ج: تبلیغی جماعت کے کام کو میں بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میں انہیں اللہ کے دین کے مخلص خادم سمجھتا ہوں ۔ان کے بارے میں میری رائے بری نہیں ہے۔ البتہ مجھے ان کی کچھ چیزوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ وہ اختلاف میں ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کرتا رہتا ہوں۔ میری ایک درخواست ان سے یہ ہے کہ تبلیغ اور دعوت کی جوذمہ داری اللہ تعالی نے انسان پر ڈالی ہے وہ اپنے ماحول میں ڈالی ہے ۔اپنے مورچے کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی کوئی ذمہ داری عام آدمی پر نہیں ڈالی گئی۔دوسری چیز یہ ہے کہ دعوت کی بنیاد قرآن مجید ہے یہ بات خود قرآن نے واضح کر دی ہے کہ ذکر بالقرآن من یخاف وعید یعنی جو آدمی بھی خدا کی وعید سے بچنا چاہتا ہے اس کو قرآن کے ذریعے سے نصیحت کیجیے ۔اور دعوت کے لیے بھی فرمایا کہ وجاھد بہ جھادا کبیرا یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کرو آپ کے ہاتھ میں قرآن ہونا چاہے، قرآن پڑھائیں ، قرآن سکھائیں ، یہی دین کی دعوت ہے ۔ فضائل کی کتابوں کے اندر موجود جھوٹی روایتوں ، قصے کہانیوں کو ایک طرف رکھ دیں اور اللہ کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑیں ۔ تیسری بات یہ ہے کہ لوگوں کوپورا دین سکھانے کی کوشش کریں یہ تو ٹھیک ہے کہ تبلیغ میں تدریج ہوتی ہے لیکن جولوگ آپ کے قریب آجاتے ہیں وہ پھر جماعت کے چلوں ہی میں نہ پڑے رہیں ، ان کو پورا دین سکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔بس میری یہی گزارشات ہیں وہ میں ان کے علما سے بھی عرض کرتا رہتا ہوں اور عام آدمی سے بھی۔باقی اچھے لوگ ہیں۔موجود زمانے میں اخلاص کی بہترین تصویر ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)