درخت او رانسان

مصنف : ریحان احمد یوسفی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جولائی 2010

             درخت انسان کے لیے ایک بہترین اخلاقی معلم ہے۔ قرآن پاک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ اخلاقی کردار ہی دین کا مطلوب و مقصود ہے۔ کوئی انسان اگر اس کردار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے درخت کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے۔ درخت کے دو پہلو اس معاملے میں انسان کے لیے بہترین رہنما ہیں۔ایک درخت کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو، ہر قسم کے تعصب سے خالی ہونا ہوتا ہے۔ درخت ایک آفاقی پروڈکٹ ہے ، جس کی نشو و نما میں پوری کائنات حصہ لیتی ہے۔ درخت اپنے وجود کو بڑ ھاتا ہے اور اس عمل میں وہ کسی سے تعصب نہیں برتتا۔ وہ ایک دوسرے درخت کے بیج سے جنم لیتا ہے ، مگر اس کے بعد وہ بلاتعصب سورج سے روشنی قبول کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی تعصب کے آسمان اور بادلوں سے پانی وصول کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی تعصب کے فضا سے ہوا کو جذب کرتا اور زمین سے زرخیزی اور مٹی اخذ کرتا ہے۔ ان سب چیزوں کی مدد سے وہ اپنے وجود کو بڑ ھاتا اور ایک چھوٹے سے بیج سے ، ایک طاقتور اور سایہ دار درخت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ تعصب کا مظاہرہ کرتا تو کبھی کوئی بیج درخت نہ بن پاتا۔

              درخت کی زندگی میں ہمارے لیے ایک دوسرا نمونہ اس اعتبار سے ہے کہ جب اس کے ساتھ برائی کا معاملہ ہوتا ہے ، تب بھی وہ بھلائی ہی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس کی زندگی کے آغاز ہی پر اسے زمین میں دبا دیا جاتا ہے ، لیکن وہ شکایت نہیں کرتا۔ بلکہ شکایت کیے بغیر وہ کوشش اور جدوجہد کرتا اور زمین سے باہر نکل آتا ہے۔ جب وہ باہر نکلتا ہے تو یہ فضا اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ دیتی ہے ، لیکن وہ انسانوں کو پلٹ کر آکسیجن دیتا ہے۔ اس کے وجود کو زمین بدشکل جڑ اور بے روپ تنے کی شکل میں جنم دیتی ہے۔ لیکن وہ پلٹ کر لوگوں کو سبزہ، پھول اور پھل کی بہاریں دیتا ہے۔ لوگ اسے پتھر مارتے ہیں ، لیکن وہ اپنے پھل ان پر نچھاور کر دیتا ہے۔ اسے دھوپ ملتی ہے ، لیکن وہ انسانوں کو سایہ دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک وقت آتا ہے کہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی یہ لوگوں کے فائدے کے لیے ان کے گھر کا فرنیچر، ان کے بیٹھنے کا صوفہ اور ان کے لیٹنے کی مسہری بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب اسے آگ میں جلادیا جاتا ہے تب بھی وہ جواب میں لوگوں کو روشنی اور حرارت مہیا کرتا ہے۔

            اس میں کوئی شک نہیں کہ درخت کی طرح جو انسان ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو اور یکطرفہ طور پر مخلوقِ خدا کا خیر خواہ ہو، کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے صبر کا بہترین بدلہ دیں گے اور اسے جنت کے ابدی باغوں میں ہمیشہ کے لیے بسادیا جائے گا۔