ایک عہد سا ز شخصیت، ایک مینارۂ نور

مصنف : محمد عارف حسین علوی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : جون 2010

خادم قرآن ڈاکٹر اسرار احمد کی یاد میں

            ۱۴ اپریل کی صبح حسب معمول تلاش معا ش کے لیے نکلنے ہی وا لا تھا کہ ایک د یر ینہ دوست نے فون کر کے بتا یا کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ وفات پاگئے ہیں "انا للہ و انا الیہ راجعون"

            یہ جا نتے اور مانتے ہوئے بھی ـــ کہ " و ما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ" ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر قلب و ذہن پر بجلی بن کر گری۔پردۂ ذہن پر وہ تمام عکس یکے بعد دیگرے گردش کرنے لگے جو ڈاکٹر صاحب کی محبت بھری یادوں کا مظہر تھے۔

            ۸۰ کی دہا ئ کے نصف آخر میں اسلام آباد کے کمیونٹی سنٹر میں ڈاکٹر صاحب کے ماہانہ دروس ابتدائی شناسائی کا ذریعہ بنے اور پھر یہ تعلق محبت اور عقیدت میں ڈھلتا چلا گیا۔ اور پھر ڈاکٹر صاحب کو خلوت و جلوت میں دیکھنے پرکھنے حتی کہ غریب خانہ پر شرف میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

            رب ذوالمنّان نے ڈاکٹر صاحب کو قوت بیان کی وہ غیر معمولی دولت عطا فرما رکھی تھی کہ سامعین ان کی خطابت کے سحر میں یوں محو ہو جاتے کہ اڑھائی تین گھنٹے گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ بلا شبہ یہ خدادا دنعمت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے اور پھر اس نعمت کو استعمال کرتے ہوے منعم کی مرضی و پسند کا لحا ظ رکھنے والے تو فی الحقیقت بہت ہی قلیل اور حقیقی خوش نصیب ہوتے ہیں۔ بلا شبہ زما نہ گواہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب زندگی کی آخری سانس تک رب کریم کی عطا کردہ صلاحیتوں اور عمر عزیز کے ایک ایک لمحے کو اعلائے کلمۃ اللہ کے ابلاغ و فروغ میں صرف کرتے رہے۔ علالت و پیرانہ سالی کے باوجود ۹ اپریل کو حسب معمول خطاب جمعہ ارشاد فرمایا جبکہ صرف چار دن بعد ۱۳، اپریل کی رات عالم پائیدار کو سدھار گئے۔

            ڈاکٹر اسرار احمد ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء کو ہریانہ ضلع حصار(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری ہی میں مطالعہ کے بے پناہ ذوق نے وقت کے نوابغ مولانا حالیؒ ، علا مہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے لٹریچر سے نہ صرف متعارف کرا دیا بلکہ یہ مطالعہ امت کی نشاۃ ثانیہ کی جدوجہد کو منزل بنا لینے کے عزم کا ذریعہ بھی ثابت ہوا۔تحرّک کی خداداد صلاحیت نوجوان اسرار احمد کوتحریک پاکستان کے قافلے میں کھینچ لائی اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع حصا ر کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۵ سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ ہیڈ سلیما نکی کے راستے بیس دن تک پیدل چل کر ہجرت کے کٹھن مراحل عبور کیے۔ پاکستان پہنچنے کے بعد حصول تعلیم کے سلسلے کو از سر نو بحال کیا اور ایف ایس سی کا امتحان گورنمنٹ کالج لا ہور سے امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ بعد ازاں کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ لیا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ سید مودودی ؒکی انقلابی فکر سے وابستگی اسلامی جمعیت طلبہ کی رفاقت کی صورت میں پروان چڑھتی رہی۔ اظہا ر و بیان کی قدرت ایک طرف جمعیت کے حلقوں میں ان کے دروس قرآن کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا ذریعہ بنی جبکہ دوسری طرف قوت فیصلہ، نظم و ضبط اور متاثر کن شخصیت کے اوصاف بہت تیزی سے ان کوجمعیت کے مختلف مدارج سے گزارتے ہوئے ناظم اعلی پاکستان کے منصب تک لے گئے۔

            ۱۹۵۴ میں میڈیکل کی تعلیم مکمل ہونے پر جمعیت کی رفاقت تو ختم کرنا پڑی لیکن ایک دن کا وقفہ کیے بغیر سید مودودیؒ کی تحریک سے وابستگی نے جماعت اسلامی کی رکنیت کی صورت اختیار کر لی۔ اور بہت جلد منٹگمری (ساہیوال) کی امارت ڈاکٹر صاحب کے سپرد کر دی گئی۔ جماعت اسلامی کی مرکزی شوری کے رکن کی حیثیت سے آپ کو سید مودودیؒ کے ساتھ ساتھ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا عبدالغفار حسنؒ جیسے جلیل القدر اکا برین سے استفادے کا موقع بھی ملا جو کہ آگے چل کر آپ کی صلا حیتیوں کے نکھار کا اہم سنگ میل ثابت ہوا۔

            خداداد ذہانت، قدرت کلام، تقریر و تحریر کی صلاحیت اور بے پناہ محنت کی بدولت ڈاکٹر صاحب کو جلد ہی جما عت اسلامی کی صف اول کی شخصیات میں شمار کیا جانے لگا۔ لیکن فطرت نے ڈاکٹر صاحب کو جو صلا حیتیں ودیعت فرمائی تھیں ان کی منزل کہیں اور تھی غور و فکر اور متا ثر کر دینے والے اوصاف کے حامل پچیس سالہ نوجوان ڈاکٹر اسرار احمد نے اختلاف کرتے ہوئے ۱۹۵۷ میں ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں وقت کے عظیم عالم دین سید مودودیؒ کے سامنے سوا دو گھنٹے تک جماعت اسلامی کے نظریاتی انحراف کے حق میں انتہائی مؤ ثر دلائل دے کر خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ نتیجتاً نوجوان ڈاکٹر اسرار احمد جبکہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مولانا عبدالغفار حسنؒ، حکیم عبدالرحیم اشرفؒ جیسے اکابر اور کثیر تعداد میں با صلا حیت اذہا ن نے جماعت اسلامی سے علیحد گی اختیار کر لی۔

            ڈاکٹر اسراراحمدجماعت اسلامی سے تو الگ ہو گئے لیکن علامہ اقبال ؒ، مولانا ابو الکلام آزادؒ اور مولانا مودودیؒ کی انقلابی فکر سے ایک لمحہ بھی جدا نہیں ہوئے اور اس کے ابلاغ و فروغ کے لئے مقدور بھر کوششوں میں مصروف رہے بالآ خر اسی مقصد کے تحت ۱۹۶۵ ء میں مستقلاً لا ہور میں سکونت اختیار کر لی اور میڈیکل کی پریکٹس اور دروس قرآن کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔مزید برآں لا ہور سے با ہر بھی جہاں گنجا ئش ملتی۔شہر شہر قریہ قریہ قرآن کی منادی کو حرز جاں بنائے رکھا۔ تاآنکہ ۱۹۷۱ء میں حج بیت اللہ کے دوران آپ نے زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا اور آئندہ میڈیکل پریکٹس ترک کر کے بقیہ زندگی ہمہ وقت دین کی خدمت میں وقف کرنے کا عزم کیا۔ ایسا فیصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو کسی شے کے عشق میں عقل و خرد کے تمام دلائل رد کر دے، جو کسی حساب کتاب میں نہ پڑے اور بے خطر حصول منزل کے لئے میدان میں کود جائے ۔ ڈاکٹر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ "میں نے واپسی پر کلینک کو تالا لگا دیا "اس فیصلے کے بعد یکسو ہو کر حلقہ ہائے دروس قرآن قائم ہونا شروع ہوئے۔اور رجوع الی القرآن کی یہ دعوت ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور کے قیام پر منتج ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے مراحل کے بیان پر اکژ یہ اشعار پڑھا کرتے تھے۔

گیا وہ وقت کہ میں تنہا تھا انجمن میں

اب یہاں میرے رازداں اوربھی ہیں

نیز

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ آتے گئے کاروا ں بنتا گیا

            اب گھروں کے کمروں سے نکل کر کیمونٹی سنٹرز، ہالز، کھلے میدانوں اور مساجد میں دروس و خطابات منعقد ہونے لگے۔اور لاہور سے باہر کراچی،اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور دیگر شہروں تک سلسلہ ہائے دورس قرآن دراز ہوتے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے درس میں علامہ اقبال ؒ کا سوز دروں، ابوالکلام آزادؒ کی نکتہ سنجی، مولانا مودودیؒ کی سلاست و روانی، شیخ الہند مولا نا محمود الحسنؒ کی فکر و درد مندی جبکہ مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا امین احسن اصلا حیؒ کے تدبر و تعمق سے سامعین لطف اندوز ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایک بار شعور کی گہر ائی کے ساتھ ان کا درس سن لیتا تو وہ رجوع الی القرآن کے پیغام کا گرویدہ ہو جاتا اور قرآن حکیم کے ساتھ اس کا قلبی و عملی تعلق قائم ہو جا تا۔

            انجمن خدّام القرآن کے قیام کے وقت ہی ڈاکٹر صاحب نے شرکا پر واضح کر دیا تھا کہ ہمارا مقصد ایک ایسی جماعت کا قیام ہے جو اصولی اسلامی انقلابی جماعت ہو گی جو پاکستا ن میں اسلام کے نظام عدل اجتماعی کے قیام کے لئے جدوجہد کرے گی۔یوں ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر ۷۲ افراد نے بیعت سمع و طاعت کرتے ہوئے تنظیم اسلامی پاکستان کا قیام عمل لایا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف مولانا ابو الکلام آزادؒ اور سید مودودیؒ کی انقلابی فکر کے خاموش پہلوؤں کی وضاحت کی، اسے سہل اور عوامی الفاظ کا جامہ پہنایا بلکہ قرآن و سنت اور سیرت طیبہ سے اس کے حق میں مزید دلائل فراہم کئے۔ اسلا می نظام کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کو موضوع بحث بنایااوراسلام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نظام عدل پر لیکچرز کا مستقل سلسلہ قائم کیا۔

            ڈاکٹر صاحب کی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک نابغہ روزگار، عہد ساز شخصیت اور مینارۂ نور کا ہیو لہ سامنے آتا ہے۔ مستقبل کا مورخ جب کبھی اس خطہ میں دروس قرآن اور غلبہ دین کی جدوجہد پر تجزیاتی کام کرے گا تو لامحالہ ڈاکٹر صاحب کی پچاس ساٹھ سالہ جدوجہد نہ صرف نظرانداز نہ کر سکے گا بلکہ اہم ترین ماخذ کا درجہ دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے قوم کو علا مہ اقبال ؒ کے سوز ملت، مولانا عطاء اللہ شا بخاری ؒ کی بے مثل خطابت ،علامہ مشرقیؒ کی تحریکیت، مولانا مودودیؒ کی استقامت و پامردی اور فراہی ؒو اصلاحی ؒ کے تدبر اور نظم کلام سے روشناس کرایا اور ان اصحاب عزیمت کے اوصاف بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی پچاس ساٹھ سالہ جدوجہد میں نظر آتے ہیں۔ بلا شبہ قیام پاکستان کے بعد لاہور میں مولانا غلام مرشدؒ ، مولانا ابوالاعلی مودودیؒ اور مولانا احمد علی لاہوری ؒ کے دروس قرآن کے حلقے قائم تھے ۔لیکن ڈاکٹر صاحب کو بلا تردید عوامی دروس قرآن کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ آج ہر طبقہ ہائے فکر میں دروس قرآن کے جو حلقے قائم ہیں بلاشبہ اس ڈھب کے آغاز کا سہرا قدرت نے ڈاکٹر صاحب کے سر سجایا ہے۔ اسی طرح الیکڑانک میڈیا پر عوامی قبولیت حاصل کرنے والے دروس و لیکچرز کی موجودہ شکل کی ابتداء کا اعزاز بھی پی ٹی وی کے پروگرام الھدی کو جاتا ہے جو ۸۰ کی دہائی کی ابتداء میں ڈاکٹرصاحب کے مقبول سلسلہ دروس کا سر نامہ تھا۔

            یہ ڈاکٹر صاحب کے اخلاص، استقامت اور مستقل مزاجی پر مبنی لگن ہی کا ثمر ہے کہ رب ذوالجلال کے فضل و احسان سے لاہور کے ایک محلے کے کمرے سے شروع ہونے والا سلسلہ ء دروس قرآن کی باز گشت اور پذیرائی ملک عزیز کے کونے کونے تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ یورپ، امریکہ سمیت دنیا بھر میں اردو بولنے والے کروڑوں قدردانِ علم تک پہنچ چکی ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے شادی بیاہ کی رسوم کو سنت میں ڈھالنے کی عملی تحریک اپنے گھر سے شروع کی اور ڈاکٹر صاحب کی سعی و جدوجہد کا ثمر ہی ہے کہ اب مساجد میں نکاح اور ہندووانہ رسوم کی اصلاح کا شعور فروغ پاتاجارہا ہے۔قدرت نے ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز بھی دیا ہے کہ ان کے چار بیٹے، پانچ بیٹیاں اور داماد دل و جان سے ان کی دعوت و فکر کے دست و بازو ہیں۔ بلاشبہ یہ سعادت دنیا میں کسی بندۂ مؤمن کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوا کرتا ہے۔

            ماڈل ٹاؤن کے سنٹرل پارک میں اپنے محسن و مربی کی نماز جنازہ کا انتظار کرتے ہوے نگاہ جس طرف بھی اٹھتی ڈاکٹر صاحب سے محبت کرنے والوں کا اک سیل رواں تھا جو چلا آ رہا تھا۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے اپنے عظیم محسن کی قسمت پر رشک آ رہا تھا اور دل جذبات شکر سے لبریز تھا کہ کیسا خوش قسمت ہے اللہ کریم کا یہ صالح بندہ کہ لاکھوں لوگ دنیا کے کونے کونے میں ان کے حق میں خیر پر ہونے کی گواہی دے رہے ہیں اور ہزاروں افراد جذبات محبت کے ساتھ ان کے جنازہ میں شرکت کے لئے دور و نزدیک سے آ رہے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے لئے جنت واجب ہونے کی بشارت دی ہے جس کے حق میں چار حتی کہ دو افراد بھی خیر و بھلائی کی گواہی دے دیں جبکہ جس بندۂ مومن کے جنازہ کی تعداد سو تک پہنچ جائے تو ان کی شفاعت اس کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔ نیز ڈاکٹر صاحب سے متاثر ہو کر دعوت قرآن سے وابستہ ہو کر اسے فروغ دینے والے افراد بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تو ہوں گے اور رسول اللہ ﷺ نے بشارت دے رکھی ہے کہ جو شخص کسی خیر کی بناء ڈالے تو نہ صرف ان افراد بلکہ ان سے آگے جتنے افراد بھی کار خیر سیکھیں اور یہ سلسلہ جہاں تک بھی دراز ہوتا چلا جائے ان تمام کے اعمال حسنہ میں کمی کئے بغیر ان تمام کے اعمال کے برابر اعمال نقطہ آغاز بننے والے خوش قسمت صاحب علم کے نامہ اعمال میں درج کئے جاتے ھیں۔

            بلاشبہ ڈاکٹر صاحب تمام تر خوبیوں اور اوصاف کے باوجود ایک انسان تھے اور انسانوں سے خطائیں اور لغزشیں بھی سرزد ہوتی ہیں نیز یقینا ان کی فکر اور نتائج فکر سے بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ ایک بامقصد، ثابت قدم، پیکر اخلاص، صاحب عزیمت ، حق گو اور حق سے محبت کرنے والے اور اس کے لئے سب کچھ قربان کر دینے والی شخصیت تھے۔ اللہ تعالی ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور خطاؤں سے درگزر فرمائے اور جنت الفردوس میں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور تا قیام قیامت ان کے آغاز کردۂ کارہائے خیر کو جاری و ساری رکھ کر ان کے نامہ اعمال میں مسلسل اضافے پر اضافہ کا ذریعہ بنائے۔ اور ان کے صلبی، فکری اور علمی پسماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے۔ آمین!