جواب: سوال پیدا صرف اس بنا پر ہو ا کہ قرآن مجید کا مزاج پوری طرح سائل کے ذہن نشین نہ رہا ۔ اس کو تازہ مستحضر کرنے کے لئے کچھ اور سوالات ذہن کے سامنے آنے بہتر ہوں گے ۔قرآن مجید میں جانوروں کے حوالے سے گائے ،اونٹ ،بندر ،بھیڑ،بکری ،شیر اور بھیڑئیے اور ہاتھی وغیرہ کاذکر ہے ۔مگر نیولے ،بلبل، بھینس،گورخر ،گینڈے ،طوطے ،لومڑی، ریچھ اور شتر مرغ کاذکر کیوں نہیں ؟
پھلوں میں ذکر انار ،کھجور ،انگور کا آیا ہے، مگر آم ،املی ،تربوز ،خربوزے ،سردے، سنترے کا کیوں نہیں آیا ؟
ملکوں میں صراحت کے ساتھ نام صرف مصر، بابل،روم کا آیا ہے، عراق،افغانستان ،ایران، ہند،چین ،روس ،جاپان کا نہیں آیا ؟ اور شام و حجاز کا تذکرہ صرف اشارہ و کنایہ میں کیوں آیا ہے ؟فاتحوں اور کشور کشاؤں میں ذکر ذوالقرنین ،طالوت ،فرعون کا آیا ہے ۔داراو جولیس سیزر اور راون کے نام کیوں نہیں آئے ؟
اسی طرح کے سوال ایک دو نہیں ، بیسیوں اورپیدا ہو سکتے ہیں ۔لیکن ایک کھلا ہوا جواب تو یہی ہے کہ مثلاً اگر کچھ اور ملکوں کے پیغمبروں کے نام بھی لے دیئے جاتے ،تو انہیں چند ملکوں کی تخصیص کیا تھی اور پھر یہ سلسلہ آخر ختم کہاں ہوتا ؟ ہند کے پیغمبروں کے نام اگر آتے توپھر چین کے کیوں نہ آتے اور جاپان کیوں محروم رہ جاتا ! اور پھر امریکا نے کیا قصور کیا تھا ؟ غرض دنیا کے ملکوں کی تعداد یوں ہی کیا کم تھی اور پھرویسے بھی تقسیم کا دور دورہ ہے ،ایک ایک ملک کے ٹکڑے ہو کر اور کتنے نئے ملک بنتے جاتے ہیں ۔اور نئے جزیرے نکلتے آتے ہیں ۔خود ہندوستان کے اندر ہی کتنے مستقل حصے ہیں ۔اب ان سب کو سمیٹنا کیونکر ممکن تھا ۔ اور پھر بعض کو لے لینا اور بعض کو چھوڑ دینا کس اصول انتخاب پر مبنی ہوتا؟
اصل یہ ہے کہ قرآن اپنی نوعیت ہی میں دنیا کی یکتا ومنفرد کتاب اور ایک ہی وقت میں ایک عالمگیر اور آفاقی کتاب بھی ہے ، ہر ملک ہر زمانے کے لئے اور دوسری طرف اس کی مخاطب ایک متعین زمانے کی متعین قوم رہی ہے ۔یعنی شروع ساتویں صدی عیسوی کی قومِ عرب ۔
اس کی اس دوگانہ حیثیت کو نباہنے کی کیا صورت تھی ،بجز اس کے کہ پورا اور کھلا ہوا لحاظ تو اس قوم کا رکھا جائے جو اس کے اولین اور براہِ راست مخاطب تھی ۔تشبیہات میں ،تمثیلات میں ،حکائتوں میں ،پوری رعایت قوم ِ عرب ہی کے مذاق و معلومات کی کی جائے اور اصل احکام کے سوا ،کوئی تذکرہ ضمنا ً بھی ایسا نہ آنے پائے جس سے سننے والے کسی نئی الجھن میں گرفتار ہو جائیں اور اسی کے متعلق سوال و جواب میں پڑ جائیں ،ساتھ ہی عبارت میں لچک اتنی ہو اور کلی اور اصولی اثبات ایسے امور کا بھی اشارۃً و کنایتہ کر دیا جائے ،جس سے حسب ضرورت و موقع دوسری قومیں اور آئندہ زمانے کی نسلیں مستفید ہو سکیں۔
اس دشوار ترین حقیقت کا نباہنا آسان نہ تھا اورقرآن کے معجزہ ہونے پر یہ خود ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ قرآن نے اسی نا ممکن کو ممکن کر دکھا یا ہے ۔
ہیئت فلکیات کے سارے مسئلے اصول کے تحت میں آ جاتے ہیں ۔ چاند سورج تارے ،زمین ان سب کی ہیئت و حرکت وغیرہ سے متعلق قرآن نے ظاہری الفاظ وہی استعمال کیے ،جو عرب کے معلومات و معتقدات کے مطابق تھے ، اور ان کے خیالات کو ٹھیس نہ لگنے دی ، لیکن ساتھ ہی انہیں لفظوں اور ترکیبوں کے پیچھے ایسی وسعت بھی رکھ دی کہ وہ ہر زمانے کی تحقیق علمی کا ساتھ دے سکے ۔بلاغت قرآن کے اس اعجاز کو اگر نظر میں رکھ لیا جائے تو بہت سے سوالات جو قرآن پر آج وارد ہوتے ہیں ،از خود ساقط ہو جائیں ۔
پیغمبروں کے تذکرے بھی اسی قبیل سے ہیں ۔قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرصرف انہیں کا کیا ، جن کا تعلق عرب و نواح ِعرب سے تھا۔ اور جن سے قرآن کے مخاطبین اول خوب واقف تھے اور جن کے نام سے انہیں کسی نئی الجھن یا پریشانی کا سامنا نہیں ہوسکتا تھا ۔اور باقی دنیا کے لئے اجمالاً صرف اتنا بتا دیا گیا کہ رہبرو رہنما ،ہر ملک ،ہر قوم میں بھیجے گئے ہیں اور اب چونکہ کوئی بھی حکم ِ شریعت موقوف ان لوگوں کی ہدایات پر نہیں ۔اس لئے ان کی تفصیل میں جاناخلاف حکمت ہی ہوتا ۔
اصل سوال سے الگ عرض یہ ہے کہ قرآن مجید دعویٰ نہیں کرتا کہ ایک قوم میں نبی ورسول اصطلاحی معنیٰ میں بھیجے گئے ہیں ۔ البتہ اس نے یہ کہا ہے کہ مصلح یا ہادی یا پیغام رسانی کے وجود سے کوئی قوم محروم نہیں رہی ہے ۔اصطلاحی رسول ایک مخصوص عہدہ یا مرتبہ کا نام ہے ۔یہ ہر گز ضروری نہیں کہ اس کا وجود ہر ملک و قوم میں ہوا ہو۔
(مولانا عبدالماجد دریا آبادی )