تو تو ہے ، میں میں ہوں

مصنف : ریحان احمد یوسفی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : فروری 2011

تو تو ہے، میں میں ہوں

 خلافت راشدہ کے بعد عربوں کی دو عظیم حکومتیں قائم ہوئیں۔ ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرے کا بنو عباس سے۔ بنو عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس کی اولاد میں سے تھے۔ عباسی خاندان نے پانچ صدیوں تک حکومت کی۔ تہذیب وتمدن، علم و حکمت،قوت واقتدارغرض ہر اعتبار سے ان کے دور میں اسلامی سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔

 عباسی خاندان کا سب سے بڑا خلیفہ ہارون الرشید تھا۔ اس کے اقتدار کی عظمت اندازہ ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ دارلخلافہ بغداد میں خشک سالی ہوگئی۔ ایک روز خلیفہ اپنے محل کی چھت پر کھڑا تھا کہ ابر چھاگیا، مگر بادل برسے بغیر آگے چلا گیا۔ اس پر ہارون رشید نے کہا :اے بادل تو جہاں چاہے جاکر برس، تیری پیداوار کا خراج میرے ہی پاس آئے گا۔

ہارون رشید اپنی ذاتی زندگی میں ایک صالح آدمی تھا۔ اس کی ایک دعا اس طرح نقل ہوئی ہے۔

یا رب انت انت واناانا۔ انا العواد بالذنب وانت العواد بالمغفرۃ. فاغفرلی "اے میرے رب تو تو ہے اور میں میں ہوں۔ میں بار بار گناہ کرتا ہوں اور تو بار بار بخشنے والا ہے۔ پس مجھے بخش دے۔"

 اس دنیا میں ساری بڑائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کسی انسان کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی دی ہوئی بھیک سے ہر آدمی پل رہا ہے۔ اس کی بخشی ہوئی پناہ میں ہر آدمی جی رہا ہے۔ یہ حقیقت اگر انسان کو یادرہے تو خدا اس کی ہر امید اور ہر خوف کا مرکز بن جائے گا۔ وہ سب سے بڑھ کر اس سے محبت کرے گا اور سب سے زیادہ اسی سے ڈرے گا۔ اپنے بشری تقاضوں کی بنا پر اس انسان سے کوئی غلطی تو ہوسکتی ہے،مگر یہ غلطی کبھی سر کش اور بے نیازی میں نہیں بدل سکتی۔

 رب کی عظمت اور اس کے سامنے اپنے بے وقعت ہونے کا احساس اگر زندہ ہے توانسان بادشاہ بن کر بھی غافل نہیں رہتا۔ یہ احساس مردہ ہوجائے تو معمولی انسان بھی خود کو فرعون سمجھتا ہے۔

ہنی ٹریپ

امریکہ، روس،برطانیہ، فرانس اور چین کا شمار دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل یہی پانچ طاقتیں ایٹمی اسلحہ کی حامل تھیں۔ اس زمانے میں دیگر بعض ممالک نے بھی ایٹمی اسلحہ کے حصول کی کوشش شروع کردی تھی۔ ان میں اسرائیل کا نام سر فہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے مغربی طاقتوں کی مدد سے سن ساٹھ کی دہائی میں یہ صلاحیت حاصل کرلی تھی مگر بین الاقوامی دباؤ کے خوف سے اس صلاحیت کا اظہار نہیں کیا۔

1986میں دنیا کو پہلی بار اس وقت اسرائیل کی ایٹمی طاقت کے بارے میں معلوم ہوا جب صحرائے نقب میں واقع اسرائیلی ایٹمی تنصیب DIMON  کے ایک اہلکار مردکائی ونونو نے برطانوی اخبار 'سنڈے ٹائمز' کو ایک انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں اس نے اسرائیل کے خفیہ ایٹمی پروگرام کی تفصیلات سے پہلی دفعہ پردہ اٹھایا۔ جس سے دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔

چنانچہ اسرائیل کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس سے قبل یہ اہلکار مزید مسائل پیدا کرے اسے واپس اسرائیل لاکر اسے سزا دی جائے۔ لہٰذا اسے پھانسنے کے لیے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ایک Trap Honey یادامِ الفت تیار کیا۔ موساد کی ایک انتہائی حسین خاتون ایجنٹ نے مردکائی ونونو سے لندن میں دوستی کی۔ اسے اپنی حسن کے جال میں پھنسایا۔ پھر اسے تفریح کے لیے روم چلنے کی پیشکش کی۔ روم کے ایک ہوٹل میں اسے نشہ آوار دواکھانے میں ملاکر دی گئی۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو سامنے کوئی دلرباحسینہ نہیں،اسرائیل کی عدالت تھی، جس نے اسے غداری کے الزام میں 18سال قید کی سزا سنادی۔

یہ واقعہ جو ایک فرد پر گزرا،ہر انسان کا حقیقی مسئلہ ہے۔ آزمائش کی اس دنیا میں انسان ہر لمحہ حالت جنگ میں ہے۔ اس کے دشمن شیطان نے اس کے سامنے طرح طرح کے Trap Honeyبچھارکھے ہیں۔ انسان دنیا کے اس جال کو جال نہیں سمجھتا۔ وہ ساری زندگی دنیا کی ظاہری خوبصورتی اور لذت کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اس حسن کے پیچھے جہنم کی جو قید چھپی ہے،وہ اسے نظر انداز کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کے فرشتے موت کی بیہوشی لیے اچانک نمودار ہوتے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے تو جہنم کے قید خانے کے سوا کچھ اور سامنے نہیں رہتا۔

کامیاب انسان وہ نہیں جس نے دنیا میں بہت ترقی کی۔ کامیاب انسان وہ ہے جس نے دنیا کے Trap Honeyمیں پھنسنے کے بجائے، خدا کی ابدی جنت کی ابدی نعمتیں حاصل کرلیں۔

 گندے انڈے

عام طور پر لوگوں کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ سودا سلف لینے باہر جائیں توکوئی دکاندار گلی سڑی اور باسی اشیاکوئی اس کے حوالے نہ کردے۔ تاہم دکانوں پرملنے والی اشیا میں غالباََانڈا واحد چیزہے کہ جس کی ظاہر حالت دیکھ کر اس کے خراب ہونے کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ انڈے کا خراب ہونا اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب گھر لانے کے بعد انڈے پر چڑھا خول توڑا جائے۔ تب ہی پتاچلتا ہے کہ کھانے کے استعمال میں آنے والی سفیدی اور زردی صحیح حالت میں ہیں یا خراب ہوچکے ہیں۔

آج کے انسان کا معاملہ بھی کچھ انڈے ہی جیسا ہے۔ آج جس شخص سے بات کی جائے وہ اپنی گفتگو اور ظاہری چیزوں سے اپنے گرد انڈے کی طرح سفید خول چڑھائے ہوئے ملتا ہے۔ خوش اخلاق باکردار، اصول پرست، معاشرتی خرابیوں سے نالاں اور اخلاقی انحطاط سے پریشان۔ مگر جب معاملہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگ گندے انڈے کی طرح ہیں۔ لوگ صرف اس وقت تک اچھے انڈے ثابت ہوتے ہیں جب تک ان کے مفادات اور خواہشات کے تحت معاملات چل رہے ہوں۔ مگر جیسے ہی ان کی اناکے خول پر ضرب لگے، ان کے مفادات کاگھروندابکھرنے لگے، ان کی خواہشات کا محل مسمار ہونے لگے، ان کے تعصبات کا علم سرنگوں ہونے لگے، گندے انڈے کا سفید خول ٹوٹتا ہے اور اس کے اندر سے غلاظت اور بدبو کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

لوگ وعدہ کرتے ہیں مگر پورا نہیں کرتے۔ لوگ بولتے ہیں مگر سچائی سے کام نہیں لیتے۔ لوگ تنقید کرتے ہیں مگر عدل و انصاف کوملحوظ نہیں رکھتے۔ لوگ یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ اپنے نیک و صالح ہونے کا ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں۔ اپنی پاکدامنی کا قصیدہ بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ اپنی پاکیزگی نفس کے ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ مگر در حقیقت یہ لوگ گندے انڈے ہیں۔ یہ گندے انڈے معاشرے کی اعلیٰ روایات کو ختم کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی ا ن کے الفاظ کے ترازو میں نہیں تولنا چاہیے بلکہ عمل آئینے میں ان کی تصویر دیکھنی چاہیے۔

میڈیا اور عورتوں کی نمائش

لوگوں کی نگاہوں میں مرغوبات دنیا:عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبادی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کا سروسامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔ ان سے کہو کیا میں تمہیں ان چیزوں سے بہتر چیز کا پتابتادوں؟ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن میں نہریں جاری ہوں گی۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہوگی''،(آل عمران3:14-15)

قرآن کریم کی اس آیت میں مرغوبات دنیا کی جو فہرست بیان کی گئی ہیں اس میں سر فہرست عورتوں کی محبت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس بات کو کسی اور نے سمجھا ہو یا نہیں، میڈیا انڈسٹری کے لوگوں نے خوب سمجھا ہے۔

دور جدید میں الیکٹرونک میڈیا ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تعلیم، معلومات اور تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں مطالعہ کا زیادہ رجحان نہیں اور شرح خواندگی بھی کم ہے، وہاں الیکٹرونک میڈیا ہی لوگوں کی دلچسپی کا اصل مرکز ہے۔ مگر بدقسمتی سے یہ دور جدید میں عورتوں کی نمائش اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ فلم اور ڈرامہ بنانے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی فلم اور ڈرامہ کو لوگوں کی بڑی تعداد دیکھیں۔ اسی طرح ہر ٹی وی چینل چلانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے چینل کے ناظرین اکثریت میں ہوں۔ ایک ناظر کی توجہ حاصل کرنے کا سب سے سہل اور آسان نسخہ یہ ہوتا ہے کہ خوبصورت خواتین کو میک اپ اور روشنی کے ذریعے سے خوب تر بناکر اسکرین پر لایا جائے۔ ان کی نسوانیت اور صنفی کشش کو ابھار کر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان کے ناز و انداز اور غمزہ و ادا کے ذریعے سے لوگوں کو ان کے شوق میں مبتلا کیا جائے۔ ان کے جسم کی نمائش کرکے ویورشپ (Viewership) کو بڑھایا جائے۔ عاشقانہ اور فحش مناظر سے ناظر کی توجہ حاصل کی جائے۔ اور ضرورت پڑھے تو فنکارہ کوبے لباس کرکے فن کی ''خدمت'' کرائی جائے۔

الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں اب گھر گھر ٹی وی اور کیبل موجود ہے۔ ہر طرح کی فلمیں بازار میں عام ملتی ہیں۔ ان کو چلانے کے بہترین آلات، وی سی آر، سی ڈی پلیئیر اور ڈی وی ڈی پلئیر کی شکل میں انتہائی ازراں قیمت پر بازار میں دستیاب ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد صبح و شام الیکٹرونک میڈیا سے استفادہ کرتی ہے۔ اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا، میڈیا پردکھائی جانے والی شے اکثر وبیشترعورت ہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک انسان کے اندر سے حیا کے فطری جذبے کو مغلوب کردیتا ہے۔ انسان کے حیوانی جذبات اس پر غالب آجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ عفت کا احساس ختم ہونے لگتا ہے۔ زنا اور فحاشی انسان کو ایک معمولی عمل لگنے لگتا ہے۔

اس صورتحال کا ایک حل یہ نکالا گیا ہے کہ گھر سے ٹی وی کو نکال دیا جائے۔ یہ بظاہر مکمل حل ہے۔ مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ حل اکثریت کے لیے ناقابل عمل ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں مزید ناقابل عمل ہوجائے گا کیونکہ دور جدید میں الیکٹرونک میڈیا کو روک دینا کسی طور پر بھی ممکن نہیں رہا ہے۔

اس صورتحال کا حل وہی ہے جو مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں سے باشعور لوگوں نے اپنے بچوں کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔ یعنی فرد کی تربیت کی جائے۔ ایمان و اخلاق کو اس کے رگ و پے میں اتاراجائے۔ اپنی تہذیب، اقدار، روایات اور فطرت میں موجود پاکیزہ جذبات کو ابھارا جائے۔ حیا اور عفت کی اہمیت دل و دماغ میں راسخ کی جائے۔ زنا کے نقصانات اور اس کی شناعت کو اجاگر کیا جائے۔ نیز نکاح کے فطری تعلق سے،جتنا جلدی ہوسکے، نوجوانوں کو وابستہ کرنے کی تحریک برپا کی جائے۔

ان سب کے ساتھ لوگوں کو اس حوالے سے تعلیم دی جائے کہ اللہ کی جنت تقویٰ کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہ جنت وہ مقام ہے جہاں انسان ہمیشہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے سائے میں زندہ رہے گا۔ دنیا میں جتنی بھی نعمتیں پائی جاتی ہیں وہ جنت میں کہیں زیادہ بہتر بناکر انسان کودے دی جائیں گی۔

انسان ذہنی طور پر بہت طاقتور مخلوق ہے۔ جب وہ کسی شے کے بارے میں ایک نقطہ نظر قائم کرلیتا ہے تو بنیادی جبلی جذبات پر بھی قابو پالیتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ رمضان کے روزے ہیں جب لوگ اللہ کے لیے کھانا پینا تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جب انسانوں کی تربیت اس طرح کی جائے گی تووہ خود اور اپنے اہل خانہ کوالیکٹرونک میڈیا کی پھیلائی ہوئی اس آلودگی سے بچانے کے قابل ہوجائیں گے۔

اللہ کا ذکر اور اطمینان قلب

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان کا ذریعہ بتا یا ہے(الرعد13:28)۔ مگر ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بے چین و مضطرب رہتا ہے۔ وہ صبح و شام تسبیحات پڑھتے ہیں،مگر پھر بھی زندگی حز ن و ملال اور بے چینی و انتشار میں گزرتی ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمینان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد اانسان پر طاری ہوجاتی ہے۔ اور جس کے بعد انسان دنیا و مافیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہاں اطمینان سے مراد وہ ذہنی کیفیت جس میں انسان کو یہ یقین ہوتاہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے۔ اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔

تاہم یہ یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔ یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں،اس کے ذکر سے منہ میں شیرینی گھل جانے کا نام ہے۔ یہ اس کے نام کی مالا جپنے کاعمل نہیں، ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ سمجھنے کی کیفیت کا نام ہے۔ یہ اللہ ھو کا ورد کرنے کا عمل نہیں، رب کی محبت اور اور اس کے ڈرمیں زندگی گزارنے کے نام ہے۔ اس یاد کی بڑی خوبصورت تعبیر فیض نے یوں کی ہے۔

رات یوں دل میں تیری بھولی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے


جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

قرآن نے اس بات کوواضح کیا ہے کہ اطمینان قلب کی وہ کیفیت جس میں انسان کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی اندیشہ اللہ کے دوستوں عطا کی جاتی ہے۔ فرمایا: سن لو کہ اللہ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف ہے اور نہ کوئی اندیشہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔ ان کے لیے خوشخبری ہے،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی،اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ (یونس10:62-64) یہاں قرآن یہ بھی بیان کرتا ہے کہ اللہ کے یہ دوست کون ہوتے ہیں ؟ یہ کوئی ''بزرگ'' قسم کے لوگ نہیں بلکہ وہ سچے اہل ایمان ہیں جو اپنے ایمان کا ثبوت تقوی سے دیتے ہیں۔ یعنی رب کی یاد ان کا احاطہ اس طرح کر لیتی ہے کہ زندگی کے ہر کمزور لمحے میں وہ یہ سوچ کر گناہ سے دور بچتے ہیں کہ اللہ میرے ساتھ ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے۔ یہی لوگ اللہ کے ولی اور اس کے دوست ہیں۔ اور جو اللہ کا دوست ہو وہ کیسے کسی خوف و حزن کا شکار ہوسکتا ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ اگر کسی شخص کی پاکستان کے صدر مملکت سے براہِ راست دوستی ہوجائے تو پھر پاکستان میں کوئی سرکاری محکمہ اسے تنگ نہیں کرسکتا۔ کہیں اس کا کام پھنس نہیں سکتا۔ جب ایک فانی انسان کا یہ حال ہے تو جن لوگوں کوا للہ تعالیٰ اپنا دوست قرار دیدے،ان کے معاملات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ وہ ایمان و تقوی کے ساتھ زندگی گزرتے ہیں اور اللہ انہیں ہر خوف و حزن سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں اور اللہ ان کے دل کو اطمینان سے بھردیتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر تکالیف بھی آتی ہیں بلکہ اکثر انھی پر آجایا کرتی ہیں توپھر یہ لوگ کس طرح خوف و حزن سے محفوظ ہوئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حزن و خوف دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ جو لوگ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں، ان کے اردگرد وقتی طور پر پریشان کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں، مگر ان کے قلب پر اطمینان کی وہ کیفیت رہتی ہے جس سے انسان ہمیشہ پرسکون رہتاہے۔ اس کا سب سے اچھا نمونہ خود حضور پاک کی اپنی سیرت ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ہجرت کے موقع پر تو خون کے پیاسے لوگ آپ کو تلاش کرتے کرتے غارثور تک آپہنچے۔ آپ کے ساتھ سوائے حضرت ابو بکرکے اور کوئی نہ تھا۔ مگرآپ اس موقع پر ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ جب حضرت ابوبکر آپ کی طرف سے فکرمند ہوئے تو آپ نے ان کو اس طرح تسلی دی کہ اے ابو بکر ان دوکے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا رفیق خود اللہ ہے،(ماظنی یا ابا بکر باثنین اللہ ثالثیما، رواہ بخاری، رقم 3453)۔

ایک بندہ مومن پر جب زندگی کی مشکلات آتی ہیں تو اس کا ایمان اسے بتاتا ہے کہ اللہ چاہے تو باآسانی اسے ان مشکلات سے نکال سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے رب ہی کو پکارتا اور اسی سے مدد چاہتا ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ اسے اس مشکل سے نجات عطا کردیتے ہیں۔ تاہم اسے یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ یہ مشکلات،اگر دور نہیں ہورہیں تب بھی،جنت میں اس کے درجات بلند کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور آخرت کے دکھوں سے اسے بچارہی ہیں۔ چنانچہ مشکلات و تکالیف بھی اسے یہ اطمینان فراہم کرتی ہیں کہ اس کی تکلیف کا ہر اک لمحہ جنت میں اس کی راحتوں میں اضافہ کا سبب بنے گا۔ جو شخص اطمینا ن کی اس کیفیت میں جیتا ہو، اس کے سکون قلب کے کیا کہنے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امتحان کی تیاری میں مصروف کوئی قابل طالبعلم رات بھر جاگتا اور نیند کی راحت سے محروم رہتا ہے۔ مگر اسے یہ تکلیف اس لیے گوارا ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس کا بہترین نتیجہ دیکھے گا۔ یا کوئی کاروباری شخص اپنے کاروبار میں پیسے لگاتا ہے اور مشقت اٹھاتا ہے، اس امید پر کہ آنے والوں دنوں میں اسے بھرپور منافع ملے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی یاد میں بڑا سکون ہے۔ مگر اس شخص کے لیے جو ایمان و تقوی کی کیفیات میں جیتا ہو۔ نہ اس شخص کے لیے جسے عام حالات میں نہ اللہ یاد رہے نہ آخرت بلکہ اس کی زندگی کا مقصود دنیا کی لذتیں ہوں۔ ہاں اسے کبھی تکلیف پہنچ جائے تو اس تکلیف سے نجات پانے کے لیے وہ وظیفے پڑھنا شروع کردے اور سمجھے کہ یہ اللہ کی یاد ہے جس سے اسے سکون مل جائے گا۔

٭٭٭

٭اقوال زریں٭

دولت،رتبہ اور اختیار ملنے سے انسان بدلتا نہیں بلکہ اس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے۔

حضرت علیؓ

دین کی اصل عقل، عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے، لہذا صبر کا دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو۔

شیخ عبد القادر جیلانی

بعض اوقات اللہ کا بندے کی درخواست کو قبول نہ کرنا بندے پر شفقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

شیخ عبدالقادرجیلانی

٭٭٭