جواب۔ ریفل ٹکٹ جوئے کے مترادف ہیں۔ ان کے حق میں عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان سے حاصل شدہ رقم انسانی بہبود پر خرچ کی جاتی ہے ۔ یاد رہے جب قرآن نے جوئے کو ممنوع قرار دیا تھا تو اس وقت جوابھی انسانی بہبود کا ایک ذریعہ تھا۔مخیر حضرات ایک جگہ جمع ہوتے شراب نوشی کرتے اور جوا کھیلتے اور جیتنے والا سب کچھ غربا میں تقسیم کر دیتا۔لیکن قرآن نے اس کی ممانعت کرتے ہوئے اس کے اخلاقی فساد کو پیش نظر رکھا اور اس وقتی منفعت کو بالکل نظر انداز کر دیا کیونکہ اخلاقی بگاڑ معاشروں کیلئے بہر حال زیاد ہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
‘‘وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ۔’’(۲۔۲۱۹)
ان نام نہاد انسانی بہبود کی سکیموں کا ایک بڑا اخلاقی مفسدہ یہ ہے کہ یہ معاشرے میں خود غرضی ’ موقع پرستی اور طمع پیدا کرتی ہیں۔اسلام میں انفاق کی بہت فضیلت اور اہمیت ہے لیکن وہ انفاق جو صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب میں ہو نہ کہ وہ جو فریج’ ٹی وی یا وی سی آر کے حصول کے لیے ہو۔یا کسی گلوکار کی رس بھری آواز سے حظ اٹھانے کے لیے ہو۔اس طرح کی تمام سکیمیں انسانی مزاج کا رخ آخرت اور رضائے الہی سے پھیر کر ذاتی اغراض کے پورا کرنے کی طرف کر دیتی ہیں۔اور یہ عمل بالآخر معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔اس طرح کی انسانی سکیمیں بنانے اور ان کا انتظام کرنے پر لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ ان سے ہزاروں اکٹھا کیے جاتے ہیں جبکہ یہ انتظامی لاکھوں بھی براہ راست غربا کی بہبود پر خرچ کیے جائیں تو کہیں زیادہ فائد ہ ہو سکتا ہے۔یہ خود غرضی کی عجیب مثال ہے کہ ایک شخص جو کہ ایک میوزک شو کیلئے یا ایک میچ کیلئے ہزاروں کے ٹکٹ خرید سکتا ہے اور اس موقع پر پہننے کے لیے ہزاروں کے کپڑ ے بنوا سکتا ہے وہ اپنے کسی ہمسائے کے دکھ درد کو دور کرنے کیلئے سیکڑوں نہیں خرچ کر سکتا کیونکہ میوزک شو یا میچ میں اس کی تصویر بھی اترنا تھی اور نام بھی اخبارات میں آنا تھاجبکہ دوسر ی صورت میں کچھ بھی نہیں ہونا تھا۔اسلام یہ قدر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں خرچ کریں جس میں ان کامقصود شہرت ’ دکھاوا’ نمائش یا کوئی اور ذاتی غرض نہ ہو۔ ایسے ہی لوگ ابد ی جنت کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اس طرح کی سکیموں میں خرچ کرنے والے اپنا احسان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے غریبوں کی مدد کی جبکہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے احسان مند ہوتے ہیں غربا کے کہ ان کی صورت میں اللہ نے انہیں انفاق کا ایک موقع فراہم کیا۔ دونوں ذہنیتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اسلام یہی دوسری قسم کی ذہنیت پیدا کرنا چاہتا ہے اس لیے اس طرح کی سکیموں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔بائبل نے اس کو اس طر ح بیا ن کیا۔
‘‘خبردار اپنے راستی کے کام آدمیوں کے سامنے دکھانے کے لیے نہ کرو۔ نہیں تو تمہارے باپ کے پاس جو آسمان پر ہے تمہارے لیے کچھ اجر نہیں ہے۔پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا۔جیسا ریا کار عبادت خانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تا کہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں وہ اپنا اجر پا چکے ۔بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا داہنا ہاتھ کرتا ہے اسے تیرا بایاں ہاتھ نہ جانے ۔تا کہ تیری خیرات پوشید ہ رہے۔اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بد لہ دے گا۔’’(متی۔۶۔۱’۴)
قرآن مجید کہتا ہے۔‘‘اے ایمان والو! احسان جتا کر اور دل آزاری کر کے اپنی خیرات کو اکارت مت کرو۔ اس شخص کی مانند جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روز آخرت پر وہ ایمان نہیں رکھتا’’ (۲۔۲۶۴)
‘اور اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کودے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔اور اللہ تمہارے گناہوں کو جھاڑ دے گا۔اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھنے والا ہے۔’’(۲۔۲۷۱)
جب ایک میوزک شو’ یا تمنائے دید’ یا میچ کا لطف’ یا ایک فریج اور ٹی وی وغیر ہ انفاق کا باعث اور محرک ہو تو ان تمام اخلاقی اقدار کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے جنہیں اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔اور اخلاقی اقدار کی موت کا مطلب اصل میں معاشرے کی موت ہوتا ہے۔انفاق کی اصل روح کا برقراررہنا اسلامی معاشرے کا جزو لا ینفک ہے۔جسے کسی صورت قربان نہیں کیا جا سکتا۔
‘‘جو لوگ اپنے مال رات اور دن’پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں انکے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے۔اور نہ ان کے لیے خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’
(آصف افتخار)