پانی سر سے گزرا جاتا ہے۔۔۔!

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2009

            بچے خدا کی نعمت ہیں ۔ بچے پھول کی مانند ہیں۔ بچے معصوم ہیں۔ بچے کورا کاغذ ہیں آپ جو چاہیں درج کر دیں…… بچے ہمارا کل ہیں۔ بچے ہمارا مستقبل ، ہماری عزت ، ہماری آبرو ، ہمارا بھرم ، ہماری خوشی، ہمارا بھروسہ ، ہمارا وقار …… یہ سب ہیں تو سب کچھ ہے ۔اور یہ سب کچھ سب جانتے ہیں مگر وہ اس کورے کاغذ پہ کیا لکھ رہے ہیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

٭٭٭

            یونیورسٹی کے آرٹ اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے تحت بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے ۔ کانفرنس کے دوران میں ایک پروفیسر نے اپنے ساتھی پروفیسر کے بیٹے سے پوچھا : ‘‘بیٹا ! تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟’’ بچے نے بڑے فخر اور بڑی سادگی سے جواب دیا:‘‘ انکل! میں ‘‘ہنو مان’’ بنوں گا۔’’

٭٭٭

             باپ اپنے معصوم بیٹے کو شہر کے ہنگاموں سے دور اپنے گاؤں لے گیا تاکہ بچہ کچھ دیر قدرت کے قریب رہ سکے۔بچے نے باپ کی وسیع زمینیں اور باغات دیکھے تو بہت خوش ہوا اور ساتھ ہی کچھ سوچنے لگا۔باپ نے پوچھا بیٹا کیا سوچ رہے ہو؟ بیٹے نے معصومیت سے جواب دیا ،پاپا! آپ کے پاس اتنی ساری جگہ خالی پڑی ہے ، کیوں نہ کچھ جگہ پر ‘‘مندر’’ ہی بنا دیں…… یہ سن کر شدت غم و غصے سے باپ کی کنپٹیاں بجنے لگیں ۔

٭٭٭

            اکاؤنٹنگ کی کلاس ہو رہی تھی اور حسب معمول استاد محترم پڑھائی کی تلقین کر رہے تھے ۔ وہ کہنے لگے The only way to learn accounting is to solve questions and if you will do it you will get sense of achievement and satisfaction. اس کا ترجمہ انہوں نے بڑی روانی سے یوں کیا : بچو! سوال حل کرو تاکہ تمہاری ‘دکھی آتما’ کو‘ شانتی’ ملے اور ساتھ ہی معذرت چاہی کہ مجھے اردو نہیں آتی۔ طالب علم سوچنے لگا کہ اگر یہ نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یہ زبان بولتا ہے تو پھر اس کی اگلی نسل کیا کرے گی……

٭٭٭

            بچے کارٹونوں کے بہت شوقین ہوتے ہیں مگر آج کل کے کارٹون کیسے ہیں : یہ بھی دیکھ لیجیے۔ ایک آٹھ سالہ بچی نے اپنے والدین کو قتل کر دیا کیونکہ اس نے کارٹون میں بچے کو ماں باپ کو قتل کرتے دیکھا تھا……

٭٭٭

            یہ ہماری عملی زندگی میں سے بہت ہی کم مناظر ہیں لیکن سمجھدار کے لیے تو اشارہ ہی کافی ہے ۔ یہ سب مناظر ہماری آئندہ نسل کے ماحول اور ان کے کلچر کی عکاسی کر رہے ہیں۔ وہ بچے جو کہا کرتے تھے کہ ہم بڑے ہو کر ‘‘ابو’’ بنیں گے اب ان کا role model ‘‘ابو’’ نہیں بلکہ ‘‘ہنو مان’’ بن گیا ہے۔ وہ بچے جن کی تربیت دادیاں، نانیاں اور مائیں لوریوں ا ور کہانیوں سے کرتی تھیں اور یہ کہانیاں زندگی میں سنبھل کر چلنے اور عادات و اطوار کی نوک پلک سنوارنے میں انمٹ نقوش ثبت کرتی تھیں آج ان بزرگوں کی جگہ کمپیوٹر ، ٹی وی ، گیمز نے لے لی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق ایک آٹھ دس سالہ بچہ روزانہ تقریبا چھ گھنٹے ان چیزوں کی نظر کر دیتا ہے اور حاصل کیا کرتا ہے؟ حاصل کرتا ہے شدت پسندی، اشتعال ، غصہ ، عریانی و فحاشی…… نتیجہ یہ ہے کہ بچے ذہنی خلفشار کا شکار ہو کر مستقل مریض بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلسل اضطراب ، غصہ ، اشتعال ہمارے رویوں میں پروان چڑھ رہا ہے ۔ آج چھوٹا سا بچہ بھی شدید ذہنی خلفشار اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ ذرا سوچیے! جب یہ مریض بچے مستقبل کی لگام تھامیں گے تو آپ کو کیا دیں گے……؟

            جو وقت مائیں بچوں کو کہانیاں ، لوریاں ، کہاوتیں سنایا کرتی تھیں آج وہی وقت ٹی وی ڈراموں ، فلموں اور گانوں کی نظر ہو گیا ہے۔ بچے بھی اس ‘‘سستی تفریح’’ سے بہت خوش ہیں اور مائیں بھی۔ بزرگوں کو تو ویسے ہی ‘‘دیس نکالا’’ دے دیا گیا ہے اور رہ گئی مائیں…… تو ان کے پاس وقت نہیں ہے۔

            ایک چھوٹا بچہ جب ٹی وی پر آج کے ڈرامے دیکھتا ہے تو وہ پاگل ہو جاتا ہے۔ اس کو سمجھ نہیں آتا کیا کرے۔ وہ رومانس، جلن،حسد، سازش ، رقابت اور منفی سوچ کا شکار ہو کر رشتوں ہی کا انکاری ہو جاتا ہے کیونکہ ڈرامے صرف اور صرف یہی دکھا رہے ہیں کہ ایک گھر کیسے توڑا جائے…… اور یقین جانیے یہ سلسلہ چلتا رہا تو وہ بچے جو اب جوان ہو رہے ہیں وہ گھر ‘‘جوڑنے’’ میں نہیں بلکہ گھر ‘‘توڑنے’’ میں لاجواب ضرور ہوں گے اور نتیجہ کیا ہو گا مزید خلفشار اور انتشار۔

            ہمارے بچے جب جوانی میں قدم رکھتے تھے تو ان کے خون میں محمد بن قاسم کی غیرت اور صلاح الدین ایوبی کی حمیت اور حاتم طائی کی سخاوت ہوتی تھی ۔ ان کے آئیدیل بزرگان دین اور صحابہ ہوتے تھے لیکن آج جہاں ان کے قلب و نظر میں ہند و تہذیب اور کلچر ، ان کے ذہن میں مغربی عریانی اور ان کے سوچوں پہ امریکی طرز زندگی ہے وہیں ان کے آئیڈیل بعض کھلاڑی ہیں یا پھر اداکار اور گلو کار اور بس۔۔ نہ انہیں کسی سائنسدان کا علم ہے اور نہ ہی کسی مفکر و فلاسفر کا نہ وہ ادب سے واقف ہیں نہ ہی شاعری سے۔نہ ہی ملکی حالات سے واقف ہیں نہ ہی عالمی حالات سے ۔

            صرف ا یک چھوٹی سی مثال پر غور کیجیے کہ یہ ڈرامے ، گانے ، فلمیں بچے پر کیا اثر کرتی ہیں۔ بہت سوں نے یہ گانا سنا ہو گا ‘‘کسی مہرباں نے آکے میری زندگی سجادی’’ ۔ یقین کیجیے یہ گانا بچے میں بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ بچہ پہلے تو گھر میں ‘‘مہرباں’’ تلاش کرتا ہے اور جب گھر میں اسے وہ ‘‘مہرباں’’ نظر نہیں آتا تو وہ رد عمل کی نفسیات کا شکار ہو کر اپنے ہی والدین کو اپنا دشمن گردانتا ہے ۔ کیونکہ اس کا معصوم ذہن اس ‘‘مہرباں’’ کی وضاحت کچھ اس طرح سے کرتا ہے کہ یہ ‘‘مہرباں’’ وہ ہے جو اسے سختی سے روکنے ، ٹوکنے سے دور لے جا کر ایک افسانوی دنیا میں لے جائے اور پھر بچوں کے ذہن کے لیے زہر قاتل ‘‘رومانس’’ ہے۔ یہ ‘‘رومانس’’ آئندہ نسل کو کسی قابل نہ چھوڑے گا۔ ہمارے بچے معاشرے میں کوئی مقام بھی حاصل نہ کر پائیں گے اس ‘‘رومانس’’ کے چکر میں۔

            آج کل ہر جانب عالمی ‘دہشت گردی’ کا رونا ہے۔لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ دہشت گردی تو ہمارے گھروں میں پرورش پا رہی ہے ۔ کیا ہم اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرکے ‘سب سے بڑی ’ دہشت گردی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ یہی ہمارا مستقبل یہی ہماری منزل ہیں…… اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کس ‘‘منزل’’ کی جانب گامزن ہیں……!

            پانی تو پہلے ہی سر سے گزرا جاتا ہے کچھ دیر او رہو گئی تو …… تو پھر ہمیشہ کے لیے دیر ہو جائے گی……

صرف اک ہی قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں

منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی مجھے