ج۔شاعری بمثل کلام کے ہے،اچھی شاعری اچھا کلام ہوتی ہے اور بری شاعری برا کلام ہوتی ہے۔بذات خود شاعری مذموم یا ممدوح نہیں ہے،اس کا حکم اس کے معانی اور موضوع کے مطابق ہوگا۔جس طرح براکلام ممنوع اور حرام ہے اسی طرح بری شاعری ممنوع اور حرام ہے۔امام ابن قدامہ فرماتے ہیں ‘‘ شعر کے مباح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف میں سے بھی مکرم لوگ شعر کہا کرتے تھے،نیز لغت عرب کی معرفت اور تفسیر میں استشہاد کے لئے شعر عربی کی ضرورت پڑتی ہے۔ شعر سے کلام الہی اور کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معانی کی معرفت ہوتی ہے اور اس سے نسب ،تاریخ اور ایام عرب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ’’متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر پڑھا کرتے تھے ،سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو آپ نے خود حکم دے کر شعر کہنے کو کہا۔ قرآن وحدیث میں جن شعروں یا شاعروں کی مذمت آئی ہے ان سے مراد ایسے شعر ہیں جو خلاف شرع ہوں ،شرک و بدعت اورجھوٹ پر مبنی ہوں۔لیکن جن شعروں میں تفقہ فی الدین ،اسلام کی سربلندی ،شان صحابہ اور عظمت اسلام کے موضوعات بیان کئے گئے ہوں ایسے اشعار مستحسن اور جائز ہیں۔
(آن لائن فتاوی (محدث فورم اور محدث فتوی))