معاشرے کی اصلاح اور خواتین

مصنف : شائستہ رحمان ، کراچی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : ستمبر 2011

            اپنی روزمّرہ زندگی میں ہمارا واسطہ ایسے لا تعداد لوگوں سے پڑتا ہے جن کو ہم اپنے معاشرے کا ناسور سمجھتے ہیں ۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معا شرے میں پھیلی ہوئی ان گنت برائیوں مثلًا رشوت خوری، سود خوری ، چوری، ڈاکہ زنی ، جعلسازی حتیٰ کہ ہر قسم کی کرپشن کے ذمہ دار یہی بے حس لوگ ہیں جو روپے پیسے کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرتے ہیں اور ملک کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ یہ لوگ کسی خاص طبقے یا کسی مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ یہ لوگ تو ہر اہم ادارے کے اعلی سے اعلی اور ادنیٰ سے ادنیٰ ملازم کی حیثیت میں ہر جگہ موجود ہیں۔ ان میں سے ہر شخص اپنے حسب توفیق جعلسازی میں ملوث ہے۔

            افسوس اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ان لوگوں پر کسی قسم کی نصیحتوں یا وعظ کا کو ئی خاطرخواہ اثربھی نہیں ہوتا۔ان کے دلوں میں نہ آخرت کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی کا ڈر۔ بلکہ انھیں صرف پروا ہے تواپنی دنیاوی زندگی کے عیش و آرام کی اور اپنے موجودہ حال کی، جسے آسودہ سے آسودہ تر بنانے کے لئے وہ صحیح اور غلط کی تمیز بھول چکے ہیں اور حرام رزق کما کر خوشحال رہنے کو ہی سیدھا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ ایسے لوگ نیکی اور بھلائی کی باتوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں اور ایسا کر کے وہ اپنی اور اپنے ملک کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے قانون تو موجود ہے لیکن اس قانون پر کوئی عمل د رآ مد نہیں ہے۔نتیجتاً ایسے لوگ ہمیشہ قانون کی گرفت اور سزا سے بچ جاتے اور بلا خوف وخطر مسلسل کرپشن کرتے رہتے ہیں اور حرام رزق پر پھلتے پھولتے رہتے ہیں۔

            اس پیچیدہ مسئلے کے حل کے لئے جہاں قانون اور نصیحتیں بے بس نظر آتی ہیں وہاں خواتین انتہائی مرکزی اور مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں۔عموماً خواتین اپنے والد ، شوہر، بھائی یا بیٹے سے اپنی ضروریات کا ذکر کرکے مطلوبہ رقم حاصل کرتی ہیں۔جبکہ وہ اس بات میں قطعی دلچسپی نہیں لیتیں کہ مرد حضرات وہ رقم کیسے اور کہاں سے لاتے ہیں شاید وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اُن کے گھر کے مرد یہ رقم جیسے بھی اور جہاں سے بھی لاتے ہیں اس کے وہ تنہا ذمہ دار ہیں اور آخرت میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے آگے وہ اکیلے ہی جوابدہ ہونگے جبکہ وہ خود اپنی بے انتہا بے خبری کی وجہ سے صاف بچ نکلیں گی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر مرد اپنے گھر کی خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے اور انھیں آسودگی کی زندگی دینے کے لئے ہی ہر جائزو ناجائز طریقے سے پیسہ کماتے ہیں۔اگر ہمارے ملک کی تمام خواتین یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ وہ صرف اور صرف حلال رزق ہی اپنے گھر میں آنے دیں گی ۔اور حرام کمائی سے اپنے گھر کو پاک کردیں گی تو ہما رے معاشرے سے اس کینسر کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ایسا صرف اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارے ملک کی خواتین اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دئیے ہوئے رزق پر راضی ہو جائیں اور اپنے گھر کے مردوں سے ناجائز مطالبات کرنے کے بجائے اپنی ضروریات کو حلال کمائی کے مطابق محدود کرلیں اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں ۔ خواتین کو چاہئے کہ دوسرے کے پُرآسائش گھر اور زندگی کو دیکھ کر حرص میں مبتلا نہ ہوں اور اپنی آخرت کو برباد نہ کریں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دئیے ہوئے حلال رزق پر اُس رب کریم کا شکر ادا کریں۔اور اپنے گھر کے مردوں کو بھی اس بات پر قائل کریں کہ آپ کی خوشی اللہ تعالٰی کی رضا میں ہے اور اللہ کی رضا حرام چیزوں سے بچنے اور حلال رزق کے حصول میں ہے۔صرف یہی نہیں حلال رزق کی برکت سے آپ کے گھر میں خوشحالی آئے گی اور پریشانیوں اور مصائب سے نجات ملے گی۔آپ کی دعاؤں کو بارگاہِ ـ الہٰی میں قبولیت حاصل ہوگی اور ہمارے معاشرے میں زبردست سدھار پیدا ہوگا ۔ اوروطن عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا ۔ انشاء اللہ ۔