خزینہ شریعت و معرفت

مصنف : مولانا اشرف علی تھانویؒ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2009

تعلیمات اشرفیہ کی روشنی میں

مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ، مرتب: محمد موسیٰ بھٹو

مولانا کی ‘‘ملفوظات’’ کا یہ مواد مقالات حکمت حصہ اول اور حصہ دوم’’ سے ماخوذ ہے۔ یہ مقالات ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان کی طرف سے شائع ہوئے ہیں۔ ہم نے دونوں حصوں کی تلخیص کی ہے۔ زبان کو سہل بنانے کی اپنی حد تک کاوش کی ہے۔ ساتھ ساتھ ذیلی سرخیاں بھی لگائی گئی ہیں۔ (مرتب)

قلب کا نظرآجانا، کوئی کمال نہیں

ایک بار ایک شخص میرے پاس آئے، فرمانے لگے: مجھے اپنا قلب نظر آنے لگا ہے۔ مدت کی ریاضت سے یہ چیز حاصل ہوئی ہے۔

میں نے کہا کہ سبحان اللہ! یہ کیا کمال ہوا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کی نظر دیوار تک پہنچتی ہے۔ دوسرے شخص کو دیوار کی پشت پر موجود الماری نظر آنے لگی ہے یا مثلاً ڈاکٹر آلات کے ذریعے سے جگر وغیرہ دیکھ لیتا ہے۔ ایک شخص ہے کہ اپنی نظر کے زور سے لحم وشحم غثاء کو توڑ کر اندر کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ تو صاحب آلات بھی کرلیتا ہے۔ پھر کیا کمال ہوا، وہ صاحب اپنی غلطی پر متنبہ ہوئے۔ پھر میں نے سمجھایا کہ دیکھئے، چار مرتبے ہیں: مرتبہ لاہوت، مرتبہ جبروت، مرتبہ ملکوت، مرتبہ ناسوت۔مرتبہ لاہوت و مرتبہ جبروت بھی غیرمخلوق ہے۔ غیرمخلوق صفات اجمالیہ تفصیلہ اس کا جس قدر انکشاف ہے، وہ بے شک مقصود ہے۔ باقی دو مرتبے جو مخلوق ہیں، جو حجاب ہیں۔ مرتبہ ملکوتی حجاب نورانی ہے اور مرتبہ ناسوقی حجاب ظلمانی۔ تو حجاب ظلمانی سے حجاب نورانی تک پہنچ گئے۔ یہ کیا کمال ہوا۔ ایک مخلوق سے گزر کر دوسری مخلوق تک پہنچے اس سے بھی ترقی کرکے کہتا ہوں کہ مرتبہ ناسوتی چونکہ حقیر ہے، اس وجہ سے چنداں حاجب نہیں۔ برخلاف مرتبہ ملکوتی کے وہ زیادہ حاجب ہے۔ (ص ۴۸)

طلب سے خالی ہونے اور محض رضا کا طالب ہونا

فرمایا: سالک راہِ محبت کو کسی چیز کی ہوس نہ ہونی چاہیے۔ کوئی ذوق شوق کا متمنی ہے، کوئی رقت قلب کی خواہش کرتا ہے۔ کسی کو کشف و کرامت کی تمنا ہے، کوئی جنت کو مقصود سمجھ کر اس کا طالب ہے۔ حالانکہ کسی بھی چیز کی طلب و ہوس نہ کرنا چاہیے کیونکہ عبد کے معنی ہیں، مالک کے سامنے سر جھکا دینے کے اور جو حکم ہوا، اس پر بہ سروچشم قبول کرکے عمل کرلینے کے۔ پھر عبد ہوکر کسی چیز کی ہوس کرنا کہ مجھے یہ ملے وہ ملے، یہ ہوس حقیقت میں فرمائش ہے، مالک پر، اور یہ کیونکر جائز ہوگی۔ اگر کوئی شبہ کرے کہ حدیث شریف میں آیا ہے:

اللھم انی اسئلک رضاک والجنۃ یہاں پر جنت کا سوال کیا گیا ہے، جواب یہ ہے کہ اس سوال کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی سوال کرے کہ فلاں صاحب سے کہاں ملاقات ہوگی؟ جواب ملے کہ باغ میں! اس پر وہ شخص باغ میں جانے کا آرزومند ہے، تو حقیقت میں وہ باغ مقصود بالذات نہ ہوگا بلکہ مقصود وہ صاحب ہیں مگر چونکہ وہ باغ میں ملیں گے، اس لیے اس کی تمنا ہوتی ہے جو اس مقام پر رہتے ہیں اسی طرح حدیث شریف میں مقصود رضا ہے، جس کو جنت پر مقدم فرمایا ہے، مگر چونکہ اس کا حصول جنت میں ہوگا، لہٰذا جنت کا بھی سوال کیا گیا۔ حق سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ورضوان من اللّٰہ اکبر، یہاں پر رضاء کو جنت سے اکبر فرمایا۔

اس سے معلوم ہوا کہ بڑی چیز یہی ہے۔ پھر یہ نکتہ بیان کیا کہ اس اکبر کی تحصیل کے لیے ذریعہ بھی اکبر ہونا چاہیے۔ سو فرماتے ہیں: ولذکر اللّٰہ اکبر۔ معلوم ہوا کہ وہ ذریعہ ذکراللہ ہے۔ تمام احکام پر عمل کرنے سے ذکر اللہ ہی مقصود ہے۔ (صفحح ۴۹)

قبولِ دعا کی تین صورتیں

فرمایا: دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ ہے کہ بعینہٖ وہ مطلوب شے مل جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی آنے والی بلا ٹل جائے۔ مگر چونکہ انسان کو خبر نہیں ہوتی کہ کیا ہوا۔ کون سی بلا ٹل گئی۔ اس لیے فرد کو بہت سے اوہام اور شکوک گھیر لیتے ہیں اور عدمِ قبولیت کا شبہ ہونے لگتا ہے حالانکہ وعدہ ہے: اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ دعا مانگتے وقت قبولیت کا یقین رکھو۔ جب شک اور شبہ کی ممانعت ہے تو پھر دعا مقبول کیونکر نہ ہوگی۔ البتہ بعض اوقات قبولیت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ فرد آزمائش سے محفوظ ہوگیا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ شے مطلوب ذخیرہ رکھ دی جاتی ہے۔ مثلاً کوئی نادان لڑکا روپیہ مانگے تو بعض اوقات اس کے نام سے پیسے کسی تجارت کی کوٹھی میں جمع کردیے جاتے ہیں اور نادانی کی وجہ سے خود اس کو نہیں دیتے کہ جب ہوشیار ہوگا، لے کر حسب ِ مصلحت خرچ کرلے گا اور اب لے کر بجز اس کے کہ ضائع کرے اور کیا کرے گا۔ حق تعالیٰ بھی اپنے بندے کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتے ہیں کہ اس مسؤل سے اچھی نعمت آخرت میں ذخیرہ فرما دیتے ہیں۔ (صفحہ ۵۰)

وسیلہ اور شرک میں فرق

فرمایا: ایک اہم مثال سے شرک جس کی نسبت وعید ہے: ان اللّٰہ لا یغفر ان یشرک بہ، اس کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو مستحق عبادت سمجھنا۔ اور عبادت کہتے ہیں کسی کے سامنے نہایت تضرع و تذلیل سے پیش آنے کو۔ چونکہ حق تعالیٰ قادر مطلق و خالق اور رازق ہیں، ان کو غیرت آتی ہے کہ ان کے سوا کسی دوسرے کے سامنے انتہائی تذلل سے پیش آیا جائے۔ مثلاً دو شخص ہیں: ایک ان میں بڑے مرتبے کا حامل ہے اور اس بڑے مرتبے والے نے کسی سائل کو کچھ دیا اور سائل بجائے اپنے دینے والے کے، دوسرے کی ایسی ہی تعریف و توصیف کرنے لگے، جو اس کے لیے کرنی چاہیے تھی، تو طبعی بات ہے کہ عطا کرنے والا کس قدر غضب ناک ہوگا۔ اسی طرح حق تعالیٰ کو بھی غیرت آتی ہے، جو لوگ مزارات پر اولیاء اللہ سے سوال کرتے ہیں۔

اب دیکھنا چاہیے کہ آیا محض وسیلہ سمجھ کر سوال کرتے ہیں، یا معاملہ اس سے بڑھ کر ہے۔ سو مشرکین عرب بھی بتوں کی عبادت وسیلہ قربِ الٰہی سمجھ کر کرتے تھے۔ چنانچہ مذکور ہے: ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللّٰہ زلفٰی نہ خدا سمجھ کر۔ مگر پھر بھی وہ مشرک قرار دیے گئے۔ سو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وسیلے میں بھی دو صورتیں ہیں: مثال سے فرق معلوم ہوگا۔ مثلاً ایک کلکٹر ہے اس کے پاس ایک منشی نہایت زیرک عاقل ہے۔ کلکٹر نے اپنا سارا کاروبار حساب و کتاب اس منشی کے سپرد کردیا ہے اور اس کے ذمہ چھوڑ دیا ہے۔ اور ایک دوسرا کلکٹر ہے، اس کے پاس بھی منشی ہے مگر یہ کلکٹر زبردست عادل ہے،اپنا کاروبار خود دیکھتا رہتا ہے۔ منشی کے ذمہ نہیں چھوڑا، اب اگر کوئی شخص اس منشی زیرک کے پاس جو پہلے کلکٹر کے پاس ہے جس کے سپرد کام ہے، کوئی درخواست پیش کرے تو کیا سمجھ کر پیش کرے گا۔ ظاہر ہے کہ منشی کو کاروبار میں دخیل سمجھ کر پیش کرے گا اور اسی واسطے اس کی خوشامد کرے گا کہ یہ خود سب کام کردیں گے کیونکہ ان کے کُل کام سپرد ہیں۔ کلکٹر تو فارغ بیٹھا ہے۔ گو ضابطہ کے دستخط وہی کرے گا مگر اس منشی کے خلاف کبھی دستخط نہ کرے گا اور اگر دوسرے کلکٹر کے منشی کے یہاں عرضی دی جائے گی تو محض اس خیال سے کہ کلکٹر زبردست ہے، رعب والا ہے، اس کے سامنے کون جاسکتا ہے، اس منشی کے ذریعہ سے درخواست کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس منشی کو تقرب حاصل ہے۔ یہ وہاں پر پیش کردے گا کیونکہ کُل کام کلکٹر دیکھتا ہے۔ اب دیکھئے ان دونوں صورتوں میں کس قدر فرق ہے۔ عوام اہلِ مزار سے اکثر پہلی صورت کا سابرتاؤ کرتے ہیں۔ ان کے افعال اور اعمال سے یہ ظاہر ہے۔ پھر یہ شرک نہیں تو کیا ہے؟ برخلاف محض وسیلہ سمجھنے کے۔ پس شرع شریف میں عبادت غیراللہ جہاں صادق آئے گی گو بہ نیت توسّل ہی سہی، وہ شرک ہوگا۔ غرض وسیلہ جائز، مگر تعبد التوسل شرک ہے۔ (صفحہ ۵۱)

شیطان کے خوش نما فریب

فرمایا: شیطان ایسا شریر ہے، کہ بعض اعمال کو اچھے پیرایہ میں دکھا کر اس کام میں مشغول کردیتا ہے کہ ظاہر میں نہایت خوب معلوم ہوتا ہے، مگر اس میں کچھ ابتلاء ہوتی ہے اور پھر شیطان کی طرف سے اس میں ہیجان کا اثر ہوتا ہے، جس سے اس کی پسندیدگی و مقبولیت کا شبہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً سماع ہے کہ اس میں بعض افراد کو رقت طاری ہوتی ہے اور وجد ہوتا ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ طالب، حق میں سرگرداں ہے اور یہ شخص بھی سمجھتا ہے کہ محبت ِ حق میں مستغرق ہوں، مگر یہ ہر حالت من جانب اللہ نہیں ہوتی۔ بے علم انسان کے قلب میں یہ بات پیدا ہوجاتی ہے کہ خدا کی یہ صورت ہے، یہ شکل، یہ ہیئت، ایسا جمیل ہے اور وہ اسی کو خدا تصور کرنے لگتا ہے، بعض اس کو عقیدہ بنا لیتے ہیں، جب عقیدہ ہوگیا تو جب سماع میں محبوب کے اوصاف پڑھے گئے تو اس صورت کو پیش نظر رکھ کر اس کی طلب میں بے قراری پیدا ہوئی، وجد ہوا، رقت طاری ہوئی اور جو کچھ ہوا، وہ غلط عقیدے کی وجہ سے ہوا اور شیطان کے دھوکے سے ہوا۔ شیطان کبھی ایسا کرتا ہے کہ ایک آسمان سامنے لاکھڑا کردیتا ہے، جس میں فرشتے نظر آتے معلوم ہوتے ہیں۔ جو نادان ہیں، اس کو واقعی تصور کرلیتے ہیں۔ مگر عارفین فی الفور سمجھ جاتے ہیں کہ وہ نہ آسمان ہے، نہ فرشتے، محض خیالات یا ابلیس کا لشکر ہے۔ ایسے وقت میں بغیر شیخ کامل کے کام نہیں چلتا۔ آدمی نہایت دھوکہ میں پڑ جاتا ہے۔ (صفحہ ۵۳)

مجذوب کا معذور ہونا

فرمایا: محبت میں کبھی شورش ہوتی ہے اور کبھی انس۔ اس کے رنگ مختلف ہیں۔ جب انسان حدِاعتدال سے بڑھ جاتا ہے تو انبساط بڑھ جاتا ہے۔ حق تعالیٰ کے ساتھ اور شطحیانہ کلام سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (صفحہ ۵۴)

نسبت حقیقی

فرمایا: نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ایک خاص لو لگ جائے اور یہ بات سینہ بہ سینہ آرہی ہے اور بغیر صحبت کامل یہ نعمت میسر نہیں ہوتی، اور جو چیز سینہ بہ سینہ مشہور ہے کہ اہل اللہ کے پاس ہے، وہ یہی ہے۔ (ص ۵۵)

امام غزالیؒ کا دس برس تک حالتِ قبض میں رہنا

فرمایا: سلوک کی تکمیل کے بعد کسی کو مقام رجاء مل جاتا ہے۔ کسی کو خوف، کسی کو کچھ اور نیز قلب میں نسبت کا رسوخ ہوجاتا ہے۔ یہ مقامات ہیں اور احوال دورانِ تکمیل میں پیش آتے ہیں۔ کوئی حال ایسا ہوتا ہے کہ اس سے بعض کا انتقال ہوگیا۔ امام غزالیؒ کو بھی دس برس تک قبض رہا، اس کے بعد ان پر بے شمار علوم کا فیضان ہوا۔ (صفحہ ۵۶)

ترکِ اتباع سنت سے نورِ باطن کے ضیاع کا خطرہ

فرمایا: اہلِ باطن کا عجیب حال ہوتا ہے، ایک بزرگ نے اپنا بایاں پیر مسجد کے اندر سہواً رکھ دیا۔ گھبرا گئے۔ کسی نے دریافت کیا کہ حضرت اس قدر پریشان کیوں ہوئے؟ فرمایا: مجھے خوف ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ترکِ اتباع سنت سے نورِ باطن جو کچھ عنایت ہوا ہے، وہ سلب نہ ہوجائے۔ موجودہ دور میں اباحت کا ایسا دروازہ ہے کہ ان امور کا تو کیا، فرائض و محرمات تک کا بھی کچھ خیال نہیں ہے۔ (ص ۵۷)

مولود شریف اور مقتدا کے لیے اس میں شرکت کا مسئلہ

فرمایا: مولانا فتح محمدصاحبؒ بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا رشیداحمد صاحب فیوضہم مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور ہمارے حضرت حاجی صاحب قبلہ مولود شریف کے جلسے میں بلائے گئے۔ حضرت مرشد قلبہ نے جناب مولانا رشیداحمد صاحب سے فرمایا کہ آپ بھی چل رہے ہیں۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ چلتا تو ضرور، کیونکہ اس مولود شریف میں مفاسد نہیں، نہایت احتیاط کے ساتھ ہے۔ مگر میں ہندوستان میں وہاں کے مفاسد کی وجہ سے لوگوں کو اس سے منع کرتا ہوں۔ اب میرا جانا سند ہوگا۔ جس پر حضرت مرشد قبلہ حاجی صاحب نے مولانا سے فرمایا کہ میں تمہارے جانے سے اتنا خوش نہ ہوتا جس قدر نہ جانے سے خوش ہوں۔ (ص ۶۰)

نماز میں خیالات کا مسئلہ

فرمایا: خیالات اگر عبادت کے اندر آئیں تو فکر نہ کرنی چاہیے اور ان کی رفع کی زیادہ کوشش نہ کرنا چاہیے۔ ورنہ مزید خیالات آئیں گے البتہ خیالات کا خود لانا بُرا ہے، جب کہ آنا کچھ بھی بُرا نہیں۔ قلب کی مثال دریا جیسی ہے، اس میں بے شمار موجیں ہر وقت اُٹھتی رہتی ہیں۔ اس لیے اگر خیالات آئیں تو آنے دو، بلکہ بعض اوقات اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر وہ نہ آئیں تو شیطان کو موقع ملتا ہے کہ قلب میں زیادہ بے ہودہ اور بُرے خیالات پیدا کرتا ہے۔ ع ایں بلادفع بلا ہائے بزرگ (ص ۶۰)

وسعت رزق کے لیے وظیفہ

فرمایا: حزب البحر اطمینان رزق اور دشمنوں پرغلبہ کے لیے مجرب ہے اور یامغنی کا ورد گیارہ سو مرتبہ بعد نمازِ عشاء اور آخر درود شریف گیارہ بار وسعت ِ رزق کے لیے بہت مفید ہے۔ (ص ۶۲)

٭٭٭