ج: اعمال صالحہ کے بارے میں ہم کو رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا ہے اور قرآن نے بھی بتا دیا ہے کہ وہ کیا ہیں ۔قرآن نے تو مختلف مقامات پرخاص موضوع بنا کر بتا دیا ہے کہ کیا چیزیں اعمال صالحہ ہیں۔ ان میں جو بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ پر ایمان لائیں ، اللہ کے فرشتوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائیں ، اس کی کتابوں پر ایمان لائیں ، اللہ کی راہ میں انفاق کریں ، رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کا تعلق رکھیں ، اپنے عہد اور معاہدے پورے کریں ، جب کوئی مشکل مرحلہ آئے تو اس میں صبر کے ساتھ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی بسر کریں ۔ حدود الہی کی پیروی کریں ،نماز کا اہتمام کریں ، زکوۃ ادا کریں ، روزہ رکھیں ، حج کریں یہ اعمال صالح ہیں جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کے علاوہ بھی آپ قرآن سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان سب میں داڑھی نہیں ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ نے بھی جب کسی صحابی کوجنت میں جانے والے اعمال بتائے تو ان میں داڑھی کاذکر نہیں کیا۔ لوگ آکر پوچھتے ہیں کہ حضور ہم جنت میں کیسے جائیں گے تو آپ چند چیزوں کا ذکر کرتے ہیں کہ انہیں اختیار کر لوجنت میں چلے جاؤ گے ۔وہ کہتے ہیں کہ جہنم سے کیسے بچیں گے ، آپ نے فرمایا یہ چند چیزیں ہیں ان کو اختیار کر لو جہنم سے بچ جاؤ گے ۔ جس چیز کو پیغمبر نے وہ اہمیت نہیں دی تو ہم اور آپ کون ہوتے ہیں اسے ایسی اہمیت دینے والے۔اگر اس کی یہی اہمیت تھی تو جب اونٹنی والے نے حضور کی اونٹنی پکڑ کر پوچھا تھا کہ مجھے وہ راستہ بتادیجیے جس سے میں جنت میں چلا جاؤں تو آپ کو سب سے پہلے یہ کہنا چاہیے تھا کہ داڑھی رکھ لینا ۔امتوں کا المیہ یہ ہے کہ دین کی حقیقت غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس طرح کی چیزیں بڑی اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔ عبادات کے بعد انسان جس اصل امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ اس کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ آپ کے گھر میں ، رشتہ داروں سے ، کاروبار میں کیا معاملات ہیں ، آپ کتنے سچے ، کتنے دیانتدار ہیں فیصلہ اس پر ہونا ہے نہ کہ داڑھی کے سائز پر ۔
(جاوید احمد غامدی)