تقویٰ اور اس کے حصول کا طریقہ

مصنف : منظور الحسن

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اکتوبر 2009

            تقویٰ ہمارے دین کی خاص اصطلاح ہے۔ اس کا مدعا بالکل وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں حدود آشنائی کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی انسان اس دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے نچنت اور بے خوف نہ رہے ، بے پروائی اور لاا بالی پن کا رویہ اختیار نہ کرے ،بلکہ متنبہ ہو کر ، بیدار ہو کر اور خبردار ہوکر زندگی گزارے۔ وہ اس بارے میں کبھی غفلت میں مبتلا نہ ہوکہ وہ اس دنیا میں کس لیے بھیجا گیا گیا ہے ، اس کا منتہا کیا ہے، اس کو ایک دن کس صورتِ حال سے دو چار ہونا ہے، اس کے لیے حقیقی زندگی کون سی ہے؟ وہ ان حقائق کے بارے میں پوری طرح متنبہ رہے اور زندگی کے کسی مرحلے میں بھی ان سے غافل نہ ہو۔جب انسان اس تنبہ اور اس بیداری کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو پھر وہ اپنی خواہشات کی غلامی میں مبتلا نہیں ہوتا ۔

اللہ کی بندگی تقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان دنیا میں اللہ کا فرماں بردار بندہ بن کر زندگی گزارے۔ انسان کے لیے اصل آزمایش ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی نعمتیں پا کر اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہتا ہے یا کفرانِ نعمت کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ انسان جب نافرمانی ، سرکشی اور انتہا پسندی سے گریز کر کے اللہ تعالیٰ کے حدود کی پاس داری کرتا ہے تو گویا وہ تقویٰ اختیار کرتا ہے۔اس بندگی کے معنی یہ ہیں کہ:

            ‘‘بندہ اس تعلق میں اپنے پروردگار کی یاد سے اطمینان حاصل کرتا، اس کی عنایتوں پر اس کے لیے شکر کے جذبات کو اپنے اندر سیلِ بے پناہ کی طرح امڈتے ہوئے دیکھتا ، اس کی ناراضی سے ڈرتا،اسی کا ہو رہتا، اس کے بھروسے پر جیتا ، اپنا ہر معاملہ اس کے سپرد اور اپنے پورے وجود کو اس کے حوالے کر دیتا اور زندگی میں ہر قدم پر اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔’’

اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس تقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر لحظہ اس بارے میں متنبہ رہے کہ اسے ایک روزاحکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ ایک وہ وقت آنا ہے جب اسے اس کی ذمہ داریوں کے لیے جواب دہ ٹھہرایا جانا ہے۔جواب دہی کا یہی احساس ہے جو انسان کو زندگی کی راہِ پر خار پر بچ بچا کر اور دامن کو سمیٹ کر چلنے کا طرزِ عمل سکھلاتاہے ۔ یہی احساس اور یہی طرزِ عمل اصل میں تقویٰ ہے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ایک صحابی نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اگر کبھی آپ کسی کانٹوں بھرے راستے سے گزریں تو اس میں کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں؟ صحابی نے کہا کہ میں اپنے دامن کو سمیٹ لیتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بس یہی تقویٰ ہے۔

تزکیۂ نفس کے لیے جدوجہد تقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے تزکیے کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے آپ کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش ہی اصل میں تقویٰ ہے۔

اپنے نفس پر قابو پانا تقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے ان میلانات پر قابو رکھے جو اسے بدی پر ابھارتے ہیں۔وہ غصے پر قابو رکھے ، جذبات کے سیلِ رواں کو حدود میں رکھے، ردِ عمل کی کیفیت میں مبتلانہ ہو، نفرت اور کدورت کو اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے ، مادی لذات اور نفسانی خواہشات کو حدود میں رکھے، بطن و فرج کے تقاضوں کو اپنے دینی و اخلاقی وجود پر غلبہ نہ پانے دے۔ وہ یہ فیصلہ کر لے کہ اسے اپنے نفس کے آگے نہیں جھکنا ،بلکہ اسے اپنے آگے جھکانا ہے۔ گویا تقویٰ سے مقصود نفس کو جھکانا ہے، اسے مارنا نہیں ہے ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں اس حقیقت کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان لگا ہوتا ہے ۔ پوچھا گیا کہ کیا آپ کے ساتھ بھی شیطان ہے؟فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی ہے ،مگر میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے نفس کا گلا نہیں گھونٹ دینا چاہیے ،بلکہ اسے حدود کا پابند بنانا چاہیے۔

ذمہ داری سے زندگی بسر کرناتقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو دل جمعی اور خلوصِ نیت کے ساتھ نبھائے ۔ وہ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کی انفرادی حیثیت میں اس پر عائد ہوتے ہیں ۔ ان فرائض کو بجا لائے جو خاندان کے اندر اس پر لاگو ہوتے ہیں ۔ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو جن کاتقاضا معاشرہ اور ریاست کرتے ہیں۔ یعنی آدمی اسی دنیا میں رہے ، اسی میں اپنا رزق کمائے ، اسی میں اپنا فعال کردار ادا کرے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ اسے اپنی اس فطرت سے انحراف کرنے کے بجائے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی کوشش اور جدو جہد تقویٰ ہے۔

اخلاقی وجود کی حفاظت تقویٰ ہے

            تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر وقت اپنے اخلاقی وجود کی نگہبانی کرتا رہے ۔ یہ اخلاقی وجود ہی ہے جو انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کا پورا شعور دے کر اس دنیا میں بھیجا ہے ۔زندگی کے ہر موڑ پر وہ خیر و شر کے واضح ادراک کے ساتھ اچھا یا برا فیصلہ کرتا ہے ۔ ہر اچھا فیصلہ کرتے وقت وہ ان اخلاقی اقدار اور ضوابط کو ملحوظ رکھتا ہے جو انسانیت کا شرف ہیں اور اس کے پروردگار نے اس کی فطرت میں ودیعت کیے ہیں۔ انھیں ہر انسان اپنے اندر ضمیر کی آواز کے طور پر محسوس کرتا ہے ۔ اگر وہ ان کا لحاظ کرتا ہے تو انسان ہے، اگر لحاظ نہیں کرتا تو پھر محض دو ٹانگوں کا ایک جانور ہے، اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

            اخلاقی وجود کی حفاظت و نگہبانی سے مراد یہ ہے کہ انسان ہر کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ یہ کام اس کے شایانِ شان ہے بھی یا نہیں ۔ اس کا اخلاقی وجود اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے، دھوکا نہ دے، خیانت نہ کرے، ظلم نہ کرے ، حق نہ مارے ، بے انصافی نہ کرے۔ اخلاقی وجود اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ذمہ داریوں کو پورا کرے ، حقوق ادا کرے، صداقت کا بول بالا کرے ، مخلوقِ خداوندی سے محبت کرے، نعمت پر شکر کرے ، مصیبت میں صبر کرے، بڑے کا ادب کرے ، چھوٹے پر شفقت کرے۔ غرض یہ کہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگائے رکھے۔ وہ اگر کسی کام سے روک دے تو رک جائے اور اگر کسی کام کی ترغیب دے تو اسے بخوبی انجام دے۔

تقویٰ رہبانیت نہیں ہے

             انسان کی آزمایش یہ ہے کہ اسے اپنی خواہشات ، اپنے جذبات اور اپنی رغبات کے اندر ہی زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ انسانی جبلت میں موجود یہ ساری چیزیں پورا زور لگاتی ہیں کہ وہ اعتدال اور توازن کے راستے پر نہ رہے۔ جب انسان ان کے خلاف جنگ کرتا ہے تو بعض اوقات دوسری انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ دوسری انتہا مذاہب میں رہبانیت کے نام سے موسوم رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی درد انگیز تاریخ ہے۔ گویا انسان جب مادی زندگی کی لذتوں کو اپنا اصل ہدف بناتا ہے تو اس سے بہت غیر معمولی مفاسد پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح سے جب وہ ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں ترکِ دنیا کو اپنا ہدف ٹھہراتا ہے تو اس سے بھی بے پناہ مفسدات پیدا ہوتے ہیں۔رہبانیت اور ترکِ دنیا کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایک بار یہ فیصلہ کر لے کہ اسے دنیا سے بالکل کنارہ کش ہو جانا ہے۔اس دنیا کے اندر جو چیزیں اس کے لیے آزمایش کے طور پر پیدا کی گئی ہیں، انھیں چھوڑ دینا ہے ۔ علم و عقل ، مال و دولت ،حسن و جمال ، حشمت و اقتدار غرض مادی زندگی کے جو داعیات بھی انسان کو حدود سے تجاوز پر آمادہ کر سکتے ہیں ، وہ انھیں بالکلیہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتا ہے ۔ وہ ایک ایسی زندگی اختیار کر لیتا ہے جس میں وہ نفس کے داعیات کا کم سے کم جواب دہ ہو۔ جب انسان رہبانیت کی یہ صورت اختیار کرتا ہے تو بظاہر وہ مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس نے دنیا کی آزمایش میں اپنے لیے ایک آسان راستہ اختیار کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ پہلی بار بہت مشکل ہوتا ہے ،لیکن ایک بار جب کر لیا جاتا ہے تو پھر اس کے بعد اس میں وہ مشکلات نہیں رہتیں جن سے ایک متقی آدمی ہر روز گزر رہا ہوتا ہے ۔ رہبانیت اور ترکِ دنیا کا یہ راستہ فطرت اور دین سے انحراف کا راستہ ہے ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی شریعت انسان کو اعتدال اور توازن کا راستہ بتاتی ہے۔ وہ انسان کو جس چیز کی تربیت دیتی ہے ،وہ رہبانیت نہیں ہے ،بلکہ تقویٰ ہے ۔

تقویٰ کے حصول کا طریقہ

            تقویٰ کی منزل کو پانے کا کیا طریقہ ہے ؟اس ضمن میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے:

            ایک یہ کہ تقویٰ کے حصول کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ دین کی حکمت بھی یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے ،وہ یہ ہے کہ انسان اگر کوئی صلاحیت یا کوئی رویہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہے تو وہ اسے فوراً پیدا نہیں کر سکتا ، بلکہ ارادہ اور عمل کے مسلسل تعامل سے اسے بتدریج اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص نیکیوں کی ایک فہرست بنا کر اپنے سامنے رکھے اور انھیں فوراً اپنی شخصیت کا حصہ بنا لے۔ یہ ممکن نہیں کہ پانچویں جماعت کے بچے کو ایم۔اے کا کورس پڑھانا شروع کر دیا جائے۔ علوم کے حصول لیے بہرحال تدریجی مراحل مقرر کرنے پڑتے ہیں ۔ فنون سیکھنے کے لیے بھی مشق اور مزاولت کے تدریجی مراحل طے کیے جاتے ہیں۔دینی و اخلاقی تربیت کااصول بھی یہی ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی صورت میں ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔اس موقع پراللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا کہ بعثت کے ساتھ ہی پوری کتاب آپ کے سپرد کردی ہو ، بلکہ دعوت کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے تدریج کے ساتھ قرآن نازل فرمایا۔چنانچہ تقویٰ کی منزل پانے کے لیے بھی تدریجی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

دوسرے یہ کہ اپنے روز مرہ معمولات میں یہ تین چیزیں لازماًشامل کر لی جائیں :

۱۔ روزانہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھی جائے۔

۲۔ روزانہ چند آیاتِ قرآنی کی سمجھ کر تلاوت کی جائے۔

۳۔ ہفتے میں کم سے کم ایک بار کسی صالح بندۂ خدا کی مجلس میں کچھ وقت گزارا جائے۔

            مسجد کا ماحول، قرآنِ مجید کی براہِ راست تذکیر اور بندۂ مومن کی صحبت کی تاثیر نخلِ تقویٰ کی آب یاری میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔

 روزہ تقویٰ کی تربیت گاہ ہے

            تقویٰ کی تربیت دینے کے لیے شریعت نے روزے کی عبادت کو خاص کیا ہے سال میں ایک مرتبہ ۷۲۰ گھنٹے کی تربیت گاہ قائم کر دی جاتی ہے اور نہایت غیر معمولی طریقے سے کروڑوں لوگ اس سے گزرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

            ‘‘روزے کی عبادت اس تقویٰ کی تربیت کی خاص عبادت ہے جس پر تمام دین و شریعت کے قیام و بقا کا انحصار ہے اور جس کے حاملین ہی کے لیے قرآن ہدایت بن کر نازل ہوا ہے ۔ گویا قرآنِ حکیم کا حقیقی فیض صرف ان لوگوں کے لیے خاص ہے جن کے اندر تقویٰ کی روح ہو اور اس تقویٰ کا خاص ذریعہ روزے کی عبادت ہے اس وجہ سے ربِ کریم و حکیم نے اس مہینے کو روزوں کے لیے خاص فرما دیا جس میں قرآن کا نزول ہوا ۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن اس دنیا کے لیے بہار ہے اور رمضان کا مہینا موسمِ بہار ہے اور یہ موسمِ بہار جس فصل کو نشوونما بخشتا ہے وہ تقویٰ کی فصل ہے۔’’ (تدبرِ قرآن ۱/ ۴۵۱)

٭٭٭