موت کے بعد۔۔۔!

مصنف : نادیہ صدف

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2009

ہر انسان کا مقدر ‘موت’ ہے اور ایک نہ ایک روز اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہے۔ موت کا سفر کسی بھی لمحے پیش آسکتا ہے۔ ربِ رحیم کا فرمان ہے: ‘‘ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے’’ (الانبیا ۲۱:۳۵)

موت کا فرشتہ بادشاہ کے محل میں بھی اسی طرح بے روک ٹوک داخل ہوجاتا ہے جس طرح فقیر کی جھونپڑی میں پہنچ جاتا ہے۔ موت کے مقررہ وقت کے بارے میں قرآن حکیم میں آتا ہے: ‘‘اگر کہیں وہ لوگوں کو اُن کے کیے کرتوتوں پر پکڑتا تو زمین پر کسی مُتنفِّس کو جیتا نہ چھوڑتا۔ مگر وہ اِنھیں ایک مقررہ وقت تک کے لیے مُہلت دے رہا ہے۔ پھر جب اُن کا وقت آن پورا ہوگا تو اللہ اپنے بندوں کو دیکھ لے گا’’ (الفاطر ۳۵:۴۵)

 موت کا لکھا ہوا وقت ذرا پیچھے نہیں ہٹایا جاتا اور نہ موت کے وقت مہلت ہی دی جاتی ہے۔ حالتِ نزع کا کیا عالم ہوگا، فرمایا جا رہا ہے: ‘‘ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا، اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے، اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی، وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا’’ (الدھر ۷۶:۶۶-۷۰)۔

ضرت اسما بنت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہتی ہیں کہ ‘‘ایک دن رسولؐ اللہ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اُس آزمایش کا ذکر فرمایا ، جس میں مرنے والا آدمی مبتلا ہوتا ہے۔ جب آپؐ نے اس کا ذکر فرمایا تو خوف و دہشت سے سب مسلمان چیخ اُٹھے اور ایک کہرام مچ گیا۔ (بخاری)

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘جب مومن کی رُوح (اس کے جسم سے) نکلتی ہے تو دو فرشتے اُسے ملتے ہیں اور اُسے اُوپر چڑھا لے جاتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے (پھر وہ اُس رُوح کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے نیک رُوح) اللہ رحمت نازل فرمائے تجھ پر بھی اور اس جسم پر بھی جسے تو آباد رکھتی تھی۔ پھر اس رُوح کو اس کے رب عزوجل کے پاس لے جایا جاتا ہے تو وہ (اس کے بارے میں) فرماتا ہے کہ اسے آخری معاد (یعنی قیامت) تک کے لیے (سدرۃالمنتہیٰ کی طرف) لے جاؤ۔ اور کافر کی روح جب (اس کے جسم سے) نکلتی ہے اُسے بھی اسی طرح اُوپر چڑھا لے جایا جاتا ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ ایک خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر (اس کے بارے میں) حکم دیا جاتا ہے کہ اسے آخری معاد (یعنی قیامت) تک کے لیے سجّین میں لے جاؤ۔ رسولؐ اللہ نے (خبیث روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لیے) اُس اکہری چادر کو جو آپؐ اوڑھے ہوئے تھے اس طرح اپنی ناک سے لگایا پھر اُنھوں نے مومن کی روح کی عمدہ خوشبو کا ذکر کیا اور مُشک کا ذکر کیا۔ (مسلم)

موت کے بعد ‘جنازے’کا مرحلہ آتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے: ‘‘جب جنازہ رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اُسے اپنی گردنوں پر اُٹھالیتے ہیں تو اگر وہ (میت) نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہو تی تو کہتی ہے کہ ہائے میری کم بختی! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو۔ اس کی آواز انسان کے سوا ہر شے سنتی ہے اور اگر انسان اُسے سن لے تو (دہشت اور خوف کی شدت کے باعث) غش کھا کر گر پڑے (بخاری)

 حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اُس کی تعریف کی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی، اور ایک دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس پر میت کو بُرا کہا۔ اس پر بھی آپؐ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آپؐ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، ایک جنازہ گزرا، لوگوں نے اس کی تعریف کی تو آپؐ نے فرمایا: واجب ہوگئی، اور ایک دوسرا جنازہ گزرا اور لوگوں نے اس (میت) کو برا کہا تو بھی آپؐ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ حضوؐر نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور جس میت کو تم لوگوں نے برا کہا اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (نسائی)

جنازے کے بعد انسان کے سفر کی اگلی کڑی منزل عالمِ برزخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ پس اگر کوئی اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت نہ ہوں گی۔ (نیز) آپؐ نے فرمایا کہ جتنے بھی (ہولناک) منظر میں نے دیکھے ہیں قبر ان سب سے زیادہ ہولناک ہے۔ (ابن ماجہ)

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز ایسی نہیں پڑھی جس میں قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ میت کو دفن کرنے والے پشت پھیر کر واپس لوٹتے ہیں تو مُردہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرشتے اُس کے پاس سوال کرنے آجاتے ہیں۔ جنتی شخص کو جنت کا لباس پہنایا جاتا ہے، جنت کا بچھونا بچھایا جاتا ہے اور جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ جنت کی ہوا اور خوشبو آنے لگتی ہے۔ قبر حدِّنظر تک وسیع کردی جاتی ہے۔ دوزخی شخص کو جہنمیوں کا لباس پہنایا جاتا ہے، دوزخ کا بچھونا بچھایا جاتا ہے اور دوزخ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ پھر دوزخ کی گرمی اور لُو اُس کی طرف آنے لگتی ہے۔ قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اندر کی پسلیاں اُوپر تلے ہوجاتی ہیں۔ پھر اُس پر ایک اندھا، گونگا فرشتہ مسلط کردیا جاتا ہے جس کے پاس ایک لوہے کا گُرز ہوتا ہے۔ اگر وہ گُرز پہاڑ کو مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے۔ وہ فرشتہ اُس گُرز کے ساتھ اُس کافر کو ایک ضرب لگاتا ہے جس کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا ہر وہ شے سنتی ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ پس وہ کافر خاک ہوکر رہ جاتا ہے۔ پھر اُس میں دوبارہ رُوح ڈالی جاتی ہے (قیامت تک اس پر ایسے ہی عذاب ہوتا رہتا ہے)۔ یہ مرحلہ عالمِ برزخ کا ہے۔

قبر کی منزل کے بعد ‘قیامت’ کے ہولناک دن کا مرحلہ آتا ہے، کائنات کو درہم برہم کرنے کا دن___ موت کے خاتمے کا دن___ قبروں سے نکل کر رب کے حضور حاضری کا دن___ ہزاروں سالوں کی مسافت کا دن!

قیامت کا دن جس کا آغاز صور پھونکنے سے ہوگا۔ رب رحیم فرماتے ہیں: ‘‘جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی طرف پکارے گا، لوگ سہمی ہوئی نگاہوں کے ساتھ اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ پکارنے والے کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے اور وہی منکرین (جو دنیا میں اس کا انکار کرتے تھے) اس وقت کہیں گے کہ یہ دن تو بڑا کٹھن ہے’’ (القمر۵۴:۶-۸)۔ آگے ارشاد ہوتا ہے: ‘‘اس دن کے لیے جب حال یہ ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں، سر اُٹھائے بھاگے چلے جارہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں اور دل اُڑے جاتے ہیں’’(ابراھیم۱۴:۴-۴۳)۔

 سب سے بڑ ی پشیمانی قیامت کے دن ہوگی جس دن مر مٹنے کی حسرت کی جائے گی، جس کا ایک دن دنیا کے ۱۰ ہزار سال کے برابر ہوگا۔ سورج ایک میل کی مسافت پر ہوگا (میل عربی میں آنکھ میں جو سلائی لگاتے ہیں اس کو بھی کہتے ہیں)۔ ہر فرد اپنے اعمال کے پسینے میں شرابور ہوگا۔ کسی کا پسینہ ٹخنوں تک، کسی کا گھٹنوں تک، کسی کا کمر تک اور کسی کا منہ تک ہوگا۔ انکار کرنے والوں کو منہ کے بل چلایا جائے گا۔ اُس دن نہ کوئی سفارش کام آئے گی نہ مال، نہ اقتدار، نہ اولاد۔

 آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور فرمائے گا کہ میں ہوں بادشاہ! زمین کے بادشاہ (اس وقت)کہاں ہیں (بخاری)۔

آپؐ نے فرمایا کہ ‘‘جس انسان کی یہ خواہش ہو کہ وہ قیامت کے دن کو اس طرح دیکھے گویا وہ اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے تو اُسے چاہیے کہ اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ اور اِذَا السَّمَآءُ الْفَطَرتْ اور اِذَالسَّمَآءُ انْشَقَّتْ پڑھے۔ (ترمذی)

آخرت کے اس سفر کی اگلی سیڑھی ہے : ‘ ‘نامہ اعمال اور حساب کتاب، اور اس کے نتیجے میں جنت یا دوزخ’’۔

ربِ کائنات فرماتے ہیں: ‘‘اور پھر صور پھونکا گیا، یہ ہے وہ دن جس کا تجھے خوف دلایا جاتا تھا۔ ہرشخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا۔ اِس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا جو تیرے آگے پڑا ہوا تھا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے’’ (قٓ۵۰:۲۰-۲۲)

 حکم ہوتا ہے: ‘‘پڑھ اپنا نامہ اعمال، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے’’۔

نبی کریمؐ فرماتے ہیں: ‘‘تم میں سے کوئی شخص ایسا نہ ہوگا جس سے خداوند بزرگ و برتر بلاواسطہ اور بلاحجاب گفتگو نہ کرے۔ بندہ دائیں جانب نظر دوڑائے گا تو اسے وہ چیز نظر آئے گی جو اس نے اعمال میں سے بھیجی ہے۔ بائیں جانب دیکھے گا وہی اعمال نظر آئیں گے جو اس نے بھیجے ہوں گے۔ سامنے دیکھے گا تو آگ نظر آئے گی جو اس کے چہرے کے بالکل سامنے ہوگی (بخاری، مسلم)۔

اعمال ناموں کے ریکارڈ ویڈیو فلم کی طرح دکھائے جائیں گے۔ کراماً کاتبین ہی نہیں، ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ، چمڑی، کھال بھی گواہیاں دیں گے۔ اس دن رب اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کا حساب لے گا۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: ‘‘پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی’’ (التکاثر ۱۰۲:۸)۔ اور ‘‘جو تم کیا کرتے تھے اس کی بابت تم سے ضرور پوچھا جائے گا’’۔ اعمال کی جانچ پڑتال ہو رہی ہوگی، انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ‘‘تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے: دائیں بازو والے، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی) کا کیا کہنا۔ اور بائیں بازو والے، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی) کا کیا ٹھکانا۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں وہی تو مقرب لوگ ہیں۔ (الواقعہ ۵۶:۷-۱۱)

ذرا غور کیجیے کہ ہم کس گروہ میں اپنے آپ کو شمار کرنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس کے بعد وہ مرحلہ آئے گا جب میزان آویزاں کردی جائے گی!

رب رحیم کا احسان عظیم ہے کہ اُس دن فیصلہ تول کے بھاری اور ہلکے ہونے پر ہوگا۔ قرآن میں رب کریم فرماتے ہیں: ‘‘اور قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا۔جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہوگا۔ وہ ہم سامنے لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں (الانبیا ۲۱:۴۷)۔ ‘‘پھر جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوشی خوشی پلٹے گا۔ رہا وہ شخض جس کا نامۂ اعمال اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جاپڑے گا’’۔ (الانشقاق ۸۴:۷-۱۲)

ایک بار حضرت عائشہؓ دوزخ کی آگ کو یاد کر کے رو رہی تھیں۔آپؐ سے پوچھتی ہیں کیا آپؐ اپنے اہل و عیال کو یاد فرمائیں گے؟آپؐ نے فرمایا: قیامت کے دن تین مقامات پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا: ۱- میزان ہلکا یا بھاری ہے ۲-نامۂ اعمال دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں ملا، ۳-پُل صراط پر سے گزرتے ہوئے۔

 شفاعت ایک سفارش ہے جو کہ رب کے حکم اور اجازت سے کی جائے گی۔ دنیا میں ۳۰، ۳۱ نمبر والے کو ہی سفارش کی بنیاد پر رعایتی پاس کرتے ہیں، صفر والا پاس نہیں ہوتا۔ آپؐ نے اپنی پھوپھی صفیہؓ اور اپنی بیٹی فاطمہؓ کو آخرت کی تیاری کی طرف توجہ دلائی۔ خلوصِ دل سے لا الٰہ الا اللہ کہنے والا اور اذان کے بعد کی دعا پڑھنے والا شفاعت کا حق دار بن سکتا ہے۔

ایمان والوں کو پانی پلانے کے لیے ‘حوضِ کوثر’ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جسے پینے کے بعد عرصہ تک کبھی پیاس کا شکار نہیں ہوگا۔ آپؐ سے پوچھا گیا: کوثر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: کوثر جنت میں ایک نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں اور وہ موتی اور یاقوت سے بنی ہے۔ اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے (ترمذی)

غور کرنے اور فکر کا مقام تو یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ میں حوضِ کوثر پر تم سے ملوں گا تم میں سے بعض لوگ میرے پاس لائے جائیں گے یہاں تک کہ جب میں جھکوں گا کہ انھیں پانی دوں تو انھیں میرے سامنے سے کھینچ لیا جائے گا۔ اس پر میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گاکہ تم نہیں جانتے کہ اُنھوں نے تمھارے بعد کیا کیا بدعتیں کیں (بخاری)

 رزلٹ ملنے کے بعد انجام سامنے ہوگا۔ جنت کی صورت میں یا دوزخ کی صورت میں___درمیان میں کچھ نہیں___ ذرا سوچیے ہمارا ہمیشہ کا گھر کہاں تیار ہو رہا ہے!

دوزخ کے بارے میں آپؐ نے فرمایا: ‘‘(قیامت کے دن) دوزخ کو لایا جائے گا۔ اُس دن اس کی ۷۰ لگامیں ہوں گی۔ ہر لگام کے ساتھ ۷۰ ہزار فرشتے ہوں گے جو اُسے کھینچ رہے ہوں گے۔ دوزخ کی آگ کی گرمی دنیا کی آگ سے ۷۰ گنا زیادہ ہے اور جہنم کی گہرائی ۷۰ برس کی مسافت ہے (مسلم)

اہلِ دوزخ کا کھانا تھوہر ہوگا۔ یہ ایک سخت کڑوا بدبودار پھل ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: ‘‘گرم پانی دوزخیوں کے سروں پر ڈالا جائے گا تو وہ سرایت کرتاہوا اُن کے پیٹوں تک جاپہنچے گا اور جو کچھ پیٹ میں ہوگا (یعنی انتڑیاں وغیرہ) اسے کاٹ دے گا۔ یہاں تک کہ پھر دوزخیوں کے قدموں کے راستے باہر نکل آئے گا۔ بار بار ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ (ترمذی)

سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ‘‘کافر کا جسم دوزخ میں بہت بڑھ جائے گا یہاں تک کہ اس کی جلد کی موٹائی ۴۲ ہاتھ ہوگی اور اس کی داڑھ اُحد (پہاڑ) کے برابر ہوگی، اور دوزخ میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہوگی جتنی مکہ سے مدینہ کی مسافت’’۔ (ترمذی)

اہلِ ایمان کا مستقر جنت ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں (اس کا) خیال گزرا (بخاری)

جنتی کبھی بیمار نہیں ہوں گے، بوڑھے نہیں ہوں گے، کوئی رنج و تکلیف نہیں پہنچے گی، نہ ان کے کپڑے پرانے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ ناک صاف کریں گے، نہ تھوکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور ان کا سینہ مُشک کی طرح (خوشبودار) ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں کسی کی بہشت میں کمان بھر جگہ یا چابک بھر جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے، اور اگر اہلِ جنت میں کوئی عورت زمین والوں کی طرف رُخ کرے تو جو کچھ آسمان اور زمین کے بیچ میں ہے، سب کو روشن کر دے اور خوشبو سے بھر دے اور بے شک اس کا دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے (بخاری)

 جنت میں ایک درخت ہے (جو اتنا بڑاہے) کہ سوار اس کے سایے میں ۱۰۰ برس تک چلتا رہے گا مگر اسے طے نہیں کرسکے گا۔ جنت میں ادنیٰ ترین مرتبہ یہ ہوگا کہ جو جو تمنائیں تو نے کی ہیں وہ (سب) تمھیں دی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ اتناہی اور دیا جاتا ہے۔ (مسلم)

آپؐ نے فرمایا کہ (آخرت میں) تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب اس طرح گفتگو کرے گا کہ اس کے درمیان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان نہ کوئی ترجمان ہوگا اور نہ کوئی پردہ جو اُسے چھپائے (بخاری)

رب کا دیدار بھی کسی کو ہر جمعہ کسی کو سال میں ایک بار کسی کو پورے عرصے میں ایک ہی بار کرایا جائے گا جسے اہلِ جنت چودھویں کے چاند کی طرح آسانی سے دیکھ سکیں گے!

دنیا سے آخرت کی طرف کوچ کرنے کا یہ چند لمحوں کا، بالکل مختصر سفر ہم سب نے کرنا ہے۔ ‘‘اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف کھنچا چلا جا رہا ہے’’ (الانشقاق ۸۴:۶)۔ گویا لمحہ بہ لمحہ ہم اپنی موت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور نہ جانے زندگی کی یہ مہلت کب ختم ہوجائے!

قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت، اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں۔ دل ان کے دوسری ہی فکر وں میں منہمک ہیں۔ (الانبیا ۲۱:۱-۲)