جواب: یہ سب قیاسات ہیں ۔کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ حتمی طور پر بات اسی وقت کہنی چاہئے کہ جب اسکے لئے آپ کے پاس دلائل موجود ہوں ۔بہت سے لوگ اس کی بہت سی وجوہ بیان کرتے ہیں ۔کوئی حملہ ہوا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔کوئی عذاب آیا اس کے نتیجے میں غارت گری ہو گئی ۔ بعض لوگ طوفانِ نوح سے بھی ان کا تعلق جوڑتے ہیں ۔لیکن بظاہر جو کچھ ہمیں طوفان نوح کے بارے میں قدیم صحیفو ں سے معلوم ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا یہ علاقہ نہیں ہے اس کا علاقہ بالکل دوسرا ہے ۔تو کچھ ایسے قیاسات ہیں جو قرین قیاس ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی ۔اچھی بات وہی ہے جو ہمارے ایک شاعر نے کہی ہے۔کہ لوگ ہڑپہ کو دیکھ تو لیتے ہیں اور وہاں سے کلچر تو منوں کے حساب سے برآمد کر لیتے ہیں مگرعبرت کی ایک چھٹانک بھی حاصل نہیں کرتے۔بہر حال عبرت کاایک مرقع ہے۔ان تہذیبوں کی تباہی کا باعث کیا چیز بنی وہ ایک تاریخی تحقیق کا معاملہ ہے کرتے رہنا چاہئے کوئی واضح بات سامنے آجا ئے گی تو پھر آپ کو اسے کہنا چاہئے ۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب:culture کا ہم اپنی زبان میں ترجمہ ثقافت سے کرتے ہیں۔ civilization کو ہم تہذیب سے تعبیر کرتے ہیں۔اور تمدن تو خیر ہماری ہی اصطلاح ہے۔ یہ الفاظ بڑی حد تک مترادف بولے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر تھوڑا تھوڑا فرق بہر حال ہے ۔وہ چیزیں جو ہمارے رہن سہن اورملنے جلنے کے آداب مقرر کرتی ہیں ۔ ان کے لئے ثقافت کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔ یعنی انسان دوسروں کے ساتھ کیسے معاملہ کرتا ہے وہ میزبانی کے کیا آداب اختیار کرتا ہے ’رہن سہن کے کیاطریقے اختیار کرتا ہے وغیرہ ۔اسے کلچریا ثقافت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔انسان کے عقائد،نظریات ،رسوم ،روایات اور ساری وہ چیزیں جو کلچر سے متعلق ہیں۔وہ سب جب مل جاتی ہیں تو ہم اس کے لئے تہذیب کا لفظ بولتے ہیں۔تہذیب گویا ایک زیادہ بڑا لفظ ہے ۔اور ثقافت اس کا ایک حصہ اورجز ہے ۔ تہذیبی روایت کے تحت جو دنیا وجود میں آتی ہے ۔اس کو تمدن کہتے ہیں۔
(جاوید احمد غامدی)