیسر بھی قرآن کے علمی پہلوؤں پر اعلیٰ درجے کی نظر رکھتے ہیں، لیکن تعلق مع اللہ، احتسابِ نفس، موت کی یاد اور آخرت کے ابدی اور سرمدی جہان کی تیاری کی فکر جیسے اوصاف (جو کہ قرآن کی طرف رجوع سے مقصود ہیں۔)ان کی زندگیوں میں نظر نہیں آئیں گے۔قرآن کی طرف رجوع سے مراد اس کتابِ ہدایت کی تعلیمات کے مطابق ظاہر اور باطن سے بدلنے کا نام ہے، اس سے مراد ان اخلاق سے متصف ہونا ہے جو انسان کو اللہ کے ہاں محبوب بناتے ہیں۔اس رجوع کے نتیجے میں ضروری ہے کہ انسان میں ایک عظیم اور برتر ذات کے ہاں پیشی کا احساس پیدا ہو، اس کی رحمت کے احساس سے دل جمالیاتی لمس سے بھر جائے اور اس کے عذاب کے ڈر سے آنکھیں اپنے احساسِ عجز سے اشک بار ہو جائیں۔حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور صلحاے امت کی زندگیاں اس کتاب کے تعلق سے انھیں اوصاف سے مملو ہو گئی تھیں جس کے باعث دنیا میں بھی اللہ نے انھیں عافیت و عزت کی زندگی عطا کی۔ اس وقت مسلم ذہن کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ غیروں کے تہذیبی استیلا کے تسلط کے زیرِ اثر اپنے ماضی سے گریزاں وبے زار اور آتشِ بے گانہ کی دریوزہ گری میں اپنے لیے سعادت کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے،اس کی آنکھ کا سرمہ خاکِ مدینہ ونجف کے بجائے مغرب ہے؛ یقیناً مغرب ہماری نفرت کا موضوع نہیں، بلکہ قرآن کے دیے ہوئے انسانیت کی عمومی خیرخواہی کے جذبے کے تحت وہ بھی ہماری ہمدردی کا موضوع ہے، لیکن طرزِ حیات اختیار کرنے کے لیے وہ ہمارا آئیڈیل نہیں، کیوں کہ اس کا نظمِ زندگی خدا اساس نہیں، بلکہ انسان اساس ہے، جہاں کسی برتر ذات کی کارفرمائی نہیں، بلکہ ایک مخصوصِ تصورِ انسان کے فلسفے (Humanism)کے تحت تیار ہونے والا فکروعمل کا تانا بانا پوری زندگی کے نظم کو کنٹرول کر رہا ہے۔اس کے نتیجے میں انسان اس مرکز سے کٹ گیا جس کی طرف بلانے کے لیے ہمیشہ انبیاء کا سلسلہ جاری رہا۔اپنے مرکزِ فطرت سے کٹ جانا آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے جس کا تریاق صرف اور صرف کتابِ مجید ہے۔مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے برصغیر کی مختلف شخصیات کو خطوط لکھے کہ وہ اپنی زندگی میں نمایاں اثر ڈالنے والی کتابوں کے بارے میں لکھیں۔ اس کے جواب میں کئی شخصیات نے اپنی علمی اور مطالعاتی زندگی کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کیے، جو بعد میں ’’مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ ان میں برصغیر کی ایک عظیم شخصیت کا تاثر بہت متاثر کن تھا جس نے فطری طور پر کتاب کے آغاز میں جگہ پائی؛ انھوں نے لکھا:’’جاہلیت کے زمانہ میں ،مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے، قدیم وجدید فلسفہ،سائنس، تاریخ، معاشیات،سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کوپڑھاتو بخدا محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا،علم کی جڑ اب ہاتھ آئی۔کانٹ، ہیگل، نطشے، مارکس اور دنیا کے دوسرے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔بیچاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کرسکے، ان کو اس کتاب نے ایک دو فقروں میں حل کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے ناواقف نہ ہوتے تو کیوں اپنی عمریں ضائع کرتے؟ میری اصل محسن بس یہی ایک کتاب ہے۔اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے، حیوان سے انسان بنا دیا ہے، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں تھما دیا ہے کہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس طرح مجھے برملا دکھائی دیتی ہے، گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔انگریزی میں اس کنجی کو ’’شاہ کلید‘‘ (Master Key) کہتے ہیں، جس سے ہر قفل کھل جائے، سو میرے لیے یہ قرآن شاہ کلید ہے؛ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔‘‘ماہِ قرآن کی آمد آمد ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کتاب کی تلاوت، معانی پر دھیان کے ساتھ تدبر اور اس کے پیغام کی نشرواشاعت کا اہتمام کریں۔اللہ اس کتاب کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور، غموں کا مداوا اور دکھوں کا درماں بنا دے۔ آمین!