اتفاق، غلط اقدام ،تکبراورمذہب

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2012

اتفاق (خوشونت سنگھ)

            خوشونت سنگھ اپنی کتاب ‘‘ سچ ، محبت اور ذرا سا کینہ ’’ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ تقسیم ہند سے قبل اپنے ایک دہریے دوست اور اس کی فیملی کے ہمراہ لارنس گارڈن لاہور میں سیر تفریح کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ دوران کھیل بچوں کی گیند ایک درخت کی بہت اونچی گھنی شاخوں میں پھنس گئی ۔ہم سب نے مل کر کافی دیر بہت کوشش کی ، پتھر پھینکے گئے ، درخت ہلایا گیا لیکن گیند نے نہ اترنا تھا نہ اتری۔ شاخوں میں پھنسی رہ گئی۔ میرے منہ سے نکلا ‘‘ اب تو واہ گرو ہی اسے اتارے گا ’’ میرا دوست اتنی کوشش کے بعد چڑ سا گیا تھا۔ کہنے لگا ‘‘ اگر واہگرو یہ گیند خود بخود نیچے اتار دے تو میں اس پر ایمان لے آؤں گا ’’۔ میں خاموش ہو گیا۔ چند لمحوں کے بعد ناگہاں ایک بہت خفیف سا ہوا کا جھونکا آیا ، درخت کی شاخیں ہلیں اور گیند شاخوں سے پھسلتی ہوئی نیچے یوں آگری جیسے جادو کے زور سے نیچے گر پڑی ہو۔ میرا دوست ہنس کر کہنے لگا ‘‘ محض اتفاق سے گری ہے ’’۔

اتفاق (عبداللہ)

            بعض کام ہماری عادت بن جاتے ہیں اور ہم انہیں روٹین میں بے سوچے سمجھے کرتے ہیں۔ میرے لیئے شروع سے ہی قرآن پاک کی تلاوت بھی ایک ایسا ہی کام تھا۔ عام مسلمانوں کی طرح بچپن میں ہی مسجد میں قاری صاحب سے تیسویں پارے کی چند سورتیں رٹ لی تھیں۔ بعد میں کچھ آدھا قرآن حفظ کرنے کا موقع بھی ملا لیکن عربی زبان سے نابلد ہونے کی بنا پر تلاوت قرآن بلا سمجھے ایک مذہبی روٹین تھی جو میں ایک معمول کی طرح ادا کرتا تھا کہ ثواب ہوتا ہے۔بہت سال بیتے ، عملی زندگی میں آنے کے بعد ایک دن خیال آیا کہ قرآن کا فہم بھی ثواب سے زیادہ اہم ہے۔ اس روز سے میں نے کوشش شروع کر دی کہ نماز فجر کے بعد آیات کی تلاوت کے علاوہ ترجمہ بھی ساتھ پڑھوں چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو اور دن کے باقی حصے میں اس آیت پر غور و فکر کیا جائے۔ علاوہ ازیں تلاوت اس طرح کی جائے جیسے اللہ میاں مجھ سے براہ راست مخاطب ہیں۔ جس طرح علامہ اقبال کے والد نے انہیں فرمایا تھا۔ میں صبح کی نماز کے بعد قلت وقت کے باعث کہیں سے بھی قرآن کھول کر بمشکل ایک آیت مع ترجمہ ہی تلاوت کر پاتا تھا۔ ایک دن حسب معمول قرآن کھولا توسورہ طلاق کی یہ آیت سامنے آئی کہ جس کاترجمہ ہے ۔‘‘اور جو کوئی خدا کا تقوی اختیار کرے گا وہ اس کے لئے (رنج و محن) سے مخلصی ( کی صورت) پیدا کر دے گا۔ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے ( وہم و ) گمان بھی نہ ہو اور جو خدا پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا۔ خدا اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے ) پورا کر دیتا ہے۔ خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔’ ’ آیت اور ترجمہ پڑھنے کے بعد دفتر کی طرف گامزن اور اس کے بعد باقی تمام دن یہ آیت ذہن میں گردش کرتی رہی۔ نفس کہنے لگا یہ اللہ میاں نے کیا عجب بات کہی ہے۔ ایسی جگہ سے رزق کی ترسیل جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہو اور خدا اپنا کام پورا کرتا ہے۔ حالانکہ جدید دنیا میں رزق کے ذرائع پر اللہ کی بجائے اس کے بندے قابض ہیں ۔ جسے چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں۔ جس کی چاہے معیشت تنگ کر دیتے ہیں ۔ اس طرح کی بات کسی مذہبی منتر کا حصہ تو ہو سکتی ہے عقل کی نہیں۔میرے اندر کا سادہ اور کم علم مسلمان حتی المقدور نفس کے ساتھ مناظرہ کر رہا تھا کہ یہ کتاب اللہ کی سچی اور آخری کتاب ہے اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تحریف سے محفوظ رہی ہے۔ تو شک کیوں ؟۔

نفس کہنے لگا بھئی اول تو یہ باتیں اساطیرالاولین ہیں۔ مذہب اس دور میں پٹ چکا ہے عقل نے سائنس کی مدد سے اس دور میں مذہب کا جنازہ نکال دیا ہے اور تم کہتے ہو یہ آیت سچ ہے۔ اچھا اگر یہ سچ بھی ہے تو اس کے مخاطب صرف مومنین ہیں جو صرف قرون اولی میں پائے جاتے تھے اور تم خود مانتے ہو کہ تم محض نام کے مسلمان ہو، مومن ہونے کی منزل سے کوسوں دور ہو۔ اس لئے بس شانت رہ کر ڈگڈگی کی تال پر ناچتے رہو اور غیب سے روزی کی باتوں کی بجائے اس دنیا کے روزی رسانوں کی باتوں پر زیادہ کان لگا کر دھیان دیا کرو۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔دونوں اپنی اپنی دفاعی پوزیشن پر ڈٹ گئے تھے۔ چند روز اندرونی بحث کے دوران میرے اندر کے مسلمان کی مسلسل تکرار سے جب نفس عاجز آ گیا تو جھلا کر کہنے لگا ‘‘ اچھا اپنے اللہ سے کہو کہ تمہیں ایسی جگہ سے رزق بہم پہنچائے جس کا تمہیں وہم و گمان بھی نہ ہو۔ کسی دوست یا رشتہ دار سے قرض مانگنے کے تم کبھی روادار نہیں رہے۔ تنخواہ میں اضافہ بعید از قیاس ہے۔ آسمان سے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس تمہاری جھولی میں گرنے سے رہا۔ اپنے اللہ سے کہو اپنی آیت کو سچ ثابت کرے ، ورنہ چھوڑو ایسی باتیں ، بس ثواب وغیرہ اور روٹین کی خاطر تلاوت کر لیا کرو لیکن خبردارجو ایسی باتوں پر اعتماد کیا ، یہ دور عقل کا ہے ، سائنس کا ہے ، ترقی کا ہے۔ ایسی باتیں دیوانے ہی سوچ سکتے ہیں ‘‘۔نفس کی اس دھونس کے پیچھے بات یہ تھی کہ ان دنوں کسی ضرورت کے تحت مجھے کچھ رقم کی اشد ضرورت تھی۔ بینک یا کسی اور ذریعے سے میں ادھار لینا نہیں چاہتا تھا لیکن ضرورت تھی کہ اپنی جگہ منہ کھولے بیٹھی تھی جس کے پورے ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ایک ہفتہ کے مناظرے میں مسلمان صاحب ذرا کچے ہو کر چپ سے ہو گئے تھے۔ نفس خوشی کے عالم میں دھمالیں ڈاال رہا تھا۔ دیکھا میں سچ نہ کہتا تھا۔ اب مسلمان صاحب بھی کچھ قائل ہو کر ، ممنوعہ لکیر عبور کر کے نفس کے ساتھ معاہدہ سقوط ڈھاکہ پر دستخط کرنے کے لئے تیاری کر رہے تھے۔

اچانک دو تین روز بعد مجھے ایک خط بذریعہ ڈاک موصول ہوتا ہے جو دور کسی دوسرے شہر میں واقع بینک کے سرکل آفس سے میرے نام آیا تھا۔ سرکل آفس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے بینک کی فلاں برانچ کا دس سالہ آڈٹ کیا ہے۔ اس آڈٹ کے دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ آپکا ایک بینک کھاتہ پچھلے دس سال سے غیر فعال ہے اور اس میں اتنی رقم موجود ہے۔ پندرہ دن کے اندر مطلع کیجئے کہ آپ اس بینک اکاونٹ کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں۔ بصورت دیگر کھاتہ بند کر دیا جائے گا اور رقم بینک کے خزانے میں جمع کر لی جائے گی۔میں نے اپنے ذاتی کاغذات کی پڑتال کی۔ بینک کو جوابی خط میں شناختی کارڈ کی کاپی کے ہمراہ تفصیلات سے آگاہ کیا کہ بیان کردہ کھاتہ تو میرا ہی ہے لیکن میرے پاس چیک بک موجود نہیں ازراہ کرم رقم میرے موجودہ بینک کی فلاں شاخ میں منتقل کر کے یہ پرانا کھاتہ بند کر دیا جائے۔ایک ہفتے کے اندر ہی میرے موجودہ بینک کھاتے میں رقم منتقل ہو گئی۔ میں پرانے کھاتے سے تمام رقم نکلوانے کے بعد اس کے متعلق بھول بھال چکا تھا۔ غالباً میرے دوستوں کے ذمے جو چھوٹی موٹی رقوم واجب الادا تھیں وہ مجھے مطلع کیئے بغیر پچھلے دس سالوں میں اس توقع کے ساتھ اْس کھاتے میں جمع کراتے رہے تھے کہ جب میں استفسار کروں گا تو مجھے بتا دیں گے جو میں نے کبھی نہیں کیا کیونکہ ذہن سے اتر چکا تھا۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ ملنے والی رقم میری مطلوبہ ضرورت سے تقریبا دگنی تھی۔اندر کے مسلمان نے فخر سے کہا ‘‘ اب بتاؤ خدا سچا اور قادر ہے یا مجبور محض ’’نفس نے ہنس کر کہا ‘‘ بے وقوف ، یہ محض اتفاق ہے ’’

غلط اقدام (مولانا وحیدالدین خان)

             لیما (Lima) جنوبی امریکہ کا ایک شہر ہے۔ یہاں ایک غریب عورت اپنے چاربچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ مقامی طور پر وہ کوئی اچھا روزگار پانے میں ناکام رہی۔ اس نے سنا تھاکہ شمالی امریکہ (USA) بہت خوش حال ملک ہے۔ اس نے حصول معاش کے لیے وہاں جانے کا ارادہ کیا۔مگر اس کے پاس ہوائی جہاز کا کرایہ نہیں تھا۔ اس نے یہ تدبیر کی کہ اپنے آپ کو ایک سوٹ کیس میں بندکیا اور اس سوٹ کیس کو کسی نہ کسی طرح لیما سے لاس انجلس جانے والے ہوائی جہاز پربطور لگج سوارکرادیا۔ جہاز لاس انجلس پہنچا۔ اس کا سامان حسب معمول نکال کرمخصوص مقام پر لایا گیاجہاں ہرآدمی پہچان کراپناسامان لے لیتا ہے۔ مگر ایک سوٹ کیس کا کوئی لینے والا نہیں ملا۔ بالآخر پولیس نے اس سوٹ کیس کوکھولا تو اس کے اندر مذکورہ عورت کی لاش بندتھی۔تفتیش کرنے والوں نے کہا کہ عورت غالباً دوسرے سامانوں کے بوجھ کے نیچے کچل کرمرگئی۔

             یہ واقعہ زندگی کی ایک حقیقت کو بتاتا ہے۔ یہ حقیقت کہ منزل تک پہنچنے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ آدمی کسی نہ کسی طرح ایک اقدام کرڈالے۔ اقدام کی کامیابی کے لیے بہت سے دوسرے اسباب کی واقفیت ضروری ہے۔ یہ دوسرے اسباب اگر موافقت کے لیے موجودہوں تو اقدام کامیاب ہو گا اور اگر دوسرے اسباب موافقت نہ کریں تو اقدام سراسرناکام ہوکر رہ جائے گا۔

             مذکورہ واقعہ میں عورت کا اقدام ایک انفرادی اقدام تھا۔ اس غلط اقدام کا نتیجہ اسے انفرادی طور پر بھگتنا پڑ ا۔ مگر ایک لیڈر جب کسی قوم کو اقدام کی طرف لے جاتا ہے تو یہ ایک اجتماعی اقدام ہوتا ہے۔ اس کا انجام پوری قوم کو بھگتنا پڑ تا ہے۔ لیڈرکو مذکورہ خاتون کے مقابلہ میں کروڑوں گنازیادہ محتاط ہوناچاہیے۔ لیڈر کے لیے غلط اقدام صرف غلط اقدام نہیں بلکہ وہ ایسا سنگین جرم ہے جس کے مقابلہ میں کوئی عذر قابل سماعت نہیں ہو سکتا۔

             غلط اقدام سے کروڑوں گنا زیادہ بہتر ہے کہ آدمی کوئی اقدام ہی نہ کرے۔

کامیابی کی قیمت (مولانا وحیدالدین خان)

            ایک طالب علم کے سرپرست کالج کے پرنسپل سے ملے۔ ‘‘آپ لوگوں نے جو تعلیمی نصاب بنایا ہے وہ بہت لمبا ہے۔ طالب علم کی عمر کا ایک بڑ احصہ صرف پڑ ھنے میں گزرجاتا ہے ’’ انھوں نے کہا۔ ‘‘اس کا حل تو بہت آسان ہے ’’ پرنسپل نے جواب دیا ‘‘وہ کیسے ’’ ‘‘آپ مختصر نصاب بھی بنا سکتے ہیں۔اصل میں مدت کاتعلق اس بات سے ہے کہ آپ طالب علم کے اندر کیساعلمی معیارچاہتے ہیں۔ قدرت کو شاہ بلوط (Oak) کا درخت اگانے میں سوبرس لگ جاتے ہیں۔ مگر جب وہ ککڑ ی کا درخت اگاناچاہتی ہے تواس کے لیے صرف چھ مہینے درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ معمولی معیار چاہتے ہوں تو چندسال کی تعلیم بھی کافی ہو سکتی ہے۔ مگراعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کے لیے توبہرحال زیادہ وقت دیناپڑ ے گا’’۔ یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے ہے۔ چھوٹی ترقی چھوٹی کوشش سے مل سکتی ہے۔لیکن اگرآپ بڑ ی ترقی چاہتے ہوں تو لازماً آپ کو بڑ ی جدوجہد کرنی پڑ ے گی۔ چھوٹی کوشش سے کبھی بڑ ی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ہرولڈشرمن(Harold Sherman) نے اسی بات کوان الفاظ میں کہا ہے : ہرکامیابی کے ساتھ قیمت کا ایک پرچہ لگا ہوا ہے۔ اب یہ آپ پرموقوف ہے کہ آپ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور قربانی، صبر، یقین اور برداشت کی شکل میں کتنی قیمت ادا کرنے کے لیے تیا رہیں۔ بازارمیں آدمی کو وہی چیز ملتی ہے جس کی اس نے قیمت اداکی ہو۔ اسی طرح ہرترقی اور ہرکامیابی کی بھی ایک قیمت ہے اور آدمی کو وہی ترقی اور وہی کامیابی ملے گی جس کی اس نے قیمت اداکی ہو۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔

تکبر کی ماں (ریحان احمد یوسفی)

            تکبر ایک بہت بڑ ی اخلاقی برائی ہے۔ معلوم تاریخ کا پہلا متکبر شیطان تھا جس نے آدم کو حقیر سمجھ کر سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، قرآن مجید نے اس کے انکار کو تکبر اور ناشکرے پن سے تعبیر کیا،۔ تکبر اور ناشکر اپن دونوں لازم و ملزوم ہیں۔انسان تکبر اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کسی فضل و کمال کی بنا پر دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھے۔ مگر یہ تکبر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ناشکرے پن سے پیدا ہوتا ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے خلاف کیا گیا ایک اخلاقی جرم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان محروم مطلق ہے۔ یہاں نہ کسی کے پاس کچھ ہوتا ہے او رنہ رہ سکتا ہے ، اگر اللہ تعالیٰ کی عطا اس کا دامن نہ بھردے۔زندگی، صحت، حسن، جوانی، ذہانت، مال، اولاد، مقام، مرتبہ، اقتدار، علم غرض ہر وہ چیز جس کی بنا پر انسان اپنے آپ کو بڑ ا سمجھ سکتا ہے یا سمجھتا ہے وہ دراصل رب العالمین کی عطا کردہ ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ جب چاہیں جس سے چاہیں اور جو چاہیں واپس لے لیں۔ کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ کرنے سے روک سکے۔

            اس حقیقت کے باوجود لوگ جب دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نعمت و انعام کو بھولتے ہیں۔وہ عطا کو عطا سمجھنے کے بجائے اپنی محنت کا نتیجہ یا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس دنیا میں اگر کوئی ہے جو اپنی ذات میں آپ قائم اور اپنے آپ سے زندہ ہے ، تو وہ اللہ ہے۔ ہر چیز اسی کی ملک ہے۔ باقی ہر مخلوق کے پاس تو جو کچھ ہے وہ صرف رب کی عطا ہے۔ ایسے میں تکبر کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کو اپنا حق سمجھ کر ناشکرا پن کرنا ہے۔یہی ناشکرا پن ہے جس کے بطن سے تکبر جیسی لعنت جنم لیتی ہے۔ اس لیے ناشکری سے بچنا تکبر سے بچنے کی پہلی سیڑ ھی ہے۔

یہ فرق کیوں؟ (مولانا عبدالماجد دریابادیؒ )

            اگر آپ انجینئر ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ قانونی مشورہ بھی آپ بہتر دے سکیں؟ اگر آپ شاعر ہیں تو کیا یہ لازمی ہے کہ طبی مسائل میں بھی آپ کی رائے صائب ہو ؟ اگر آپ بیرسٹر ہیں تو کیا یہ فرض ہے کہ فن باغبانی میں بھی آپ کے کمالات تسلیم کرلیے جائیں ؟ اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو یہ کہاں سے ہے کہ تجارتی معاملات میں بھی آپ بہترین مشیر سمجھے جائیں؟غرض جب تک کسی فن کا باقاعدہ مطالعہ اسکے آداب و شرائط کے ساتھ آپ نے کسی استاذ کی شاگردی و نگرانی میں ایک مدت تک نہ کیا ہو، آپ کیونکر اس فن کے جزئیات میں رائے زنی کر سکتے ہیں ؟ خواہ آپ دوسرے فنون میں کیسی ہی قابلیت اور مہارت رکھتے ہوں ۔ یہ کوئی دقیق مسئلہ اور غامض فلسفہ نہیں ، ایک عام اور سادہ قاعدہ ہے جسے آپ روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں برتتے ہیں ۔ اور جب بھی کوئی اس کے خلاف راہ اختیار کرتا ہے تو آپ خود ہی اس پر ہنستے ہیں ، کبھی تبسم کرتے ہیں ، کبھی قہقہے لگاتے ہیں۔

            پھر یہ کیا ہے کہ مذہب کے دائرے میں آپ خود ہی اس قاعدے کو توڑ دیتے ہیں؟خود ہی اس کلیہ کے مخالف اور مخالف بھی کیسے اچھے خاصے دشمن بن جاتے ہیں ۔ اگر آپ نے کسی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے یا بی ایس سی کی ڈگری حاصل کر لی ہے یا پھر لندن سے بیرسٹر ہو کر آگئے ہیں تو اسی روز، اسی وقت ، اسی گھڑی آپ فقیہ بھی بن جاتے ہیں اور محدث بھی اور مفسر بھی ۔ جس آیت کو آپ جو معنی چاہیں دے دیں ۔ جس حدیث کو اپنی مرضی کے خلاف سمجھیں اس سے انکار کر بیٹھیں ۔ جس مسئلہ شرعی کو جس صورت سے آپ کا دل چاہے پیش کر دیں۔ اور اگر کوئی شامت کا مارا آپ کی اہلیت سے متعلق سوال کر بیٹھے تو بس وہ تنگ خیال ہے ، کٹھ ملا ہے، متعصب ہے ، آزادی ضمیر کا دشمن ہے ، لکیر کا فقیر ہے اور خدا معلوم کیا کیا ہے……؟

            گویا آپ کی عقلیت اور آپ کی روشن خیالی نے یہ طے کر دیا ہے کہ گو طب کے مسائل میں صرف وہی شخص زبان کھول سکتا ہے جس نے سالہا سال تک اس فن کی کتابوں کا درس لیا ہو اور کسی مستند طبیب کی شاگردی میں رہ کر مطب کیا ہو اور قانونی مشورہ صرف وہی دے سکتا ہے جس نے برسوں کسی ‘‘لا کالج’’ کسی سند یافتہ بیرسٹر یا وکیل کی زبان سے لیکچر سنے ہوں ۔ قانونی نصاب درس کی ضخیم جلدیں ختم کی ہوں اور امتحانات پاس کیے ہوں۔ لیکن مذہب ایک ایسا موضوع ہے جس کے لیے نہ کسی کورس کی ضرورت ہے نہ کسی استاذ کی اور نہ خود ہی اس کے مطالعہ میں وقت صرف کرنے کی ، بلکہ ہر پڑھا لکھا ہر وقت آزاد ہے کہ اس کے جس جزو کو جس صورت میں جی چاہے مان لے اور جس جزو سے جس وقت چاہے بے ڈھرک انکار کر دے۔

            ایک بیرسٹر کے سامنے اگر ریاضی یا کیمسٹری کا کوئی مسلہ حل کرنے کے لیے پیش کیا جائے تو وہ بغیر جھجکے ہوئے اور بغیر اپنی سبکی محسوس کیے صاف کہہ دے گا کہ میں اس فن سے واقف نہیں لیکن وہی بیرسٹر صاحب مذہب کے ہر دقیق سے دقیق مسئلہ پر ، توحید پر ، رسالت پر ، حشر ونشر پر ، وحدت وجود پر ، جنت دوزخ پر ، وجود جن و ملائکہ پر ، تعدد ازواج پر ، غلامی پر ، جہاد پر ، اجتہاد و تقلید پر بے دھڑک اور بے جھجک تقریر فرمانا شروع کر دیں گے اور اپنی ذات والا صفات کو بلا شائبہ و انکسار مذہب کا بہترین شارح اور شریعت کا بہترین ترجمان تصور فرمانے لگیں گے۔

            گویا وہ علم جوتمام دوسرے علوم سے لطیف تر اور وہ موضوع جو ہر دوسرے موضوع سے اہم تر اور وہ بحث جو دوسری ہر بحث سے نازک ہے ، وہی اس قدر حقیر اور اس قدر ناقابل اعتنا ہے کہ اس کے لیے نہ کسی محنت کی ضرورت ہے ، نہ کسی وقت کے صرف کرنے کی اور نہ کسی استاذ کی شاگردی کی ۔ اس کے سیکھنے اور جاننے بلکہ سکھلانے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس قدر کافی ہے کہ کسی انگریزی امتحان کی سند حاصل ہو گئی ہو بلکہ یہ بھی ضروری نہیں صرف کسی انگریزی درسگاہ کی چہار دیواری کے اندر زندگی کے چند روز گزر جانے کافی ہیں اور اگر اس سعادت سے بھی تقدیر نے محروم رکھا ہے تو پھر کسی انگریزی داں کی چند روزہ صحبت کا شرف کافی ہے۔