آخرت کیا ہے؟ اسے کیسا سمجھا جائے؟

مصنف : مولانا عامر گزدر

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2009

آخرت پر ایمان کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جسے بس زبانی طور پر مان لیا جائے، بلکہ یہ ایمان باللہ ہی کی طرح ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی شخص ہٹ دھرمی یا تعصب کی بنا پر تو کر سکتا ہے ، لیکن کسی دلیل اور استدلال کی بنیاد پرانکار ممکن نہیں ہے ۔ انسان کا شعور آخرت کو ثابت کرتا ہے، اس کی عقل بھی اس کی شہادت دیتی ہے، خود اس کے نفس میں آخرت کی گواہی موجود ہے۔ یہ پوری کائنات اور اس میں موجود اللہ کی پروردگاری اس پر شاہد ہے اور خود انسانی تاریخ بھی یہی گواہی دیتی ہے کہ آخرت تو بہرحال قائم ہو کر رہے گی۔

ایمان بالآخرت کا مطلب

آخرت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس حقیقت کو مانا جائے کہ یہ دنیا اور اس میں ہماری یہ زندگی سب کچھ عارضی ہے۔ یہ زندگی آزمائش اور امتحان کی زندگی ہے۔ ایک دن ہماری یہ زندگی اور یہ ساری کائنات اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ اور پھر ایک نئی دنیا وجود پذیر ہو گی، جو امتحان کے اصول پر نہیں بلکہ جزا و سزا کے قانون پر برپا ہو گی اور اس میں ہمیں ایک ایسی نئی زندگی حاصل ہو گی جو عارضی نہیں، بلکہ ابدی ہو گی اور دنیوی زندگی کے امتحان کے نتائج وہاں بے کم و کاست ظاہر کر دیئے جائیں گے۔ تمام انسان اپنی دنیوی زندگی کے افکار و اعمال کے لیے اپنے خالق اور پروردگار کے حضور جوابدہ ہوں گے۔ پھر کامیاب قرار دئیے جانے والے ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں میں اور ناکام ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں جھونک دیئے جائیں گے۔

ایمان بالآخرت کی اہمیت

اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ دین کی پوری تاریخ پر اگر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین الٰہی کی دعوت کا بنیادی مقدمہ اور بنیادی بات اگر کوئی ہے تو وہ یہی آخرت ہے، جس کی یاددہانی کے لیے ہی پیغمبروں کی بعثت ہوئی۔

آخرت کے بارے میں قرآنی استدلال

آخرت کے حوالے سے قرآن مجید کے تمام دلائل کو تو اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا، البتہ اس کے بنیادی اور اہم دلائل کی نوعیت کو قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔اس عالم میں جو چیز بھی پیدا ہوئی ہے، بالعموم زوجین (جوڑے) کی صورت میں پیدا ہوئی ہے جیسے مرد و عورت، بھوک اور غذا، پیاس اور پانی، سردی اورگرمی، اندھیرا اور اجالا وغیرہ۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھئے گو ہر شے درحقیقت ایک ہی وجود ہے جسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جیسے انسان ایک حقیقت ہے جسے یہاں مرد و عورت کے جوڑے کی صورت میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جوڑے کا ہر حصہ اپنی ذات میں ایک غیر معمولی اور شاہکار مخلوق ہونے کے باوجود ایک نامکمل وجود ہے۔ اس میں کچھ خلا ہیں جن کو پر نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ نقائص ہیں جن کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ تقاضے ہیں جن کو پورا نہیں کیا جا سکتا، سوائے اس کے کہ وہ اپنے جوڑے سے مل کر تکمیل پائے یعنی اس کی تکمیل بہرحال اپنے جوڑے سے ملنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر مرد ایک غیر معمولی، باصلاحیت اور شاہکار مخلوق ہے، لیکن ہم میں سے ہر شخص اس بات کا اعتراف کرے گا کہ وہ اگر تنہا ہو تو اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ایک نامکمل وجود ہے۔ اس میں کچھ خلا اور کچھ تقاضے ہیں جن کی تکمیل اپنے جوڑے سے وابستہ ہونے کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔

اس بنیادی مقدمہ کی روشنی میں اس دنیا اور اس میں ملنے والی ہماری زندگی کا جائزہ لیجیے۔ قرآن مجید ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ غور کریں کہ اس کائنات میں بھی کچھ خلا اور نقائص ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اس دنیا اور ہماری زندگی کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے جو تمام خلاؤں اور نقائص کو دور کر دے اور تمام تقاضوں کوپورا کر دے۔ اللہ پروردگار عالم کے ارشاد کے مطابق وہ جوڑا یوم آخرت کے بعد وجود پذیر ہونے والی دنیا اور اس میں انسان کوملنے والی زندگی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

‘‘اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم (اس حقیقت کی ) یاددہانی حاصل کرو۔ (کہ اس دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہیے۔)’’ (الذاریات ۵۱: ۴۹)

دنیا کی زندگی میں موجود نقائص اور خلا

ہم میں سے ہر شخص کی خواہش ہے کہ وہ ابد تک زندہ رہے۔ موت اس زمین پر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو حل کر لینے سے پوری طرح مایوس ہو جانے کے بعد ہی ہم نے اسے قبول کیا ہے۔ زندگی میں تلخی نہ ہو اور زمانہ ہمیں بڑھاپے کی بے بسی کی حالتوں تک نہ پہنچائے تو ہم میں سے کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم یہاں ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔

انسان کا وجود اپنے خیالات کی وسعتوں تک نہیں پہنچ سکتا

ہماری خواہش ہے کہ ہمارے وجود کی رسائی وہاں تک ہو جہاں تک ہمارے خیالات کی پہنچ ہے۔ اپنی اس خواہش کو اس دنیامیں پورا کرنے کے لیے ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہماری اس جد و جہد کی داستان تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان پچھلی تین صدیوں میں بہت سی کامیابیاں ہمیں حاصل ہوئی ہیں، لیکن اس جد و جہد ہی نے یہ حقیقت بھی ہم پر واضح کر دی ہے کہ اپنے خیالات کی وسعتوں، اپنی خواہشات، اپنی تمناؤں تک آخری درجے میں رسائی حاصل کر لینا اس دنیا میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ فی الواقع انسان کے وجود میں اس بات کی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ جو چاہے وہ ہو جائے، جو تمنا کرے وہ حاصل ہو جائے، جس چیز کی خواہش کرے وہ حاضر ہو جائے اور اپنے خیالات تک رسائی حاصل کرلے۔

دنیا کی زندگی: ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے اندیشے

اس دنیا میں جو زندگی ہم گزارتے ہیں اس کو اگر دو لفظوں میں بیان کیجیے تو یہ ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں کی ایک داستان ہے، جو ہم میں سے ہر شخص صفحہ ٔ عالم پر لکھتا ہے اور پھر مٹی میں دفن ہو جاتا ہے۔ اے کاش، یہ ہو جاتا اور کہیں یہ نہ ہو جائے۔ ہماری داستان حیات بس یہیں سے شروع ہوتی ہے اور یہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن انسان سے پوچھئے کہ اس کی تمناؤں کی دنیا بھی کیا یہی ہے؟ اس عالم میں ہر شخص اس سوال کا جواب یقینا نفی میں دے گا۔ ہم میں سے کوئی شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ ہماری تمناؤں کی دنیا اگر ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس میں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ ہو جانا اس دنیا کے نا ممکنات میں سے ہے۔

عدل و انصاف کو اپنی آخری صورت میں حاصل کرنا یہاں ممکن نہیں

ہماری آرزو ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہے۔ یہ وہ شے ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہم نے سب سے زیادہ جد و جہد کی ہے ۔ ہم نے اس کے لیے اپنی آزادی سے دستبرداری اختیار کی ۔ ایک نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی پابندی قبول کی۔ اپنے اوپر اپنے ہی جیسے انسانوں کو حکومت کرنے کا حق دیا۔ اسی عدل و انصاف کے لیے بارہا جان و مال کی قربانی پیش کی۔ لیکن یہ نعمت عظمیٰ اپنی آخری صورت میں کیا اس دنیا میں ہمیں کبھی حاصل بھی ہو سکی؟ بلاشبہ تاریخ میں اس دنیا کے بعض خطوں میں ایسی ہستیاں رہی ہیں جن کی وساطت سے انسانی استطاعت کی حد تک معاشرے کو عدل و انصاف حاصل ہوا۔ ایک انسان کی حیثیت سے اپنے زمانے اور دائرۂ عمل میں جو کچھ وہ کر سکتے تھے، بے شک انھوں نے کیا، لیکن اس دنیا کے وہ مجرم جو کسی کی گرفت ہی میں نہ آ سکے اور وہ گرفت میں تو آئے، مگر انھیں ان کے جرم کی قرار واقعی سزادینا کسی طرح ممکن نہ ہوا۔ ان کے لیے یہ دنیا کہاں جائے؟ ہزاروں عورتوں کو بیوہ اور لاکھوں بچوں کو یتیم کر دینے والے کتنے وحشی ہیں جو بڑے اطمینان کے ساتھ موت کی آغوش میں چلے گئے اور دنیا کی کوئی عدالت انھیں سزا دینا تو ایک طرف، اپنے سامنے پکڑ لانے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ یہ اس عالم میں ہماری زندگی کے وہ خلا ہیں جن سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ یہ دنیا بھی ہر لحظہ اپنے جوڑے کی تلاش میں ہے۔ اور وہ جوڑا آخرت ہے۔ اس حقیقت کا انکار کوئی شخص اگر کرتاہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورت کے لیے مرد اور پیاسے کے لیے پانی کی ضرورت کا انکار کرتا ہے۔

دنیوی زندگی کا اخروی زندگی سے تقابل

دنیوی زندگی کے تقابل میں اگر آخرت کی کامیاب زندگی کو دیکھا جائے تو قرآن مجید کی روشنی میں اس کی جو صورت ہمارے سامنے آتی ہے، وہ اس طرح ہے کہ روز جزا کو دنیوی زندگی کے یہ تمام خلا اور نقائص دور کر دئیے جائیں گے ۔ قرآن مجید کے مطابق یہی وہ دن ہو گا جب موت ہمیشہ کے لیے مر جائے گی۔ (البینہ ۹۸: ۶۔۸)

اور جب کامیاب قرار دئیے جانے والوں کی رسائی ان کے خیالات کی پہنچ تک ہو گی ، جو وہ چاہیں گے انھیں دیا جائے گا، جس چیز کا مطالبہ کریں گے وہ انھیں حاصل ہو گی (حم السجدہ ۴۱: ۱۳) اور جب عدل و انصاف اپنی آخری صورت میں قائم کر دیا جائے گا۔ (الزلزال ۹۹: ۷۔۸)

اور جب اس دن سے ڈرنے والے اللہ کی اس ابدی بادشاہی (جنت) میں داخل ہو جائیں گے ۔ جہاں قرآن کے الفاظ میں:

‘‘نہ ان کے لیے ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔’’ (البقرہ ۲: ۱۱۲)

انسان کے اپنے وجود میں آخرت کی گواہی موجود ہے

یہی آخرت ہے جس کا ایک ادنیٰ نمونہ خود ہم اپنے وجود میں بھی پاتے ہیں۔ ہمارے اپنے نفس میں فطرت کی ایک رہنمائی موجود ہے، جو ہماری ہر بھلائی کی تحسین اور ہر برائی پر سرزنش کرتی ہے۔ یہ درحقیقت ایک عدالت صغریٰ (چھوٹی عدالت) ہے جو اپنے وجود ہی سے اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اس پورے عالم کے لیے بھی ایک عدالت کبریٰ (قیامت) قائم ہونی چاہیے۔ یہ عدالت اگر قائم نہیں ہو گی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو اس زمین پر مکمل آزادی حاصل ہے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہونی؟ اور وہ اگر آزاد ہے توخود اس کے نفس میں موجود یہ عدالت کیا ہے؟ اور اسے خیر و شر کا شعور کہاں سے حاصل ہوا؟ کیوں حاصل ہوا؟ (القیامہ ۷۵: ۲)

اللہ کی پروردگاری بھی آخرت کی شہادت دیتی ہے

یہ بھی کسی طرح ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ پروردگار جو زمین کے اس گہوارے میں غیر معمولی اہتمام کے ساتھ ہماری پرورش کر رہا ہے، ان لوگوں کو انعام نہ دے جنھوں نے اس کی پروردگاری کا حق پہچانا اور ان کو سزا نہ دے جنھوں نے اس حق سے انکار کیا۔ اس نے یہ سب کچھ انسان کو بغیر کسی استحقاق کے دیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ وہ اسے ایک دن اس سب کچھ کے لیے جواب دہ ٹھہرائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حق پہچاننے والے اور نہ پہچاننے والے دونوں اس کے نزدیک برابر ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات ایک صاحب حکمت خداوند اور پروردگار کے بارے میں جس کی حکمت اس عالم کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے، کسی طرح بھی نہیں مانی جا سکتی۔ (النبا ۷۸: ۶، ۱۷)

انسان کی اپنی تاریخ آخرت پر گواہ ہے

یہی فیصلے کا دن ہے جس کا مشاہدہ انسانوں نے اپنی تاریخ میں بارہا اس زمین پر بھی کیا ہے۔ جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی واضح دعوت کا جانتے بوجھتے انکار کیا اور اس کے سامنے سرکش ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق تسلیم کر لینے کی مہلت کے بعد اسی دنیا میں ان پر عذاب مسلط کر کے انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا اور جن لوگوں نے حق کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور ایمان کے دائرے میں داخل ہوئے، انھیں اسی دنیا میں سرفرازی سے نوازا گیا۔ یہ دراصل آخرت کی قیامت کبریٰ کی ایک جھلک ہے، جسے انسان جب چاہے تاریخ کے آئینے میں دیکھ سکتا ہے اور اس دنیا میں یہ قیامت روز جزا ہی کے اصول پر قائم ہوئی تھی۔ یعنی جو لوگ ایمان اور عمل صالح پر قائم تھے، انھیں ان کی جزا دی گئی اور جو انکار اور اللہ کی دعوت کے سامنے سرکشی کے رویے پر قائم تھے ، انھیں ان کی سزا دی گئی۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط کی بستیوں کے کھنڈر اور فرعون کی نعش آج اسی قیامت صغریٰ کی یادگاریں ہیں، جو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ آخرت کی عدالت کبریٰ بھی ہے جو ایک دن قائم ہونی ہے اور جس خداوند نے جزا و سزا کے قانون پر یہ عدالت برپا کی تھی وہی پروردگار اس فیصلے کے دن کو بھی قائم کرے گا۔ (القمر ۵۴)

آخرت پر ایمان کا تقاضا

آخرت پر حقیقی ایمان اگرہے تو قرآن مجید کے مطابق اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی میں آخرت کی ابدی کامیابی کو اپنا نصب العین قرار دے کر زندگی بسر کرے اور اس دن پر ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس دنیا میں اس طرح جیئے کہ وہ کوئی مسافر ہے یا اجنبی جس کی ساری جد و جہد اسی لیے ہوتی ہے کہ وہ خیر و عافیت کے ساتھ اپنے وطن میں اپنی منزل تک پہنچ جائے اور آخرت کی فلاح کے لیے وہ اپنے علم و عمل کو یہاں تمام آلایشوں سے پاک کرے ۔ اس لیے کہ آخرت کی ابدی فلاح کا انحصار اسی پاکیزگی پر ہے ۔ (الاعلیٰ۸۷: ۱۴) اور انسان کے لیے اس تزکیہ کے حصول کا واحد راستہ قرآن مجید کے مطابق یہ ہے کہ وہ اپنے علم و عمل میں اللہ کے دین کو اختیار کرے۔ (الجمعہ ۶۲: ۲)

٭٭٭