فاصلہ ر کھیے اور ایک بوڑھے کی نصیحت

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جنوری 2012

فاصلہ رکھیے

            کہتے ہیں کہ سخت ٹھٹھرا دینے والی سردی میں کسی جگہ کچھ خار پْشت بیٹھے تھے۔سردی سے اْنکا بْرا حال ہو رہا تھا۔تھوڑی سی حرارت پالینے کی طمع میں ایک دوسرے کے قریب آئے تواْنکے جسموں پر لگے کانٹے ایک دوسرے کو زخمی کرنے لگے۔دوبارہ ایک دوسرے سے پیچھے ہٹ کر بیٹھے توپھر سردی مارنے لگی۔کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایک دوسرے سے چپک کر بیٹھیں تواپنے کانٹوں سے ایک دوسرے کو زخمی کریں یا دور دور جا کر بیٹھیں اور سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں؟بالآخر انہوں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ قربت ہو مگرایک حد کے اندر رہ کر،ایک دوسرے کی حرارت تو پہنچتی رہے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ ایک دوسرے کے کانٹے چبھ کر درد و الم کا باعث نہ بننے پائیں۔ اور دوری بھی ہو تو اتنی کہ موسموں کی حدت و شدت اور امن و امان کا مسئلہ نہ بننے پائے۔اسی طرح انسانوں کی دْنیا میں ہمیں کرنا چاہیئے کیونکہ لوگ بھی تو خار پشتوں کی طرح ہی ہوتے ہیں۔اپنے جسم پر لگائے ہوئے غیر مرئی کانٹوں کے ساتھ۔ یہ کانٹے ہر اْس شخص کو چبھ کر زخمی کر دیتے ہیں جو بغیر کسی ضابطے کے نزدیکیاں چاہتے ہوں، اور دوریوں کی اذیت اور فراق کے الم بھی مار ڈالتے ہیں جب لوگ بغیر کسی حساب کے دوریاں رکھنا چاہتے ہوں۔دیکھ لینا چاہیئے کہ لوگوں سے میل جول اور معاملات میں کس قدر بے تکلفی مناسب رہے گی تاکہ قربت کے فوائد سے زیادہ اذیت نہ اْٹھانی پڑ جائے یا پھر دوری سے تعلقات پرہی اوس نہ پڑنا شروع جائے۔

 دانا شخص وہی ہے جو ان دانشمند خارپشتوں کی حکایت سے یہ سبق سیکھے کہ: قربت سے تعلقات میں اْنسیت و محبت کی حرارت تو لیجیئے اور دیجیئے مگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ قربت اتنی زیادہ بھی نہ ہو کہ جسموں پر لگے ہوئے غیر مرئی کانٹے بدن میں چبھ کر تعلقات کو ہی مجروح کر کے رکھ دیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس معاشرے میں اپنے دوستوں کے ساتھ پرجوش تعلقات رکھ کر جینا چاہتے ہیں جو ہماری خوشی اور غمی میں ہمارے کاندھوں کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ جن کے محبت بھرے بول ہمارے کانوں میں حلاوت بن کر اْترا کریں اور ان کی ہمدردی اور غمگساری کے الفاظ ہمارے دلوں کو تقویت اور سہارا دیا کریں۔یہ ٹھیک ہے کہ آپ کے دل میں آپ کے دوستوں کیلئے ایک گہری محبت ہے مگربلا ضرورت، بے ترتیب اور بے محل ملاقاتوں یا قربتوں سے کسی کے معمولات میں حرج کا خدشہ رہے گا۔ اور پھر یہ ملاقاتیں اور قربتیں کہیں اْکتاہٹ اور دل بھر جانے کا سبب نہ بن جائیں۔ اور اسی طرح ہی تو قرابت داریاں اور تعلقات ناقابل برداشت رنج و الم اور دکھوں ، پریشانیوں میں بدل جایا کرتے ہیں۔ پیارے دوست ،اچھی طرح دیکھ لے اوراطمینان کرلے کہ تیرے دل کے دروازے پر تالا بھی لگا ہوا ہے کہ نہیں؟ ایسا تو نہیں کہ جس کا دل چاہتا ہے وہ اس گھر میں آ جا سکتا ہے چاہے وہ تیری دوستیوں کے معیار پر پورا اْترنے والا ہے بھی یا کہ نہیں؟اس دنیا میں رہنے اور بسنے کیلئے اس دنیا کے باسیوں سے راہ و رسم، ناطے اور تعلقات اور دوستیاں رشتے داریاں تو رکھنی اور بنانی پڑیں گی مگر مناسب فاصلہ رکھ کر۔ لوگوں کی غداریوں اور مکر و فریب سے بچ اور بچا کر۔ہمیشہ یہی ذہن میں رکھتے ہوئے کہ انسان بھی تو خارپشت کی مانند ہیں کہ زیادہ قربت داری اور ملن مارے گی اور زیادہ دوری بھی جان لے لے گی۔

 ایک بوڑھے کی نصیحت

            اپنے سفری سامان کو ہوٹل کے کمرے میں رکھتے ہی میں نے سپورٹس سوٹ زیب تن کیا اور ہلکی پھلکی ایکسر سائز کیلئے ہوٹل میں بنے فٹنس کلب کی طرف چل دیا۔ جاگنگ مشین پر دوڑتے ہوئے مجھے اپنی ساتھ والی مشین پر ایک عمر رسیدہ امریکی مہمان نظر آ رہا تھا۔ میری عمر کے مقابلے میں تو اچھا خاصا ضعیف تھا۔ کْچھ تعارفی کلمات کے بعد ایک دوسرے کے مشاغل اور دوسرے اْمور پر بات چیت ہوئی، ہم دونوں میں کئی ایک مشاغل، عادات اور قدریں مشترک تھیں اِس لئے گفتگو کافی دلچسپ رہی۔ہوٹل سے باہر آتے جاتے اکثر اْس سے ملاقات ہوتی تھی، ایک بات جو مْجھے شدت کے ساتھ محسوس ہوتی تھی وہ اس امریکی بڈھے کا ہربار مجھے دیکھ کر ایک خاص انداز سے مسکرانا تھا۔ پتا نہیں اسکی مسکراہٹ کے پیچھے کیا راز تھا؟آخری دن میں اپنا سامان باندھ کر نیچے اتروا کر استقبالیہ پر گیا، چیک آؤٹ کے مراحل سے گزرنے کے بعد لابی میں بیٹھنے کیلئے مڑا تو پہلے سے وہاں بیٹھے اْس بوڑھے پر میری نظر پڑ گئی جو دیکھتے ہی مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ اْس نے مجھے کافی پلانے کی دعوت دی، چونکہ فی الوقت مجھے فرصت اور میرے پاس کافی فارغ وقت تھا اس لیئے میں نے یہ آفر بخوشی قبول کر لی۔

 اس بار میں نے چھوٹتے ہی اس سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا کہ؛کیا میں آپکی اس مسکراہٹ کا راز جان سکتا ہوں جو ہر بار مجھے دیکھ کر آپ کے چہرے پر آئی ہے؟ اْس نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ میں نے جب بھی تمہیں دیکھا ہے تو مجھے اپنی جوانی یاد آ جاتی رہی ہے۔میں نے اپنی زندگانی کے بیشتر قیمتی سال اپنے کاروبار کی بہتری اور ترقی میں لگا دیئے۔ کاروبار خوب پھلا اور پھولا۔ جب ہر طرف سے فارغ ہوا ہوں اور اپنے گرد و نواح میں نظر دوڑاتا ہو تو پتا چلتا ہے کہ میں نے تو فوائد سے زیادہ اپنے ایسے نقصانات کیئے ہیں جن کا تدارک بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں مگر میں نے بہت کچھ کھو کر بھی ایک سبق ضرور حاصل کیا ہے جس کو تم چاہو تو ایک بوڑھے کی نصیحت کا نام دے سکتے ہو۔اْس نے مجھے کہا کیوں نا تم میرے ساتھ چلو، میں آج کا دن ایک یاٹ پر گزارنا چاہ رہا ہوں، مزید باتیں وہیں پر کریں گے۔کیونکہ مجھے اپنے چند اہم کام نمٹانے تھے جن کی وجہ سے میں یہاں اتنی دور آیا ہوا تھا اس لیئے مجھے معذرت کرنا پڑی۔ اْس نے پھر کہا چلو آج شام کا کھانا کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ مگر میرا پروگرام پہلے سے طے تھا کہ آج کا کھانا اْس کمپنی کے لوگوں کے ساتھ کھاؤں گا جن سے ڈیل کرنے کیلئے میں ادھر آیا ہوا تھا۔ اس طرح مجھے اْس بوڑھے کی اس دعوت سے بھی معذرت کرنا پڑی۔ تاہم اْس کی باتوں میں میرا تجسس ابھی بھی اپنی جگہ برقرار تھا جو میں چھپا نہ سکا اور اْسے کہا کہ وہ اگر مہربانی کرے تو اپنی حکمت و دانائی والی بات مجھے یہاں ہی بتا دے۔ اس بار وہ یوں گویا ہوا؛ ہر انسان اپنی زندگی میں تین مراحل سے گزرتا ہے اور تین چیزوں کے حصول کیلئے تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔جوانی میں اْس کے پاس کوئی کام نہ ہونے یا کام کی زیادتی نہ ہونے کی وجہ سے وقت اور فراغت کی کوئی کمی نہیں ہوتی اور جوانی کو بھر پور طریقے سے گزارنے کیلئے اْس کے پاس جوش، طاقت اور ہمت بھی وافر ہوتی ہے مگر اْس کے پیسہ اور وسائل نہیں ہوتے جس سے وہ سیروسیاحت پر نکل سکے، یا اپنے لیئے ایک گاڑی یا ایک گھر خرید سکے جن کی وہ خواہش اور تمنا کرتا ہے۔ اور ان وسائل کے سہارے اپنی جوانی سے بھرپور استفادہ، اور ہر دن عید اور ہر رات شب برات جیسے سماں کے ساتھ گزار سکے۔اس کے بعد انسان دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ جب وہ ایک پختہ مرد بن چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں وہ کام و کاج یا تجارت وغیرہ میں گِھر کر رہ جاتا ہے تاکہ ایک اچھے مستقبل، اپنے اور اپنے کنبے کیلئے محفوظ وسائل جمع کر سکے۔ انسان کے اس مرحلے میں ابھی بھی طاقت و ہمت اور مسرتوں کیلئے امنگیں قائم و دائم ہوتی ہیں مگر اْس کے پاس اب ان سب کاموں کیلئے وقت نہیں ہوتا، ایسا وقت جس کو وہ اپنی ذات یا اپنے کنبے ساتھ لذت و فرحت سے گزار سکے کیونکہ وہ تو اب اپنے کاموں یا اپنی تجارت اور تجارت سے جڑے سفروں میں پھنس کر رہ چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کئی ایک قربانیاں دیتا ہے جنہیں وہ اپنے اچھے مستقبل کے نام کر رہا ہوتا ہے۔اس کے بعد انسان اپنی زندگی کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے تب پیرانہ سالی اس پر غالب آ چکی ہوتی ہے۔ اب اس کے پاس مال و دولت کے ساتھ وقت کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ وہ مال و دولت جو اْس نے اپنی راحت و آسائش اور ایک اچھے اور محفوظ مستقبل اور اْن خوابوں کی تکمیل کیلئے جمع کیا ہوتا ہے جو وہ اپنی جوانی میں دیکھا کرتا تھا۔ مگر۔۔۔۔اب اْسے پتہ چلتا ہے کہ اب تو اْسکی ہمت اور نشاط گہنا چکی ہے جو اْسکی جوانی میں اْسکے پاس ہوا کرتی تھی۔اس مرحلے میں اْس کے اندر سفر و سیاحت کا شوق دم توڑ چکا ہوتا ہے۔ ایک نئی چمچماتی ہوئی کار لینے کی خواہش، ایک نئے خوبصورت اور پر تعیش گھر کا تصور نا پید یا بے مزا بن چکا ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان اپنی اولاد کو ڈھونڈنا چاہتا ہے جن کے ساتھ وہ اپنی بیٹھکیں جما سکے، جن کے ساتھ کسی سفر پر نکل سکے، جو اْس کے ساتھ میل جول اور معاشرت رکھیں، اْسے ملنے کیلئے آئیں، اْس کے ساتھ اپنا وقت بتائیں۔ مگر اْسے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو کب سے جوان ہو کر اپنی اپنی راہوں پر چل نکلے۔ ایک بوڑھے کے ساتھ بیٹھ کر بے لذت شامیں گزارنے یا غول و غپے کے بغیر محفلیں جمانے کی اْن کو کوئی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ اب اْن کی اپنی الگ دْنیا ہوتی ہے جس میں لذت و نشاط، ہمت و طاقت اور عیش و فرحت کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ انسان اپنی زندگی کے اس مرحلے میں پہنچ کر یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ تو اپنے دوست بھی کھو چکا ہے۔ وہ دوست جن کو اْس نے اپنی مشغولیت اور پیسہ جمع کرنے کی دْھن کے زمانے میں قابل توجہ نہیں جانا تھا یا پھر اْس کے پاس ان دوستوں کیلئے اْس زمانے میں کوئی وقت نہیں ہوا کرتا تھا۔ اب اسے احساس ہوتا ہے کہ اْسکا جمع کیا ہوا یہ پیسہ نہ اْس کے وہ دن واپس لوٹا سکتا ہے جب اْسکی اولاد خواہش کرتی تھی کہ اْنکا باپ اپنا کچھ وقت اْنکے ساتھ بتائے۔ جب وہ یہ خواہش کرتے تھے کہ اْنکا باپ اْنہیں کسی سیروتفریح پر لے جائے، زیادہ دور نہ سہی کسی ساتھ لگتے شہر ہی لے جا کر اْنہیں زندگی کی اس بے لذتی سے نکالے۔اْسے اب احساس ہوتا ہے کہ اْس کا یہ مال تو اب اْسکی صحت بھی واپس نہیں لوٹا سکتا جب کہ فشار خون اور ذیابیطس کو ڈاکٹر بھی اس عمر میں کوئی اچھوتا مرض شمار نہیں کرتے، بے طاقتی، تھکن اور ہڈیاں دکھنا تو بالکل ہی طبیعی امراض قرار پا چکی ہوتی ہیں۔اس طرح میں نے اپنی زندگی سے یہ تجربہ نکالا ہے جو میں تمہیں نصیحتاً کہنا چاہتا ہوں کہ؛اگر تم اپنے چند ہزار روپوں میں بھی چاہو تو اپنے بچوں اور بیوی کے ساتھ سکھ اور چین کی پر لطف اور پر مسرت زندگی گزارنے کا سوچ سکتے ہو بجائے اس کے کہ جب تمہارے پاس لاکھوں اور کروڑوں روپے تو جمع ہو چکے ہونگے مگر اْس وقت تم میری طرح حسرت و یاس کی تصویر ایک بڈھے بن چکے ہوگے۔