ج: جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ قائد اعظم سے واقف نہیں۔ قائد اعظم نے اس تقریر میں یہاں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق بیان کیے ہیں اور یہ بتایا ہے کہ قانون کی نگاہ میں وہ بالکل برابر ہوں گی۔ چنانچہ انہوں نے اس کی وضاحت کر دی کہ میری بات کاتعلق مذہبی معاملات سے نہیں ہے بلکہ قانونی مساوات سے ہے ۔یہ کم وبیش ویسے ہی الفاظ ہیں جو میثاق مدینہ میں خود حضورﷺ نے یہود کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے ثبت فرمائے تھے۔ اس وجہ سے میرے خیال میں ان کی بات بہت غلط سمجھی گئی ہے ۔ وہ ایک قانون پسند آدمی تھے ، انہوں نے غیر مسلموں کے حقوق بیان کیے اور بتایا کہ غیر مسلم برابر کے شہری ہیں، ان کے اور ہمارے درمیان سیاسی اور قانونی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہو گا ۔قائد اعظم کی اس تقریر کے الفاظ بالکل دین کے مطابق ہیں ، اس میں کوئی چیز دین کے خلاف نہیں ہے ۔ اس کے دو دن بعد ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے جب اس نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہاں غیر مسلموں سے اکبر کی روایات کے مطابق سلوک کیا جائے گا تو قائد اعظم نے ٹوکا اور کہا کہ نہیں بلکہ تیرہ سو سال پہلے کی محمد الرسول اللہﷺ کی روایات کے مطابق ہو گا۔تو اس طرح کے شخص کی کسی ایک بات کو لے کر سیکولر ازم نکالنے کی کوشش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)