خوشامد

مصنف : سرسید احمد خاں

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : دسمبر 2009

دل کی جس قدر بیماریاں ہیں، ان میں سب سے زیادہ مہلک خوشامد کا اچھا لگنا ہے۔ جس وقت کہ انسان کے بدن میں ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو وبائی ہوا کے اثر کو جلد قبول کر لیتا ہے تو اسی وقت انسان مرض مہلک میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جبکہ خوشامد کے اچھے لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کا راگ اور خوش آئند باجے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے، اسی طرح خوشامد بھی انسان کے دل کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔

اول اول یہ ہوتا ہے کہ ہم آپ اپنی خوشامد کرتے ہیں اور اپنی ہر ایک چیز کو اچھا سمجھتے ہیں اور آپ ہی آپ اپنی خوشامد کر کے اپنے دل کو خوش کرتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اوروں کی خوشامد ہم میں اثر کرنے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اول تو خود ہم کو اپنی محبت پیدا ہوتی ہے، پھر یہی محبت ہم سے باغی ہو جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنوں سے جا ملتی ہے اور جو محبت و مہربانی ہم خود اپنے ساتھ کرتے تھے وہ ہم خوشامدیوں کے ساتھ کرنے لگتے ہیں اور وہی ہماری محبت ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ ان خوشامدیوں پر مہربانی کرنا نہایت حق اور انصاف ہے جو ہماری باتوں کو ایسا سمجھتے ہیں اور ان کی اس قدر، قدر کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارا دل ایسا نرم ہو جاتا ہے اور اس قسم کے پھسلاوے اور فریب میں آ جاتا ہے تو ہماری عقل خوشامدیوں کے مکرو فریب سے اندھی ہو جاتی ہے اور وہ مکر و فریب ہماری طبیعت پر بالکل غالب آ جاتا ہے۔

لیکن اگر ہر شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ خوشامد کا شوق کیسے نالائق اورکمینہ سببوں سے پیدا ہوتا ہے تو یقینی خوشامد کی خواہش کرنے والا شخص بھی ویسا ہی نالائق اور کمینہ متصور ہونے لگے گا۔ جبکہ ہم کو کسی ایسے وصف کا شوق پیدا ہوتا ہے جو ہم میں نہیں ہے یا ہم ایسے بننا چاہتے ہیں جیسے کہ درحقیقت ہم نہیں ہیں۔ تب ہم اپنے تئیں خوشامدیوں کے حوالے کرتے ہیں، جو اوروں کے اوصاف اور اوروں کی خوبیاں ہم میں لگانے لگتے ہیں۔ گو بہ سبب اس کمینہ شوق کے اس خوشامدی کی باتیں ہم کو اچھی لگتی ہوں مگر درحقیقت وہ ہم کو ایسی ہی بد زیب ہیں جیسے کہ دوسروں کے کپڑے جو ہمارے بدن پر کسی طرح ٹھیک نہیں۔ اس بات سے کہ ہم اپنی حقیقت کو چھوڑ کر دوسرے کے اوصاف اپنے میں سمجھنے لگیں، یہ بات نہایت عمدہ ہے کہ ہم خود اپنی حقیقت کو درست کریں اور سچ مچ وہ اوصاف خود اپنے میں پیدا کریں اور بعوض جھوٹی نقل بننے کے خود ایک اچھی اصل ہو جاویں۔ کیونکہ ہر قسم کی طبیعتیں جو انسان رکھتے ہیں اپنے اپنے موقع پر مفید ہو سکتی ہیں۔ ایک تیز مزاج اور چست و چالاک آدمی اپنے موقع پر ایسا ہی مفید ہوتا ہے جیسے کہ ایک رونی صورت کا چپ چاپ آدمی اپنے موقع پر۔

خودی جو انسان کو برباد کرنے والی چیز ہے، جب چپ چاپ سوئی ہوتی ہے تو خوشامد اس کو جگاتی او رابھارتی ہے او رجس کی خوشامد کی جاتی ہے، اس میں چھچھورے پن کی کافی لیاقت پیدا کر دیتی ہے۔ مگر یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح خوشامد ایک بدتر چیز ہے اسی طرح مناسب اور سچی تعریف کرنا نہایت عمدہ اور بہت ہی خوب چیز ہے۔ جس طرح کہ لائق شاعر دوسروں کی تعریف کرتے ہیں اور شاعری کی خوبی سے خود ان شاعروں کا نام بھی دنیا میں باقی رہتا ہے۔ دونوں شخص خوش رہتے ہیں، ایک اپنی لیاقت کے سبب سے، دوسرا اس لیاقت کو تمیز کرنے کے سبب سے۔ مگر لیاقت شاعر کی یہ ہے کہ وہ نہایت بڑے استاد مصور کی مانند ہو کہ وہ اصل صورت رنگ او رخال و خط کو بھی قائم رکھتا ہے اور پھر بھی تصویر ایسی بناتا ہے کہ خوش نما معلوم ہو۔

ایشیا کے شاعروں میں ایک بڑا نقص یہی ہے کہ وہ اس بات کاخیال نہیں رکھتے بلکہ جس کی تعریف کرتے ہیں اس کے اوصاف ایسے جھوٹے اور ناممکن بیان کرتے ہیں، جن کے سبب سے وہ تعریف تعریف نہیں رہتی، بلکہ فرضی خیالات ہو جاتے ہیں۔

ناموری کی مثال نہایت عمدہ خوشبو کی ہے۔ جب ہوشیاری اور سچائی سے ہماری واجب تعریف ہوتی ہے تو اس کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے عمدہ خوشبو کا۔ مگر جب کسی کمزور دماغ میں زبردستی سے وہ خوشبو ٹھونس دی جاتی ہے تو ایک تیز بو کی مانند پریشان کر دیتی ہے۔ فیاض آدمی کو بدنامی اور نیک نامی کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور عالی ہمت طبیعت کو مناسب عزت اور تعریف سے ایسی ہی تقویت ہوتی ہے جیسے کہ غفلت او رحقارت سے پست ہمتی ہوتی ہے۔