معرفت ربانی

مصنف : عارف علوی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی2016

اصلاح و دعوت 
معرفتِ ربّانی
عارف علوی 

ربّ ذوالجلال کی ذات لیس کمثلہ شیئی یعنی ہر تشبیہ،تمثیل سے بلند ہے۔ با الفاظِ دیگر ذات باری تعالیٰ کا احاطہ کرناعلم انسانی کیلئے ممکن ہی نہیں۔ انسان کیلئے ربّ ذوالجلال کی معرفت کا واحد ذریعہ صفات باری تعالیٰ کا فہم و ادراک ہے۔ صفاتِ ربّانی میں سے چار صفات رحمت، ربوبیت،علم اور قدرت حصولِ معرفت کے پہلو سے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ قرآن حکیم کی ابتداء صفت رحمت کے تعارف سے ہی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ما سوائے سورۃ توبہ ہر سورت کی ابتداء جس آیت و جملے سے ہوتی ہے اسکا غالب حصہ صفتِ رحمت ہی پر مبنی ہے۔ یہ بات بھی ربّ ذوالجلال کی رحمت و حکمت کا مظہر ہے کہ ربّ ذوالجلال نے خاتم الاانبیاء ﷺ کو انسانیت بلکہ کائنات کیلئے رحمتہ اللعالمین ﷺ بنا کر مبعوث فرمایاہے۔ بلکہ قیامت برپا کرنے کا محرک بھی قرآن نے رحمت ربّانی ہی کو قرار دیا ہے۔ گویاجس پہلو سے بھی اس کارخانہ حیات پر غور کیا جائے توزندگی کو موافق بنانے کا ہر سامان پکار پکار کر اعلان کر رہا ہے کہ یہاں نہایت شفیق و مہربان ہستی نے کمال محبت سے انواع و اقسام کی نعمتیں حضرت انسان کی راحت و لذّت کے لئے نہایت فراخدلی سے فراہم فرمارکھی ہیں۔
ایک اور پہلو سے غور کیا جائے توربّ ذوالجلال نے انسان کی پیدائش کا ذریعہ رحم مادر کو بنایا ہے۔جس کو مخاطب فرماتے ہوئے ربّ ذوالجلال فرماتے ہیں کہ اے رحم میں نے تیر انام اپنے نام سے نکالا ہے لہٰذا جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑوں گا اور جو تجھے توڑے گا میں اسے توڑوں گا۔ گو کہ یہ ارشاد رحم سے پیدا ہونے والے رشتوں کے حوالے سے ہے لیکن ربّ ذوالجلال کی صفت رحمت کو سمجھنے کیلئے اسکی اہمیت نا قابلِ تردید ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ربّ ذوالجلال نے آدمؑ وحواؑ سے پیدائش انسانیت کے جس سلسلے کی ابتداء فرمائی اسکی بنیاد رحمت ہے اور اس رحمت کا لازمی تقاضا ہے کہ رحم مادر کی نسبت سے بننے والے رشتے آپس میں رحمدلی اور ہمدردی کو برقرار رکھیں۔ رحمتہ اللعالمینﷺ نے رحم کے رشتے توڑنے والے کیلئے جنّت کا داخلہ تو کجا اس کی خوشبو تک سے محرومی کی خبر ارشاد فرما کر صفت رحمت کے تقاضوں کی اہمیت کو مزید واضح فرمایا ہے۔
صفت رحمت کو سمجھنے کیلئے ایک اور پہلو پر غور کیا جائے کہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کو ایک مسلّمہ حیثیت حاصل ہے۔ رحمۃاللعالمینﷺ کا ارشاد ہے کہ ربّ ذوالجلال نے اپنی رحمت کے سو حصے کر کے ایک حصہ زمین پر اُتارا۔ جس کے نتیجہ کے طور پر ہر انسان سمیت تمام مخلوقات حتی کہ وحشی درندے اسی رحمت کے اثر سے اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ ربّ ذوالجلال روزِ قیا مت اس ایک حصہ رحمت کو اپنے پاس موجود ننانوے حصوں کے ساتھ شامل کر کے اپنی کامل رحمت کواپنے مومن بندوں پر نچھاور فرمائیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان سمیت ہر مخلوق کی پیدائش سے موت تک زندگی کی بقا ء،توازن اور تسلسل کا واحد ذریعہ ربّ ذوالجلال کی رحمت ہے جو ایک لا متناہی چادر کی طرح اپنی مخلوق کے ہر فرد کو ہر وقت اپنے سائے میں لئے رکھتی ہے تب جا کر زندگی اپنا وجود برقرار رکھ پاتی ہے۔
معرفت ربّانی یعنی ربّ ذوالجلال کی پہچان حاصل کرنے کے پہلو سے دوسری صفت ربوبیت ہے کہ پیدائش کی ابتداء سے لیکر زندگی کوبقا و تسلسل عطا کرنے والی ذات ربّ اللعالمین ہے ۔ اگر پیدائش کے مراحل کے پہلو ہی سے غور کیا جائے تو چرند ،پرند،حشرات ،چوپائے سمیت ہر صنف کی پیدائش جس پیچیدہ مگر مربوط نظام کے تحت ہوتی ہے ان سب کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں کیا جاناممکن ہی نہیں۔ چونکہ اس قدر وسیع کائنات جہاں ایک ، ایک صنف کی ذیلی اقسام لامحدود ہوں اور ہر ایک کا نظام تخلیق کسی نہ کسی پہلوسے دوسری صنف سے مختلف ہو اس کا احاطہ بھلا کیسے کیا جا سکتا ہے لہٰذا نفس مضمون کی وضاحت کیلئے اگر انسان کی تخلیق اور عناصر زندگی کے توافق و توازن کو کسی قدر سمجھ لیا جائے تو کافی ہو گا۔
انسان کی تخلیق استقرار حمل سے ہوتی ہے۔ جو نطفے، خون کی پھٹکی اور لوتھڑے کے مراحل سے گزرتے ہوئے جسم کی ساخت تک پہنچتا ہے۔ جس کا ایک ایک مرحلہ نہایت پیچیدہ ہے۔ لیکن ربّ ذوالجلال کی مسلسل نگہداشت سے وہ ایک سے دوسرے مرحلے کی طرف نہ صرف سفر جاری رکھتا ہے بلکہ اعضاء جسمانی کی شکل ،جسامت سمیت باریک سے باریک عنصر کی پرورش اس قدر توازن سے جاری رہتی ہے کہ عقل انسانی اگرفطرت سلیم کی حامل ہوتو پکار اُٹھتی ہے کہ بہت ہی بابرکت ہے وہ ذات جو سب سے بہترین تخلیق فرمانے والی ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کی جسامت اور قد کاٹھ نازک اور قلیل مقدارکا حامل ہوتا ہے لیکن جوں جوں اسکی عمر بڑھتی ہے جسم کے تمام اعضاء نہایت مربوط توازن کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔حتیٰ کہ چند انچوں پر محیط جسم پانچ چھ فٹ تک جا پہنچتا ہے لیکن قربان جائیں اس رحیم و کریم ہستی کے،کہ سر سے لے کر پاؤں تک ہر عضو میں توازن اور توافق برقرار رہتا ہے۔ انسان اپنی آنکھیں بند اور عقل پر تالا ہی نہ لگا لے تو ربّ ذوالجلال اپنی اس حسین و جمیل کاریگری کو اپنی رحمت اور ربوبیت کا شاہکار ان استثنائی مثالوں سے ثابت کرتے ہیں جو انسانوں کے غور و فکر اور عبرت کیلئے پیدا کئے گئے وہ معذور بچے ہیں جو انسانی آبادی کے بہت قلیل تناسب پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ربّ ذوالجلال کی قدرت اور تسلسل سے میّسر آنے والی ربوبیت کیلئے دلیل ثابت ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں یا پاؤں کی اُنگلیاں غیر متناسب ،یا کسی کا سر بہت بڑا یا چھوٹا، یا لمبوترا ہوتا ہے قلیل تعداد میں انسانوں کے اعضاء جسمانی کا غیر متوازن ہونااس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ انسانوں کی عظیم ترین اکثریت جسمانی لحاظ سے متوازن اور متناسب پیدا ہوتی ہے تو یہ خالصتاً ربّ ذوالجلال کی اس مسلسل توجہ اور نگرانی کا نتیجہ ہے جو ابتداء سے آخر تک سایہ فگن رہتی ہے۔اسی صفت ربوبیت پر انسان کی غذا کے حوالے سے غورکیا جائے تو رحمت ربّانی کا لا متناہی تسلسل دعوت غور و فکر دیتا نظر آتا ہے۔ ربّ ذوالجلال کی حکمت و قدرت کے نتیجے میں انسان کی غذا کی اجناس زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ زمین میں زرخیزی کی صلاحیت سے لے کر بارشوں اور ہواؤں کے نظام تک نہایت مربوط سلسلہء ربوبیت مسلسل رواں دواں رہتا ہے۔ جبکہ دانے کے زمین میں دفن ہونے سے تناور پودا یا درخت بننے تک ایک طویل سلسلہ ہے جس میں کسی جگہ نہ تو کوئی وقفہ آتا ہے اور نہ ہی رکاوٹ۔ یہ تمام مراحل غور و فکر کے لامتناہی دریچے وا کر دیتے ہیں جن کا باریک سے باریک عنصر ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اس عظیم تسلسل اور تواتر کے پیچھے رحیم وکریم ربّ کی بے پایاں رحمت ہے جو اپنی مخلو ق کے رزق کی فراہمی کیلئے ایک لمحے کا قلیل ترین حصہ بھی لا تعلق نہیں رہتی۔ رزق کی فراہمی کا یہ تواتر و تسلسل اس رحیم و کریم ربّ کی طرف سے ازل سے ابد تک جاری ہے جس پر ہر انسان کا نہ تو کوئی حق عائد ہے اور نہ ہی یہ تما م بندوبست انسان کے مطالبے کی صورت میں جاری کیا گیا ہے بلکہ ربّ ذوالجلال نے ہر خطہ کے انسان کی جبّلی ضروریات کے مطابق اسی علاقے میں ان کیلئے درکار رزق کا نہ ختم ہونے والا انتظام و انصرام فرما رکھا ہے۔
رزقِ انسانی کا ایک پہلو تو رزق کی فراہمی ہے جبکہ اس کا دوسرا پہلو جسمِ انسانی میں اس صلاحیت کا موجود ہونا ہے جو اس غذا کو جزو بدن بنا کر زندگی کی روانی کیلئے طاقت و توانائی میں تبدیل کرتی ہے۔ انسان غذا کا جو لقمہ منہ میں ڈالتا ہے وہ کن کن مراحل سے گزر کر جسم کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، انسا ن اگر محض اسی نظام کی باریکیوں پر غور کرنا شروع کرے تو دنگ رہ جائے کہ کون سی قوّت ہے جو لقمہ غذا کو خوراک کی نالی، معدے،جگر،تلی، دل سمیت مختلف نازک اور پیچیدہ اعضاء سے اس طرح گزارتی ہے کہ ہر عضو بلا تاخیر اپنے حصے کا کام کرتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک طرف بدن کو قوّت ، طاقت اور جسمانی ارتقا کے لئے ضرور ی لوازم فراہم ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف خوراک کے غیر ضروری اجزاء کو جسم سے خارج کرنے کا نظام اپنا کا م جاری رکھتا ہے۔
انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی بقا ء وتسلسل کے اس نہایت پیچیدہ نظام کو کبھی قابلِ غور ہی نہیں گردانتا کہ رحیم و کریم ربّ نے کس قدر فیاضی سے ایک ہی وقت میں اربوں ،کھربوں انسانوں اور نامعلوم کون ،کون سی مخلوقات کی بقا ء حیات کے نظام کو رواں دواں رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ جسمِ انسانی کی غیر متوازن تخلیق کے استثنائی مثالوں کی طرح قادر و قیّوم ربّ نے جسمِ انسانی کے اندرونی نظام کی جزوی غیرفعالی مثالوں کی فراہمی کا اہتمام بھی انسانوں کے غوروفکر کیلئے فرما رکھا ہے۔ یہ دوسر ی بات ہے کہ ہر انسان اپنی زندگی کی گردش میں اس قدر منہمک اور محوہے کہ اپنے ہی معاشرے میں موجود ایسے انسانوں کی کیفیت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ۔ جن میں سے کسی کے منہ کے غدود غذا کو گھولنے والا لعاب نہیں بناتے جس کے سبب وہ ٹھوس غذا کھا ہی نہیں سکتا یا جگر یاپتّہ درست کام نہیں کرتا۔ نتیجۃً وہ بہت ساری غذائیں باوجود خواہش کے کھا ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح ایسے افراد بھی اس کیلئے غوروفکر کا سبب نہیں بنتے جو پیشاب و پاخانہ کی تھلیاں اُٹھائے پھرتے ہیں۔ ان استثنائی مثالوں پر ہی بس نہیں ، ہر انسان کو کبھی نہ کبھی معدے ،پیٹ سمیت مختلف اعضاء کے ایسے ایسے وقتی عوارض سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں اس وقت انسان کی بیچارگی وبے بسی قابلِ دید اورباعثِ عبرت ہوتی ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ انسان ایسے ہر واقعے کو ایمان کی غذا کے حصول کا ذریعہ بنانے کی بجائے رات گئی بات گئی کے مصداق ایسے بھول جاتا ہے گویا وہ واقعہ کبھی پیش آیا ہی نہ تھا۔
صفتِ ربوبیت کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اگر اپنی تخلیق اور غذا کی فراہمی پر غور کرنا اپنا معمو ل بنا لے، اور اسی طرح اس غذا کے حلق سے اُترنے سے جزوِبدن بننے اور زائد حصے کے اخراج پر توجہ دیتا رہے تو وہ اپنے رحیم و کریم ربّ کی لا متناہی رحمتوں اور نظام ربوبیت کے گن گاتا نہ تھکے۔ یہ غوروفکر اسے آخرکار اپنے ربّ کریم کی معرفت کی دولت عطا کئے جانے کا ذریعہ بن جائے گا۔چونکہ ربّ ذوالجلال کا فرمانا تو یہ ہے کہ میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں ایک ہاتھ کے بقدر اس کی طرف بڑھتا ہوں ،اگر وہ ایک ہاتھ میر ی طرف آتا ہے تو میں کئی ہاتھ کے بقدر اس کے قریب ہوتا ہوں، اور وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں بقول دانائے فطرت

’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں‘‘

معرفتِ ربّانی کیلئے نشانِ منزل بننے والی تیسری اور چوتھی صفت ربّانی علم اور قدرت ہیں جس طرح ربّ ذوالجلال کی ذات کا احاطہ کرنا علمِ انسانی کے لئے ممکن نہیں چونکہ جو علم عطاکیا ہو ہی اسی کا ہو وہ بھلا اس کی حدودو وسعتوں کو کیسے متعین کر سکتا ہے۔ بعینہ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرح ربِ ذوالجلال کی ہر صفت لا محدود اور لا متناہی ہے۔ انسان اپنے محدود ظرف کے مطابق ہی اسے سمجھ اور بیان کر سکتا ہے۔ربّ ذوالجلا ل کا علم اور قدرت کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ چونکہ اس کی ذات ہی الا وّل بھی ہے اور الآخر بھی اورو ہی الظاھر ہے اور الباطن بھی وہی ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اسکے لئے مخفی نہیں ہے۔ 
نفسِ مضمون یعنی معرفتِ ربّانی کے اعتبار سے غور کیا جائے تو انسا ن کی تخلیق ربّ ذوالجلال تین باریک پردوں یعنی رحم، جھلی اور بطنِ مادر میں فرماتے ہیں۔ ان تین تاریکیوں میں وجودِ انسانی کی ضرورتیں کب اور کیا کیا ہوتی ہیں۔ ان کی فراہمی اور تخلیق کی متوازن تکمیل وہی ذاتِ والاصفات کر سکتی ہے جس کا علم اور قدرت حدِ ادراک سے آگے بلکہ لا محدود ہو۔ بلاشبہ ربّ ذوالجلال کی صفتِ تخلیق کے لا متناہی شاہکار پکار پکا ر کر بتاتے ہیں کہ ہمارے رحیم و کریم ربّ کا علم اور قدرت اسقدر کامل ہے کہ جس کا عملی مظہر اس کی کامل واکمل تخلیق کے نمونے ہیں۔پیدائش سے موت تک انسان کی ربوبیت بلکہ صحیح معنوں میں ناز برداری کا جو جامع و کامل انتظام ربّ ذوالجلال نے ازل سے ابد تک جاری فرما رکھا ہے ، وہ ربّ ذوالجلال کی صفاتِ رحمت اور ربوبیت کے قدم بقدم کامل علم و قدرت کا مظہر اتم ہے۔
وسیع پھیلی کائنات میں سے صرف دُنیا پر غور کر لیا جائے تو انسانوں کے علاوہ جنگلوں ، سمندروں حتیٰ کہ زمین کی اتھاہ گہرائیوں اور پتھروں کے اندر موجود مخلوقات کی زندگی کی بقاء ربّ اللعالمین کے لا محدود علم اور قدرت کا پتا دیتی ہے کہ رحیم و کریم ربّ کے علم میں ہے کہ اس کی کون سی مخلوق زمین کے کس حصے میں کس جگہ موجود ہے اور اسکی ضرورت کیا ہے، اور اس علم کے ساتھ ہی اس رحیم و کریم ر بّ کے پاس وہ لا محدود قدرت موجود ہے جو اس مخلوق کی عین مطلوبہ غذاو ضرورت کو اس تک مسلسل پہنچاتی ہے۔ بلاشبہ انسان کا فہم محدود و مقید ہے جو اپنے رحیم و کریم ربّ کے لا محدود علم و قدرت کا احاطہ کر سکے۔ ورنہ اپنے ارد گرد کی پھیلی ہوئی کائنات کے چپے چپے میں ربّ ذوالجلال کی معرفت کی نشانیاں موجود ہیں۔ مہکتے ہوئے پھول ، چہچہاتے اور اٹھکھیلیاں کرتے پرندے، طرح طرح کے چھوٹے بڑے پودے اور نباتات و حشرات زبانِ حال سے پکار پکار کر بیان کرتے ہیں کہ اس کائنات کا رب بہت کریم، بہت رحیم و شفیق اور لا محدود علم و قدرت کا حامل ہے۔جن و انسان کے سوایہ تمام مخلوقات اپنے ربّ کی تسبیح بھی کرتی ہیں اور عبادت بھی لیکن انسان ان کی تسبیح و نماز کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ربّ ذوالجلال نے انسان کو عقل و شعور کی نعمت عطا کر کے فکرو تدبّر کی صلاحیت ودیعت فرمائی ہے جس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی زندگی بطن و فرج کی نذر کرنے کی بجائے ربّ ذوالجلال کی وسیع کائنات میں پھیلی ہوئی اس کی نشانیوں پر غور کرے اور اسکا دل و دماغ اپنے ربّ کی عظمت کے سامنے سر بسجود ہوجائے اور وہ اس عمل کو صبح وشام چلتے پھرتے جاری رکھتے ہوئے مسلسل ایمان کی تازگی اور افزودگی حاصل کرتا رہے اور اپنے قو ل وفعل، کردار و گفتار کو رحمۃ اللعالمینﷺ کے رنگ میں ڈھالنے کواپنا ہدف بنائے رکھے۔ تاکہ قدم بقدم ختم ہوتی زندگی کے لمحات اسے رحمۃ اللعالمینﷺ کا سچا اُمتی، پیرو کاراور ربّ اللعالمین کا عاجز بندہ بنانے کا ذریعہ بن جائیں۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ انسان کشاں کشاں اپنے ربّ سے ملاقات کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے اور خوش قسمت ہیں وہ بندے کہ وقتِ رخصت جن کا استقبال ربّ کے فرشتے نفسِ مطمئنّۃ کے لقب سے کریں۔ اللھّم اجعل لنا منہم