نیک والدین کی نیک بیٹی

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : جولائی 2012

اپنی بھانجی کی وفا ت پر مدیر سوئے حرم کے تاثرات

                اسے شروع ہی سے چھپ جانا بہت پسند تھا اس لیے وہ جلد ہی اس جہاں سے بھی چُھپ گئی۔میں جب بھی ان کے گھر جاتا تو وہ ایک کمرے میں چھپ جاتی اور جب تک اس کی امی نہ بلاتی، وہ نہ آتی ،او رآتی بھی تو صرف سلام کرتی، پیار لیتی اور واپس چھپ جاتی ۔اسے آج کل کی لڑکیوں کی طرح ٹر ٹر باتیں کرنا پسند نہ تھا۔یوں لگتا تھا کہ وہ پہلے زمانے کی لڑکی ہے جو اس زمانے میں پیدا ہو گئی ہے۔ میرے اپنے ہاں جب تک بیٹی نہ تھی ، تب بھی وہ مجھے بیٹیوں کی طرح پیاری لگتی تھی اور جب میرے ہاں بھی اللہ نے بیٹی عطا کر دی تو تب بھی اس سے پیار ویسے ہی رہا اس لیے میں نے چاہا کہ اس کو مستقل اپنے گھر لے آؤں اور اپنے بیٹے سے بیاہ دوں ۔ اس کے لیے میں نے سنجیدہ کوشش بھی کی مگر انسان کی ہر کوشش کب ثمر بار ہوا کرتی ہے ۔۔! اللہ کو کچھ اورمنظور تھا ۔ہمارا ہر ارادہ اور ہماری ہر کوشش منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اور ہوتا و ہی ہے جو اللہ کو منظو ر ہوتا ہے ۔وہ اپنے والدین کی انتہائی فرمانبردار تھی اوراگرچہ اس میں جسمانی طاقت اتنی نہ تھی مگر اس میں روحانی اور ذہنی طاقت بے پنا ہ تھی یہی وجہ تھی کہ اس کے لیے یہ مشکل نہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی مرضی کو والدین کی رضا پہ قربان کردے ۔آج کل ایسے بچے کہاں ملتے ہیں۔۔! ہوش سنبھالتے ہی اس کی یہ خواہش تھی کہ گھر کے سارے کام وہ خود کیا کرے اور ماں آرام کرے ۔اس لیے میں اس کی ماں سے کہا کرتا کہ آپ کتنی خوش نصیب ہیں کہ آپ کو ایسی بیٹی ملی ہے او راس کی ماں کہتی کہ اللہ سب کو ایسی بیٹیاں نصیب کرے ۔

                ویسے تو طویل زندگی بھی آخری موڑ پہ ایک خواب ہی لگتی ہے مگر اس کی مختصر زندگی تو واقعی ایک خواب ہی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے سارے کام جلدی جلدی ہو گئے ہوں، جیسے اکثر خواب میں ہوا کرتے ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے صبح پیدا ہوئی اور شام کو رخصت ہو گئی ۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ہم سنتے تھے کہ مُونا پید اہوئی پھر سنتے تھے کہ مونا سکول جانے لگی پھر پتا چلا کہ اب کالج جاتی ہے پھر خبر آئی کہ یونیورسٹی بھی جانے لگی ، پھر کارڈ آیا کہ اس کی شادی میں شرکت کرو اور شادی کے چند ماہ بعد ہی خبر آئی کہ وہ تو عمرے پہ چلی گئی اور عمرے سے واپس آئی تو سوچا کہ چلو ابھی چند دن آرام کر لے پھر اس سے ملیں گے اور عمرے کی مبار ک باد دیں گے کہ خبر آئی کہ وہ تو اس جہان سے ہی کوچ کر گئی۔ بیچارے ماں باپ لیے لیے پھرے او رخوب کوشش کی کہ اس کو روک لیا جائے مگر جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔۔ ۔۔!اللہ کریم اس کو جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب کرے اور اسکے ماں باپ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔

                 آج سولہ جون کو اسے گئے ہوئے ایک ہفتہ پورا ہو گیامگر جب بھی اس کا سوچتا ہوں دل بیٹھنے لگتا ہے اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ میرا یہ حال ہوتا ہے تو بیچارے ماں باپ کا کیا حال ہوتا ہو گا کہ جن کا اس سے پل پل کا ساتھ تھا ان کو صبر کیسے آئے گا۔لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی ہوتی ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ باہمت اور صبر والے ہیں۔اور اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب میں نے پردیس سے انہیں تعزیت کے لیے فون کیا تو بجائے اس کے کہ میں کچھ کہتا اس کی ماں کہنے لگی ، بھائی ، آپ نے اس پردیس میں پریشان نہیں ہونا ،اللہ کی امانت تھی، وہ لے گیا،رونا کس بات کا ۔ کہنے کو تو اس نے یہ کہہ دیا لیکن مجھے یقین ہے کہ دوسروں کو تسلی دینے و الی یہ ماں راتوں کو چھپ چھپ کر اپنے آپ سے یہ سرگوشی ضرور کرتی ہو گی کہ مونا۔۔۔

 

 

یادوں کے دْھندلکے میں رلایا نہ کرو
سوتی ہوئی راتوں کو جگایا نہ کرو

رسنے لگتا ہے پھر سے، دل کا انگور
ممکن ہو تو اب خواب میں بھی آیا نہ کرو

 

                کسی نے کہا ہے کہ مومن مصیبت میں بھی شکر کے مواقع ڈھونڈ لیتا ہے مجھے امید ہے ان مومن والدین نے بھی صبر کے ساتھ ساتھ اس بات پر اللہ کا شکر کیا ہوگاکہ اُس نے انہیں بیٹی کی محبت کے بیس بائیس برس نصیب فرمائے اگر اللہ یہ بھی نصیب نہ کرتا تو وہ کیا کرلیتے ۔۔۔کتنے ایسے ہیں کہ جنہیں یہ بھی نصیب نہیں۔اس لیے رسول اللہﷺ کے فرمان کے مطابق ہم تو یہی کہیں گے کہ مونا تیرے غم میں اگرچہ آنکھیں نم اور دل اداس ہے مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے کہ جس کا ہمیں حکم ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون کہ بے شک ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اورہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

٭٭٭

غنچے تیری زندگی پہ دل ہلتاہے
بس ایک تبسم کے لئے کھلتا ہے


غنچے نے کہا کہ اس چمن میں بابا
یہ ایک تبسم بھی کسے ملتا ہے؟

٭٭٭