تذکرہ

مصنف : محمد عارف حسین علوی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2010

تزکیہ اور تربیت پر مبنی پروگرام ‘‘تذکرہ’’ کاتعارف

            تذکرۃ! زندگی کی حقیقت کو سمجھنے اور ماننے کا عنوان ہے۔ اور اس کی اسا س و بنیاد خیر خواہی اور ابدی خسارے سے بچنے کی خواہش ہے جسے اللہ کریم نے سورۃ العصر اور نبی ؐ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے"الدین النصیحۃ" کے تحت بیان فرمایا ہے۔

            تذکرۃ کا ہدف تزکیہ نفس یعنی کردار سازی ہے۔ یعنی شخصیت کی تعمیر اس طرح کی جائے کہ شرف انسانی کے مطابق ہر عمل سے پہلے غوروفکر کی عادت جزو شخصیت بن جائے اس غوروفکر کی ابتداء کے طور پر انسان اپنی تخلیق کے مختلف مراحل پر غورکر ے کہ ایک وقت تھا کہ دنیا اس کے نام تک سے آشنانہ تھی۔ پھر ایک خاص زمانہ علاقہ اور خاندان میں اسکی پیدائش یقینا کسی خاص منصوبے کا حصہ ہے۔ اسی طرح پیدائش کے فورا موت، کلی یا جزوی معذوری، والدین کی شفقت کے چھن جانے جیسے امکانات کا پیدا نہ ہونا، پیدائش سے لیکر تا حال ایک توازن اور توافق کے ساتھ جسمانی اور ذہنی پرورش کا تسلسل جیسے لا تعداد امور ایک ایسی ہستی کا سراغ ثابت ہوتے ہیں جو بطن مادر کی تاریکی سے لیکر ایام طفولیت کی بے بسی سمیت زندگی کے ہر موڑ پر زندگی کے وجود کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ رات ہو یا دن ، تنہائی ہو یا ہجوم ہر جگہ ماں سے کہیں بڑھ کر دامن شفقت پھیلائے رکھتی ہے۔ پرورش کا یہ منصوبہ بالکل روانی اور سکون کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی آرزؤوں کی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کہ اچانک ایک دن ایسا آتا ہے کہ جسم تو باقی رہتا ہے لیکن وہ بے جان ہو جا تا ہے ۔زندگی کے اس کربناک مرحلے کو موت کا نام دیا جا تا ہے۔ شادیانے سے آغاز اور ماتم کے انجام پر مشتمل اس مختصر زندگی اور اسکے مقاصد کی کوئی تو جیہہ انسانی عقل نہیں کر سکتی کہ امنگوں اور جذبوں کا یو ں حسرت ناک انجام ہی ہونا ہے تو اس زندگی کا مقصد آخر کیا ہوا۔ لیکن عقل جو خود اسی زندگی کی مرہون منت ہے وہ آخر زندگی سے قبل اور مابعد کا کھوج کیسے لگا سکتی ہے یہی وہ مقام ہے جہاں انسان نوروحی کا محتاج ٹھرتا ہے اس نوروحی سے نہ صرف موت و زندگی دئیے جانے کا مقصد معلوم ہوتا بلکہ اس رب کریم کا تعارف بھی حاصل ہو تا ہے جو زندگی کو وجود میں لاتا، قدم قدم پر دامن رحمت پھیلائے پرورش کرتا اور علم و حکمت کی بنیاد پر پیدائش کے وقت، جگہ، خاندان، رشتہ و پیوند اور انجام کار مور کے وقت، جگہ اور سبب کا تعین فرماتا ہے اور اس منصوبے کا مقصد اس نے اپنی کتاب میں جگہ جگہ یہ بیان فرمایا کہ یہ تمام مراحل میں اس لئے طے کراتا ہوں کہ جانچا جائے کہ کون دنیا کی اس مختصر زندگی کو اپنے خالق کی عطا سمجھتا اور اس کا ہر مرحلہ اسی کے عطا کردہ باطنی شعور اور غور و فکر کی صلاحیتوں کو استعمال میں لا کر وحی الٰہی اور حامل وحی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گزارتاہے۔ اور موت کو اپنے رب کی ملاقات کا ذریعہ سمجھتا اور یوں سرخرو ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی کا حقدار ٹھرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف کون اس زندگی یہاں کے مال ع جاہ اور زیب و زینت ہی کو اصل زندگی سمجھ کر خواہشات کی تکمیل کی امید پر شب و روز گزار دیتا اور بالآخرنا تمام آرزؤوں کو دل میں بسائے حسرت کے عالم میں دنیا کو چھوڑتا اور یوں ابدی خسارے کا حقدار ٹھرتا ہے۔گویا وحی الٰہی کی روشنی میں موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ زندگی کے تیسرے عارضی پڑاؤ سے آخری اور کبھی نہ ختم ہونے والے دور کی طرف منتقلی کا نام ہے۔ لا محالہ زندگی کا یہ تصور خود زندگی کو بہت اہم، بامعنی اوراس کے ایک ایک لمحہ کو قیمتی بنادیتا ہے۔اس تصورحیات کو قبول کرنے والے انسان کے پاس "وقت"محض گزارنے کی چیز نہیں رہتا چو نکہ یہی تو اس کا اصل زر ہے ۔

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل گر کوئی دفتر میں ہے

            اس شعور کے بعد زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے حصے میں پیش آنے والا واقعہ بے مقصد قرار نہیں پاتا بلکہ رب کریم کی طرف سے بھیجا ہوا پر چہ امتحان محسوس ہوتا ہے جو حقیقی کامیابی یا ابدی نا کامی کی بنیاد بنے گا۔ یہ شعور انسان کو پابند بناتا ہے کہ وہ ہر قول ، فعل اور عمل سے پہلے سوچے چونکہ اسے ان سب کے بارے میں محاسبے کا سامنا کرنا ہے۔ زندگی کے ہر عارضی و مستقل رشتہ و تعلق کے حقوق سنجیدگی سے ادا کرے۔ اپنے کریم و شفیق رب کو ہر جگہ ہر لمحے اپنے ساتھ محسوس کرے اس کی موجودگی کا احساس اسے حیادار بنا دے۔ ایسے انسان کی عبادت نماز روزہ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس شعور کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ اس کیلئے عبادت بن جاتا ہے چونکہ وہ ہر وقت اپنے رب کے سامنے ہوتا اور اس کی رضا کے معیار پر ہر ادنیٰ و اعلیٰ کام انجام دیتا ہے۔ ایسا انسان اپنے خالق کا با وفا بندہ اور اسکی پیاری مخلوق کا خادم بن جا تا ہے اور فرائض کی ادا ئیگی کیلئے ہر لمحہ بے تاب جبکہ حقوق کو مخلوق سے طلب کرنے کی بجائے ان کے اور اپنے پیارے رب کے سپرد کر دیتا ہے جو اسے ہمیشہ بن مانگے بھی اور مانگنے پر بھی نہال کرتا رہتا ہے۔

            یہ شعور حیات جہاں انسان کو سنجیدگی عطا کرتا ہے وہیں اسے جذبات کے لمحات میں تھا متا اور سنبھالتا بھی ہے خوشی کے لمحات میں اسے فخر، تکبر اور فضول خرچی سے روکتا ہے چونکہ وہ جانتا ہے کہ امتحان کے ان مواقع کو اس کا رب شکر کا ذریعہ بناتا ہے اس لئے وہ خوشیوں اور کامیابیوں کو اپنے رب کی عطاء مان کر سجدہ شکر بجا لاتا ، محروم لوگوں کو سنبھالتا اور اپنی کو تاہیوں کی معافی مانگتا ہے ۔جبکہ غم، مشکلات اور مصائب کے دوران یہ شعور اسے آہ و فریاد کرنے سے روکتا اور اپنے رب سے نا مید ی کے اظہار سے بچاتا ہے۔ تمام مصائب کو اپنے کریم رب کا بھیجا ہوا امتحان مان کر وہ بیقرار بچے کی طرح اس کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرتا اور اس کے بھیجے ہوئے مصائب پر اسی کی مدد طلب کرتا ہے چونکہ وہ جانتا ہے کہ مصائب بھیج کر اسکا رب اسے صبر کے امتحان میں ڈالتا ہے اور ثابت قدم پانے پر اسے رحمت میں ڈھانپ لینا اور نہال کر دینا چاہتا ہے۔

            یہ شعور حیات جہاں انسان کے ظاہری اعمال کو سنوارتا ہے وہیں یہ اسے اپنے باطن کی حفاظت کی طرف متوجہ رکھتا ہے چونکہ ہر عمل اپنے ظہور سے قبل ایک سوچ اور خیال ہو تا ہے اس لئے سوچ پست ہو تو ظاہری اعتبار سے پاک ترین عمل ناپاک قرار پاتا ہے۔ مخلوق تو ظاہر سے متاثر ہو سکتی ہے لیکن خالق اس عمل کی پشت پر موجود سوچ اور نیت کی بنیاد پر اس کے بارے میں نیکی یا برائی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے چونکہ وہ تودلوں کے راز بھی جانتا ہے۔دنیا کو دکھانے کیلئے کی جانے والی بلندترین نیکی اس کے یہاں نہ صرف مردود قرار پاتی بلکہ شرک بن کر جرم عظیم بن جاتی ہے۔ تو گویا یہ شعور حیات انسان کی نیت کی اصلاح اور پا کیزگی کا ذریعہ بھی بنتا ہے کہ ہر عمل خواہ خالق کی نسبت سے ہو یا مخلوق سے متعلق ہو اسے صرف اور صرف اپنے رب کریم کی رضا و خوشنودی کی نیت سے انجام دیا جائے جبکہ اس کے ذریعہ مخلوق کی رضا جوئی اور داد طلبی کا شائبہ تک پیدا نہ ہونے پائے۔

            اس شعور حیات کے حصول کے باوجود انسان اپنے نقشہء تخلیق کے با عث بھول جائے، جذبات و تر غیبات سے متاثر ہو جانے کے داعیات کا مرکب ہے اسلئے وقتی اشتعال اور جذباتیت کے تحت پھسلنے کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ چونکہ اس کے خالق نے امتحان کے نقطہ ء نظر سے اسے پیدا ہی ایسے عناصر سے کیا ہے کہ شعور کو استعمال کر کے وہ اس کی پسند کے راستے پر بھی چل سکتا ہے۔ اسلئے اسکا خالق اسے انسان بنا کر اس سے فر شتوں کے سے عمل کا ٍتقاضا ہر گز نہیں کرتا فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ البتہ وہ سر کشی کو نا پسند کرتا ہے کہ انسان تمام تر شعور اور علم کے باو جود منصوبہ بندی کرتے ہرئے عقل و شعور اور وحی الہٰی کی خلاف ورزی پر ڈٹ جائے۔ یہ سر کشی ابلیس کا عمل ہے جسے خالق ہر گز گوارا نہیں کرتا اور ایسے جرم کو ناقابل معافی قرار دیتا ہے۔البتہ بھول چوک اور جذبات کے تحت سر زد ہونے والے وقتی جرائم، جن کا اثر زائل ہوتے ہی انسان ندامت میں ڈوب جائے اور اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کیلئے بیقرار ہو جائے فرد کا معاملہ ہو تو تلافی کیلئے بے چین ہو جائے تو اس کا ثواب و غفور رب اس طرح کے بڑے سے بڑے جرائم کو ندامت کے آنسوؤں میں بہا کر نہ صرف معاف فرما دیا ہے بلکہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دینے پر بھی قادر ہے بشرطیکہ بندہ اپنے عجز کو پا کر اپنے جدا علیٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے مالک و رب کے سامنے گرا دے تو وہ اسے اپنے دامن عفو میں سمیٹنے میں تاخیر نہیں فرماتا۔

            بلاشبہ یہ شعور حیات رب کریم کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کی بقاء مسلسل توجہ اور طلب کا تقاضا کرتی ہے۔ چونکہ یہ شعور نور وحی قرآن مجید سے حاصل ہوتا ہے اسلئے اسے برقرار، تازہ اور زندہ رکھنے کیلئے شب و روز باقاعدگی کے ساتھ غورو فکر پر مبنی تلاوت قرآن کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ احادیث و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، سیرت صحابہ ؓ کا مطالعہ گہرائی اور توجہ سے کرنا لازم و ملزوم ہے نیز ہفتہ عشرہ کے بعد کسی ایسی صحبت سے مستفید ہونا بھی مفید رہتا ہے جو ایمان کو تازہ ، فکر آخرت کو زندہ کرنے، جذبہ عمل اور محاسبہ ء نفس پر ابھارنے کا ذریعہ بنے۔ مسجد کے ساتھ تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے۔ کار ِخیر میں شرکت کی سعی ہوتی رہے اور جذبہ خیر خواہی کے تحت اپنے اہل و عیال ، عزیز و اقارب اور اپنے ماحول میں تعمیر سیرت و کردار، تزکیہ نفس اور تعلق مع اللہ بالقرآن کی دعوت کو اپنا وظیفہ و شعار بنا لیا جائے تو انشاء اللہ العزیز یہ شعور نہ صرف برقرار رہے گا بلکہ اس میں رحمت ربانی سے روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا۔

            اسی فکر اور تڑپ کا عنوان تذکرۃ ہے۔ رب رؤف و رحیم ہر صاحب ایمان کو اس تڑپ کا خو گر بننے، اس پر عمل کرنے اور اسے عام کرنے کا ذریعہ بنا دے چونکہ مہلت عمل ختم ہوتی جا رہی ہے۔

غافل تجھے گھڑیال یہ دنیا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

٭٭٭