سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2011

 جواب: یہاں چند تفاسیر کے حوالے پیش خدمت ہیں امید ہے اس سے مطلب واضح ہو جائے گا۔اضواء البیان میں ہے:‘‘اس میں اقامت دین اور عدم تفرقہ سے مراد اللہ کے ساتھ دین کو مخلص کرتے ہوئے صرف اسی کی بندگی ہے۔ (ج9، ص47)

 ‘‘قرآن میں کئی آیات آئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حق پر عمل کرنے کی نصیحت میں ساری شریعت اس کے اصول اس کی فروع اس کا ماضی اس کا حاضر سب شامل ہیں انھی آیات میں سے یہ آیت بھی ہے (ج9،ص94)

 التسہیل لعلوم التنزیل میں ہے:

‘‘ ان اقیموا الدین سے مراد اسلام کی اقامت ہے جو اللہ کی توحید ہے، اس کی طاعت ہے اس کے رسولوں اور دار آخرت پر ایمان ہے۔ جہاں تک فروع کا تعلق ہے تو اس میں شریعتیں مختلف ہیں۔ وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔

در المنثور میں ہے:

‘‘ابن جریر نے سدی رضی اللہ عنہ سے 'ان اقیموا الدین' کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ کہا: اس پر عمل کرو’’۔

کشاف میں ہے:

 ‘‘ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ میں دین سے مراد اسلام کی اقامت ہے۔ جو اللہ کی توحید،اس کی اطاعت،اس کے رسولوں ، کتابوں اور یوم جزا پر ایمان اور وہ ساری چیزیں جن کو اپنا کر کوئی شخص مسلمان بنتا ہے اور شریعتیں مراد نہیں ہیں کہ وہ امتوں کی مصلحتیں ہیں ان کے احوال کے موافق چنانچہ یہ مختلف اور متفاوت ہیں۔

تفسیر سعود میں ہے:

‘‘اس کی اقامت سے مراد اس کے ارکان کو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے، دین کی ٹیڑھ سے محفوظ رکھنا ، اس پر مسلسل عمل اور اس کے لیے محنت ہے۔’’

تفسیر بیضاوی میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد ہے ان چیزوں پر ایمان جن کی تصدیق واجب ہے اور اللہ کے احکام کی پیروی۔’’

‘‘ان اقیموا الدین سے مراد: اللہ نے حکم دیا ہے کہ دین کے تمام ضوابط اس کے اصول اوراس کے فروع کی اقامت کرو۔ یہ اقامت وہ اپنے نفوس پر بھی کرتے ہیں اور اپنے کے علاوہ پر بھی اس کی کوشش کرتے ہیں، یعنی وہ بر و تقوی پر تعاون کرتے اور اثم وعدوان پر تعاون نہیں کرتے۔’’

تفسیر سمرقندی میں ہے:

‘‘ابو العالیہ نے کہا: ان اقیموا الدین سے مراد اللہ کی عبادت میں مخلص ہونا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دین میں موافقت کرو۔’’

تفسیر سمعانی میں ہے:

‘‘ارشاد ان اقیموا الدین کا مطلب ہے توحید پر ثابت قدم ہو جاؤ۔ کہا گیا ہے کہ اقامت دین کا مطلب ہے دین پراستقامت۔ کہا جاتا ہے اقامت دین اصل میں طاعات پر عمل اور اوامر کا امتثال ہے۔’’

طبری میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین سے شریعت پر عمل مراد لیا گیا جیسے کہ ہم نے اس سے پہلے 'اقیموا الصلاۃ' کے حوالے سے بات کی تھی۔ ’’

سدی کی رائے یہ ہے کہ دین کی اقامت کرو سے مراد ہے دین پر عمل کرو

تنویر المقیاس فی تفسیرابن عباس میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین اللہ نے تمام انبیا کو حکم دیا ہے کہ وہ دین کی اقامت کریں کہ وہ دین میں متفق رہیں۔’’

فتح القدیر میں ہے:

‘‘مجاہد نے کہا ہے کسی نبی کو اللہ نے مبعوث نہیں کیا الا یہ کہ اسے نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے اور اللہ کے اقرار کی نصیحت نہ کی ہو۔ یہ دین ہے جسے اس نے ان کے لیے مشروع کیا ہے۔’’

ابن عربی کی احکام القرآن میں ہے:

‘‘ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ یعنی اسے قائم کرو۔ مراد یہ ہے کہ اسے دائم، جاری، محفوظ، برقرار رکھو کہ نہ اختلاف ہو نہ اضطراب۔’’

 تفسیر العز بن عبدا السلام میں ہے:

‘‘ اقیموا الدین' اس پر عمل کرو یا اس کی طرف بلاؤ۔’’

امید ہے یہ اقتباسات اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمارے مفسرین اس آیت کو کیسے دیکھتے ہیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے قربانی کرنے والے کے لیے ناخن اور بال نہ کاٹنے کے مستحب ہونے کے بارے میں پوچھا ہے۔یہ بات ایک روایت میں بیان ہوئی ہے۔ اسی روایت کی وجہ ہی سے اسے مستحب عمل قرار دیا جاتا ہے۔ کسی روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اس پر عمل کا ذکر نہیں ہوا ہے۔ لھذا اس کے لازمی ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے۔       

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے غلاف کعبہ کے بارے میں پوچھا ہے کہ کیا اس کا ہر سال بدلنا ضروری ہے اور اس خطیر رقم کو دوسرے کاموں میں صرف نہیں کیا جا سکتا۔جہاں تک قرآن وحدیث کا تعلق ہے اس میں غلاف کعبہ کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ اس کا تعلق ہمارے جذبہ عقیدت سے ہے۔ ہم ہر سال بھی غلاف تبدیل کر سکتے ہیں اور چاہیں تو وقفہ بھی کر سکتے ہیں۔ غلاف سادہ بھی بن سکتا ہے اور قیمتی بھی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ غلاف کعبہ کی روایت بہت قدیم ہے اور بعض آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل اسلام سے ہے۔ روایات اگر درست نہج پر ہوں تو ان کے قیام و استحکام ہی میں خیر ہے۔ امت کی سطح پر غلاف کعبہ کا اہتمام کوئی بڑا خرچ نہیں ہے۔ امت مسلمہ کے پاس بہت وسائل ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ انھیں منصفانہ طور پر امت کی فلاح و بہبود پر صرف کرنے والی لیڈرشپ نہیں ہے۔ چنانچہ افراد امت کے دگرگوں حالات دیکھ کر ہمیں خیال ہوتا ہے کہ فلاں کام نہ ہو یا اس طرح ہو تو شاید یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ حالانکہ آپ بھی سمجھتے ہیں کہ غلاف کعبہ نہ بنے تب بھی غریب مسلمانوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اصل ضرورت امت کی مجموعی معاشی ترقی کے ایسے اقدامات کی ہے جس کے نتیجے میں ہر ہر فرد کے لیے اچھی روزی کمانے کے حالات پیدا ہوں۔   

(مولانا طالب محسن)

جواب: توفی کا لغوی معنی پورا پورا لے لینا ہے مگر یہ فعل ان افعال میں سے ہے جو اصلاً مجازی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اردو میں انتقال کا لفظ جب کسی انسان کے لیے بولا جائے گا تو اس سے مراد اس کا مر جانا ہے۔ لہذا بولنے اور لکھنے والے جب انسانوں کے لیے اس لفظ کو کسی دوسرے معنی میں استعمال کریں گے تو کلام میں ایسے واضح قرائن لاتے ہیں جن سے اس کا مدعا واضح ہو۔ اسی طرح توفی کا فعل موت کے لیے ایسا معروف ہے کہ اسے لغوی معنی میں لینا بعید از قیاس ہے۔ اگر ہم کسی کلام میں یہ کہتے ہیں کہ یہ لغوی معنی میں آیا ہے تو اس کے دلائل لانا پڑیں گے۔دلائل سے مراد یہ ہے کہ کلام اپنے اندر ایسے وہ اشارات رکھتا ہو جو لفظ کو اس کے مجازی کے بجائے لغوی معنی لینے پر مجبور کر دے۔ مثلا عبداللہ صاحب لاہور سے کراچی انتقال کر گئے ہیں اور یہ جملہ بھی اصل میں سنجیدہ جملہ نہیں ہے ایسی بات شرارت کے طورکہی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حدیث میں حضرت مسیح علیہ السلام کے دوبارہ آنے کی روایات نہ ہوتیں تو اس آیت کا وفات کے علاوہ کوئی مطلب نہ کیا جاتا۔میرے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حضرت مسیح وفات کے بعد اٹھائے گئے تھے یا زندہ۔ اس لیے کہ دونوں صورتوں میں یہ ایک خارق عادت واقعہ ہے اور اس لیے بھی کہ حضرت مسیح نے اگر دوبارہ آنا ہے تو اللہ تعالی کے لیے دونوں صورتیں بالکل یکساں ہیں۔ زندہ کو بھیجنا یا زندگی دے کر بھیجنا۔          

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے اللہ تعالی کو ظاہری آنکھ یا دل کی آنکھ سے دیکھنے کے بارے میں سوال کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ذات باری کے مشاہدے کی صلاحیت ہی نہیں دی گئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے واضح ہے کہ اس کی ہمیں تاب بھی نہیں ہے۔حدیث جبریل میں احسان کے بارے میں سوال کے جواب میں آپ نے جو بات فرمائی ہے وہی اس کا آخری، حتمی اور مکمل جواب ہے۔ آپ نے فرمایا کہ: تم نماز اس طرح پڑھو کہ گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگرچہ تم خدا کونہیں دیکھ رہے ہوتے پر وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے۔ اس ارشاد مبارک سے یہ نکات معلوم ہوتے ہیں:ایک یہ کہ انسان خدا کو نہیں دیکھتا۔دوسرے یہ کہ خدا انسان کو دیکھ رہا ہے اس حقیقت کو شعور میں لانا ہے۔تیسرے یہ کہ یہ شعور حضوری کی ایک گہری کیفیت پیدا کرنے میں مددگار ہے۔ چوتھے یہ کہ اس سے آگے کوئی چیز نہیں ہے۔       

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے تمام قویٰ پر عقل کے غلبے کا طریقہ پوچھا ہے اور حکمت ودانش سے بہرہ مند ہونے کی راہ دریافت کی ہے۔دین میں اس کی راہ دین کا گہرا مطالعہ ہے۔ بطور خاص قرآن مجید انسان کے اندر جو شعور پیدا کرتا ہے اس کا ذوق پیدا کرنا اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اپنے ظاہر وباطن کی صورت گری کرنا۔جس قدر آپ انسان کے نفس کی ساخت سے آگاہ اور خالق و مالک کے ساتھ اس کے تعلق میں گہرے ہوتے جاتے ہو اسی مناسبت سے آپ کے اندر حکمت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ دیکھیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح اس بات کو واضح کیا ہے : الحکمۃ مخافۃاللہ۔ حکمت خدا خوفی ہے۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ قول اور کلام میں کیا فرق ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ سوال قرآن مجیدکے حوالے سے ہے۔ اس لیے کہ خود قرآن مجید میں قرآن کے لیے کلام کا لفظ بھی آیا ہے اور قول کا لفظ بھی۔ مثلا، سورہ بقرہ کی آیت 75 کلام اللہ لفظ آیا ہے اور سورہ حاقہ کی آیت 40 میں قول کا لفظ آیا ہے۔ اہل لغت کے نزدیک کلام قول کے مقابلے میں زیادہ مکمل اور زیادہ معنی آفریں ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن قرآن مجید میں محولہ مقامات پر یہ فرق نہیں ہے۔ دونوں مقامات پر اس کی خدا سے نسبت کو نمایاں کرنا مقصود ہے۔ اصل یہ ہے کہ ان دونوں لفظوں کا اشتراک کسی کی زبان سے صادر ہونا ہے اور بعض اوقات الفاظ اسی پہلو سے استعمال ہو جاتے ہیں۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ رسول اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔ عرض ہے کہ کچھ پیغمبروں کو اقتدار حاصل ہوا ہے لیکن ان کی جدوجہد کا ہدف کبھی بھی اقتدار نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کے بیانات سے واضح ہے کہ پیغمبروں کو اقتدار عطا کیا جاتا ہے وہ اقتدار حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ قرآن مجید کی مکی سورتیں، حضرت مسیح علیہ السلام کے اناجیل میں مواعظ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرعون سے گفتگوئیں سب اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ پیغمبر صرف اور صرف انذار کرتے ہیں۔ ان کو صرف ابلاغ کی ذمہ داری دی جاتی ہے وہ یہ ذمہ داری ادا کرتے ہیں اور کچھ پیغمبروں کی زندگی میں یہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ وہ مسند اقتدار کو بھی زینت بخشتے ہیں۔میرے اس جواب کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب کو اقتدار سے کوئی دل چسپی نہیں۔ اقتدار انسان کے معاشرتی ظہور کا لازمی نتیجہ ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ دین اس جہت سے بھی انسان کی رہنمائی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں اس حوالے سے رہنمائی موجود ہے۔ لہذا مسلمان جب بھی اقتدار پائیں گے وہ ان احکام پر بھی عمل کریں گے۔ اقتدار کچھ معاشرتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے ۔اس کا اپنا میکانزم ہے۔ دین کا ابلاغ اور انذار ایک دوسرا کام ہے۔ البتہ اس کے نتیجے میں آپ سے آپ وہ حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو اقتدار پر منتج ہوں      

(مولانا طالب محسن)

جواب :آپ نے پوچھا ہے کہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا یا فراڈ کرنا پیش نظر نہ ہو اور کسی مصلحت کے تحت جھوٹ بولا جائے تو کیا یہ جائز ہے۔جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ یہ ہرگز کار خیر نہیں ہے۔ صرف ایک صورت ہے جس میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے اور وہ یہ کہ کسی کی جان بچانا مقصود ہو۔ آپ نے جو مسئلہ بیان کیا ہے اس کا حل توریہ ہے۔ توریہ کی سب سے اچھی مثال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت میں حضور کے بارے میں جواب ہے۔ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ آپ راستہ بتانے والے ہیں۔ یہ جملہ دشمن کے لیے اور معنی رکھتا تھا اور حضرت ابوبکر کے لیے اور مطلب۔ یعنی ایسا جملہ بنانا جس میں بولنے والا ایسے الفاظ میں اپنی بات بیان کرے جو خلاف حقیقت نہ ہوں لیکن سننے والے کو اصل بات بھی معلوم نہ ہو۔ بعض موقعوں پر زیادہ مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ صاف کہہ دیں کہ میں بات نہیں بتا سکتا۔ اگر یہ بات اعتماد سے کی جائے اور اس کو نبھایا جائے تو لوگ آہستہ آہستہ اس بات کو سراہنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خاموش رہیں اور ایسا کوئی اظہار آپ کی طرف سے نہ ہو کہ آپ کو اصل بات معلوم ہے۔ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں صرف بات کا وہ حصہ چھپا لیں جو نقصان دہ ہے اور باقی بات بیان کر دیں۔ اسی طرح ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ موضوع کو سلیقے سے بدل دیں اور اپنے آپ کو غلط بیانی سے بچالیں۔ غرض یہ کہ اگر جھوٹ سے بچنا مطمح نظر ہو تو کئی راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ اگر آدمی کہیں پھنس جائے اور خلاف واقعہ بات اس کے منہ سے نکل جائے اور اس کے پیش نظر صرف اور صرف اصلاح احوال ہو اور اس صورت حال سے نکلتے ہی بندہ سچے دل سے اللہ سے معافی مانگ لے تو اللہ کی طرف سے رحمت اور بخشش ہی کی امید ہے۔  

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن کی رو سے سر ڈھانپنا مطلوب اور پسندیدہ ہے۔ "اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے ہاتھ، پاؤں اور چہرے کے سوا جسم کے کسی حصے کی زیبایش، زیورات وغیرہ اجنبی مردوں کے سامنے نہیں کھولیں گی۔ قرآن نے اِسے لازم ٹھیرایا ہے۔ سر پر دوپٹا یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کی روایت اِسی سے قائم ہوئی ہے اور اب اسلامی تہذیب کا حصہ بن چکی ہے۔ عورتوں نے زیورات نہ پہنے ہوں اور بناؤ سنگھار نہ بھی کیا ہو تو وہ اِس کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔ یہ رویہ بھی قرآن ہی کے اشارات سے پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوپٹے سے سینہ اور گریبان ڈھانپ کر رکھنے کاحکم اْن بوڑھیوں کے لیے نہیں ہے جو نکاح کی امید نہیں رکھتی ہیں، بشرطیکہ وہ زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہوں۔ قرآن کا ارشاد ہے وہ اپنا یہ کپڑا مردوں کے سامنے اتار سکتی ہیں، اِس میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر ساتھ ہی وضاحت کر دی ہے کہ پسندیدہ بات اْن کے لیے بھی یہی ہے کہ احتیاط کریں اور دوپٹا سینے سے نہ اتاریں۔ اِس سے واضح ہے کہ سر کے معاملے میں بھی پسندیدہ بات یہی ہونی چاہیے اور بناؤ سنگھار نہ بھی کیا ہو تو عورتوں کو دوپٹا سر پر اوڑھ کر رکھنا چاہیے۔ یہ اگرچہ واجب نہیں ہے، لیکن مسلمان عورتیں جب مذہبی احساس کے ساتھ جیتی اور خدا سے زیادہ قریب ہوتی ہیں تو وہ یہ احتیاط لازماً ملحوظ رکھتی ہیں اور کبھی پسند نہیں کرتیں کہ کھلے سر اور کھلے بالوں کے ساتھ اجنبی مردوں کے سامنے ہوں۔’’     

(مولانا طالب محسن)