کوا اور نیولا

مصنف : ڈاکٹر تحسین فراقی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2009

حکومت پاکستان کو اس کہانی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک کوا کسی صحرا میں رہتا تھا۔ وہاں ایک ٹیلے کے اُوپر ایک اُونچا درخت تھا جس پر اس نے اپنا گھونسلا بنارکھا تھا۔ کبھی کبھی وہ صحرا کا چکر لگاتا اور جہاں کہیں ایک دوسرے کا شکار ہونے والے حیوانات کی ہڈیاں پاتا، درخت کے نیچے لے آتا، ان پر باقی رہ جانے والا گوشت کھاتا، پھر درخت پر نشست جماتا اور صحرا کا نظارہ کرتا۔ رات کو اپنے گھونسلے میں آرام کرتا۔ وہ اس بات پر بڑا خوش اور مطمئن تھا کہ اس صحرا میں کوئی دوسرا درخت نہیں تھا جس پر پرندوں کا آنا جانا لگا ہو اور اس کے لیے روک ٹوک کا کھٹکا ہو۔

لیکن ایک روز ایک موٹے تازے سفید رنگ کے نیولے کا گزر اس صحرا میں ہوا۔ ہڈیوں کی بو اُسے درخت کی سمت کھنچ لے گئی اور چونکہ رات ہوگئی تھی، نیولے نے جھاڑیوں کے نیچے ایک جگہ پناہ لے لی اور رات وہیں گزاری۔ صبح صبح وہ ٹیلے کے اُوپر چڑھا اور درخت کے نیچے گردش اور جستجو میں مشغول ہوا کہ آیا یہاں کوئی رہنے کی جگہ ہے یا نہیں؟

کوا ابھی اپنے گھونسلے سے نکل کر درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا صحرائی منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ نیچے کی طرف جو گئی تو اسے نیولا نظر آیا وہ خوف سے کانپ اُٹھا اور اس نے اپنے آپ سے کہا: ‘‘لو، آخر یہاں بھی ایک دشمن پیدا ہوگیا’’۔

یہ بات تو اسے معلوم تھی کہ نیولے کی رسائی اس کے گھونسلے تک ممکن نہیں لیکن اسے یہ فکر بہرطور لاحق تھی کہ دشمن دشمن ہے اور اگر واقعی نیولا یہاں رہ جاتاہے تو یہ بات بڑی ناخوش آیند ہوگی۔ اس نے سوچا: ‘‘ایسی صورت میں درخت کے نیچے زمین پر نہیں بیٹھ سکوں گا اور پرندوں اور حیوانوں کی بچی کھچی ہڈیاں آسانی سے درخت کے نیچے نہیں لا سکوں گا۔ یوں زندگی دردسری کے بغیر نہیں گزر سکے گی۔ اب یہ بدبخت نیولا میرا شریک بھی ہوگا اور میرے خون کا دشمن بھی’’۔ کوے نے اول تو یہ سوچا: ‘‘میرا خیال ہے مجھے اب یہ جگہ چھوڑ کر کوئی دوسرا درخت تلاش کرنا چاہیے، لیکن پھر اپنے آپ سے کہنے لگا: گھونسلا بنانا سخت مشکل ہے اور نیولے ہر جگہ ہوتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ میں پہلے اس سے گفتگو کا آغاز کروں، اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤں اور اسے فریب دوں تاکہ وہ میری جان لینے کے خیال سے باز رہے’’۔

یہ سوچ کر اس نے درخت سے ایک سبز پتا (سبز پتا پیش کرنا اظہار محبت کی علامت ہے گویا سبزپتا ‘برگ سبز’ ناچیز تحفے کے لیے مستعمل ہے) توڑا اور اسے نیولے کے آگے پھینکا۔ پھر اس کو آواز دی اور کہا: ‘‘کیا اچھا ہے کہ تم نے ہمیں یاد کیا اور اس صحرا سے گزرے۔ کیا یہاں رہنے کا ارادہ ہے؟

نیولے نے سر اُوپر اٹھایا، کوے کو دیکھا اور سوچنے لگا: ‘‘صورت یہ ہے کہ کوا خود ہی میرے نزدیک آنے کا خواہش مند ہے وگرنہ میں نے اسے نہیں دیکھا تھا اور اب جب ایسا ہی ہے تو کیا مضائقہ ہے کہ ناشتہ میں یہیں کرلوں اور پھر یہاں سے روانہ ہوجاؤں’’۔

اس نے کوے کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ‘‘میں تمہاری عنایت کا شکرگزار ہوں۔ تمہارا یہاں کیا شغل ہے۔ میں نے ابھی کچھ نہیں سوچا لیکن اگر تمہاری راہ میں حائل ہوں تو چلا جاؤں گا، مجھے کسی پر بوجھ بننا پسند نہیں’’۔

نیولے کی نرم لہجے میں گفتگو سن کر کوے کو حوصلہ ہوا اور وہ نچلی شاخ پر آبیٹھا اور بولا: ‘‘نہیں نہیں ہرگز نہیں، لیکن بدقسمتی سے لوگوں نے میرے ساتھ اتنا برا سلوک کیا ہے کہ مجھے تنہا رہنے کی عادت ہوگئی ہے۔ میں سالہا سال سے یہاں ہوں۔ اس صحرا میں دوسرا کوئی نہیں۔ یہ درخت بھی میری ملکیت ہے۔ تمہارا اگر کوئی بہتر ٹھکانا ہے تو مجھے علم نہیں لیکن اگر نہیں تو تم اسی جگہ رہ سکتے ہو’’۔ پھر کوا شاخ سے اُڑ کر زمین پر نیولے کے سامنے آبیٹھا اور اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہنے لگا: ‘‘یہ درخت کیسا عمدہ سائبان ہے’’۔نیولے نے اپنے دل میں سوچا: ‘‘کیسا بہادر کوا ہے، تنہا زندگی گزارتا ہے مجھ سے کہ میں نیولا ہوں، دوستی کا اظہار کرتا ہے، آکر میرے سامنے بیٹھ جاتا ہے اور مجھے یہاں رہنے کی دعوت دیتا ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، ایسا بے پروا کوا نہیں دیکھا۔ میں نے ہمیشہ یہی سنا تھا کہ کوے نیولوں سے دُور دُور رہتے ہیں اور یہ کوا مجھ سے یوں محوِ گفتگو ہے گویا اسے مجھے سے کوئی خوف نہیں۔ کیا یہ مجھ سے ہاتھ کرنا چاہتا ہے؟ پھر دل میں کہنے لگا: میں کوے سے ایک بات پوچھتا ہوں اگر اس نے جھوٹ کہا تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کی یہ ساری گفتگو محض ڈرامہ ہے لیکن اگر اس نے سچ کہا تو پتا چل جائے گا کہ اس کے پیچھے کوئی راز ہے، اسی لیے مجھ سے خائف نہیں اور ممکن ہے اس کا کوئی حمایتی بھی ہو۔ سو اس صورت میں مجھے اس سے بچنا چاہیے’’۔ یہ سوچ کر اس نے کوے سے پوچھا: ‘،کیا یہ درخت تو نے خود لگایا تھا؟’’ کوے نے اپنے دل میں سوچا: ‘‘معلوم ہوتا ہے یہ نیولا خاصا احمق ہے۔ سو مجھے چاہیے کہ اپنے اہم ہونے کا تاثر دوں تاکہ یہ میرا مطیع ہوجائے۔ چنانچہ وہ بولا: ‘‘ہاں، ہاں! میں نے یہ درخت خود لگایا ہے۔ یہ سارا صحرا بھی میری ہی کوششوں سے سرسبزو شاداب نظر آرہا ہے’’۔ نیولا بولا: ‘‘واہ وا! تم کتنے خوش سلیقہ ہو۔ یقینا ہڈیاں بھی ان حیوانوں کی ہیں جنھیں خود تم نے شکار کیا؟کوے نے جب یہ دیکھا کہ نیولا اس کے ہر حرف پر ایمان لے آیا ہے، وہ زیادہ دلیر ہوا اور قدرے آگے بڑھ کر نیولے کے روبرو بیٹھ گیا اور بولا: ‘‘ہاں، کبھی کبھی شکار بھی کرلیتا ہوں’’۔نیولے نے پوچھا: کیسے شکار کرتے ہو؟’’ یہ کہتے ہی کوے کے جواب کا انتظار کیے بغیر نیولے نے اُچھل کر کوے کو اپنے پنجوں میں اور دانتوں میں پکڑا اور پوچھا: ‘‘آیا اس طرح؟’’کوے نے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا: ‘‘ہائے افسوس! تم نے مجھ ضعیف کو اس طرح کیوں پکڑ لیا؟ کیا یہی انصاف اور دوستی کی رسم ہے؟’’

نیولا بولا: ‘‘نہیں آخر میں نے کب کہا کہ یہ انصاف اور دوستی کی رسم ہے؟ یہ نیولائی رسم ہے۔ میں نے دوستی کا کوئی دعویٰ نہیں کیا، یہ دعوی تو خود کر رہا ہے۔ گفتگو انصاف کے ضمن میں بھی نہیں ہو رہی تھی، شجرکاری، سبزکاری اور شکار، یہ سب تیری قوت اور طاقت کی دلیل ہیں۔ اگر تو ضعیف اور کمزور ہوتا تو وہیں درخت پر بیٹھتا اور دَم نہ مارتا۔ میں تو جا رہا تھاتو نے خود سبز پتا میری نذر کیا اور خود مجھے یہاں اقامت اختیار کرنے کی دعوت دی۔ اگرچہ تو پَر رکھتا ہے مگر تونے پرواز نہ کی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ نیولا کوے کا دشمن ہے تو میرے نزدیک آیا اور خود میرے پنجے میں گرفتار ہوا۔ اب جان لے کہ نیولوں کا طریق کار یہی ہے کہ کووں کو کھاتے ہیں اور ہاں، اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔ (از: اچھے بچوں کے لیے اچھی کہانیاں، مترجم ڈاکٹر تحسین فراقی)

٭٭٭