کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے بشرطیکہ چھینٹوں سے بچاؤ ممکن ہو اور جن احادیث میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ممانعت ہے، وہ ضعیف ہیں جیسا کہ شیخ محمد صبحی حسن خلاق نے اسی بات کو ترجیح دی ہے (التعلیق علی السیل الجرار : ۱؍۱۹۳) جواز کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۱۔ حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ گندگی کے ایک ڈھیر پر آئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ (بخاری: ۲۲۴، مسلم: ۲۷۳)
۲۔ عبداللہ بن دینارؓ فرماتے ہیں کہ راء یت عبداللہ بن عمر یبول قائماً‘‘میں نے عبداللہ بن عمر ؓ کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا ہے۔(موطا :۱؍۵۰)
۳۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ اِذ جآ اعرابی فقام یبول فی المسجد ایک دیہاتی نے مسجد میں آ کر کھڑے ہو کر پیشاب کر نا شروع کر دیا۔(بخاری:۲۲۰، ابو داؤد:۳۸۰، ترمذی: ۱۴۷، احمد: ۲؍۲۸۲)
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ بوقت ضرورت نبیؐ نے دیہاتی کو کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع نہیں فرمایا اور بعد میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔اصول فقہ میں یہ بات مسلم ہے کہ ‘‘تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لایجوز’’ ‘‘ضرورت کے وقت سے بیان ووضاحت کو موخر کردینا جائز نہیں ہے۔’’لہٰذا اگر ایسا کرنا ممنوع ہوتا تو آنحضرتﷺ اس دیہاتی کو اس عمل پر ڈانٹتے۔ البتہ اس پر یہ اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے کہ چونکہ دیہاتی کو آپؐ نے مسجد میں پیشاب سے بھی منع نہیں فرمایا، اس لیے مسجد میں پیشاب بھی جائز ہوا، لیکن یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ دیہاتی کے قضائے حاجت کے فوراً بعد آپؐ نے اس پر پانی کا ایک ڈول بہادینے کا حکم دیا۔جیسا کہ حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں:(امر النبیﷺ بذنوب من مآء فاھریق علیہ۔ ) (بخاری: ۲۲۱)
یہ الفاظ مسجد میں پیشاب کے عدم جواز کا واضح ثبوت ہیں تاہم آپؐ نے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے پر بعد میں بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جس سے کم از کم اس کے جواز کا ثبوت ضرور معلوم ہوتا ہے۔
صحابہؓ، تابعینؒ اور ائمہؒ کا نقطہ نظر
بیشتر صحابہؓ و تابعینؒ سے بھی یہ ہی بات منقول ہے ۔ مثلاً حضرت عمر بن خطابؓ، زید بن ثابتؓ، ابن عمرؓ، سہل بن سعدؓ، انسؓ، علیؓ اور ابو ہریرہؓ سے کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ثابت ہے۔ابن سیرین ؒ اور عروہ بن زبیرؒ سے بھی اسی طرح کھڑے ہوکر پیشاب کرنا منقول ہے۔ البتہ ابن مسعودؓ، شعبیؒ اور ابراہیم بن سعدؒ نے اس عمل سے کراہت کا اظہار کیا ہے، جبکہ امام ابن منذرؒ رقم طراز ہیں کہ ‘‘بیٹھ کر پیشاب کرنا مجھے پسند ہے لیکن کھڑے ہوکر بھی جائز ہے اور یہ سب(دونوں طرح) رسولﷺسے ثابت ہے۔’’(شرح مسلم از نووی: ۱؍ ۱۳۳)
محدث العصر شیخ البانیؒ نے ان الفاظ میں اپنے موقف کو واضح کیا ہے کہ‘‘کھڑے ہو کر پیشاب کا مکروہ نہ ہونا ہی حق ہے، کیونکہ اس کی ممانعت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے بھی (یہ ہی) بیان کیا ہے اور مطلوب ومقصود چھینٹوں سے بچاؤ ہے۔ وہ اس قاعدے ‘‘مالایقوم الواجب الا بہ فھو واجب’’ ‘‘ جس چیز کے بغیر واجب کا قیام ممکن نہ ہو، وہ بھی واجب ہے۔’’ کی وجہ سے حالت ِ قیام یا حالت قعود میں سے جس کسی طرح سے بھی حاصل ہوجائے وہی واجب ہوگا۔’’ (اروا ء الغلیل: ۱؍ ۹۵، رقم: ۵۷)
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ:‘‘ کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر دونوں طرح پیشاب کرنا ثابت ہے اور ہر ایک (طریقہ) سنت سے ثابت ہے۔’’ (نیل: ۱؍ ۱۵۰) البتہ السیل الجرار میں امام شوکانیؒ کا یہ قول منقول ہے کہ ‘‘کھڑے ہو کر پیشاب کرنا حرام نہیں تو کم از کم شدید مکروہ بہرحال ضرور ہے۔( ۱؍ ۲۸) جبکہ شیخ البانیؒ اس قول پر نقد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ‘‘یہ ایسی باتوں میں سے ہے جو قابل التفات نہیں۔’’(تمام المنۃ: ص۶۵)حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ:‘‘زیادہ ظاہر بات یہ ہی ہے کہ رسول اللہﷺ کا یہ فعل بیانِ جواز کے لیے تھا۔(یعنی اس بات کی وضاحت کے لیے کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا بھی جائز ہے۔) ’’(فتح الباری:۱؍ ۳۹۴)
حاصل بحث
چونکہ یہ عمل سنت مطہرہ سے صحیح ثابت ہے، اس لیے اگر کوئی شخص آج بھی چھینٹوں سے بچاؤ کے امکان کے ساتھ کھڑے ہوکر پیشاب کرتا ہے تو اس کے اس فعل پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی بشرطیکہ پیشاب کے چھینٹوں سے بچاؤ یقینی ہو٭ جیسا کہ علامہ عبدالرحمان مبارکپوریؒ فرماتے ہیں کہ یہ رخصت آج بھی اسی طرح موجود ہے(تحفۃ الاحوذی:۱؍۷۸)
البتہ بعض فقہا اسے بلا عذر مکروہ کہتے ہیں اور صرف کسی عذر کی وجہ سے ہی جواز کے قائل ہیں۔(مثلاً دیکھیے فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۵۰، ردمحتار:۱؍ ۳۱) لیکن پہلا قول ہی راجح ہے۔
ممانعت کی احادیث اور ان کی استنادی حیثیت
جن احادیث میں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی صراحتاً ممانعت مروی ہے ، محدثین کے اصول جرح و تعدیل کی روشنی میں تمام ضعیف ثابت ہوتی ہیں۔ بطور مثال ان میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ (نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یبول الرجل قائماً) رسول اللہ ﷺنے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔(ابن ماجہ:۳۰۶، بیہقی:۱؍ ۱۰۲) امام بوصیریؒ نے اسے ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی عدی بن الفضل بالاتفاق ضعیف ہے۔(مصباح الزجاجہ:۱؍۱۱۲)شیخ البانی نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔(ضعیف ابن ماجہ: ۶۳)
۲۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ‘‘اے عمر!کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرو’’(اس فرمان کے بعد) میں نے کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔(ابن ماجہ: ۳۰۸،مستدرک حاکم: ۱؍ ۱۸۵، بیہقی:۱؍ ۱۰۲، ابن حبان: ۱۴۲۳)
امام بوصیریؒ نے اس حدیث کو بھی ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کی سند میں راوی عبدالکریم بالاتفاق ضعیف ہے۔ (مصباح الزجاجہ: ۱؍۱۱۲)امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ راوی محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔(ترمذی:کتاب الطہارۃ: باب: ما جاء فی النھی عن البول قائما!)حافظ ابن حجر ؒ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ (ہدی الساری: ص۴۴۲) امام نووی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ (المجموع:۲؍ ۸۴)نیز شیخ البانیؒ بھی اس کے ضعیف ہونے کے قائل ہیں۔ (ضعیف ابن ماجہ: ۶۳ اور سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ:۹۳۴)
ملاحظات اور ان کے جوابات
جن احباب کے نزدیک کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز نہیں یا کم از کم مکروہ ہے، وہ مندرجہ ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں ، لیکن ان کا یہ استدلال درست نہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں ان کی طرف سے پیش کر دہ ہر حدیث کے بعد اس کی وضاحت کی جارہی ہے۔
۱۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ‘‘رسول اللہ ﷺ صرف بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔’’(ترمذی:۱۲، ابن ماجہ:۳۰۷، مسند احمد: ۶؍۱۳۶، ابو عوانہ:۱؍۱۹۸، بیہقی:۱؍۱۰۱، السلسلۃ الصحیحۃ:۲۰۱)
ابو عوانہ کی روایت میں یہ لفظ ہیں کہ ‘‘رسول اللہؐ پر جب سے قرآن نازل کیا گیا ہے، آپؐ نے کھڑے ہوکر کبھی پیشاب نہیں کیا۔’’بظاہر یہ حدیث اگرچہ ہمارے موقف کے خلاف معلوم ہورہی ہے، لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہؓ کو جوجس قدر علم تھا ، انہوں نے اتنا ہی بیان کردیا؛ چنانچہ گھر کے معاملات کا تو انہیں علم تھا لیکن گھر سے باہر کے معاملات (یعنی گندگی کے ڈھیر پر آپؐ کے پیشاب کرنے) کی انہیں اطلاع نہیں ہوئی، جیسا کہ امام شوکانیؒ اور عبدالرحمان مبارکپوریؒ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (نیل الاوطار: ۱؍۱۵۱، تحفت الاحوذی: ۱؍۷۶) شیخ البانیؒ رقم طراز ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث نفی میں ہے جبکہ حذیفہؓ کی حدیث اثبات میں اور یہ بات اصول میں معروف ہے کہ مثبت کو نافی پر ترجیح ہوتی ہے، اس لیے دونوں طرح پیشاب کرنا جائز ودرست ہے۔ البتہ پیشاب کے چھینٹوں سے اجتناب واجب ہے۔(تمام المنۃ: ص۶۳، اِرواء الغلیل: ۱؍۹۵،الصحیحۃ: ۲۰۱)
۲۔ جس حدیث میں مذکور ہے کہ‘‘آپؐنے گھٹنے میں زخم کی وجہ سے کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا۔’’ وہ ضعیف ہے۔ (مستدرک حاکم: ۱؍ ۱۸۲، بیہقی:۱؍۱۰۱) حافظ ابن حجرؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ‘‘اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو اس میں (مذکورہ مسئلہ کی) کفایت تھی(یعنی کھڑے ہو کر پیشاب کرنا صرف کسی عذرکی وجہ سے ہی جائز ہوتا) لیکن دار قطنی اور بیہقی نے اسے ضعیف کہا ہے۔’’(فتح الباری:۱؍ ۴۴۲)
۳۔ ایک روایت میں یہ لفظ مروی ہیں:‘‘آدمی کا کھڑے ہو کر پیشاب کرنا خطا ہے۔’’(بیہقی: ۲؍ ۲۸۵، ابن ابی شیبہ: ۱؍ ۱۲۴) شیخ البانیؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘یہ مرفوع ثابت نہیں ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ موقوف ہے۔’’(تمام المنۃ: ۶۴، ارواء الغلیل: ۵۹)
۴۔ ایک روایت میں عمرؓ سے مروی ہے کہ ‘‘میں جب سے مسلمان ہوا ہوں، میں نے کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔’’(مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍ ۱۲۴، مسند بزار: ص۳۱زوائدہ) شیخ البانیؒ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (سلسلۃ الضعیفۃ: ۹۳۴) یہ روایت بھی ہمارے موقف کے مخالف نہیں ہے ، کیونکہ اس میں مجرد ایک صحابی کا فعل بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کھڑے ہو کر کبھی پیشاب نہیں کیا، یہ تو بیان نہیں ہوا کہ ایسا کرنا ہی غلط ہے۔ جبکہ گزشتہ دلائل و حوالہ جات اس بات کا ثبوت ہیں کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنا علیٰ الاطلاق حرام نہیں، البتہ چھینٹوں سے اجتناب بہر حال واجب ہے۔ کیونکہ جو شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا، وہ ایک کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، جیسا کہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ دو قبروں کے قریب سے گزرے تو ارشاد فرمایا کہ ‘‘ان قبر والوں کو عذاب دیا جارہا ہے اور ان میں سے ایک کو عذاب دیے جانے کا سبب یہ ہے کہ‘‘وہ پیشاب سے نہیں بچتا تھا۔’’(مسلم: ۲۹۲، بخاری: ۲۱۶، احمد: ۱؍۲۲۵، ابو داؤد: ۲۰، ترمذی: ۷۰)
ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا‘‘قبر کااکثر عذاب پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے۔’’ (احمد: ۲؍ ۳۲۶، مصنف ابن ابی شیبہ: ۱؍ ۱۳۱، مستدرک حاکم:۱؍۸۳، صحیح ابن ماجہ: ۲۷۸)
جس عمل کی وجہ سے عذابِ قبر یقینی ہو، لا محالہ اس سے اجتناب بھی ضروری ہے۔
اگرچہ گزشتہ دلائل کھڑے ہو کر پیشاب کے جواز کا ثبوت ہیں،لیکن یہ بات یاد رہے کہ قضائے حاجت کے لیے فطری ، طبعی اور چھینٹوں سے بچاؤ کے اعتبار سے زیادہ مناسب و سہل طریقہ بیٹھ کر ہی پیشاب کرنا ہے۔ واللہ اعلم!
(حافظ عمران ایوب لاہوری)