ج: اس میں آپ نے دو بزرگوں کا ذکر ہی کیوں کیا ہے اگر یہ کا م کرنا ہی ہے تو ساری امت کو بیٹھ کر کر لینا چاہیے لیکن اس کی ضرورت کیا ہے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس کی آخر کیا ضرورت ہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہم میں سے کسی کو بھی پیغمبر نہیں بنایا ، ہم پر وحی نہیں آتی ، ہم طالبعلم لوگ ہیں اور طالب علمانہ طریقے سے دین کی جو بات سمجھتے ہیں اس کو دلائل کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں ، ہو سکتا ہے ہماری بات ٹھیک ہو اور ممکن ہے ہمیں غلطی لگ گئی ہو ۔ پیغمبروں کو بھی غلطی لگ سکتی ہے لیکن اللہ تعالی فوراً ان کی تصحیح کردیتاہے۔ وہ اگر کوئی اجتہاد کرتے ہیں اور اس میں غلطی ہو جائے تو فورا ان کو متنبہ کر دیا جاتا ہے ۔ مشہور واقعہ ہے ( مسلم اور احمد بن حنبل میں اس کی بڑی روایتیں بیان ہوئی ہیں)کہ ایک دفعہ نبی ﷺ کے گھر میں عذاب قبر کامعاملہ زیر بحث آگیا ۔کسی یہودی خاتون نے سیدہ عائشہؓ کے سامنے عذاب قبر کے بارے میں اپنا موقف بیا ن کیا کہ عذاب قبر ہوتا ہے ۔ حضورﷺ نے سختی سے تردید کر د ی۔ یہ کہہ کر باہر چلے گئے لیکن فورا ہی واپس چلے آئے اور کہا کہ مجھے متنبہ کر دیا گیا ہے کہ یہ یہودی والی بات ٹھیک ہے ، دیکھیے پیغمبر کو غلطی لگ گئی تو اللہ نے اصلاح کردی۔ پیغمبر کے ساتھ تو یہ معاملہ ہوتا ہے ہم لوگوں کے ساتھ تو یہ معاملہ نہیں ہوتا ۔ہم تو غلطی بھی کر سکتے ہیں اور ٹھیک بھی بیان کر سکتے ہیں اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس طرح کے سب طالب علم اور سب اہل علم یہ کام کرتے رہیں اور اپنے دلائل لوگوں کے سامنے رکھتے رہیں۔ دلائل کی بنیاد پر جس کی بات زیادہ معقول لگے اس کو قبول کر لیجیے ۔البتہ آپ کی یہ خواہش بہت اچھی ہے کہ ان لوگوں کے مابین بھی بات چیت ہوتی رہنی چاہیے ۔اپنی حد تک تو میں بتا سکتا ہوں کہ میرے دروازے تو ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں میں ہر بات ہر وقت کرنے کے لیے تیار ہوتا ہوں لیکن یہ کہ لوگوں کے سامنے گفتگو کر کے ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں ایسا دنیا میں نہ پہلے کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اچھا طریقہ ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ لوگ آپس میں مل جل کر بات چیت کرتے رہیں او رکھلے دل کے ساتھ ایک دوسرے کی بات سنیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی ہمیشہ یہی کہیں کہ ہم میں کوئی پیغمبر نہیں ، ہو سکتا ہے ہم غلطی کر رہے ہوں، جہاں آپ ہماری بات سنتے ہیں دوسروں کی بھی ضرور سنیں اور جہاں کہیں دوسروں کی بات زیادہ معقول نظر آئے اس کو قبول کر لیں۔ اس لیے کہ ہم کسی انسان کی پیروی کے مکلف نہیں ہیں بلکہ ہمارے ذمہ حق کی پیروی ہے ۔حق اپنی آخر ی شکل میں محمد ﷺ کی صورت میں دنیامیں تھا اور ان کے جانے کے بعد اب سارے انسان عام انسان ہیں ، ان پر وحی نہیں آتی، کچھ معلوم نہیں کہ کہاں غلطی کر لیں۔ اس وجہ سے میرے خیال کے مطابق اگر چند چیزیں اپنا لی جائیں کہ لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں ، ایک دوسرے کی عزت کریں ، اپنی بات کو طالبعلمانہ طریقے سے پیش کریں ، لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ دوسرے لوگوں کی بات بھی جا کر سنیں ، ان سے سوالات کریں پوچھیں تو یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)